ماہ جنوری کے اوائل میں میزائلوں کی وجہ سے پوری دنیا میں ہنگامہ برپا رہا۔
پہلے 3 جنوری کو امریکا نے میزائل مار کر ایرانی جرنیل، قاسم سلیمانی کی جان لے لی۔ پھر 8 جنوری کو ایران نے کئی بلاسٹک میزائل عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر دے مارے۔ اسی دن یوکرائن ایئرلائن کا ایک بدقسمت ہوائی جہاز ایرانی میزائل کا نشانہ بن گیا۔
اس حادثے میں 176 افراد مارے گئے جن میں 130 ایرانی تھے۔دور جدید کی جنگوں میں میزائل ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے کیونکہ اس کی بدولت ایک ملک اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے دشمن کو بھاری نقصان پہنچاسکتا ہے۔ اسی لیے تمام عالمی قوتیں جدید ترین میزائل بنانے کے لیے کثیر رقم خرچ کررہی ہیں تاکہ عسکری لحاظ سے غلبہ حاصل کرسکیں۔
حال ہی میں روس نے جدید ترین میزائل متعارف کراکے امریکا و یورپی ممالک میں سنسنی پھیلا دی ہے۔ میزائل کے شعبے میں روس کی زبردست ترقی سے امریکی افواج میں خاصی ہلچل ہے۔ امریکی جرنیل اسے خطرناک پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ اس خطرے کی بنیادیں تاریخ میں پیوست ہیں۔
پہیہ الٹا چل پڑا
یہ 1983ء کی بات ہے، امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اعلان کیا کہ سویت یونین کے ایٹمی بلاسٹک میزائلوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر امریکا میزائل ڈیفنس سسٹم تشکیل دے گا۔ اس سسٹم یا نظام کو انہوں نے’’اسٹرٹیجک ڈیفنس انشیٹیو‘‘ کا نام دیا۔ یہ منصوبہ عرف عام میں ’’سٹار وارز‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر صدر ریگن نے 1984ء میں ایک تنظیم، اسٹرٹیجک ڈیفنس انشیٹیو آرگنائزیشن قائم کردی۔ تنظیم سے متعلق سائنسداں اور انجینئر میزائل ڈیفنس سسٹم بنانے کے لیے تحقیق و تجربات کرنے لگے۔
مثلاً خلا میں ایسے منصوعی سیاروں کو بھیجنا جو لیزر مار کر دشمن کے حملہ آور بلاسٹک یا کروز میزائل تباہ کردیں۔سویت حکومت نے قدرتاً یہ محسوس کیا کہ امریکا میزائل ڈیفنس سسٹم تشکیل دے کر اس کے میزائلوں کو ناکارہ بنانا چاہتا ہے۔ اس طرح جاری سرد جنگ میں اس کا پلہ بھاری ہوجائے گا۔ چناں چہ سویت حکمران مجبور ہوگئے کہ وہ زیادہ بہتر بلاسٹک میزائل بنانے کے لیے بھاری رقم مختص کردیں۔ جدید ترین روسی بلاسٹک میزائل ہی امریکیوں کے میزائل ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بناکر طاقت کا توازن اپنے حق میں کرسکتے تھے۔
مسئلہ یہ تھا کہ سویت حکومت معاشی بحران میں مبتلا تھی۔ اب اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہوئی، تو اس نے حکومت پر مالی دبائو بڑھا دیا۔ مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ اس مالی دبائو نے بھی آگے چل کر سوویت یونین کی تحلیل میں اہم کردار ادا کیا۔
یوں امریکا کے ’’سٹار وارز پروگرام‘‘ نے بھی سویت یونین کی بربادی میں حصہ لیا۔ لیکن وقت اب الٹی چال چل رہا ہے۔ اب روس کے نت نئے عسکری منصوبوں نے امریکی حکمران طبقے کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ جدید ترین روسی اسلحے کا توڑ کیونکر بنایا جائے؟ دراصل پچھلے بیس برس میں نت نئی جنگیں چھیڑ کر امریکا نے خود کو 23 ٹرلین ڈالر کا مقروض کرلیا ہے۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ایک ٹریلین ڈالر ایک ہزار ارب ڈالر پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ پورے پاکستان کا سالانہ بجٹ 52 ارب ڈالر ہے۔
