قسط نمبر 75
زندگی سہل نہیں کہ بس آسانیاں ہی ہوں اور کوئی سیدھی ہم وار سڑک بھی نہیں کہ جس پر بلا کسی رکاوٹ کے گام زن رہا جائے، اس میں لاکھوں موڑ آتے ہیں، پگڈنڈیاں ہیں، گڑھے ہیں، کھائیاں ہیں اور نشیب کے ساتھ فراز بھی کہ سُکھ دُکھ کا میل ہے یہ زندگی۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ بس سیدھی سڑک پر بہ آسانی چلتے چلے جاؤ، نہیں ایسی نہیں ہے زندگی۔ جی! ہوسکتی ہے آسان اور سہل اور ایسی کہ بس جیون رس پیتے جاؤ اور جیتے جاؤ، لیکن اس کے لیے شرط ہے بس ایک کہ راضی بہ رضائے الہی رہو، خود کو خالق کے سپرد کردو اور بس ایک ہی گیت گاؤ اور دل سے کہ تیری رضا میری تسلیم، اب جو کچھ بھی ہوگا تو بس تیری جانب سے ہوگا اور میں تیری رضا پر سر ہی نہیں پورے جسم کو جھکائے رہوں گا اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ بس تُو ہی ہے لائق عبادت اور تسلیم بندگی۔ جی! پھر جب کوئی تسلیم کی راہ پر ہو تو اس سے زیادہ سہل راستہ کوئی ہے ہی نہیں، چلتے چلے جاؤ اور بس چلتے چلے جاؤ بغیر کسی خدشے، خوف اور ڈر کے اور منزل پر پہنچ جاؤ کہ انسان کی دنیاوی منزل گورستان ہی تو ہے ناں، موت کا استقبال کرنا ہی تو ساعت مسرّت ہے اور سنیے جی! یہ جو قبر ہے ناں پھر بن جاتی ہے گوشۂ مسرّت۔ نہ جانے کیا کہہ رہا ہے فقیر اور کیا سمجھ رہے ہیں آپ۔ تو بس آسانی کا ایک ہی ورد وظیفہ ہے جی! تیری رضا میری تسلیم، تیری رضا میری تسلیم۔
کتنا مشکل ہے ناں جیون، جی بہت مشکل ہے جی، ہر انسان ایک کہانی ہے جیون کتاب کی، کبھی فرصت ہو تو سنیے کہ ایسی کہانیاں جنہیں لکھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، ہاتھ کانپنے لگیں، آنکھیں بھیگ جائیں، دل بند ہونے لگے اور ذہن ساتھ چھوڑ دے۔ ہر قدم پر حرص، طمع اور لالچ کی کہانیاں، رشتے ناتوں کی ناپائیداری کی داستانیں اور دل سوز حکایتیں۔
یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے جو فقیر آپ کے گوش گزار کر رہا ہے۔ اس سماج کی کہانی جہاں انسان کی قدروقیمت زر و زمین کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ جہاں خونیں رشتے بھی اپنی قدر و قیمت کھو دیں اور حقارت سے ٹھکرا دیے جاتے ہیں۔ بے حسی، خودغرضی، سفاکی اور فرعونیت کا شاہ کار سماج۔ پناہ! میں اسے جانتا ضرور تھا اور بہت عرصے سے، کبھی کبھار اس سے بات بھی ہوجاتی تھی۔ اس دن میں اس کی بیمار بوڑھی ماں سے ملنے اسپتال پہنچا۔ وہ آزردہ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے اس کی خیریت دریافت کی تو اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور پھر اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا: ’’بھائی جان میں بہت تھک گئی ہوں۔‘‘
میرے کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟ کے جواب میں اس نے اپنے عذاب دنوں اور سلگتی راتوں کا ذکر چھیڑا۔ جو کچھ مجھ پر بیتی وہ رہنے دیجیے۔ بہت سارے حقائق پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے مگر جب سب کردار آنکھوں کے سامنے جیتے جاگتے موجود ہوں تو پھر ان کی تکذیب نہیں کی جاسکتی۔ اس نے بزدلوں کی طرح نہیں، جواں مردوں کی طرح زندگی کا سامنا کیا۔ اس نے جن طوفانوں، آندھیوں اور رویّوں کا مقابلہ کیا ہے ان کے سامنے بڑے بڑے جَری ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اس میں کمال کا ضبط اور صبر ہے۔ اتنے دکھ سہہ کر بھی وہ مسکراتی رہی ہے۔ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ناک ضرور ہوئیں، اس کی آواز ضرور رندھ گئی مگر اس نے انہیں برسنے اور بے ترتیب نہیں ہونے دیا۔فقیر کو سعود عثمانی یاد آئے۔
