عالمی صہیونیت کے فتنہ خیز منصوبے اور خطرات
مصنف: کموڈور(ر) طارق مجید
قیمت:1500روپے
ناشر:قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، لاہورکینٹ، رابطہ:03000515101
مصنف نے ایک طویل عرصہ پاک بحریہ میں بطور افسر گزارا۔ وہ اپنی فکری صلاحیتوں کی بنیاد سرزمین پاکستان کے ساتھ اپنے لگاؤ کو قراردیتے ہیں جبکہ قومی وبین الاقوامی امور میں تحقیق و تجزیے میں دسترس کا زیادہ کریڈٹ پاک بحریہ کو دیتے ہیں۔ بحریہ میں رہتے ہوئے وہ قلمی نام سے مضامین لکھتے رہے جو جرمن، برطانوی اور امریکی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔
کموڈور(ر) طارق مجید 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے علاوہ متعدد دوسرے غیرمعمولی واقعات کے تجربے سے گزرے۔1962ء میں انھوں نے ایک چھوٹے جنگی جہاز کی کمانڈ کرتے ہوئے بحرالکاہل میں جہاز رانی کی ، جب وہ انڈونیشیا کے علاقے مغربی ایریان (ڈچ نیوگنی) میں پاکستان کی امن فوج میں بحریہ کے دستے میں شامل تھے۔
1981ء میں اپنی شناخت چھپا کر سویت افغان جنگ کا ذاتی تجربہ حاصل کرنے کے لئے ننگرہار افغانستان میں گئے۔ پاکستان اور ملت اسلامیہ کے سنگین مسائل پر تحقیق اور غوروفکر کرتے ہوئے طارق مجید کو طاغوتی صہیونیت کا کھوج ملا کہ خدا اور انسان کی دشمن صہیونی ٹولی طویل منصوبہ بندی اور فریبی چالوں کے ذریعے ’’حکومتِ دنیائے واحدہ‘ قائم کررہی ہے اور یہ کہ اس کا بڑا ہدف اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دیگرمسلم ممالک ہیں، افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاںکے حکام، عوام اور خواص اس ٹولی کے وجود اور عزائم سے بے خبر ہیں۔
زیرنظرکتاب ایسے ہی عزائم ، منصوبوں کی مکمل اور تفصیلی خبر دیتی ہے۔ آٹھ ابواب پر مشتمل کتاب میں مصنف نے عالمی صہیونی فتنہ گروں اور دہشت گردوں کے چہرے سے پردہ ہٹایاہے۔ ڈینیل پرل کیس کا اسی خاص تناظر میں جائزہ لیاہے۔ نائن الیون کی واردات کی قلعی کھولی ہے، عالمی صہیونی منصوبہ کے تحت اگلی پاک بھارت جنگ کی خبر دی ہے اور یہ بھی بتایاہے کہ اس میں پاکستان فتح مند ہوگا لیکن کیسے؟ انھوں نے اس دوران ہونے والی صہیونی امریکی چالوں سے بھی خبردار کیاہے۔ کتاب میں اس سوال کا جائزہ بھی پوری تفصیل سے لیاگیاہے کہ پاکستان صہیونی ریاست اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرسکتا جبکہ آخر میں انھوں نے بتایاہے کہ اب پاکستانی قوم کے کرنے کے کیاکام ہیں؟
۔۔۔
کیرئیرپلاننگ گائیڈ
مصنف: یوسف الماس۔۔۔۔۔قیمت: 250 روپے
ناشر: ایجوویژن، اسلام آباد، رابطہ: 03335766716
یہ حقیقت تو ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان میں 70فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں لیکن اب تک یہ نہیں پتہ چل سکا کہ پاکستان میں کتنے لوگ یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ان کے سکول میں پڑھنے والے بچوں کے لئے مستقبل میں کون سا میدان بہتر رہے گا۔
جب بچوں کو شروع ہی سے ان کی صلاحیتوں کے مطابق اصل راستے پر گامزن نہیں کیاجائے گا تو ان کا مستقبل تباہ وبرباد ہی ہوگا، نتیجتاً ہمارا معاشرہ ایک بھیڑچال کا شکار رہے گا کہ ایک دور میں پوری قوم اپنے بچوں کو ڈاکٹرزبنانے کے چکر میں پڑجاتی ہے، جب انجینئرنگ کا غلغہ ہوتا ہے تو ساری نوجوان نسل انجینئر بننے کی طرف بھاگ اٹھتی ہے، کبھی پوری قوم اپنے بچوں کو اکنامکس کے میدان میں بھیجنے کے بخار میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ ا
س کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ کبھی ڈاکٹرز ضرورت سے زیادہ پیدا ہوجاتے ہیں اور کبھی انجینئرز اور کبھی ایم بی اے کی ڈگریاں لینے والے۔ جب والدین اپنے بچوں کی کیرئیرپلاننگ کرانے سے قاصر ہوں تو یہ ذمہ داری سرکاری سطح پر سرانجام دی جانی چاہئے لیکن ہمارے ہاں حکومتیں اپنی ہرذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کون اس قوم کے بچوں کی کیرئیرپلاننگ کرائے گا؟
جناب یوسف الماس ایک طویل عرصہ سے کیرئیر کونسلنگ، ایجوکیشنل ایڈوائزری کے شعبوں میں کام کررہے ہیں، معاشرے میں ایسے لوگوں کا دم غنیمت ہے۔ انھوں نے زیرنظرکتاب کی صورت میں طلبہ وطالبات کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے میں رہنمائی فراہم کی۔ نیچرل سائنسز، ایگریکلچرل سائنسز، مینجمنٹ سائنسز، میڈیکل اور الائیڈ ہیلتھ سائنسز، سوشل سائنسز، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیکنیکل اور ووکیشنل کے شعبوں کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ رہنمائی فراہم کی ہے کہ ان کا سکوپ کیاہے، ان میدانوں میں جانے کے لئے کس قسم کی صلاحیت وقابلیت کی ضرورت ہوتی ہے اور کیسے اور کہاں کہاں داخلہ لیاجاسکتاہے۔ کتاب میں ان شعبوں کا بھی تفصیل سے ذکرکیاگیاہے جو طالبات کے لئے نہایت موزوں ہیں۔
یہ کتاب سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کو پیش نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔اس میں450کیرئیرز کا تعارف کرایاگیاہے جبکہ مجموعی طور پر 780تعلیمی شعبوں کا ذکرکیاگیا ہے۔ اس قدر کم قیمت میں، اس قدرجامع اور مفصل کتاب کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
۔۔۔
دیوان سلام وکلام انیس
شاعر: میر ببر علی انیس۔۔۔۔قیمت:1200روپے
ناشر:بک کارنر ، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882
مشہور جرمن شاعرگوئٹے نے کہاتھا:’’ ادب میں کوئی صنف اس وقت تک عظیم نہیں بن سکتی جب تک کہ اس کا موضوع عظیم نہ ہو‘‘۔
میرانیس نے جس صنفِ شاعری مرثیہ کا انتخاب کیا، اس کا موضوع عظیم ترین ہے یعنی ’شہادت امام حسینؑ‘۔ انھوں نے اس موضوع پر اظہار کا حق ادا کردیا۔ میر انیس اردوشعروادب کے بعض تذکروں میں ’خدائے سخن‘ کہلائے جانے والے دو شعرائے کرام میں سے ایک ہیں۔ ان کا خاندان مدح شبیرؑ پر مامورتھا، ایک مصرعے میں انھوں نے بتایا کہ وہ اس فرض کو ادا کرنے والی پانچویں پشت سے ہیں۔ اس خاندان نے تقریباً تین صدیوں میں پہلے فارسی اور پھر اردو زبان کی ایسی خدمت کی کہ اس خاندان کی زبان مستند ، لب و لہجہ معتبر اور اس کا مقام شعر وادب کا گہوارہ بن گیا۔
الطاف حسین حالی نے کہاتھا:’’ الفاظ کو خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کرنے کو اگر معیارِکمال قراردیاجائے تو بھی میر انیس کو اردوشعرا میں سب سے بالاتر ماننا پڑے گا۔ میر انیس کے ہرنقطہ اور ہرمحاورہ کے آگے اہل زبان کو سرجھکانا پڑتاہے۔ اگرانیس چوتھی صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہوتے اور اسی سوسائٹی میں پروان چڑھتے جس میں فردوسی پلا بڑھا تھا ، وہ ہرگز فردوسی سے پیچھے نہ رہتے‘‘۔
