قسط نمبر73
’’ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا!‘‘ بابا جی نے درست فرمایا تھا۔ فقیر اب تک ’’وہی ڈھاک کے تین پات ہی ہے‘‘ سُدھرے گا یا سدا کا غبی رہے گا، نہیں معلوم۔ فقیر نے ہمیشہ کی طرح پھر غلط کہہ دیا جی! ڈھاک تو بہت کارآمد شجر ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کے درخت میں صرف تین پات ہوتے ہیں، بہت ہوتے ہیں لیکن تین پتّے ایک ساتھ پیوست ہوتے ہیں، اس میں پُھول بھی کِھلتا ہے جسے ٹیسو کہتے ہیں جو ادویات میں استعمال ہوتا اور خلق خدا کے کام آتا ہے۔ بہت بھلا ہے جی ڈھاک تو۔ دیکھیے یہ کیا یاد آگیا!
جھوٹی تو ہوتی نہیں کبھی بھی سانچی بات
جیسے ٹہنی ڈھاک ماں لاگے نہ چوتھا پات
چلیے! فقیر ڈھاک سے خود کو تشبیہ دینے پر اس سے معذرت چاہتا ہے جی! لیکن ایسا نہیں ہے کہ فقیر نے کبھی سوچا ہی نہ ہو، سوچا بہت پَر پلّے کچھ نہیں پڑا، افسوس۔ اب اس میں کسی کا کیا دوش! تو ہاں بابا جی نے درست فرمایا تھا ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چھپا ہے، فقیر بھی دیکھے گا آپ بھی سوچیں۔ فقیر نے خانہ بہ دوشوں کے متعلق آپ کو بتایا تھا کہ انہیں کہیں قرار نہیں کہ پاؤں میں گردش بندھی ہوتی ہے ان کے تو، اور اگر وہ کہیں ٹھہر جائیں تو بس سمجھیے گئے کام سے۔ وہ خانہ بہ دوش بھی مجھے یہیں کراچی میں ملے تھے۔
شہر آزردہ کو جلتا سورج کالی چادر پہنا کر دوسری سمت جا نکلا تھا۔ کالی رات اور گہری ہوچکی تھی۔ فقیر ایک سنسان شاہ راہ پر رواں تھا، جو بہ ظاہر خوب صورت مگر بھیانک بستی کو دو حصوں میں بانٹ رہی تھی۔ مشینی جانوروں جیسی لیکن پُرآسائش گاڑیاں تیزی سے گزرتی اور دُور چلے جانے پر نقطہ بن کر تحلیل ہوجاتیں۔ دونوں اطراف کے پُرتعیش محلات کے آہنی دروازوں پر ’’کُتّوں سے ہوشیار‘‘ کے کتبے آویزاں تھے اور مسلح محافظ چوکس کھڑے تھے۔
ان محلات کو دیکھتے ہوئے بے کس و بے بس خلق خدا کو اپنی محرومیوں کا شدّت سے احساس ہوتا ہے لیکن وہ کچھ بھی تو نہیں کر پاتے۔ انہی محلات میں بینکوں کے کروڑوں روپے ہضم کر جانے والے مگر مچھ رہتے ہیں، وہ ’’معزز‘‘ بھی ہیں اور ’’اہم‘‘ بھی، اور عوام تو کیڑے مکوڑے ہیں بل کہ ان سے بھی بدتر۔ فقیر اپنے اندر کے طوفان سے برسرِپیکار اپنی دھن میں اُن کے قریب سے گزر چکا تھا، لیکن مجھے واپس پلٹنا پڑا اور پھر میں اُن کے سامنے تھا۔
لمبا سا بوسیدہ کوٹ پہنے، اپنے قد کے برابر لاٹھی کے سہارے وہ سڑک کے کنارے بہ مشکل چل رہے تھے۔ پھر مکالمہ شروع ہوا: میرا نام شیر محمد ولد میر محمد ہے۔ میں سبّی بلوچستان میں پیدا ہوا۔ سچّا آدمی ہوں، ہم بہت غریب لوگ ہیں، ہماری زمین ہے نہ مکان، ہم تو خانہ بہ دوش تھے۔ آج یہاں کل وہاں، اﷲ سائیں کی ساری دھرتی اپنی جو ہے۔ ہم تین بھائی تھے، بہن نہیں تھی، دو بھائیوں کا انتقال ہوگیا اور میں اکیلا بچ گیا، اچھا تھا کہ میں بھی مرجاتا۔ خیر چھوڑو! میرے والد بہت غیرت مند انسان تھے اور تمہیں معلوم ہے وہ کام کیا کرتے تھے؟ وہ ریچھ پالتے تھے۔ ہاں جسے آپ لوگ مداری کہتے ہیں۔ وہ بھکاری نہیں بل کہ غیرت مند تھے۔
