ن م راشد نے نہ جانے کیوں حیرت سے پوچھا تھا ’’آدمی سے ڈرتے ہو، آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں۔‘‘ بھئی کیسا سوال اور کاہے کا تعجب، عمر کے ایک خاص حصے تک ہر آدمی کو بعض ایسے آدمیوں سے ڈرنا پڑتا ہے جو بڑے مختلف معنوں میں یقین رکھتے ہیں کہ ’’آدمی ہی آدمی کے کام آتا ہے‘‘ یا ’’آدمی ہوں آدمی سے پیار کرتا ہوں۔‘‘ یہ وہ آدمی ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔‘‘ ایک یہی معاملہ نہیں، بھیا! گولی چلارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی، دھوکا جو دے رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی، سازش جو کر رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی۔۔۔ تو آدمی آدمی سے کیوں نہ ڈرے؟ اور اگر کوئی ہم جیسا ڈرپوک ہو تو کیا اکلوتا آدمی اور کیا پوری آرمی! کوئی آدم زاد ذرا سا بھی ڈرا دے ہمارا دَم نکل جاتا ہے، آدم زاد تو کیا ہم آدم زادیوں سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں، اور جب سے ہراساں کرنے کے الزامات کا سلسلہ چلا ہے ہمارا ڈر اور بھی بڑھ چلا ہے۔ ہر وقت یہ اندیشہ دل کی دھڑکن بڑھائے اور چہرے کو پیلا کیے رکھتا ہے کہ کہیں کوئی بی بی ہم پر یہ الزام نہ لگادیں۔ یہ داغ تو ایک بار لگے گا، لیکن بیگم پھر ساری زندگی دھلائی کرتی رہیں گی مگر نہیں دُھلے گا۔ اب بیگم کو کون سمجھائے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں، انھیں تو بس یہ یاد رہے گا کہ ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، اور پورا امکان ہے کہ کہانی کا اختتام وہ اپنی ہاتھوں سے لکھیں، اور ہمارا قصہ ہی ختم ہوجائے۔
ان اندیشوں میں گھرے ہم سوچ رہے ہیں کہ ان تمام خواتین کے شکوک و شبہات دور کردیں جنھیں کبھی ذرا سا بھی لگا ہو کہ ہم نے انھیں ہراساں کیا ہے اور برسوں بعد یاد آنے پر وہ ہمیں ملزم بلکہ مجرم بنادیں سو ہم آج ایسی کچھ خواتین کو نام بہ نام مخاطب کرکے اپنی صفائی پیش کر رہے ہیں۔ صفائی اس لیے بھی پیش کر رہے ہیں کہ ہم صفائی پر یقین رکھتے ہیں، وہ کپڑوں کی صفائی ہو یا ہاتھوں کی، یہی وجہ ہے کہ ہم جب بھی بولتے ہیں صاف جھوٹ بولتے ہیں۔ دعا ہے کہ ہماری صفائی قبول کی جائے اور ہم صاف بچ جائیں۔ تو اب ہم شروع کرتے ہیں صفائی مہم۔
بی بی بشیراں:
قسم اﷲ پاک کی اُس دن جو گلی میں ہمارا شانہ آپ کے شانے سے بِھڑ گیا تھا، وہ اگرچہ عورتوں کو شانہ بہ شانہ چلانے کے فلسفہ کے تحت کیا جانے والا شعوری عمل نہیں تھا، لیکن اس میں ہماری بدنیتی کا بھی دخل نہیں تھا۔ دراصل ایک کُتا جو بہت ہی کُتا تھا، ہمارے پیچھے منہہ کھول کے لپکا تھا، اور ہم سہم کر بے ساختہ آپ سے بِھڑ گئے تھے۔ یقین مانیے اس لمحے ہماری سہمی ہوئی آنکھوں میں کُتے کے لیے پیغام تھا،’’میرے پاس ماں ہے۔‘‘ آپ کے سفید سر اور ستر سال کا احوال سُناتی چہرے کی جُھریوں کو دیکھ کر کُتے کو ہماری بات پر یقین آگیا تھا اور وہ دُم ہلاتا چلا گیا تھا، لیکن آپ نے ہماری نیت پر یقین نہ کیا اور پوپلے منہہ سے وہ سنائیں کہ ہمارے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ بہ ہر حال اب ہماری صفائی قبول کیجیے، عین نوازش ہوگی۔
بانو فسادن:
