فتنہ ابلاغ
مصنف:ڈاکٹر اے آر خالد
قیمت:1800روپے۔۔۔صفحات: 243
ناشر: قلم فاؤنڈیشن،والٹن روڈ، لاہور کینٹ (03000515101)
صحافت ایک مشن تھا، جب یہ فقرہ نظر سے گزرتا ہے تو ایک کوہ گراں دل پر ٹوٹ پڑتا ہے کہ یہ ماضی کا قصہ ہے، کیونکہ صحافت تو ہمیشہ رہے گی پھر یہ اس کا لازم و ملزوم حصہ’ مشن‘ ماضی کیوں ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب تجزیہ کار، محقق، کالم کار، مصنف اور سب سے بڑھ کر ایک استاد ہیں اور وہ بھی شعبہ صحافت کے، انھیں اگر صحافت یعنی میڈیا سے ’مشن‘ کے الگ ہونے کا دکھ نہیں ہو گا تو اور کسے ہو گا، ان کی اپنی ساری زندگی صحافت کے خارزار میں آبلہ پائی کرتے ہوئے گزری اور انھوں نے ہر دور میں قلم کی آبرو کو برقرار رکھا، سیاسی رہنما اور حکمران تو ایک طرف رہے انھوں نے آمروں کے سامنے بھی ہتھیار نہ ڈالے اور اپنے دل کی بات کہتے رہے، اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں کو نوازتا بھی ہے اور انھیں ایسے مددگار فراہم کر دیتا ہے جو ان کے تحفظ کا باعث بنتے ہیں۔
ابلاغ میں بڑی طاقت ہے، لفظوں کا یہ کھیل بڑے مثبت اور اتنے ہی منفی اثرات بھی رکھتا ہے، اس کے ذریعے اپنی بات کو منوایا جا سکتا ہے چاہے وہ جھوٹ ہو یا سچ، اور اس کا یہی عنصر سب سے خوفناک ہے کیونکہ اگر یہ کسی منفی سوچ کا آلہ بن جائے تو بڑی تباہی مچا سکتا ہے، معاشرے کی بنیادیں ہلا سکتا ہے ۔ ابلاغ فتنہ بن چکا ہے یا پہلے سے فتنہ تھا، یہ جاننے کیلئے ڈاکٹر صاحب کی کتاب ضرور شامل مطالعہ کریں، یہ آپ کی رہنمائی کے بہت ضروری ہے، کیونکہ آج کا دور ابلاغ کا دور ہے اور اس کے مثبت، منفی پہلوؤں سے آگاہی آپ کو بچائے رکھے گی۔
گداگری اور پاکستانی معاشرہ
مصنف: نصراللہ خاں چوہان
قیمت: 800 روپے۔۔۔۔صفحات:272
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور(042 37231518)
بھیک مانگنا بہت ہی مشکل کام ہے مگر اس کے لئے جو اپنے اندر تھوڑی سی خودی اور انا رکھتا ہو کیونکہ بھیک مانگنے کے لئے اپنے آپ کو دوسروں کی نظروں میں کم تر اور حقیر بنا کر پیش کرنا پڑتا ہے، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں افراد نے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہ پال سکنے کی صورت میں خود کشی کر لی مگر بھیک مانگنا گوارا نہ کیا کیونکہ ان کی انا نے انھیں دوسروں کے سامنے خود کو حقیر بنا کر پیش کرنے کی اجازت نہ دی حالانکہ خودکشی خود ایک بہت بڑی لعنت ہے جو حالات سے مقابلہ کرنے کی بجائے فرار کا راستہ ہے اس لئے اس سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے، مثال اس لئے دی گئی کہ بھیک مانگنا کتنی بڑی لعنت ہے کہ بہت سے افراد اس سے بچنے کے لئے خودکشی کرنے پر مجبور ہو گئے۔
اسلام نے گداگری کی بہت شدت سے مذمت کی ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی معاشرے میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے خلاف قوانین بنائے گئے اور سرکاری ادارے اور این جی اوز بھی متحرک رہتی ہیں مگر گداگری کی لعنت سے چھٹکارہ تو دور کی بات اس میں کمی بھی نہیں ہو سکی ۔ مصنف نے اس معاشرتی برائی کے خلاف قلم اٹھا کر جہاد بالقلم کا حق ادا کیا ہے، انھوں نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گداگری کے اسباب کا جائزہ لیا ہے، حکومتی اداروں اور این جی اوز کی کارکردگی بھی بیان کی ہے،اور پھر اس لعنت کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ بھی بڑی تفصیل سے سپرد قلم کئے گئے ہیں،آخر میں تدارک اور تجاویز دی گئی ہیں، ان کی کاوش انتہائی شاندار ہے، حکومتی زعماء کو اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