زیرنظرکتاب ممتاز شاعر، محقق اور نقاد ڈاکٹر سید تقی عابدی کے مختلف مضامین پر مشتمل ہے۔ ’حیات ، فن اور شخصیت میر انیس‘، ’انیس مشاہیرشعروادب کی نظر‘ ، ’میرانیس کے سلاموں کا تجزیہ‘، ’سلام‘، ’نوحے‘، ’انیس کے مناجاتی اشعار اور شاہکار مناجات‘، ’مناجات‘، ’منقبت حضرت علیؑ‘، ’مخمس درمنقبت حضرت علیؑ ابن ابی طالب‘، ’میر انیس کی تضمینات‘، ’تضمینات‘، ’انیس کے متفرقات‘، ’مصحف خطوطِ انیس‘۔ آپ ان عنوانات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کتاب کس قدر اہم ہے طالبان علم کے لئے اور محبان سیدنا شبیرؑ کے لئے۔’بک کارنر‘ نے نہایت اہتمام سے یہ کتاب شائع کی ہے۔ یقینا اسے آپ کے کتب خانے کا حصہ ہوناچاہئے۔
۔۔۔
غیرملکی سیاحوں کی سیاحت کشمیر
مصنف: سیدسلیم گردیزی۔۔۔۔قیمت:500روپے
ناشر: مکتبہ جمال،اردوبازار، لاہور، رابطہ:03224786128
اس کتاب کا عنوان ہی اس کتاب کا مکمل تعارف ہے۔ مصنف آزادجموں وکشمیر حکومت میں ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ ایک اچھے مصنف اور محقق بھی ہیں۔کشمیر ان کی تحقیق وجستجو کا خاص میدان ہے، اس خطے کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ کشمیر کے حالات وواقعات پر ان کی ہرتصنیف کشمیر کے لئے ان کی محبت اور دل سوزی کی سچی تصویر ہوتی ہے۔ وہ ایک محب وطن کشمیری کی حیثیت سے قلم کا فرض ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ زیرنظرکتاب اسی فرض کی ادائیگی ہے۔ یہ کتاب کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ مرحوم احمدندیم قاسمی کی ان سطور سے بخوبی ہوتاہے جو انھوں نے اس کتاب کے بارے میں لکھیں:
’’ سلیم صاحب نے اس کتاب میں کشمیر کی تاریخ و تہذیب کے قریب قریب سبھی نقوش سمیٹ لئے ہیں۔ انھوں نے اس سلسے میں جس ژرف نگاہی کا ثبوت دیاہے وہ بہت کم محققین کو حاصل ہے۔ کشمیر کو پوری دنیا نے ’فردوس برروئے زمیں‘ قراردیا ہے مگر ہر دور میں اور بطور خاص بیسویں صدی اور اوائل اکیسویں صدی میں اس فردوس پر جن دوزخوں کے در کھولے گئے ہیں۔
وہ تاریخ کشمیر کے ہولناک اور عبرت ناک ابواب ہیں اور سلیم صاحب نے ہر صورت حالات کو کمال دیانت اور صداقت کے ساتھ بیان کردیاہے۔ زبان پر انھیں پوری قدرت حاصل ہے چنانچہ ان کی پوری تحریر دریا کی طرح رواں دواں ہے۔ میری رائے میں سلیم صاحب کا یہ کارنامہ ’’کشمیریات‘‘ میں ایک یادگار اور غیرفانی اضافہ ہے‘‘۔
سلیم گردیزی صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایاہے، یہ ایسا شعبہ ہے، آزادوجموں کشمیر کی حکومتیں اس پر توجہ دیتیں تو دنیا بھر کی توجہ اس خوبصورت خطہ کی طرف مبذول ہوتی، اور یہ خطہ ہمہ پہلو فوائد حاصل کرتا۔ افسوس کہ اس کا ادراک کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے یا عمل میں سستی کی گئی۔ بہرحال جناب سلیم گردیزی صاحب نے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم اس موضوع پر مزید لکھے جانے اور اس شعبہ کو انڈسٹری بنانے کی اشدضرورت ہے۔
۔۔۔
جنون سے عشق تک(ناول)
ناول نگار: سمیراشریف طور۔۔۔۔قیمت:1000روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، اردوبازار لاہور ،فون:042-37652546
