نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔ فلموں کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ فلمیں ہماری زندگیوں پر اس طرح اثرانداز ہوتی ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا۔
فلمیں ہماری زندگی کا انتہائی اہم اور لازمی جز بن گئی ہیں۔ سنیما اور فلمیں ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہوگئی ہیں کہ اب ان کے بغیر گزارہ بڑا مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں کی صنعت ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کرتی جارہی ہے اور اب یہ انڈسٹری صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے، جہاں ہر روز کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اربوں ڈالر کا منافع حاصل کیا جاتا ہے۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ کون فلمیں دیکھتا ہے اور کون نہیں، یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر انسان فلمیں دیکھتا ہے چاہے وہ ماہانہ لاکھوں کمانے والا شخص ہو، یا ہوٹل پر چائے بیچنے والا آدمی۔ بڑی عمر کے افراد ہوں یا نوعمر لڑکے۔ گھریلو خواتین ہوں یا ورکنگ وومن یہاں تک کہ کم عمر بچے بھی بڑے شوق سے کارٹون یا اینیمیٹڈ فلمیں دیکھتے ہیں۔
ہر عمر اور جنس کے افراد کی فلموں تک بہ آسانی رسائی ہوتی ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلمی صنعت جدید معاشرے میں سب سے زیادہ متاثر کن شعبے میں سے ایک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود ہمارے ذہنوں اور زندگیوں پر فلموں کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور فلمی کردار ہماری زندگیوں میں اس طرح شامل ہوجاتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگ فلم کے کسی کردار سے متاثر ہوکر بالکل ان جیسا نظر آنے کی یا فلم کے کسی سین سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کو اس سین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کس طرح کی فلموں کا اثر انسانی زندگی پر زیادہ گہرا ہوتا ہے، جس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ جس طرح ہر انسان کا مزاج ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے بالکل اسی طرح مختلف موضوعات کی فلمیں ہر انسان پر اپنا الگ اثر چھوڑتی ہیں۔ مثلاً مزاحیہ فلمیں دیکھ کر انسان تھوڑی دیر کے لیے اپنے غم اور مشکلات بھول جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مزاحیہ فلمیں دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔ لیکن سائیکلوجیکل تھرلر یعنی نفسیاتی اور سنسنی خیز موضوعات پر مبنی فلمیں ہمیں دنیا کو ایک الگ نقطۂ نظر سے دیکھنے میں مدد دیتی ہیں۔
تاریخ پر مبنی فلموں سے ہمیں تاریخ کے ان اوراق کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو ہم سے پوشیدہ ہیں۔ لہٰذا ہر فلم انسان اور معاشرے پر نہایت گہرا اثر ڈالتی ہے اور بعض صورتوں میں تو ذہن کو تبدیل کرنے اور معاشرے کے سدھار یا بگاڑ میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فلموں کے انسانوں اور معاشرے پر پڑنے والے انہی اثرات کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سنیما اور فلمیں بہت ہی طاقت ور میڈیم ہیں جو لوگوں کی سوچ اور ان کی زندگیوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں بہت سے لیڈرز اور سیاسی شخصیات نے اپنی مفادات حاصل کرنے کے لیے سنیما کی طاقت کو استعمال کیا اور لوگوں کی سوچ کو تبدیل کیا۔ مثال کے طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر اور اسٹالن نے فلموں کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا اور کام یاب رہے۔