تماشا دکھایا، ایک ڈبہ ہوتا تھا زمین پر رکھا ہوا، لوگ خود اس میں پیسے ڈال دیتے تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ آپ سرکس کے بازی گر کو بھکاری تو نہیں کہہ سکتے، اسے فنکار کہتے ہو، تو میرے والد بھی بھکاری نہیں فنکار تھے، اور تمہیں معلوم ہے فنکار کی زندگی کیا ہے؟
ایک وقت کھانا دوسرے وقت فاقہ۔ بس یہی تھی ہماری زندگی۔ چھوٹی سی جھونپڑی تھی اور ہماری ہی کیا وہاں تو سب کی جھونپڑیاں تھیں، کوئی پکے مکان نہ تھے پھر وہاں چھوٹے شہر ہیں، ہر شہر میں کچھ دن بسیرا کرنا اور اگلے شہر کوچ کرجانا ہماری زندگی تھی اور بھلی تھی، اس طرح ہم نے ہر گھاٹ کا پانی پیا۔ مجھے پڑھنے کا شوق تو تھا لیکن میرے والد نے کہا ہم خانہ بہ دوش ہیں بیٹا شیر محمد چھوڑو، ہماری قسمت میں ہی پڑھائی نہیں ہے، چلو میرے ساتھ یہ کام سیکھو۔ اس طرح میں بچہ جمورا بن گیا، یہ جو میں اتنی اچھی باتیں کررہا ہوں یہ میں نے وہیں سے سیکھیں۔ میں پڑھے لکھوں سے اچھی زبان جانتا ہوں حالاں کہ دیہاتی، گنوار، جاہل اور ان پڑھ ہوں۔
ہم نگری نگر گھومتے بس یہی تھی ہماری زندگی، لوگوں کو ہنسانا اور ریچھ کو نچانا۔ ریچھ ہی اچھا ہے کہ خود ناچتا اور انسان کا پیٹ بھرتا ہے۔ پھر ایک بہت بڑا حادثہ ہوگیا، ہاں میں اپنی ماں کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ بیمار ہوگئی۔ ہمارے جیسوں کے پاس کہاں اچھی خوراک ہے؟ میری ماں بہت صابر تھی، بیمار رہی اور ہمیں تنگ بھی نہیں کیا اور چُپ چَاپ اﷲ سائیں کے پاس چلی گئی۔
آخر وہ کب تک غربت کا چرخا کاتتی۔ وہ انسان تھی ہم نے اسے دفن کیا، دو چار دن رونا پیٹنا اور پھر وہی پیٹ کا دوزخ بھرنے لگے۔ میں نے اپنی ماں اور باپ کو کبھی لڑتے نہیں دیکھا۔ ان میں مثالی محبّت تھی۔ میرا باپ جب رات کو گھر واپس آتا تو میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خود دھوئے ہوں، میری ماں اس کے ہاتھ دھلاتی، اسے کھانا دیتی اور خود آخر میں کھاتی وہ واقعی ماں تھی۔ اُن کی وفات کے بعد ابّا کا دل نہیں لگتا تھا، تماشا دکھاتے دکھاتے وہ نہ جانے کدھر گم ہوجاتا تھا اور مجھے بتانا پڑتا تھا کہ ابّا ہم کھیل دکھا رہے ہیں۔ رفتہ رفتہ ابّا کی یہ عادت بن گئی اور ہمیں لوگوں کے مذاق کا نشانہ بننا پڑا۔ ایک دن میں نے سوچا کب تک خانہ بہ دوش رہوں گا، سوچا بلوچستان سے نکلو کہیں اور چلو۔ میں جوان تھا اور باپ کا سہارا بننا چاہتا تھا۔ بہت دن سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کراچی چلتے ہیں۔