ڈائجسٹوں کی دنیا سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے سمیراشریف طور کا نام ہرگزنیانہیں ہے۔ انھوں نے جب بھی قلم اٹھایا، قارئین کی بے پناہ دادوتحسین سمیٹی۔سبب یہ ہے کہ ان کی تحریریں حقیقی زندگی کی ترجمانی کرتی ہیں۔ وہ کردار نگاری کریں یا منظرنگاری ، واقعات بیان کریں یا جذبات واحساسات کی تصویر پیش کریں، ان کا انداز ہرجگہ سادہ اور رواں ہوتاہے۔ وہ بھاری بھرکم الفاظ اور پیچیدہ عبارت سے گریز کرتی ہیں اور اپنی علمیت کے اظہار کے لئے ایسے مشکل الفاظ کا انتخاب نہیں کرتیں جو پڑھنے والوں پر گراں گزریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں خاص وعام میں یکساں مقبول ہیں۔
زیرنظر ناول’’ جنون سے عشق تک‘‘ ان ہی اوصاف سے مزین ہے۔ اس میں عشق کی جنوں خیزی بھی ہے اور ہجر کی الم سامانی بھی۔ مصنفہ نے زندگی کے مسائل کو ہلکے پھلکے اندازمیں بیان کیا ہے۔ اس میں سماجی مسائل بھی ہیں اور الفت ومحبت کے جذبات بھی لیکن یہ محبت مشرقی اقداروروایات کی پاسدار ہے اور کہیں بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتی نظر نہیں آتی۔
اس ناول کے کردار ماورائی دنیا سے بھی تعلق نہیں رکھتے بلکہ انہی حالات وواقعات سے دوچار ہوتے ہیں جن کا سامنا ایک عام آدمی کو کرناپڑتاہے۔پڑھنے والا ابتداء ہی سے کہانی کے سحر میں ایسا گرفتار ہوتاہے کہ کہانی کی آخری سطر تک اس سحر سے آزاد نہیں ہوپاتا۔ اچھی کہانی کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو مدتوں یاد رہتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہانی بہت اچھی ہے۔’القریش پبلی کیشنز‘ بھی قابل تحسین ہے کہ ایسے اداروں کی بدولت اردو فکشن نہ صرف زندہ ہے بلکہ توانا ہے۔
۔۔۔
خوشحال خان خٹک سے خوشحال بابا
مصنفہ: رفاقت جاوید۔۔۔۔قیمت:500روپے
ناشر:القریش پبلی کیشنز، لاہور۔ فون:042-37652546
رفاقت جاوید معروف ناول نگار اور افسانہ نگار ہیں۔ اب تک دو درجن کے قریب ناول، افسانوں کے مجموعے اور تحقیقی کتابیں لکھ چکی ہیں۔انھوں نے کہانیاں بچپن ہی سے لکھنا شروع کردی تھیں، جوان ہوئیں تو شاعری اور افسانہ نگاری کے میدان میں کامیابی کے عَلَم لہرائے، اس دوران میں بھی بچوں کے لئے بے شمار کہانیاں لکھیں۔ ان کی ہرکتاب بتاتی ہے کہ اسے لکھنے والی کا مطالعہ کس قدر وسیع ہے اور انھیں لکھنے کا کس قدر ملکہ حاصل ہے۔
زیرنظرکتاب اُس خوشحال خان خٹک کے بارے میں لکھی جو اس پورے خطے میں بسنی والی اقوام بالخصوص پشتون قوم کے سروں کا تاج ہے، ایک دلیرسپہ سالار، عظیم دانشور اور شاعرِ بے بدل۔ وہ خوشحال خان خٹک جو اپنے دیوان کو ایک جوہری کی دکان قراردیتے تھے جہاں ہرقسم کے لعل، موتی، یاقوت اور الماس موجود ہوں۔ اپنے شعروں میں وہ کہتے تھے: ’’دانت نکل گئے ہیں اور داڑھی سفید ہوگئی، اس کے باوجود باز ہاتھ میں لئے پہاڑوں میں پھرتارہتاہوں۔
میں نے پشتو شعر میں سلیقہ پیدا کیا ورنہ پشتو شعر تو کسی کا مقابلہ نہیں کرسکتاتھا۔ مجھے جو یہ شاعری میں گویا کیا تو شاید خداوند پاک پشتونوں کو سمجھاناچاہتاتھا۔ میرے بعد جو لوگ شعربازی کریں گے تو وہ مجھ سے بہترہوجائیں گے‘‘ (اردوترجمہ)۔زیرنظرکتاب کا نصف حصہ خوشحال خان خٹک کا تذکرہ حیات ہے جبکہ باقی ماندہ نصف ان کی شاعری کے انتخاب(جس کا اردوترجمہ دیاگیاہے) پر مشتمل ہے، یہ ترجمہ پروفیسر پریشان خان خٹک نے کیا۔
