دنیا کا دستور ہے، یہاں لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔ مستقبل حال کے راستے سے گزر کر ماضی کے ’دفینے‘ میں دبتا چلا جاتا ہے۔۔۔
گزرے وقت کی بازگشت بس ایک دو پیڑھیوں تک ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔ پھر جیسے جیسے وقت بڑھتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے اس پرانے ماضی سے تعلق کم زور پڑتا چلا جاتا ہے، پھر برائے نام رہ جاتا ہے اور کبھی تو وہ بھی نہیں رہتا۔۔۔ 1947ء میں حاصل کی گئی آزادی بھی کچھ ایسا ہی واقعہ تھی کہ برصغیر کے نقشے پر دو الگ الگ ملک پاکستان اور ہندوستان کے نام سے وجود میں آئے اور لوگوں نے دونوں جانب سے ایک بہت بڑی ہجرت کی، جو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی نہ سہی لیکن کچھ بہت بڑی ہجرتوں میں ضرور شمار کی جا سکتی ہے۔
آج 1947ء کے ہنگام کو آٹھویں دہائی لگ چکی ہے۔۔۔ یعنی سرحد کی دونوں جانب اس واقعے کو جھیلنے والے افراد کی بہت تھوڑی تعداد بقید حیات رہ گئی ہے۔۔۔ 72 برس کوئی تھوڑی مدت تو نہیں ہوتے۔۔۔ اب تو اس بٹوارے کے بعد آنکھ کھولنے والے بھی بوڑھے ہوگئے ہیں۔۔۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی نوجوان نسل اس خطے کی وہ آخری پیڑھی ہوگی، جس نے ہجرت کرنے والوں کو اپنے نانا، نانی، دادا، دادی یا کسی اور بزرگ کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ اور ان سے اس واقعے کے تلخ وترش حالات براہ راست سن کر اسے محسوس کرنے کی کوشش کی۔
زیر نظر مکتوب ایسے ہی ایک نوجوان کی جانب سے سرحد کے اُس پار ’فیس بکـ‘ پر بننے والے ایک دوست کو لکھا گیا ہے، جہاں اب اس کا کوئی بھی قریبی رشتہ دار زندگی نہیں کرتا، لیکن پھر بھی ایک تعلق ہے جو اُسے پرکھوں کی دھرتی سے جوڑے ہوئے ہے۔۔۔
پیارے دوست۔۔۔ السلام علیکم
یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے یہ چِٹھی لکھنے کے لیے وقت 23 مارچ کو ہی مل سکا۔۔۔ وہ چِٹھی جسے 1947ء میں کھینچی جانے والی سرحد کے پار جانا ہے، وہی سیما، جس کے عقب میں ہم اپنا شجرہ چھوڑ آئے۔۔۔ اپنی وہ زمین چھوڑ آئے، جہاں ہمارے بزرگوں نے ایک زمانے تک اپنی زندگی کی۔۔۔ میرا تعلق یوں تو خطے کی اس نسل سے ہے، جو ہندوستان سے یہاں ہجرت کرنے والوں کی اولاد کی اولاد ہے، یعنی ہمارے والدین بھی ہماری طرح سرحد کے اِس طرف پیدا ہوئے، البتہ ان کے بڑے وہیں جنمے، جہاں آج تم زندگی کرتے ہو۔۔۔
سو بس اپنے ہاتھ سے کاغذ قلم لے کر بیٹھنے کی وجہ یہی جذباتی وابستگی تھی کہ ہم نہ سہی، ہمارے ہاتھ سے رقم ہوئے لفظ ہی اپنی مجسم طبعی صورت میں اُس نگری پہنچ جائیں، جہاں سے ہمارے دادا، دادی اور نانا، نانی آئے تھے۔۔۔ پھر جدید اور برق رفتار روابط کے دور میں یہ روایتی طرز تخاطب جسے بے رحمی یا حقیقت پسندی کی زبان میں دقیانوسی بھی کہتے ہیں، پر لکھنے کا ایک سبب یہ بھی تھا دوست، کہ سچے لفظ لکھتے ہوئے آنکھیں جو گواہی دینے لگتی ہیں، میں انہیں بھی اس کاغذ کے سینے میں چُھپاتا جاؤں، تاکہ یہ ہجر کے اشک بھی بنا ویزے کے سرحد کے پار اس دلّی جا پہنچیں، جہاں سے نکلنے کے بعد میری دادی اور نانی کو وہاں پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔۔۔
