انسان غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگرغذا خالص استعمال نہ کی جائے تو اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد غذا کے انفرادی اجزاء جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مختلف اعضاء کو ان کی غذا پہنچاتے ہیں۔
کسی زمانے میں صرف شیور مرغیاں، کیمیائی دودھ وغیرہ کے استعمال سے ہی منع کیا جاتا تھا۔ دورِ حاضر میں مصنوعی اشیاء کی تعداد میں اضافے کے علاوہ جینیاتی تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں جو ان اشیاء کو تادیر سڑنے سے روکنے میں معاونت کرتی ہیں، مگر اب ان اشیاء کی نہ وہ صحت ہی رہی کہ جراثیم ، پھپھوندی وغیرہ اسے چھوئے نہ وہ مزاج رہا کہ معالج اسے تجویز کرسکے۔
شیور مرغی پید ا کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے کہ انڈے کو ایک خاص حد تک حرارت مہیا کی جائے تاکہ جلدی چوزا پیدا ہو۔ ایسی مرغی میں نہ چُستی ہوتی ہے نہ پُھرتی کیونکہ وہ پیدائش کے مراحل فطری انداز میں طے نہیںکر پاتی لہذا جب انسان اسے کھاتے ہیں تو ان کی اپنی حرارتِ بدنی کمزور ہوجاتی ہے۔
ایسی مرغی کی تاثیر انسانی بدن کی حرارت کی نسبت کمزور ہوتی ہے جبکہ دیسی مرغی کھانے والے کو حرارت کا تحفہ بخشتی ہے۔ اس امر میں غذا کی جینیات بھی بہت اثر رکھتی ہیں۔ بڑے جانوروں مثلاً بَیل، گائے، بکرے وغیرہ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں مختلف اغراض سے انجکشن لگائے جاتے ہیں جن میں ’پینی سیلین، ٹیٹرا سائیکلین وغیرہ شامل ہیں، انھیںخاص قسم کا چارہ جس میں جینیاتی تبدیلی ہوتی ہے، استعمال کرایا جاتا ہے، ایسے چارے میں اسٹیرائیڈز ہوتے ہیں تا کہ ان کی نشو و نما جلد ہوسکے یعنی یہ جانور بھی ایک قسم کے شیور ہی کہلاتے ہیں۔
بغیر ضرورت ’اینٹی بائیوٹک‘ بھرے گوشت کے استعمال سے ان ادویہ کے خلاف مزاحمت (اینٹی بائیوٹک رزسٹنس) پیدا ہوتی ہے، انسانوں میں بھی اینٹی بائیوٹک رزسٹنس بڑھتی جا رہی ہے۔ مویشی پالنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ اگر ہم مویشیوں کو اسٹیرائیڈز والا چارہ نہ کھلائیں تو جانور بیمار ہوکر مرجائیں گے مگر ایسا کرنے سے انسانی صحت متاثر ہورہی ہے اس لیے جانوروں کو صاف غذا فراہم کی جائے اور آلودگی سے پاک ماحول میں پالا جائے۔
یہ جانور اور انسان دونوں کی صحت کے لئے بہتر ہے لہذا جب انسانوں کو اپنی بیماری کے دوران میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت پڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسہال، پیچش اور خون کی کمی ہی ہوتی ہے اور کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کس کس اینٹی بائیوٹک سے رزسٹینٹ ہوچکے ہیں۔ جراثیم کی خاص مدّت پوری ہونے کے بعد مرض بھی ٹھیک ہونے لگتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اینٹی بائیوٹک سے فائدہ ہوا ہے۔ دوسری طرف جانوروں کو دیے جانے والے اسٹیرائیڈز انسانوں کو جَلد جوان کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے چہرے اور دیگر بال جلداُگ آتے ہیں، آواز خاص عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کوتاہ قد وقامت جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
