بیہودہ مذاق ایک معاشرتی ناسور بنتا جارہا ہے، جسے ہم جاننے کے باوجود نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ بیہودہ مذاق کے نتیجے میں ہم ایک اچّھے تعلق سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہنسنا، ہنسانا انسانی فطرت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ انسان جب کسی کو ہنسائے یا کسی سے ہنسی مزاح کرے تو اس کے الفاظ، انداز اور اس کا موقع محل بھی انتہائی شائستہ ہونا چاہیے۔
بیہودہ مذاق میں ہم کسی کی عزّت، ذات، شخصیت یا اس کے مذہب، قوم اور احساسات پر طنز کرتے ہیں جس سے اس کے احساسات، جذبات، ذات اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ہم اسے نیچا دکھانے کے لیے اس کی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے اس گھٹیا پن کو مزاح سمجھتے ہیں۔ جب کہ مزاح تو وہ ہوتا ہے جو ہم بنا کسی کی عزّت نفس مجروح کیے ہنسنے کا سامان تیار کر لیتے ہیں، جس میں کسی بے عزتی، توہین اور ہتک شامل نہیں ہوتی۔ بے ہودہ مذاق کو جہالت کا نام دیا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہ عمل پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں کا نہیں بل کہ جاہلوں کا عمل ہے۔ اس دور پُرفتن میں ٹک ٹاک اور فنی وڈیوز اس جہالت کی جدید اور بہت بھیانک شکل ہیں۔
ہم دین اسلام کے پیروکار ہیں جو ہمیں کسی کی بھی دل آزاری سے سختی سے منع فرماتا اور آپس میں بھائی چارہ سکھاتا ہے۔ یہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کے محبّت کے ساتھ رہنا سکھاتا ہے۔ جب کہ شیطان کو یہ بات قطعی پسند نہیں۔ شیطان یہ نہیں چاہتا کہ ہم محبّت اور پیار سے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے رہیں، لہٰذا وہ ہم سے اس طرح کی حرکات اور فضولیات کرواتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کو توڑنے کی ایک بڑی وجہ یہی بے ہودہ مذاق ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ اے ایمان والو! تم میں سے کوئی بھی، کسی کا بھی تمسخر نہ اڑائے، کیا خبر جس کا تمسخر اڑا رہے ہو وہ تم سے زیادہ بہتر ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے ناتے اﷲ کے حکم اور اس کے آخری رسول اکرم ﷺ کے حکم کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور اپنی معاشرتی طرز زندگی کو بہتر کریں اور یہ ثابت کریں کہ ہمارا شمار دین اسلام کے پیروکاروں میں ہے ناکہ جاہلوں میں۔
The post مذاق یا جہالت ۔۔۔۔۔ ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.