ایسے متعدد طریقے ہیں جن کے ذریعے فلمیں معاشرے اور ہماری دنیا کو متاثر کرتی ہیں، ان میں سے کچھ منفی ہیں اور کچھ مثبت۔ اچھی فلمیں ہمیشہ لوگوں پر مثبت اثرات چھوڑتی ہیں، جب کہ تشدد اور ماردھاڑ پر مبنی فلمیں معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ سنیما انڈسٹری بہت بڑی ہے اور چوںکہ فلمیں ہماری زندگی کا بہت بڑا حصہ بن چکی ہیں، اس وجہ سے سنیما نے ہمارے معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے وہ بہت گہرے ہیں۔
فلموں کے ذریعے تاریخ اور ثقافت کے بارے میں معلومات میں توسیع
تاریخ پر مبنی فلمیں اپنے دیکھنے والوں پر بہت گہرے نقوش چھوڑتی ہیں اور بعض صورتوں میں تو شائقین کے لیے تاریخ کا وہ سبق ہوتی ہیں جو انہیں کتابوں میں سمجھ نہیں آتا۔ اس کی بہترین مثال 2001 میں ریلیز ہونے والی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’’گلیڈی ایٹر‘‘ (Gladiator) ہے۔ ’’گلیڈی ایٹر‘‘ اپنے وقت کی بہترین فلم مانی جاتی ہے۔ اگرچہ اس فلم کی کہانی کا بہت سارا حصہ افسانوی ہے۔
مثال کے طور پر فلم میں دکھائی گئی محبت اور انتقام کی داستان کو کہانی کے مطابق فلم میں شامل کیا گیا ہے، حالاںکہ اس کا اصل کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ فلم میں رومن امپائر اور سیاسی صورت حال کو اس بہترین انداز میں فلمایا گیا ہے کہ یہ سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ اُس دور میں لوگوں کا رہن سہن کیسا ہوتا ہوگا۔ یہ فلم دیکھ کر نہ صرف رومن ثقافت کے بارے میں وسیع معلومات حاصل ہوتی ہیں، بلکہ سلطنت روم کی ثقافت کو سمجھنے میں بھی بے حد مدد ملتی ہے۔ فلم ’’گلیڈی ایٹر‘‘ آسکر کی7 کیٹگریز کے لیے نام زد ہوئی تھی اور 5 ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب ہوئی تھی۔
ایک ریسرچ کے مطابق بعض اوقات لوگ فلموں اور ان میں دکھائے جانے والے کرداروں سے اس حد تک متاثر ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل میں اپنے پسندیدہ کرداروں کی طرح نظر آنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے اور لوگ فلموں میں دکھائے گئے کرداروں کی طرح نظر آنے کے لیے نہ صرف ان کی طرح حلیہ بنالیتے ہیں بلکہ ان ہی کی طرح بولتے اور حرکتیں کرتے ہیں۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ اپنے پسندیدہ کرداروں کی طرح نظر آئیں گے ان کی طرح بولیں گے، چلیں گے تو جس طرح لوگ فلموں کے کرداروں کو پسند کرتے ہیں اسی طرح انہیں بھی کریں گے۔ اس کی بہترین مثال بولی وڈ اداکار شاہ رخ خان، سلمان خان وغیرہ ہیں۔ لوگ ان اداکاروں سے اتنے زیادہ متاثر ہیں کہ ان کی طرح نظر آنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف اشتہاری کمپنیاں مشہور کرداروں کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے استعمال کرتی ہیں کیوںکہ انہیں معلوم ہے کہ لوگ اپنے پسندیدہ کرداروں کے لیے اس حد تک دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کی طرح دکھنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