اگر گائے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاگل گائے (میڈ کاؤ) کے لئے کوئی ٹیکہ نہیں ہوتا۔ مویشی پالنے والے اشخاص ایسی گائے کو جَلد ذبح کرکے اس کا گوشت فروخت کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک خاص پروٹین ’پریون‘ انسان میں داخل ہوجاتا ہے جو دماغ میں پہنچ کر دماغ کو پگھلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پہلے ٹانگیں بیکار ہوتی ہیں، پھر رفتہ رفتہ نزلہ شدت اختیار کرتاہے حتیٰ کہ انسان کا دماغ ضائع ہوجاتا ہے۔ جو بھی غذا انسان استعمال کرتا ہے اس کا اثر اس کی عادات، خیالات اور ساخت پر پڑتا ہے۔
مثلاََ بھینس کا گوشت زیادہ استعمال کرنے سے سُستی، کُند ذہنی، موٹاپا ہوتا ہے۔ بکرے کا گوشت کھانے والے چُست، ذہین اور دُبلے نظر آتے ہیں۔ خوف کی حالت میں زیادہ شیور مرغی کھانے والوںکی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ ان میں سُستی اور نیند زیادہ ہوتی ہے جبکہ دیسی مرغ کھانے والے اشخاص نسبتاً چُست ہوتے ہیں۔ مچھلی زیادہ کھانے والے لوگوں کے جسم پُھول جاتے ہیں اور وہ زیادہ سوتے ہیں۔ سبزی اور میوہ جات کی جن اعضاء سے مشابہت ہوتی ہے انہیں قوت پہنچاتی ہیں مثلاً مولی ہڈی سے مشابہ ہے ، ہاضم ہوتی ہے، کیلشیم کا منبع ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ اسی طرح اخروٹ دماغ سے مشابہ ہے ، وہ دماغ کو مضبوط بھی کرتا ہے۔
70 فیصد سے زیادہ سبزیوں اور غذاؤں میں جینیاتی تبدیلی کی جا چکی ہے۔ اگر سبزیوں کا تجزیہ کیا جائے تو ان میں ایسی جینیات متعارف کی گئی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ پھپھوندی اور دیگر حشرات الارض سے بچاتے ہیں۔ وٹامنز جو پہلے ان میں نہیں پائے جاتے تھے اب پائے جاتے ہیںاس کے علاوہ گلوکوز جو پہلے کم مقدار میں پھلوں میں پایا جاتا تھا اور ذیابیطس کے مریض انھیں استعمال کرسکتے تھے، اب ان میں گلوکوز وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پھلوں کو جلد پکانے کی غرض سے’ایسی ٹائلین‘ استعمال کیاجاتا ہے۔
یاد رہے کہ اس کی زیادہ مقدار انسان کا سانس روک دیتی ہے، یہ سردرد، دل کی تیز دھڑکن، متلی کا موجب بھی ہے۔ جن پھلوںکا ذائقہ ناگوار ہوتا تھا یا جن کا وزن کم ہوتا تھا، انہیں کبھی نمکین اور کبھی میٹھے پانی میں کافی دیر تک رکھا جاتا ہے۔ باہر سے گاڑھا پانی پھل میں داخل ہوکر اس کے ذائقے اور دیگر خصوصیات اور سائز کو بدل دیتا ہے۔ اب ایسے پھلوں کے استعمال سے شوگر بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جبکہ مریض کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس قدر اضافہ کیوں ہوا۔ علاوہ ازیں ان میں ایسی جین پیدا کی گئی ہے جو جسم میں داخل ہونے کے بعد شکر کی وافر مقدار پیدا کرتی ہے۔