چشم دید حقیقت
سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء
مصنف : بریگیڈیئر (ر) لیاقت اسرار بخاری
قیمت:600 روپے۔۔۔۔صفحات:104
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور(042 37231518)
سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت سی آراء پائی جاتی ہیں، اس پر مضامین، تحقیقی مقالے اور متعدد کتابیں شائع ہوئیں، بہتوں نے اس سانحے کا ذمہ دار فوج کو اور بہتوں نے سیاسی زعماء کو قرار دیا، ایسے بھی ہیں جنھوں نے فوج اور سیاسی مدبرین دونوں کو اس کا ذمہ دارقرار دیا۔ بریگیڈیئر (ر) لیاقت بخاری واحد سکوارڈن کمانڈر ہیں جنھوں نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار نہیں ڈالے اور اپنے ساتھ 139خواتین و بچے اور زخمی آفیسرز برما کے راستے پاکستان لائے، وہ پہلے ہیلی کاپٹر فلائٹ کمانڈر تھے جنھوں نے 1965ء کی جنگ میں چھمب میں حصہ لیا، اور مشرقی پاکستان میں ان گنت فلائٹ آپریشن کئے اور ستارہ جرات حاصل کیا۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے کمانڈر آرمی ایوی ایشن بیس اور ڈائریکٹر ایوی ایشن جی ایچ کیو بھی رہے۔
وہ اس سانحے کا ذمہ دار کسی کو ٹھہرانے کی بجائے آنکھوں دیکھا اور خود پر بیتا حال بیان کرتے ہیں جس سے قاری خود فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے اصل محرکات کیا تھے، اس کے پیچھے کونسی ملک دشمن طاقتیں کام کر رہی تھیں۔ ان کی یہ کتاب سانحہ مشرقی پاکستان پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، نوجوان نسل کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل حقائق سے روشناس ہو سکیں اور اس حوالے سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور دلائل باطل قرار دیئے جا سکیں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
حجرہ حق
مصنف: ابوالخیر حاجی عید محمد
ہدیہ:300 روپے۔۔۔۔صفحات: 95
ناشر:ادبستان، دربار مارکیٹ، لاہور (0300 4140207)
تصوف کیا ہے؟، یوں تو اس بارے میں کتابیں بھری پڑی ہیں مگر آسانی سے اس بات کو سمجھنا ہو تو کہا جائے گا کہ شریعت جسم ہے تو تصوف اس کی روح ہے، اس بات کو مزید آسان کرنا ہو تو یوں ہو گی، ایک حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ نماز ایسے پڑھو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہ تصور کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے، کتابی علم رکھنے والا نماز پڑھنے کا طریقہ تو بتا دے گا اور تصور کرنے کی بات کرے گا مگر اللہ کو دیکھنے یا اللہ کے نمازی کو دیکھنے کا تصور کرنے کا طریقہ تصوف کے راستے پر چلنے سے ہی سمجھ میں آتا ہے، اس لئے جس طرح شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے بالکل اسی طرح اللہ سے لو لگانے کے لئے، دل کی آنکھ کھولنے کے لئے کسی صاحب تصوف کی ضرورت ہو گی ۔
’حجرہ حق‘ میں روشنی کے چراغ جلائے گئے ہیں جو طالبوں کو حق کی راہ دکھا رہے ہیں اور طالب ان چراغوں کی روشنی میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے یوں لگتا ہے جیسے کسی روشن شاہراہ پر چلتا جا رہا ہے، اس کے دل و دماغ میں علم کے نئے دریچے وا ہونے لگتے ہیں، صاحب کتاب کو اللہ تعالٰی نے بصیرت سے نوازا ہے جس کی روشنی میں وہ چراغ پر چراغ جلائے جا رہے ہیں، اللہ انھیں مزید توفیق دے تا کہ کفر و الحاد کے اس دور میں گہری ہوتی جہالت کی تاریکی ختم ہو سکے۔ اور راہ حق کے متلاشیوں کو آسانیاں میسر ہوں۔
مآثر الاجداد
تالیف: منظور الحق صدیقی ایم اے
قیمت:7500 روپے۔۔۔۔صفحات:712