امریکا کے پبلک یا مجموعی قرضے میں ہر سیکنڈ بارہ ہزار ڈالر کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس بھاری بھرکم قرضے کے ہوتے ہوئے امریکی حکومت نے نئے عسکری منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے، تو وہ قرضوں کی دلدل میں مزید دھنس جائے گی۔ اس حقیقت سے آشکارا ہے کہ دنیا پر حکمرانی کی تمنا امریکی حکمران طبقے کو رفتہ رفتہ گور کنارے لے جارہی ہے۔
تیز ترین اڑتا ہتھیار
روس ’’ایس۔ 400‘‘ (S-400 missile system)کے ذریعے دنیا کا سب سے مؤثر اور بہترین میزائل ڈیفنس سسٹم بناچکا ہے۔ حال ہی میں روسی صدر پیوٹن نے بصد مسرت اعلان کیا کہ افواج روس کو ’’اونگارد‘‘ (Avangard) میزائل بھی مل گیا۔ یہ دنیا کا تیز ترین میزائل ہے جو 27 ماک یا ماخ کی رفتار بھی پاسکتا ہے۔ گویا وہ فی گھنٹہ 33 ہزار کلو میٹر کی رفتار سے اڑنے کے قابل ہے۔ یہ تیزی روسی اونگارد میزائل کی پہلی خصوصیت ہے۔ اس میں چھوٹے پَر لگے ہیں۔وہ اڑتے ہوئے اسے دائیں بائیں حرکت بھی دے سکتے ہیں۔
دوران پرواز یہی حرکت اس جدید ترین روسی ہتھیار کی دوسری خاصیت ہے۔ اس قسم کا میزائل اصطلاح میں ’’ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل‘‘ یا ’’بوسٹ گلائیڈ ‘‘ کہلاتا ہے۔ انتہائی تیزی اور حرکت پذیری کی دو صلاحیتوں کے باعث اس وقت دنیا کا کوئی میزائل ڈیفنس سسٹم اونگارد کو نشانے پر گرنے سے نہیں روک سکتا۔ اسی لیے یہ فی الوقت دنیا کا خطرناک ترین بم بن چکا ہے۔
اونگاردکو سب سے پہلے بلاسٹک میزائل کے ذریعے فضا میں بھیجا جاتا ہے۔ تقریباً ایک سو کلو میٹر بلندی پہ پہنچ کر اونگارد بلاسٹک میزائل سے الگ ہوتا ہے۔ وہ پھر 20 تا 27 ماخ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے نیچے آنے لگتا ہے۔ اس دوران وہ کبھی اوپر کبھی نیچے، کبھی دائیں کبھی بائیں ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اونگارد کی یہ نقل و حرکت اس میں نصب حساس آلات کا کرشمہ ہے۔ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس اڑن بم میں گائیڈنس سسٹم نصب ہے جسے زمینی ریڈاروں اور فضائی منصوعی سیاروں کی مدد سے چلایا جائے گا۔
بہرحال انتہائی تیزی اور
مسلسل حرکت پذیری کے باعث زمین سے چھوڑے گئے کسی بھی میزائل کے لیے اونگارد کو نشانہ بنانا بہت مسئلہ بن جائیگا۔ ظاہر ہے، اسے ایسا میزائل ہی پکڑ سکے گا جوکم از کم 30 تا 35 ماخ کی رفتار رکھتا ہو۔ مگر سائنس داں ابھی تک زمین سے بلند ہونے والے ایسے میزائل ہی بنا پائے ہیں جن کی زیادہ سے زیادہ رفتار چار پانچ ماخ ہے۔اونگارد کی رفتار اس لیے زیادہ ہے کہ وہ فضا سے نیچے گرتا ہے۔ اسی لیے بے پناہ تیزی کا حامل بن جاتا ہے۔