وہ دونوں سگی بہنیں تھیں، اس اعتبار سے میرے پر نانا عبدالوہاب صاحب ہوئے۔۔۔ درجن بھر کے قریب بچوں کے پریوار کے مُکھیا کو اس کے قریبی دوراندیش رفقا نے بتا دیا تھا کہ دلّی میں بڑی خوں ریزی ہونے والی ہے۔۔۔ جانے انہوں نے کیا سوچا ہوگا، مگر اَجل نے بٹوارے سے کچھ ہی پہلے ان کی روح اور جسم کا بٹوارا کر ڈالا۔۔۔ تو بس جب 1947میں دلّی سلگنا شروع ہوئی اور لوگ چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود گھر چھوڑ چھوڑ کر ’پرانے قلعے‘ میں محصور ہونے لگے، تب میری پرنانی جان اپنی بیوگی کے چار ماہ دس دن کاٹ رہی تھیں۔۔۔ مجھے نہیں پتا انہوں نے ان لمحوں کا کشٹ کیسے اٹھایا، لیکن اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے میں یا تم اتنی آسانی سے سمجھ نہیں سکتے۔۔۔ ’پرانے قلعے‘ میں آن پڑنے کے بعد جو بیتی ہوگی سوبیتی ہوگی، مگر تقسیم کرنے والوں نے لکیر کچھ اس طرح کھینچی تھی کہ ان کی ایک بیٹی کلکتہ بیاہ کر گئی تھی، جب کہ دوسری بیٹی کراچی کی مکین ہوئی۔ اب یہ دونوں الگ الگ دیشوں کی نگریاں بن گئی تھیں، قصہ مختصر یہ کہ کراچی میں بیاہ کر آنے والی میری دادی تھیں، کیوں کہ دادا کراچی میں کاروبار کے سلسلے میں مصروف رہتے تھے۔۔۔ بہرحال پرنانی جی کو وہاں سے نکلنا پڑا۔
میں نے پرنانی جی کو صرف تصویر میں دیکھا۔۔۔ دادی جی بھی میرے جنم سے کچھ قبل کوچ کر گئی تھیں۔۔۔ البتہ نانی جنہیں میں ’امّاں‘ پکارتا تھا۔۔۔ انہیں میں نے نوجوانی کے اوائل تک اپنے درمیان پایا۔۔۔ وہ بھی اپنی بڑی بہن اور میری دادی کی طرح پھر کبھی دلّی نہ جا سکی تھیں۔۔۔ لیکن نوجوانی میں ہجرت کا سفر انہیں خوب ازبر تھا۔۔۔ جب کبھی ذکر نکلتا، تو کتنی ہی دیر تک میں ان کے تخت سے لگا اُن سے اُن کی جنم بھومی کے قصے سنتا تھا۔۔۔ جھریوں زدہ چہرے کی بھوری مائل آنکھیں گویا خالی جگہ کو دیکھتے ہوئے پرانی دلی کی گلیوں میں بھٹکنے لگتی تھیں۔۔۔
میں نے دلّی کبھی نہیں دیکھی مگر ’اماں‘ کی آنکھوں میں اس کی پرچھائیں ضرور محسوس کی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ دلّی مجھ سے نہیں نکلتی۔۔۔ (اسی لمحے میرے دو آنسو ضبط کی توہین کر کے اس کاغذ پر گر گئے ہیں۔۔۔) شاید مجھ میں حلول کردہ بڑی ماں (امّاں) گریہ کرتی ہیں۔۔۔ مگر میں تمہیں یہ بھی بتاؤں کہ دلی کی اتنی اتنی باتیں کرنے اور اسے یاد کرنے کے باوجود وہ آہیں ضرور بھرتی تھیں، لیکن کبھی ایک لفظ پچھتاوے کا یا پاکستان کے خلاف انہوں نے ادا نہیں کیا۔۔۔ (اوپر دو جگہ جہاں خالی جگہ چھُوٹی ہے، وہاں آنکھوں کی گواہی ثبت ہوئی) یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اپنے ارد گرد تنگ نظری دیکھی۔۔۔ طعنے دیکھے۔۔۔ دُہرے معیار اور الزامات سمیٹے۔۔۔ خیر یہ اس کا موقع نہیں۔۔۔ بس اتنا ضرور کہوں گا کہ آج دوپہر ہی کچھ ذکر ہوا تو امی کہہ رہی تھیں کہ دلّی میں اتنا بڑا گھر بتاتی تھیں ’امّاں‘۔۔۔، جو چھوڑ آئے۔۔۔ نہیں معلوم بیچا یا یوں ہی چھوڑا۔۔۔ مگر یہاں کوئی دعویٰ (کلیم) داخل نہ کیا اور رہے بھی اتنے بڑے گھر میں، جتنی دلی کے گھر کی ڈیوڑھی تھی۔۔۔ یہ شکوہ ہے اور نہ احسان، بس آگاہی ہے!