مصنفہ نے ایک ایسے وقت میں یہ قابل قدر کام کیا ہے جب عام لوگ بالخصوص نوجوان نسل اپنے ہیروز کو بھولتی جارہی ہے اور پڑھنے والوں کا دائرہ بھی تنگ سے تنگ تر ہورہاہے۔ایسے میں موجودہ پڑھنے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس تنگ ہوتے دائرے کو وسعت دیں، زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو اس طرف راغب کریں، انھیں مطالعہ کتب کے لطف سے آشنا کریں۔ رہی بات اس کتاب کی، یہ تاریخ کے طلبہ وطالبات کے لئے شاندار تحفہ ہے۔
۔۔۔
نئی اردوقواعد
مصنف: عصمت جاوید۔۔۔۔۔قیمت:600روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882
ایک عرصہ سے اردو میں ایک ایسی توضیحی قواعد لکھے جانے کی ضرورت تھی جس میں اردوزبان کی توضیح لسانیات کی روشنی میں کی گئی ہو۔ دیگرعلوم کی طرح قواعد کی ایجاد کا سہرا بھی یونان کے سر ہے۔ ابتدا میں قواعد ’علم زبان‘(فلالوجی) کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے فنِ خطابت، مطالعہ ادبیات اور فلسفہ و منطق کی ایک شاخ تھی لیکن لسانیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ اسی کا حصہ بنتی گئی اور آج وہ لسانیات کا ایک جزولاینفک ہے۔ یورپ میں ساختی قواعد اور تبادلی قواعد نے فن قواعدنویسی میں ایک انقلاب پیدا کردیا اور آج قواعد ’ آرٹ‘ کے دائرے سے نکل کر’ سائنس‘ میں قدم رکھ چکی ہے۔
ہمارے یہاں اردوقواعد پر درسی کتابوں کی کمی نہیں لیکن ان میں اکثرعربی قواعد کے نمونے پر لکھی گئی ہیں اور ان میں اکثر ایسی قواعدی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جو عربی قواعد کے لئے موزوں ہیں۔ تاہم زیرنظرکتاب اس پہلو کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، صوت، صرف، نحو ، مشتقات ومرکبات اور فہرست اصطلاحات۔ کتاب اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس میں آپ کو اردو میں پہلی بار نئے مباحث ملیں گے۔اس میں لسانی اصطلاحات کے اردو ترجمے کے سلسلے میں ترقی اردوبورڈ کی مجوزہ اصطلاحات کو پیش نظر رکھاگیاہے اور ان اصطلاحات کی اردو انگریزی اور انگریزی اردو فرہنگیں بھی مرتب کرکے کتاب کے آخر میں شامل کردی گئی ہیں۔کتاب اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے ایک شاندار تحفہ ہے۔
۔۔۔
نا م:سلطان محمد تغلق، تاریخ کے آئینے میں
مصنف: پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی
قیمت:800روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882
سلطان محمد بن تغلق ایک ایسا فرمانروا تھا جو ازمنہ وسطیٰ کا قابل ترین شخص تھا۔ وہ سمندرجتنا علم رکھتا تھا، اس زمانے کے تمام علوم وفنون کا ماہر۔ بلا کا حافظہ اور یادداشت رکھتا تھا، نہ صرف قرآن مجید کا حافظ تھا بلکہ صحاح ستہ اور ہدایہ کا بھی۔ نغزگوشاعر، فنون لطیفہ کا دلدادہ، تصوف، فلسفہ، طبیعیات، ریاضیات، فلکیات، خطاطی اور انشاپردازی میں یدطولیٰ رکھنے والا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء اس کے سامنے آنے سے جھجھکتے تھے۔
علم طب سے بھی خاص شغف تھا، مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے علاج سے شفا پائی۔ اپنی قوت گویائی، جدت طبع اور شائستگی کی وجہ سے ’’نادرہ روزگار‘‘ کہلایا۔ اب ذرا ٹھہریے اور جائزہ لیجئے کہ آج یا ماضی قریب کے کس حکمران میں اس قدر خصوصیات پائی گئیں۔ ماضی کے قریباً تمام حکمران اسی طرح زندگی کی مختلف شعبوں میں خوب علم وفضل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام روشن ہے۔