واضح رہے، بلاسٹک میزائل اور اونگارد ہائپرسونک گائیڈڈ وہیکل میں ایک بنیادی فرق ہے۔ بلاسٹک میزائل سو کلو میٹر بلند ہوکر نیچے کا سفر کرے تو اس کا راستہ معین ہوتا ہے۔ وجہ یہ کہ اس میں حرکت پذیری جنم دینے والے نظام نصب نہیں ہوتے۔ اگرچہ گرتے ہوئے اس کی رفتار بھی بہت تیز ہوتی ہے۔ یہی تیزی بلاسٹک میزائل کو خظرناک ہتھیار بناتی ہے۔ مگر ہائپر سونک گائیڈ وہیکل یا اڑن بم اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہتھیار ہے۔ وجہ یہی کہ وہ ہیبت ناک تیزی کے علاوہ حرکت پذیری کی خاصیت بھی رکھتا ہے۔
انہی دو خصوصیات کی بدولت اونگارد کسی بھی میزائل ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنانے کی جادوئی قدرت رکھتا ہے۔
اونگارد کی لمبائی تقریباً اٹھارہ فٹ اور وزن دو ٹن ہے۔ اس میں روایتی بارود کے علاوہ ایٹم بم بھی رکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایٹم بم دو میگا ٹن ٹی این ٹی کی طاقت رکھتا ہے۔ واضح رہے، ہیروشیما پر گرایا گیا امریکا کا ایٹم بم صرف پندرہ کلو ٹن طاقت رکھتا ہے۔ ایک میگاٹن ایک ہزار کلو ٹن کے برابر ہے۔ گویا آوانگاد جاپانی شہر تباہ کرنے والے امریکی ایٹم بم سے دو ہزار گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم لے جانے کے قابل ہے۔
نئی سرد جنگ
10 مارچ 2018ء کو روسی صدر، ولادیمیر پیوٹن نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ مژدہ سنایا تھا کہ روس کے سائنس داں و انجینئر نت نئے روایتی و ایٹمی ہتھیار ایجاد کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہی میں سے ایک اونگارد بھی تھا جو اب عملی جامہ پہن چکا۔ روسی ماہرین ایٹمی میزائل اور ایٹمی ہتھیار لے جانے والا تارپیڈو (زیر آب سفر کرنے والا میزائل) بھی بنانے کے لیے تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں۔ مزید براں پچھلے آٹھ برس سے روسی افواج کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوچکا۔ روس کا جنگی بجٹ بھی بڑھ رہا ہے۔
یہ سارا اہتمام اسی لیے ہے کہ روس کو ازسرنو سپرپاور بنایا جاسکے۔دنیا میں چھٹی صدی سے سترہویں صدی تک مسلم ریاستیں سپرپاور کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایک بنیادی وجہ یہ رہی کہ مسلم افواج کے ہتھیار جدید تھے۔ مسلمان سائنس داں اور انجینئر نت نیا اسلحہ بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کرتے رہتے۔ مگر جب مسلم حکمران اور عوام بھی عیش و عشرت میں پڑگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے تاجدار دنیا کا اعزاز چھین لیا۔ مسلم سپرپاور کا زوال ستمبر 1683ء سے شروع ہوا جب ترک فوج کو ویانا (آسٹریا) کے مقام پر شکست ہوئی۔ اس کے بعد مغربی افواج نے ایک ایک کرکے بہت سے اسلامی ممالک پر قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اب مغربی سائنس داں جدید ترین ہتھیار تیار کرنے لگے تھے۔ یہی رجحان ابھی تک جاری ہے۔
روس اور مغرب کے مابین کئی تاریخی، مذہبی، تہذیبی معاشی اور ثقافتی اختلافات موجود ہیں۔ اسی لیے روس اور مغربی ممالک کا تصادم جاری ہے۔ اب روس دوبارہ عسکری طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ گویا بیسویں صدی کی طرح اکیسویں صدی میں بھی روس اور مغربی ممالک خصوصاً امریکا ،برطانیہ کے مابین دوسری سرد جنگ جنم لے چکی ہے۔ نئی سرد جنگ میں روس اور چین حلیف بن سکتے ہیں۔ یاد رہے، عسکریات کی سائنس و ٹیکنالوجی میں روس چین سے آگے ہے۔ تاہم چینی حکومت بھی اب عسکری سائنس و ٹیکنالوجی پر کثیر رقم خرچ کررہی ہے۔ مدعا یہی ہے کہ جدید ترین اسلحہ ایجاد کیا جاسکے۔