غم وہ کہ لہو کر دیں اندر سے ہمارا دل
ہم وہ کہ پگھل کر بھی آنسو نہ نکلنے دیں
گر وقت کے مرہم کا درماں نہ ملے کوئی
کچھ حادثے انسان کو برسوں نہ سنبھلنے دیں
آئیے! شمائلہ سے ملیے: میں پنجاب کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی۔ ہم چار بہنیں اور اکلوتا بھائی ہے۔ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ کچھ بڑی ہوئی تو اسکول میں داخل کردیا گیا۔ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا اسکول جانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر میرے والد نے سب کی مخالفت مول لے کر ہمیں پڑھایا۔ دن اچھے گزر رہے تھے۔ ہم سارے لوگ چچا، تایا وغیرہ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ میں کچھ بڑی ہوئی تو معلوم ہوا کہ میرے والد نے اپنے خاندان سے باہر شادی کی ہے یعنی میری والدہ غیروں میں سے تھیں۔ اسی لیے چچاؤں اور تایا کے ساتھ ان کے اہل خانہ کا رویّہ بھی میری والدہ کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ انہیں ہر وقت یہ سننے کو ملتا کہ وہ غیر خاندان کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں خاندانی امور کے فیصلوں کے وقت الگ رکھا جاتا تھا۔ خیر! پھر بھی وقت اچھا گزر رہا تھا۔ میں آٹھویں میں تھی کہ اچانک میرے والد کا انتقال ہوگیا۔
ہم پر تو قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ہم ذہنی طور پر اتنے بڑے حادثے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ خیر سہارا تھا کہ ہمارے چچا ہیں، تایا ہیں، ہم بے سہارا نہیں ہیں۔ اور کچھ دن تو ہمیں ایسا محسوس بھی ہوا۔ لیکن یہ خواب جلد ہی بکھر گیا اور آہستہ آہستہ ہمارے نصیب سونے لگے اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم اور ہماری والدہ اُس جگہ ایسے رہنے لگے جیسے کوئی ہمیں جانتا ہی نہ ہو۔ سب بیگانے ہوگئے، رشتے ناتے ختم اور آنکھوں کا پانی جاتا رہا۔ ہمیں ہر وقت جھڑکیاں ملتیں، طعنے ملتے، اسکول جانا بند کردیا گیا۔ سب کچھ ہوتے ہوئے ہمیں محروم کردیا گیا۔ ایک دن تنگ آکر میری والدہ نے میرے تایا سے کہا کہ ہمیں علیحدہ کردیں اور ہمارے حصے کی جائیداد ہمیں دے دیں تاکہ ہم سکون سے رہ سکیں۔ پھر کیا تھا، ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا اور پھر جو تشدّد ہم پر شروع ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن اُس دن تو ہم پر سورج سوا نیزے پر آگیا جب ہمیں گاؤں کے ایک شخص نے آکر بتایا کہ ہمارے اکلوتے بھائی کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے اس لیے ہمیں کہیں اور چلے جانا چاہیے۔