سلطان محمد بن تغلق مذہب کا بڑا پابند مگر متعصب بالکل نہیں تھا۔ انصاف میں کسی کی رُو رعایت نہ کرتا تھا، اپنے فکروشعور کے لحاظ سے وہ اپنے زمانے سے بہت آگے تھا۔ سلطنت دہلی کے کسی بادشاہ کے متعلق مورخین میں اس قدر اختلاف رائے نہیں جتنا کہ اس کے بارے میں ہے۔ کچھ مورخین اس کو پاگل اور خونی لکھتے رہے مگر ان کی یہ رائے غلط ہے۔ اس کے منصوبوں اور مہمات کے بارے میں بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ تاہم عہد جدید کی تاریخی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ نہ وہ دیوانہ تھا اور نہ اس کی مہمات دورازکار اور ہوشمندی کے منافی تھیں۔
زیرنظرکتاب کے سترہ ابواب میں سلطان محمد بن تغلق کے مکمل حالات زندگی اور اس کی تمام تر مہمات کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ کتاب آج کے چھوٹے ، بڑے تمام حکمرانوں اور منتظمین کو ضرور پڑھنی چاہئے، اس میں بہت سے سبق ہیں سیکھنے کے لئے۔
۔۔۔
نا م:تاشقند سے استنبول(سفرنامہ)
مصنف: الطاف احمد عامر
قیمت:700روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882
ایک انسان دوسرے انسان سے سیکھتاہے ، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ وہ دوسرے کے اچھے پہلوؤں پر رشک کرتا ہے اور بُرے پہلوؤں سے عبرت پکڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی اندازمیں ارتقا کا سفر طے ہوتاہے۔ اس دنیا میں جن اقوام کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں، انھوں نے بھی اسی طرح دوسروں سے سیکھ کر ہی ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل کی، آج کی غیرترقی یافتہ اقوام بھی انہی ترقی یافتہ اقوام سے سیکھ کر اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔
تاشقند، بخارا، سمرقند، قونیہ اور استنبول، ان تمام علاقوں پر مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی اور یہ تمام شہر صدیوں تک علم وادب، سائنس، فلسفہ اور آرٹ کے مراکز رہے۔ یہاں ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے علم وفضل، دانش و تصوف اور فلسفہ وفن سے دنیا بھر کو متاثرکیا۔ یہیں سے علوم دینیہ کی بڑی بڑی ہستیاں خدمت اسلام کے لئے اٹھیں جن کے افکار سے آج بھی قلوب واذہان میں روشنی ہوتی ہے۔
مصنف جو اپنا شمار تاریخ کے طلبا میں کرتے ہیں، کو کچھ عرصہ پہلے مذکورہ بالا تاریخی اور خوبصورت علاقوں کی سیر کا موقع ملا۔ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتے ہیں کہ اس سفر میں ان کے ساتھ قاسم علی شاہ تھے جن کی گفتگوؤں سے وہ بہت متاثر ہیں۔ اسی اعتبار سے انھوں نے زیرنظرکتاب کا عنوان متعین کیا:’’ تاشقند سے استنبول، سیاحت کے رنگ قاسم علی شاہ کے سنگ‘‘۔
کتاب اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے کہ پڑھنے والے تاشقند سے استنبول تک ، کے باسیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ انھوں نے ازبک لوگوں کے رہن سہن کا تذکرہ کیا، ان کی ترقی کی بات کی، استنبول کے باسیوں کی خوبصورت زندگی کو باریک بینی سے دیکھا اور تفصیل سے بیان کیا۔ ازبک اور ترک، دونوں اقوام کی انسانی ترقی، تعلیمی پیش رفت، وقت کی پابندی، نظافت، نفاست اور رواداری جیسے اوصاف سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ اس سلسلہ کی پہلی شرط زیرنظرکتاب کامطالعہ ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.