یہ نئی سرد جنگ مگر دنیا کا امن خطرے میں ڈال دے گی۔ جنگ کے حلیف پروکسی بن کر مختلف ممالک میں ایک دوسرے کے مفادات پر حملے کریں گے۔ ایسے میں اسلامی ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نئی سرد جنگ میں کھل کر روس یا امریکا و برطانیہ کے حلیف نہ بنیں۔ دوسری صورت میں جنگ کی آگ انہیں بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دور حاضر میں افغانستان، شام، یمن، عراق، صومالیہ، فلسطین، لیبیا، ایتھوپیا اور برکینا فاسو کے اسلامی ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں نے عالمی سپرپاور کی سازشوں کے باعث ہی جنم لیا۔
امن ہماری ضرورت ہے
پاکستان بھی روز اول سے عالمی طاقتوں کے مفاداتی کھیل کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس سازشی کھیل سے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور سیاست کو نقصان پہنچا۔ اب پاکستانی حکومت کی مقتدر قوتوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ سپرپاورز کی سازشوں اور جوڑ توڑ کے کھیل کا سرگرم حصہ نہ بن پائیں۔ پچھلے ایک سو برس میں یہ حقیقت نمایاں ہوچکی کہ جس ملک میں امن وامان رہے، وہ معاشی ترقی کرتا اور خوشحال مملکت بن جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان کی بھی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پاک وطن میں امن وا مان جنم لے تاکہ معاشی سرگرمیوں کو پنپنے اور بڑھنے کا موقع ملے۔ معیشت کی ترقی سے ہی پاکستان قوم کو غربت، بیماری، جہالت اور بیروزگاری جیسے مسائل سے نجات مل سکے گی۔
چند سال سے پاکستانی حکومت روس کے قریب ہونے کی خاطر مختلف اقدامات کرچکی ہے۔ یہ ایک مثبت عمل ہے۔ لیکن ہمارے مقتدر اداروں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ روس اب بھی ہمارے دشمن، بھارت کا اہم عسکری ساتھی ہے۔ اس سال بھارتی افواج کو روسی ساختہ ایس 400- میزائل مل جائیں گے۔ یہ میزائل ڈیفنس سسٹم برصغیر میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔ روس اور بھارت مل کر براہموس کروز میزائل بھی بنا رہے ہیں۔ بھارت کا طیارہ بردار بحری جہاز وکرم ادیتیہ روس ہی میں مرمت و اپ گریڈنگ کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ نیز مستقبل میں روس بھارت کو اپنے دیگر خطرناک ہتھیار بھی فراہم کرسکتا ہے۔ غرض روس اور بھارت کی قربت و دوستی دیکھتے ہوئے عیاں ہے کہ ہمیں روسی حکمران طبقے سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہیں۔
پاکستان نے چین کے تعاون سے حال ہی میں دو نشستی جے ایف تھنڈر طیارہ تیار کیا ہے جو بہت بڑی خوش خبری ہے۔ اس مثال سے آشکارا ہے کہ پاکستان کو چین کے ساتھ شراکت داری کرنی چاہیے تاکہ اسے جدید عسکری سائنس و ٹیکنالوجی حاصل ہوسکے۔ یقین ہے کہ پاکستانی سائنس داں اور انجینئر جلد ہی ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم کا بھی شافی توڑ ایجاد کرلیں گے۔
The post دنیا کا خطرناک ترین میزائل appeared first on ایکسپریس اردو.