ناشر: قلم فاؤنڈیشن، والٹن روڈ، لاہور کینٹ
منظور الحق صدیقی مورخین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، انھوں جس تحقیقی انداز میں اپنا کام پایہ تکمیل کو پہنچایا، ہر علمی شخصیت اس کے بلند پایہ کی معترف ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں’’ پروفیسر منظور احمد صدیقی ہماری تاریخ اور تحقیق کی دنیا کا محترم نام ہے، وہ مستند تاریخ نویسی میں یکتا تھے، ان کی سوچ کی گیرائی اور فکر کی بلندی انھیں اپنے عہد کے اہل قلم میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہمیشہ عام کو خاص اور ادنیٰ کو اعلیٰ درجے پر دیکھنے کی متمنی رہے، وہ انتہائی صاحب عزت بھروسے کے اوردیانت دار محقق تھے، زیر نظر کتاب ان کی ایسی دستاویز ہے جس کے مطالعے سے اس کتاب کی تاریخی اہمیت اورآج تک اس پہلو پر کچھ نہ لکھے جانے کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔‘‘ معروف صحافی، تجریہ کار الطاف حسن قریشی کہتے ہیں ’’ مآ ثرالاجداد،اس اعتبار سے تاریخ نگاری میں ایک نیا تجربہ ہے کہ اس میں عوامی زندگی کی عکاسی بھی ہے اور خواتین کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔
سب سے منفرد بات یہ ہے کہ انسان کو انسان کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے یعنی اس کی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کا حسب نسب کیا تھا۔ انھوں نے قیام پاکستان میں کس کس طرح حصہ لیا اور حریت فکر کی کس قدر آبیاری کی ۔ یوں ہمارے ہاتھ ایک گنجینہ معاشی آ گیا ہے۔ ‘‘ اس کتاب میں خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ سے لے کرعصر حاضر تک چودہ صدیوں کی تاریخ شامل ہے ۔ صدیقی خاندان کی تاریخ اس انداز سے بیان کی گئی ہے کہ یہ متحدہ ہندوستان و پاکستان کی معاشرت کے بارے ایک مستند ترین دستاویز بن گئی ہے۔ یہ تاریخ نگاری کا نیا منفرد اور دلچسپ تجربہ ہے۔ کتاب بڑی تقطیع پر عمدہ اور مضبوط جلد کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں شائع کی گئی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خاصے کی چیز ہے۔
عمارت کار
آرکیٹکچر، عمارت کاری یعنی عمارتیں ڈیزائین کرنا اور بنانا بہت قدیم فن ہے، جو افراد قدیم، تاریخی اور جدید عمارتیں دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں ان سے پوچھیں کہ اس نظارے میں کیا سحر چھپا ہوا ہے۔ عمارات اپنے اندر اس زمانے کی تاریخ چھپائے ہوئے ہوتی ہیں، ان کی بناوٹ سے اس زمانے کی طرز بودوباش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ بہت سے افراد کے لئے یہ ایک خشک موضوع ہو مگر عمارت کار کے نام پر شائع ہونے والے رسالے میں شامل مضامین ادب کی چاشنی لئے ہوئے ہیں اور قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ان عمارات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔
جیسے شاہد برلاس کے مضمون دوارکا اور سومناتھ کا مندر کو ہی لے لیں ’’ موجودہ دوارکا بھارتی صوبہ گجرات کا ایک قدیم ساحلی شہر ہے۔2011ء میں جس کی آبادی اڑتیس ہزار، آٹھ سو، تہتر نفوس پر مشتمل تھی۔ یہ بحیرہ عرب میں خلیج کچھ کے دہانے پر جزیرہ نما اوکھا منڈل میں دریائے گومتی کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور ہندو مذہب کے چار متبرک ترین مقامات میں سے ایک اور اس کے سات مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے۔‘‘ اس تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قاری کو کیسے ادبی انداز میں اہم معلومات فراہم کی جا رہی ہیں ۔ رسالے کے مدیر حیات رضوی امروہوی کی کاوش انتہائی شاندار ہے۔ رسالہ بڑے دیدہ زیب انداز میں شائع کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں اردو افسانے