ہمارا بھائی اس وقت بی ایس سی کرچکا تھا اور کئی مرتبہ چچاؤں کے تشدّد کا شکار ہوا تھا۔ میری والدہ نے تایا سے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس ہمیں یہاں سے جانے دیا جائے۔ انہوں نے کاغذات بنوائے، ہم سب سے دست خط لیے اور ہم ہنستے بستے لوگ اجڑ گئے۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب ہم نے گاڑی میں اپنے چند اٹیچی کیس رکھے اور پورا بَھرا پُرا گھر چھوڑ کر راول پنڈی پہنچے۔ ہمیں ہمارے اپنوں نے ہجرت پر مجبور کردیا۔ راول پنڈی میں میرے بھائی کے ایک دوست رہتے تھے اور امی کے ایک رشتے دار بھی۔ امی کے رشتے داروں نے کچھ ساتھ دیا اور کچھ کا خیال تھا کہ غیروں میں شادی کرنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد ہم کراچی آگئے۔ راول پنڈی تو چھوٹا سا شہر ہے۔ روزگار بھی کم تھا۔ ہمیں تو زندگی کی ابتدا کرنا تھی، جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔
اب رونے دھونے سے کیا حاصل تھا۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی چلنا چاہیے۔ اب مسئلہ تھا کہ کیسے انتظام کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے اپنے نئے کپڑے، پلنگ کی چادریں اور اپنا زیور بیچ دیا اور یوں ہم کراچی پہنچ سکے۔ سب سے زیادہ تو ہمارا بھائی ہمارے لیے مسئلہ بن گیا۔ ہر وقت اس کے سر پر غصّہ سوار رہتا۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، وہ اپنے خرچ کے لیے پیسے مانگتا رہتا۔ ہم کہتے جاکر کہیں نوکری کرلو تو کہتا تم بہنیں کس لیے ہو۔ تمہاری وجہ سے تو یہ سارا عذاب آیا ہے۔
ہمارے پاس پیسے نہ ہوتے تو وہ ہمیں کمرے میں بند کرکے مارنا شروع کرتا۔ اس کی ایک رٹ ہوتی: ’’مجھے تمہاری وجہ سے یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔‘‘ ہم کراچی پہنچے تو یہاں امی کے ایک دور کے رشتے دار تھے، انہوں نے میزبانی کی اور کرائے کا گھر لے دیا۔ ہمارے سامنے والے گھر میں ایک بہت اچھی خاتون رہتی تھیں۔ انہیں جب ہمارے گھر کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے ایک سلائی مشین ہمیں دے دی اور ہم نے محلے والوں کے کپڑے سینا شروع کردیے۔ میری والدہ کو سینا پرونا آتا تھا۔ انہوں نے ہمیں بھی سکھایا اور یوں زندگی کی گاڑی چلنا شروع ہوئی۔ بھائی کا رویّہ اتنا خراب تھا کہ ہم رات کو بھی ڈر کے مارے نہیں سو سکتے تھے۔ وہ ایک نفسیاتی مریض بن گیا تھا اور ہمارے بس سے باہر تھا۔
ہم اتنی محنت کرتے وہ اچھے اچھے کپڑے پہن کر گھومتا۔ اس نے دوست بنالیے تھے ان میں اس کا وقت گزرتا، رات گھر لوٹتا تو دن بھر کی جمع پونجی پر قبضہ کرلیتا۔ ہم نے اپنے بھائی سے بڑا ظالم نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ سے ہمارے رشتے نہ ہوسکے۔ آس پاس کی خواتین تین چار مرتبہ رشتہ لے کر آئیں تو اس نے انہیں بھی بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا۔ اس کا کہنا تھا یہ ساری عمر کمائیں گی اور میں کھاؤں گا۔ آپ نے کبھی ایسا بھائی بھی دیکھا ہے؟ اسی دوران ہماری سب سے چھوٹی بہن کا رشتہ آگیا اور ہم نے اس کی جیسے تیسے شادی کردی۔ اب ہم دو بہنیں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ سلائی کا کام تو امی سے سیکھا اور پھر ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام شروع کیا۔ جب مجھے سلائی اچھی طرح آگئی تو میں نے لیدر کی جیکٹ سینا شروع کیں۔ ہم پیس ریٹ پر یہ کام کرتے تھے۔