ہاں تو میں امّاں کا ذکر کر رہا تھا، جن سے اکثر 14 اگست یا کسی بھی موقع پر بات نکل آتی، تو وہ پرانی دلّی پر گفتگو کیے ہی چلی جاتیں اور میں گھنٹوں اس میں محو ہوا رہتا۔۔۔ انہوں نے ہمیں یہ تک بتایا کہ دل کے جو کوّے ہوتے تھے، وہ پورے کالے ہوتے تھے، یہاں کے کوّؤں کی طرح گردن سے سفید نہیں ہوتے تھے۔۔۔ انہیں بہت قلق تھا دلی چُھوٹنے کا۔۔۔ پھر وہ بٹوارے کے 60 برس بعد کراچی کی مٹی میں ہی جا سوئیں۔۔۔ مگر شاید وہ مجھ میں کہیں بستی ہیں، تب ہی آج میں ان پر گزرے تلخ لمحوں کو قلم بند کرنے بیٹھا ہوں، وہ لفظ جو یہاں سے میرے ہاتھوں کا لمس اور قلم کی حرکت کے ساتھ میرے آنسو لیے بھی تمہاری طرف آئیں گے۔۔۔‘
سنو دوست! تم یہ ورقے لے کر ایک مرتبہ پرانی دلی ضرور جانا۔۔۔ وہیں کہیں میری نانی اور پرنانی نے زندگی کی ہوگی، ایک مرتبہ اسے اس کوچے کی ہوا میں لہرا دینا۔۔۔ ہوا سے کہنا تیری بیٹی تو یاد کرتے کرتے وہیں سوگئی۔ آج اس کا نواسا اپنے اندر بڑی ماں کا درد لے کر آیا ہے۔۔۔ بلکہ خود بھی کہاں آیا ہے، یہ کاغذ کے صفحے ہیں اور ان میں چُھپے لفظ اور جذب آنسو ہیں۔۔۔ ان سے دلی بچھڑ گئی اور ہم اُن سے بچھڑ گئے۔۔۔ اب شاید وہ مجھ میں بولتی ہیں۔۔۔ کبھی کبھی میرے قلم میں لکھتی ہیں۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔۔۔!
اور ہاں وہیں پرانی دلی کے ’پنجابی کٹرے‘ میں میری دادی کلکتہ جا بسنے والی ’خالہ امّاں‘ کے ساتھ کھیلی ہیں۔۔۔ کہنے کو وہ بٹوارے سے پہلے الگ الگ دشاؤں میں رہ گئیں، مگر 1947ء میں جو اِن دو بہنوں پر بیتی ہے، وہ صرف اللہ جانے ہے یا وہ دونوں! تو وہیں کہیں گلیوں میں دو چھوٹی بچیوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر تم یہ سمجھ لینا 1930ء کی دہائی میں میری دادی اور ’خالہ امّاں‘ ہیں۔۔۔!