کچھ رقم جمع کی اور والد کو لے کر کراچی آگیا۔ اس وقت اس کلفٹن کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا یہ ویران سنسان جنگل تھا، ہم نے یہاں آکر جھونپڑی بنائی، باپ کو گھر چھوڑا اور ریچھ لے کر لوگوں کو تماشا دکھانے لگا۔ اجنبی شہر تھا لیکن رفتہ رفتہ میں یہاں کا رنگ سمجھ گیا، ہم نے جہاں جھونپڑی بنائی تھی وہاں اور جھونپڑیاں بھی تھیں، ہمارے برابر والی جھونپڑی میں ایک آدمی رہتا تھا، بہت بھلا آدمی اس کی دو بیٹیاں تھیں، میں گھر پر نہیں رہتا تو اس کی بیٹیاں میرے والد کی دیکھ بھال کرتیں۔ میں صبح تماشا دکھانے نکلا اور وہ مٹھائی بیچنے۔ یہ وہ والی مٹھائی نہیں جو دکانوں پر بکتی ہے بل کہ اس کے پاس ایک موٹا سا بانس تھا۔
اس پر لیس دار مٹھائی بناکر لپیٹ دیتا تھا جو بچے خریدتے تھے۔ شام کو ہم دونوں واپس گھر پہنچتے اس طرح ہم میں قربت پیدا ہوگئی۔ ایک دن میرے والد نے مجھے کہا کہ تم شادی کرلو میں نے پوچھا کس سے؟ انہوں نے بتایا تو میں نے حامی بھرلی اور میرے والد نے ان سے رشتہ مانگ لیا۔ وہ مجھے جانتے تھے، مان گئے اور پھر میری شادی ہوگئی۔ تم اسے حادثاتی شادی کہہ سکتے ہو۔
میری بیوی بھی بہت اچھی ہے، اس نے میرے والد کی بہت خدمت کی۔ ایک دن ابّا کی طبیعت خراب ہوگئی اور اُن کا انتقال ہوگیا تو رب کی امانت دھرتی کے حوالے کردی۔ میرے سسر نے مجھے ایک دن کہا کہ تم مداری کا کام چھوڑو اور میرا والا کام سیکھ لو۔ میں نے اپنے ریچھ فروخت کردیے۔ سچ پوچھو تو مجھے اپنا آبائی پیشہ چھوڑتے ہوئے بہت دُکھ تھا لیکن اب کون دیکھتا ہے مداری کا تماشا اس لیے میں آمادہ ہوگیا اور پھر وہی مٹھائی بیچنے لگا۔
اﷲ نے میری مدد کی اس نے مجھے چار بچوں سے نواز سب سے بڑی بیٹی اور پھر تین چھوٹے بیٹے پھر شہر ترقی کرکے بلند بالا عمارتوں اور فلیٹوں میں بدلنا شروع ہوگیا۔ اس شہر نے آسمان کو چُھوتی عمارتیں بنانے میں ہی ترقی کی۔ ورنہ تو یہاں انسانیت نے جو ستم دیکھے ہیں وہ کسی اور شہر نے نہیں دیکھے ہوں گے۔
یہاں انسان نے انسان کا گلا کاٹا، بارود برسا کر معصوم لوگوں کو خون میں نہلایا گیا، میں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے … سارے ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں، اﷲ وہ دن کبھی نہ دکھائے۔ پھر یہ ہوا کہ جہاں ہماری جھونپڑی تھی وہاں فلیٹ بن گئے اور میں نے یہاں قریب ہی ایک چھوٹا سا کوارٹر کرائے پر لے لیا۔ میں نے اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرایا اور خود بہت محنت کی، اﷲ نے مدد بھی کی، بچے پڑھنے لگے۔ دن گزرتے رہے، ایک دن میں ایک اسکول کے سامنے مٹھائی بیچ رہا تھا کہ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور پھر میں بے ہوش ہوگیا، جب ہوش میں آیا تو لوگ جمع تھے۔