ہالی وڈ کے مشہور اداکار جانی ڈیپ (Johnny Depp) کے مداح صرف امریکا میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہیں جن کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ مداح اداکار جانی ڈیپ کی ایک ایک حرکت کو نہ صرف نوٹ کرتے ہیں بلکہ اصل زندگی میں اسے اپنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں لوگوں کی اس نفسیات سے واقف ہیں اس لیے وہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے مشہور اداکاروں کو استعمال کرتی ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ اگر جانی ڈیپ ٹی وی پر آکر ایک مشہور مشروب کا صرف ایک گھونٹ ہی لے لیں تو ان کے کروڑوں مداح ان کی طرح نظر آنے کے لیے بہت بڑی تعداد میں اس مشروب کا کین خریدیں گے جس سے ان کی مصنوعات کی فروخت بڑھے گی اور کمپنی کو فائدہ ہوگا۔ حالاںکہ جانی ڈیپ اشتہاری فلم میں صرف ایک کردار اداکر رہے ہیں اور اپنے کردار کو نبھانے کے لیے انہوں نے مشروب کا ایک گھونٹ ہی لیا، لیکن لوگوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوںکہ جانی ڈیپ اس طرح لوگوں کے ذہنوں پر سوار ہیں کہ لوگ بغیر کچھ سوچے سمجھے ان کی تقلید کرتے ہیں اور اسی بات کا فائدہ اشتہاری کمپنیاں اٹھاتی ہیں۔
فلموں میں دکھائی جانے والی ٹیکنالوجی کے لوگوں پر اثرات
فلمیں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔ لہٰذا مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے فلموں کا استعمال کرتی ہیں اور پروڈکشن ہاؤسز کو پیسے ادا کرتی ہیں تاکہ ان کی پروڈکٹس فلم میں دکھائی جائیں۔ اس کی مثال فلم ’’نرو‘‘ Nerve ہے۔ اس فلم میں اداکار ڈیو فرانکو (Dave Franco) اور ایما رابرٹس (Emma Roerts) نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ فلم میں جا بجا ایک مشہور کمپنی کے موبائل فون کی تشہیر کی گئی تھی۔ آپ کئی جگہوں پر فلم کے مختلف کرداروں کے ہاتھوں میں مخصوص کمپنی کا موبائل فون دیکھ سکتے ہیں۔
اس فلم کو لاکھوں لوگ سنیما میں دیکھنے گئے ہوں گے جن میں سے بہت سے لوگوں کے دل میں فلم کے کرداروں کو دیکھ کر وہ موبائل فون لینے کی خواہش جاگی ہوگی اور لوگوں نے سوچا ہوگا کہ یہ فون فلم کے کردار کے ہاتھ میں کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ اگر میں یہ فون خریدوں گا تو میرے ہاتھ میں بھی یہ فون اتنا ہی اچھا لگے گا۔
فلموں کے لوگوں خصوصاً نوجوان نسل پڑنے والے منفی اثرات
فلموں کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے لوگوں پر مثبت سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، خصوصاً نوجوان نسل فلموں میں دکھائے جانے والے تشدد اور منفی کرداروں کا گہرا اثر لیتی ہے اور ان کی طرح نظر آنے کی کوشش میں اکثر اوقات اپنا اور معاشرے کا نقصان کر بیٹھتی ہے۔ 2012 میں امریکی ریاست کولوراڈو (Colorado) کے ڈینور شہر (Denver City) میں اپنی طرز کا انتہائی انوکھا اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جب جیمز ہومز (James Holmes) نامی نوجوان نے ایک تھیٹر میں آدھی رات کے وقت فائرنگ کرکے12 لوگوں کو قتل اور 70 لوگوں کو زخمی کردیا۔
تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ جیمز ہومز ’’سپر ہیرو‘‘ فلموں کا بہت بڑا مداح ہے اور اس کا پسندیدہ سپر ہیرو ’’بیٹ مین‘‘ تھا۔ ماہر نفسیات آج تک سمجھ نہیں سکے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز تھی جس نے جیمز ہومز کو اتنی زیادہ تعداد میں لوگوں کا قتل کرنے اور انہیں زخمی کرنے کے لیے اکسایا۔ اس کیس کے حوالے سے کئی نظریات (تھیوریز) پیش کی گئیں۔ ایک تھیوری کے مطابق جیمز ہومز فلم ’’دی ڈارک نائٹ رائزز‘‘ کو بنائے جانے پر شدید غصہ تھا اور اس کا ماننا تھا کہ اس فلم نے اس کی پسندیدہ کامک بک (comic book) کو ناپاک کردیا ہے۔ ایک اور تھیوری کے مطابق اس نے فلم کے ولن جوکر سے متاثر ہوکر لوگوں کا قتل کیا جو تشدد کے ذریعے انتشار اور دہشت پھیلانا چاہتا تھا۔ فلم کے مطابق جوکر عام لوگوں کو حقیقی انسان نہیں سمجھتا تھا اور جیمز ہولمیس نے بھی تحقیقات کے دوران بالکل یہی الفاظ کہے تھے کہ جن لوگوں کو میں نے مارا ’’وہ حقیقی انسان نہیں تھے۔‘‘