( تحقیقی و تنقیدی جائزہ)
مصنف: ڈاکٹر مبارکہ احمد
قیمت:495 روپے۔۔۔۔صفحات:328
ناشر: ادبستان، دربار مارکیٹ، لاہور (0300 4140207)
تحقیق کی دنیا بڑی وسیع ہے، کیونکہ اس میں محقق ایک سرے کو پکڑ کر آگے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور وہ جہاں تک پہنچتا ہے وہاں یہ سلسلہ رک نہیں جاتا بلکہ اس سے آگے نئے سلسلے شروع ہوتے ہیں، اس لئے تحقیق کا کوئی آخری کنارہ نہیں، یہ سمندروں کی طرح ہے جو آپس میں ملے ہوئے ہیں اور محقق اس میں مسلسل غوطہ زن رہتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب مصنفہ کا ایم فل کا مقالہ ہے، انھوں نے موضوع کا حق ادا کرنے کے لئے تحقیق کا پورا حق ادا کیا ہے، ڈاکٹر فردوس انور قاضی کہتی ہیں’’ مبارکہ حمید کا یہ تحقیق کام بلوچستان میں ہونے والے تحقیقی کام کے لئے رہنمائی کا ذریعہ ہے ، انھوں نے اپنے تحقیقی کام میں علمی تحقیق کے تقاضوں کے مطابق جائزہ پیش کیا ہے۔
جس میں تحقیق کے ان تمام فنی لوازم کو پیش نظر رکھا گیا ہے جو کسی تحقیق کو معتبر بنانے کے لئے ضروری ہیں ۔‘‘ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کہتے ہیں’’ افسانہ نگاری میں 2001ء تک بلوچستان کی سیاسی سماجی اور اقتصادی زندگی میں جو کچھ ہیں اور اس کے جو اثرات یہاں مرتب ہوئے۔ انسانی زندگی کے اعتبار سے وہ محسوسات اور جذبات آپ 2001ء تک کے افسانوی ادب میں کئی جگہوں پر دکھائی دیں گے اور یقیناً کم از کم دس سے پندرہ افسانے اور کچھ افسانہ نگار آپ کو چونکائیں گے اور اس پہلو کے علاوہ دیگر پہلوؤں سے واقفیت دلوانے میں محترمہ ڈاکٹر مبارکہ حمید نے اہم کام کیا ہے۔‘‘ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خاصے کی چیز ہے۔
Let’s Get Crazy
While We’re Still Young
مصنف: فیضان اسلم صوفی
قیمت:300 روپے۔۔۔۔صفحات:80
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
خیالات کا تانابانا تو ہر دماغ میں بنا جاتا ہے مگر انھیں دوسروں کے سامنے اس صورت میں پیش کرنا کہ دل و دماغ کو چھو سکے ہر کسی کے بس کی بات نہیں اسی لئے تو ہر شخص شاعر یا ادیب نہیں ہوتا ۔ فیضان صوفی نے اپنے تخیل میں رو کی طرح دوڑنے والی سوچ دوسروں تک پہنچانے کے لئے قلم اٹھایا ہے، یوں دکھائی دیتا ہے کہ وہ محسوسات کے سمندر میں گھرے ہوئے ہیں اور دوسروں کی نسبت بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور خواب کی دنیا میں آسمان کی بلندیوں پر اڑنا چاہتے ہیں، ان کی روح آزادی کا مزہ چکھنا چاہتی ہے، ان کی کاوش بہت خوبصورت ہے۔ انگریزی ادب میں دلکش اضافہ ہے۔
ضیافت اطفال
شاعر: شبیر ناقد
قیمت: 50 روپے۔۔۔۔صفحات:32
ناشر: اردو سخن، چوک اعظم ، لیہ
بچے ہمارا مستقبل ہیں، اس لئے اگر مستقبل محفوظ بنانا ہے تو بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بہت ضروری ہے تاکہ وہ ملک وقوم کی باگ ڈور اچھے طریقے سے سنبھال سکیں اور معاشرے میں مثبت روایات کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار کر سکیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ادب کا بڑا ہاتھ رہا ہے مگر بدقسمتی سے اب اس سلسلے میں بہت کم کام ہو رہا ہے۔ شبیر ناقد جہاں اور موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں وہیں انھوں نے بچوں کے لئے نظمیں لکھ کر ادب میں اپنا حصہ ڈالا ہے، ان کی کاوش قابل تحسین ہے، دیگر ادباء کو بھی بچوں کے ادب کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.