سنتے ہیں دلی بہت بدل گئی ہے۔۔۔ بدلنے کو کیا کچھ نہیں بدلا۔۔۔ دھرتی تو وہی آکاش تو وہی ہے۔۔۔ مگر ہم نے تو دلّی کو سنا ہے، ہمیں کیا خبر تب کیسی اور اب کیسی۔۔۔ ہمارے دلوں میں تو کل بھی دلی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے۔۔۔ تم ایک کام اور کرنا، میرے یہ ورقے لے کر پرانی دلی کے علاوہ وہاں کے کسی پرانے قبرستان بھی چلے جانا۔۔۔ 70 برس بیت گئے، کتبہ لکھا بھی گیا ہوگا، تو امکان نہیں کہ ایسا ہو کہ اب ’کتبہ‘ معلوم بھی ہو۔۔۔ وہیں کہیں میرے پرنانا جی آسودۂ خاک ہیں۔۔۔ وہی عبدالوہاب صاحب، جن کی اولادیں دو سرحدوں میں بٹ گئیں۔۔۔ بڑے نانا جی کو ان کے اس ’نجیب الطرفین‘ پَر نواسے کی طرف سے سلام کہنا۔۔۔ بتانا کہ یہ آپ کے نواسے اور نواسی کا بیٹا ہے۔۔۔ آپ کے لیے دعائے مغفرت ہے اور بہت ساری یادیں ہیں۔۔۔ جیسے ہمارے پردادا جی کی آخری آرام گاہ سرحد کے دوسری طرف رہ گئی ایسے آپ (پرنانا) بھی وہیں رہ گئے۔۔۔ جانے زمین کے اوپر ان کی کوئی نشانی (قبر) رہ بھی گئی ہو یا نہیں۔۔۔ اس لیے میں تمہیں ان کی قبر ڈھونڈنے کے لیے نہیں کہوں گا۔۔۔ اب تو اِدھر بھی ان کی کوئی اولاد حیات نہیں رہی، جسے پتا ہو کہ پرنانا کس جگہ آسودۂ خاک ہوئے۔۔۔
بس تم پرانی دلی کے قبرستان کو پالو تو وہاں یہ خط لے جاکر چند لمحے کھڑے ہولینا یا پھر وہیں یہ تصور کرلیناکہ وہیں کہیں وہ خاک کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔۔۔ اور بس!
میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے بڑوں نے اپنی جنم بھومی چھوڑ کر نئی نگری کو اپنا مسکن کیا، بلکہ اس نئے ملک کے لیے ایسی مثالی عقیدت پیش کی کہ دلی کو یاد ضرور کیا، مگر کبھی پاکستان کے بارے میں کوئی غلط لفظ نہ کہا، بلکہ ہم تو ’ہندوستان دشمنی‘ لے کر بڑے ہوئے۔۔۔ ہمارے بڑے اگر زمین پر شاستری کے پتلے بنا کر اظہار نفرت کرتے تھے، تو ہم اخبارات میں چھپنے والے ’بھارتی چہروں‘ پر اپنا غصہ نکالتے تھے۔۔۔ اس کے باوجود بھی ہمیں بار بار احساس ہوتا ہے کہ ہم ’بے زمین‘ ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر چُپ ہو لینا ہی بہتر سمجھتے ہیں کہ ذرا جذبات کا اظہار کرو تو الٹا ہم ہی تعصب کے پرچارک کہے جانے لگتے ہیں۔۔۔ یہ المیہ ہے اور بہت بڑا المیہ ہے!
اس کے باوجود میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوستانی مسلمانوں کا مسئلہ تھا، اس کے حل کی ایک راہ یہ بٹوارا تھی۔۔۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کیا اور کس طرح ہونا چاہیے تھا، لیکن شاید ہم جیسوں جو آج ’مہاجر‘ کہلاتے ہیں، ان کے نصیب میں تو طعنے تشنے تھے ہی۔۔۔ وہ اس لیے کہ آج ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو ’باہر سے آیا ہوا‘ کہہ دیا جاتا ہے۔۔۔ ظاہر ہے مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں۔۔۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ برصغیر کا مسلمان تین جگہ بٹ گیا۔۔۔ خیر گفتگو کہیں اور جا رہی ہے، بس کبھی کبھی ’مہاجر قوم‘ کی صورت یہ معلوم ہونے لگتی ہے کہ ’خدا ہی ملا نہ وصال صنم/نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے!
چوتھا صفحہ دم اخیر پہ آنے لگا ہے۔۔۔ بات مکمل کرتا ہوں اور ہاں پرانی دلی میں بھی جانا اور پرانے قلعے بھی ہو آنا یہ ورقے لے کر، کہنا کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس چشم تصور سے محسوس کرلینا 1947ء کی دلی کو۔۔۔ باقی باتیں تو یہ لفظ، یہ میری انگلیوں کے لمس زدہ لفظ اور خون سے کشید وہ ’نمکین پانی‘ جو اس میں کئی جگہ جذب ہوا ہے، وہ اپنے آپ کر لے گا۔۔۔! اگر تمہیں یہ شکایت ہو کہ میں نے پورے خط میں تمہیں نہیں پوچھا تو تم سے کلام تو بہتیرے وسیلوں سے ہو جاتا ہے، آج درد کا اور ہجر کا بیان تھا، سو اپنے تئیں وہی کیا۔
والسلام
ایک دلّی والا۔۔۔ (جو کبھی دلی نہ آسکا!)
The post پَرنانا جی کی نگری تک ۔۔۔ ، تم یہ ورقے لے کر ایک مرتبہ پرانی دلّی ضرور جانا۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.