شکر اشیاء کو جلدی سڑنے سے بچاتی ہے جبکہ اس سے زیادہ موزوں چیز شہد ہے۔ چینی کی مختلف اقسام ہیں مثلاََ براؤن شوگر، سٹیویا سے ماخذ شکر وغیرہ۔ اس لیے مصری کو پیس کر استعمال کرنا بہتر ہے۔ نیز جین کے ہمراہ اسٹیرائیڈز نما مواد بھی متعارف کرایا جاتا ہے تا کہ جین ایکٹو ہو۔ جب یہ اسٹیرائیڈز جین کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو شَکر کی مقدار اس طاقت سے بڑھتی ہے کہ لبلبہ اس مقدار کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ آلو کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ایک خاص ترکیب سے ’امائینو ایسڈ ایسپیراجین‘ کو بیکار کیا جاتا ہے جو جسم میں حرارت بڑھانے کا کام کرتی ہے، جسم میں گوشت کی مقدار بڑھاتی ہے، دماغ اور اعصاب کے میٹابولزم کو قابو کرتی ہے۔ اس کی بجائے شکر کی مقدار بڑھانے والی جین کو ایکٹو کیا جاتا ہے تاکہ کسی حد تک شکر اس امائینو ایسڈ کی قائم مقام بن جائے۔
دوسرا بہت زیادہ استعمال کیے جانے والی غذا ’چاول‘ میں جینی اضافات کچھ اس طرح کیے گئے ہیں کہ اس سے’بیٹا کیروٹین‘ کی وافر مقدار جسم میںپیدا ہوتی ہے جو قدرتی چاول سے نہیں ہوتی۔ یہ جزو آنکھ کے لئے بہت مفید ہے مگر ہر شخص چاول ضرور کھاتا ہے۔ چاول بطور آنکھ کی دوا کوئی استعمال نہیں کرتا، لہذا گر ’بیٹا کیروٹین‘ کی مقدار ایک حد سے تجاوز کرجائے تو ہاضمہ خراب،جِلد کا رنگ ہلکا اور جوڑوں کا درد لاحق ہوجاتا ہے۔
مصنوعی دودھ جس کا آج کل ایک بڑا طبقہ دیوانہ ہے، اسے پانی، خشک صابن، نمک، یوریا اور ان کے اثرات معتدل کرنے والے کیمیکلز سے تیار کیا جاتا ہے(بحوالہ ریسرچ گیٹ)۔1773ء میں یوریا پیشاب سے الگ کیا گیا تھا (بحوالہ بریٹینیکا)۔ اب جو اشیاء مصنوعی دودھ سے تیار کی جاتی ہیں، ان میں کیک، پیسٹری سرِفہرست ہیں۔ ان میں ’بیکرز امونیا‘ ڈالا جاتا ہے جو دخانی ہوا (کاربن ڈائی آکسائیڈ) پیدا کرتا ہے اور بیکری اشیاء کو ہلکا اور پھولا ہوا بناتا ہے۔ مزید ان میں خمیرہ (پھپھوندی کی قِسم)، نشاستہ، شَکر، سوڈا، ایسڈ اور الکلی ڈالی جاتی ہے اس لیے معالجین خارش کے مریضوں کو ان سے پرہیز کرنے کو کہتے ہیں۔ اکثر لوگ فیشن ایبل غذا سمجھتے ہوئے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس کے کھانے استعمال کرتے ہیں۔ برگرز، تلی ہوئی شیور مرغی اور ان کے ٹکڑے، چپس، پیزا، سینڈوچ، رقیق پیسٹری جو یہ گلاس میں دیتے ہیں، مشہور فاسٹ فوڈز ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان سے موٹاپا، قبض، شوگر، نیند کی خرابی اور دل کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔
پانی کی بھی بہت سی اقسام بن چکی ہیں۔ جو پانی بوتلوں میں دستیاب ہے ان میں ’سوڈیم اور کیلشیم‘ کی مقدار کم و بیش پائی جاتی ہیں۔ بعض پانیوں میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے تو بعض میں کیلشیم کی مقدار یا پھر اس کے برعکس بعض میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ جو پانی گھروں میں مہیا کیا جاتا ہے اس کے اجزاء کا انحصار اس نالی (پائپ) پر ہوتا ہے جن میں سے وہ گزر کر آتا ہے۔ اکثر اس میں دھاتوں کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے جن کی وافر مقدار پانی ابالتے وقت برتن کی تہہ میں جم جاتی ہے۔ بورنگ والے پانی میں وائرس، بیکٹیریا، اور دیگر اجزاء ملے ہوتے ہیں جو پاکستان میں 2.5 ملین اموات کا ذمہ دار ہے (بحوالہ این سی بی آئی ریسرچ، ہنداروی)۔