اگرچہ یہ مبالغہ آرائی پر مبنی مثال ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ دنیا بھر میں نوجوانوں میں فلموں میں دکھائے جانے والے تشدد کا بہت ہی گہرا اثر ہوتا ہے اور یہی چیز ان میں تشدد کو ابھارتی ہے۔ 1971 میں فلم ’’اے کلاک ورک اورنج‘‘(A clockwork Orange) ریلیز ہوئی تھی اور اسی سال امریکا میں جرائم کی شرح میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
اس فلم میں چار نوجوان لڑکوں پر مشتمل ایک گینگ کو دکھایا گیا ہے جو اپنے مزے کے لیے لوگوں پر تشدد کرتے ہیں ، انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں، چوری اور لوٹ مار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اس گینگ کا سربراہ الیکس ڈی لارج (Alex DeLarge) ایک خاتون کا قتل تک کردیتا ہے۔ یہ اپنے وقت کی تشدد اور جرائم سے بھرپور فلم تھی جس نے لوگوں پر کافی گہرے اثرات چھوڑے۔
اسی طرح بہت سے نوجوان فلمیں دیکھ کر سگریٹ نوشی کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بڑے اسٹوڈیوز کی تمباکو نوشی کے حوالے سے پالیسیز نافذ ہوتی ہیں جس کے مطابق فلموں میں تمباکو اور سگریٹ نوشی کا استعمال نہیں دکھایا جائے گا، کیوںکہ فلموں میں دکھائی جانے والی سگریٹ نوشی نوجوانوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور وہ فلموں میں کرداروں کو سگریٹ نوشی کرتے دیکھ کر سوچتے ہیں کہ سگریٹ نوشی کرنا ٹھیک ہے۔
سنیما ایک آرٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سنیما دنیا بھر میں سب سے زیادہ متاثر کن شعبہ ہے۔ بہت سارے لوگ خوب صورت عمارتوں اور مجسمہ سازی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن فلمیں ہر جگہ موجود ہیں بہت سارے لوگ فلمیں دیکھتے اور انہیں پسند کرتے ہیں۔ فلمیں ہمارے معاشرے پر مثبت اور منفی دونوں طرح سے اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ نہ صرف معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ ہماری معلومات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور دنیا بھر کی ثقافت اور رہن سہن کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ دوسری جانب فلمیں تشدد اور بری عادتوں کو ابھارتی ہیں، لوگوں کی لالچ کو جگاتی ہیں اور لوگوں تک ایک برا پیغام پہنچانے کا باعث بنتی ہیں۔
سنیما میں بیٹھے لوگ اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ پردے پر دکھائی جانے والی یہ دنیا ہماری حقیقی دنیا سے بالکل مختلف ہے لیکن اس کے باوجود وہ فلموں کا اثر لیتے ہیں اور عملی طور پر اپنی زندگی کو فلموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا جہاں لوگوں کو فلم اور حقیقی زندگی میں امتیاز کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہیں فلم ساز اور پروڈکشن ہاؤسز کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی فلمیں بنائیں جو لوگوں تک مثبت پیغام پہنچائیں نہ کہ لوگوں میں بے چینی اور تشدد کو ابھاریں اور معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنیں۔
The post فلم اور ہم appeared first on ایکسپریس اردو.