اس پر بھی بھائی نے اعتراض کیا کہ یہ رات گئے تک آتی ہیں۔ اب تو ہم فیکٹری میں ملازم تھیں اور اوور ٹائم بھی کرنا پڑتا تھا۔ رات گئے تک رکنا بھی پڑتا تھا۔ مگر ہمارا بھائی عذاب بن گیا تھا، کیا کرتے، آخر تھک ہار کر گھر میں بچوں کو قرآن شریف اور ٹیوشن پڑھانا شروع کیا۔ اس میں اتنی آمدنی نہیں تھی۔ بھائی نے اس پر بھی پھر ہنگامہ کھڑا کیا کہ پیسے کم ہیں، خرچ پورا نہیں ہوتا تو میں نے پھر سے گارمنٹس فیکٹری کا کام شروع کیا اور بڑی بہن نے دواؤں کی کمپنی میں پیکنگ شروع کی۔ تفصیل بہت لمبی ہے، بہت سے کام کیے۔ لیکن اﷲ کا بہت احسان ہے، لوگ اچھے ملے۔ پھر ایک دن ہمارا بھائی گھر کی جمع پونجی لے کر غائب ہوگیا۔ ہمارے اس منافق معاشرے میں بغیر مرد کے رہنا بہت مشکل ہے۔ مگر سچ پوچھیں تو ہم اس اکیلے پن کے عادی ہوگئے ہیں، کم از کم ہم پر تشدّد تو نہیں ہوتا۔ لوگ اچھے بھی ہیں اور بُرے بھی۔ ہم انہیں ٹھیک تو نہیں کرسکتے اور نہ انہیں اپنی بات پر قائل کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم نے خود سے عہد ضرور کر رکھا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے ہمت نہیں ہاریں گے۔ ہم نے دیکھا ہے، اگر آپ ہمت کرلیں تو خدا آپ کی ضرور مدد کرتا ہے۔ ہمیں تو اپنا بھائی بہت یاد آتا ہے۔ کچھ بھی تھا، وہ ہمارا بھائی ہے۔ وہ جہاں رہے خوش رہے۔ میری امی اس کی یاد میں سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہیں لیکن وہ بہت باہمت ہیں۔
انہوں نے سب لوگوں کے طعنے سنے، ستم جھیلے مگر ہمت نہیں ہاری، اب بھی ہم تینوں ماں بیٹیاں بیٹھ کر اسے یاد کرتے ہیں۔ کسی نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ بنکاک میں ہے اور کوئی کام کرتا ہے۔ اس نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ ان حالات میں انسان مایوس ہوجاتا ہے، اس کا ہر شے پر سے اعتبار ختم ہوجاتا ہے۔ وہ ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں کسی سے گفت گْو نہیں کرتی، صرف کام کی حد تک رہتی ہوں۔ ہر وقت بے چینی رہتی ہے۔ میں کسی پر اعتبار نہیں کرتی۔ کسی سے توقعات نہیں باندھتی۔ لیکن اس کے ساتھ مجھ میں ہمت بھی پیدا ہوئی۔ میں خاموش ضرور رہتی ہوں مگر حالات سے نہیں گھبراتی۔ اور یہ سوچتی ہوں کہ یہی زندگی ہے۔
ہم سے جس قدر بھی ہوسکے اسے خوش گوار بنانا چاہیے، میں کسی کی تکلیف پر بہت زیادہ دکھی ہوجاتی ہوں۔ بس عجیب و غریب ہوگئی ہوں۔ بیٹھے بٹھائے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ لیکن خدا کو یاد کرتی ہوں اور پھر اسے اﷲ کی رضا سمجھ کر مطمئن ہوجاتی ہوں۔ مجھے غصہ نہیں آتا۔ دیکھیے انسان غصہ اس وقت کرتا ہے جب اسے کوئی منانے والا ہو۔ آپ اگر خفا ہوجائیں تو کوئی تو منانے والا ہوگا ناں! ہمارا کون ہے؟ اس لیے نہ ہی ناراض ہوتی ہوں اور نہ ہی غصہ کرتی ہوں۔ ماں اور ہم بہنوں میں بہت اچھے اور مضبوط رشتے ہیں۔ ہمارا دکھ سانجھا ہے اور جب دکھ مشترک ہو تو محبت بہت پائیدار ہوتی ہے۔ ہم نے یہیں پر رشتے ناتے، تعلقات اور دنیا کی ناپائیداری دیکھی ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی محرومی دیکھی ہے۔ ہم نے خون سفید ہوتے دیکھا ہے۔ اب ہم اور کیا دیکھیں گے ہم تو زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔
ایسے میں بھی لڑیں جھگڑیں تو زندگی مزید عذاب ہوجائے گی۔ مستقبل کے بارے میں سوچتی ہوں۔ پچھلے دنوں ایک رشتہ بھی آیا ہے۔ اﷲ نے چاہا تو بات بھی ہوجائے گی۔ آج کل یہ سوچتی ہوں کہ آگے کیا ہوگا ؟ تیاری کیسے ہوگی ؟ امی اور بڑی بہن کا سوچتی ہوں کہ ان کا کیا ہوگا ؟ ہم نے کچھ رقم جمع کی تھی کہ اچانک والدہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور انہیں اسپتال میں داخل کرنا پڑا اور یوں وہ رقم ان کی بیماری کی نذر ہوگئی ہے۔ میں ایک فیکٹری میں کام کرتی ہوں، وہاں پر کام بند ہوگیا ہے اور یوں میں بے روزگار ہوگئی ہوں۔ صرف بڑی بہن ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔
اس سے کچھ گزارا ہو رہا ہے۔ مجھ سے بڑی بہن کا رشتہ نہیں آیا۔ ان کی عمر بھی اتنی زیادہ ہوگئی تو ان کے لیے بہت فکرمند ہوں کہ وہ کیا سوچتی ہوں گی؟ اب میری شادی کی بات چل رہی ہے اور ہم نے انہیں اپنی مالی حیثیت کے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے مگر سفید پوشی بھی بہت مصیبت ہے۔ آدمی کچھ کہہ سکتا ہے اور نہ ہی برداشت کرسکتا ہے۔ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرنا ہوگا۔ اﷲ پر بھروسا ہے، وہی سب کچھ بہتر کرے گا، جس نے اتنے کٹھن حالات میں پالا ہے، سہارا دیا ہے ہمت دی ہے، اب بھی وہی ہے اور اس کا سہارا ہی حقیقی سہارا ہے۔ انسان اچھے خواب دیکھتا ہے۔ میں اب بھی اچھے خواب دیکھتی ہوں۔ اچھے دنوں کے خواب۔ اﷲ ضرور یہ دن پھیرے گا۔ ہمیشہ تکالیف اور دکھ تو نہیں رہیں گے، اس سے مایوس ہونا تو کفر ہے۔ سب سے بڑا اور مضبوط سہارا تو خدا کا ہے۔ جب مشکلات آئیں تو گھبرائیے نہیں، ہمت کیجیے۔ جو لوگ ہمت سے، محنت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہیں وہ انہیں مایوس نہیں کرتا۔ صرف خدا پر بھروسا کیجیے۔
سن لی آپ نے جیون کتھا! ہاں یہ ہے اس کے کئی ہزار رنگوں میں سے ایک رنگ۔ اب آگے کی بپتا فقیر آپ کو سنائے دیتا ہے۔ فقیر کو رب تعالٰی نے سعادت دی کہ بس وہی ہے توفیق دینے عنایت کرنے والا، بندہ بشر تو مکار و عیار ہے۔ فقیر اس کی والدہ کے ساتھ اسپتال میں رہنے لگا اور جو کچھ درکار تھا رب تعالٰی نے مہیا فرمایا کہ وہی ہے دینے والا۔ لیکن مرض تو ایک بہانا ہے جی موت کا، موت کا لمحہ مقرر ہے تو بس وہ آکر رہا اور اس کی والدہ جسے فقیر ماں جی کہتا تھا، اپنی منزل پر پہنچ گئیں، گورستان میں ایک نئی گور کا اضافہ ہوگیا۔ رب تعالٰی ان کی حسنات کو قبول فرمائے، آمین۔ شمائلہ کی شادی بھی بہ شُکر خدا ہوگئی، بہت خوش تھی وہ اور فقیر کو اکثر کہتی رب تعالی نے کرم کردیا بھائی جان۔ اور پھر ایک سال بھی نہیں جی پائی اور راہی ملک عدم ہوئی، کیسے؟ چلیے شانت رہیے کسی اور وقت رکھیے ناں اس قصے کو۔ فقیر نے رب کی امانت دھرتی کے حوالے کردی، ماں کی گور کے ساتھ اک نئی گور۔
تیری رضا میری تسلیم۔ جی! پھر جب کوئی تسلیم کی راہ پر ہو تو اس سے زیادہ سہل راستہ کوئی ہے ہی نہیں، موت کا استقبال کرنا ہی تو ساعت مسرّت ہے اور سنیے جی! یہ جو قبر ہے ناں پھر بن جاتی ہے گوشۂ مسرّت۔
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.