ہر پانی کو ضرور ابالنا چاہئیے۔ جس پانی میں نمکین ذائقہ محسوس ہو، وہ پینے کے لئے استعمال نہ کریں۔آج کل لوگ بغیر ابالے اور بغیر فلٹر کئے پانی پیتے ہیں، چنانچہ یہ اجزاء گردہ (جسم کے فلٹر) کی ساخت میں اسی طرح تہہ نشین ہوتے ہیں جس طرح برتن کی تہہ میں جم جاتے ہیں۔ یہ گردے کی باریک نالیوں میں پھنس کر پتھری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا پانی ہرایک پیتا ہے۔عرض ہے کہ ہر ایک کے جسم کی کیفیت مختلف ہوتی ہے، جس طرح ہر شخص کے معدے کی حالت، شکل اور قد یکساں نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو چیز ایک شخص کو طاقت فراہم کرے، ضروری نہیں وہ دوسرے شخص کو بھی ویسی ہی قوت مہیا کرے۔ اس لیے دل، بلڈ پریشر اور گردے کے مریضوں کو ہر قسم کا پانی اُبال کر پینا چاہئیے۔
غلط غذاؤں سے پیدا ہونے والے خطرات سے کیسے نمٹا جائے؟
1۔ بچہ جانور خریدیں، اس کے چارے کا انتظام خود کریں یعنی اپنے سامنے اُگا ہوا چارا کھلائیں۔
2۔ موسمی تبدیلی کے وقت جانور کا خاص خیال رکھیں۔
3۔ جانور کو بغیرضرورت انجکشن نہ لگوائیں، کیونکہ جیسا خون ہو گا ویسا ہی اس کا دودھ ہو گا۔
4۔ ہفتے میں ایک بار اصل جانور کا گوشت ضرور استعمال کرنا چاہئیے تا کہ لحمیات (پروٹین) کی مقدار معتدل رہے۔
5۔ سبزیاں کھانے کے بعد ہفتے میں ایک بار رات کو سوتے وقت ہاضم دواء یا قہوہ ضرور لینا چاہیے یہاں تک کہ معدہ صاف ہوجائے۔
6۔ قبض کسی صورت نہ ہونے دیں۔
7۔ پھل جب بھی کھائیں، اس پر’کالی مرچ کا سفوف‘ چھڑکیں تا کہ اس کے مضر اثرات سے دور رہیں اور معدہ بھی صاف رہے۔ یاد رہے کہ جینیاتی تبدیلی کے حامل پھل گیس پیدا کرتے اور ہاضمہ ناقص کرتے ہیں۔
8۔ آلو ، مولی، شلجم کا استعمال ایسے شوربے میں کریں جس میں ہلکا گرم مصالحہ ہو تا کہ ہضم ہوکر جلد معدے سے خارج ہو جائیں۔ جتنا دیر یہ معدے میں ٹھہرے گی ان میں ڈالی گئی جین بھی ٹھہرے گی اور جس جزو کو پیدا کرنے کی غرض سے ڈالی گئی ہے وہ جزو دیر تک پیدا کرے گی۔ مثلاً آلو میں شکر کی مقدار بڑھانے والی جین تا دیر شکر کی مقدار بڑھائے گی اور شوگر کے مریضوں کے لئے مشکل کاباعث بنے گی۔
9۔ دودھ کا استعمال گرم حالت میںکریں۔
10۔ شیور والی غذا کھانے کے بعد اس کے جلد ہضم کی تدبیر کریں۔
نوٹ: بیج کاسنی اور دار چینی کا قہوہ مفید ہے مگر طلوعِ آفتاب کے وقت ’یوگا ‘ ورزش کا اہتمام زیادہ بہتر ترکیب ہے۔ اس میں سانس اندر، باہر کرنے کی خاص ترکیب ہوتی ہے ورنہ خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ ورزش کی ایک خاص اہمیت یہ ہے کہ اس سے قوت مدبرہ بدن میں ایکٹو ہوتی ہے جو جسم کے تمام غیر ضروری مواد کی اصلاح کرتی ہے۔ یوں ورزش ایک موثر ڈی ٹاکس ہے۔
The post مضر صحت غذاؤں کے نقصانات سے کیسے محفوظ رہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.