فسادن کہنے پر معذرت۔ کیا کریں محلے میں کوئی آٹھ دس بانو تھیں، سو برائے امتیاز آپ کی عرفیت لگانا پڑی۔ ورنہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کا فتنے فساد سے کیا لینا دینا، آپ تو امن کی پیام بر ہیں، آپ نے اپنے خاندان اور محلے میں جتنی طلاقیں کرائیں اس نیک نیتی سے کرائیں کہ دونوں فریق آپس میں لڑنے کے بہ جائے الگ الگ امن سے رہیں۔ خیر عرض یہ کرنا تھا کہ بڑی پُرانی بات ہے، جب آتش کا پتا نہیں، لیکن ہم جوان تھے۔ ہم آپ کے عین پیچھے پیچھے دودھ والے کی دکان سے گلی کے نکڑ تک آئے تھے، جہاں مُڑتے ہوئے آپ نے مُڑ کر ہمیں دیکھا تھا اور مسکرائی تھیں، بس ہم وہیں رُکے اور مُڑ گئے تھے۔ اُس کے بعد آپ نے ہمیں کبھی نہ دیکھا تو اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم آپ کو دیکھ کر چُھپ جایا کرتے تھے۔ آج اس راز سے پردہ اُٹھا دیں کہ ہم آپ کو آپ ہی کی صاحب زادی سمجھے تھے۔ ساتھ یہ بھی بتادیں کہ ’’بیٹی کے کپڑے تمھارے فٹ آتے ہیں تو ہمارا کیا قصور خالہ، ہمارا ٹائم کیوں خراب کرتی ہو۔‘‘ کی تحریر والا پرچہ ہم نے ہی آپ کے صحن میں پھینکا تھا۔ صفائی قبول کرنے کے ساتھ غصے میں کی جانے والی اس خطا کی معافی بھی قبول کیجیے۔
پھول خاتون:
ہم نے گذشتہ دنوں آپ کو فیس بک پر ’’ہائے‘‘،’’کیسی ہو‘‘، ’’کہاں ہو‘‘،’’کچھ تو بولو‘‘،’’جواب تو دو‘‘ جیسے جو میسیج اور ایس ایم ایس کیے دراصل وہ ہم نے نہیں کیے۔ ہوا یوں کہ ہمارا فیس بُک اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا، اور موبائل فون چِِھن گیا تھا، ایمان سے ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارا ایف بی اکاؤنٹ اور موبائل فون کسی اور کے پاس ہے۔ اتنے بھولے بھالے ہیں ہم۔ اس بے خبری ہی سے آپ اپنے بھائی کی معصومیت کا اندازہ لگاسکتی ہیں۔ ہمیں جھوٹا مت سمجھے گا بہن، ہمارا دل ٹوٹ جائے گا۔ ویسے ’’اُس تصویر‘‘ والے میسیج کے جواب میں آپ نے کون سی گالی لکھی تھی؟
ناز پروین:
ہمیں اعتراف ہے کہ جب سے آپ نے ہمارے دفتر میں ملازمت کی ہے تب سے چند روز پہلے تک، یعنی کُل ملا کے کوئی تین مہینے ہم آپ کو مسلسل گھورتے رہے ہیں۔ لیکن اس گھورنے کا نقصان سراسر ہمیں ہی ہوا ہے، دو بار دیوار سے ٹکرائے، تین بار کھمبے سے، ایک بار کمپنی کے مالک سے ٹکرا کر اپنی نوکری گنواتے گنواتے رہ گئے۔ صدق دل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کسی بُری غرض سے نہیں دیکھا۔ دراصل آپ کی شکل ہماری مرحومہ پھوپھی سے بہت ملتی ہے، اور اتنی ملتی ہے کہ شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے رنڈوے پھوپھا آپ سے نہیں ملے، ورنہ وہ صرف گھورنے پر اکتفا نہ کرتے۔ امید ہے پھوپھی کو ترسے ہوئے اس بھتیجے کے غم کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ ہمارا گھورنا معاف فرمائیں گی اور شکایت سے تھپڑ تک کچھ نہیں لگائیں گی۔
ہم دیگر تمام ایسی خواتین کے سامنے بھی صفائی پیش کرنا چاہتے ہیں جن کے نام ہمیں یاد نہیں۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ ہمارے ٹکرانے کو بدمعاشی اور بدقماشی نہ سمجھیں اسے ہماری بدحواسی سے تعبیر کریں، اسی طرح ہمارے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کو اس بچے کی حیرت پر محمول کریں جو ہر اس شئے کو حیرت سے دیکھتا ہے جس پر پہلی بار نظر پڑتی ہے۔ اب ہم کیا کریں جب بھی دیکھا لگا پہلی بار دیکھ رہے ہیں یا آخری بار، ہر بار آپ کا میک اپ جو نیا تھا۔ بہ ہر حال یہ بچہ حال ہی میں اچانک بڑا ہوگیا ہے اور اس کی حیرت دور ہوگئی ہے۔
The post ارے ہم بھی ہراساں ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.