یہ میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہوا تھا، میں گھر پہنچا تو بیوی کو بتایا، اس نے کہا کم زوری کی وجہ سے تم بے ہوش ہوگئے ہوگے۔ لیکن ایک دن پھر یہی ہوا کہ میں سڑک پر کھڑا تھا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور میں بے ہوش ہوگیا، ہوش میں آیا اور ڈاکٹر کو دکھایا اس نے دوائیں دیں۔
میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کیا ہوگیا ہے اس نے ٹال دیا۔ شروع میں دو تین ماہ بعد بے ہوش ہوجاتا تھا لیکن پھر ہر ماہ پندرہ دن میں ایسا ہونے لگا، ہم نے کچھ پیسے جمع کیے تھے میری بیوی کا کہنا تھا آپ صحت مند ہوں گے تو پھر جمع کرلیں گے اور اگر آپ ہی بیمار ہوگے تو ان پیسوں سے کب تک گزارا ہوگا؟ بات اس کی بھی درست تھی۔ میں نے علاج کرانا شروع کیا بہت ٹیسٹ کرائے پورے بیس ہزار روپے علاج پر خرچ ہوگئے اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ مجھے ’’مرگی‘‘ ہوگئی ہے۔ یہ کیسے ہوگئی؟ مجھے نہیں معلوم، میں بہت حوصلے والا آدمی ہوں لیکن میرے پاس قارون کا خزانہ تو نہیں ہے کہ آرام سے بیٹھ کر کھاتا۔ کام دھندا ختم ہوگیا، رقم بھی ختم ہوگئی اور پھر ایک دن بچوں کی فیس ادا نہ کرنے پر اسکول سے ان کا نام خارج کردیا گیا۔ مجھے میرے باپ کی بات یاد آگئی کہ شیر محمد اپنی قسمت میں ہی پڑھائی نہیں ہے۔ بچوں کو اسکول سے نجات مل گئی اور اس کے ساتھ ہی میرے خواب ٹُوٹ گئے۔
میں نے سوچا تھا اپنے بچوں کو پڑھاؤں گا، اچھا انسان بناؤں گا لیکن سب کچھ ادھورا نہیں ختم ہی سمجھو۔ بہت دن تک تو میں نے بہت خودداری دکھائی۔ بہت انا تھی مجھ میں لیکن بیٹا! جب بچے بھوکے ہوں تو پھر خودداری، انا اور غیرت سب مر جاتی ہے۔ اب سچ بتاؤں تو میری بھی غیرت مرگئی، خود داری ختم مرگئی، سمجھو میں جیتے جی مرگیا۔ تم کسی زندہ انسان سے نہیں ایک مُردے سے ہم کلام ہو۔
ایک دن بچے بہت بھوکے تھے، میں عبداﷲ شاہ غازی کے مزار پر پہنچا اور لنگر سے خیرات لے کر گھر آگیا۔ بیوی بچوں نے بہت رونا دھونا کیا لیکن میں نے کہا میں نے بھیک نہیں مانگی، وہاں سب کھاتے ہیں تو میں بھی لے آیا، بچے تو معصوم ہوتے ہیں مان گئے اور یوں میرے گھر میں پہلی مرتبہ خیرات میں ملا ہوا رزق کھایا گیا۔ میری کیفیت کیا تھی ؟ یہ تم مت پوچھو، ایک غیرت مند اور خوددار آدمی جب بے غیرت بن رہا ہو تو کیسا محسوس کرتا ہے اور ایسا غیرت مند جس نے کبھی اس ذلّت کا سوچا بھی نہ ہو اور اچانک اس پر افتاد آپڑی ہو! بیوی بچے سب پریشان ہوگئے اور پھر میری بیوی نے کمر ہمت باندھی اور قریب ہی ایک بنگلے میں کام کرنے لگی، اس طرح کچھ آسانی ہوگئی۔
وہ صبح سویرے جاتی اور رات گئے واپس آتی اس کے باوجود اسے مالکن کی جھڑکیاں سننے کو ملتیں اور پھر وہ اتنے کام کی عادی نہیں تھی۔ ایک دن اسے بخار ہوگیا اور اتنا کہ اسے ہوش ہی نہیں رہا اس طرح دو دن ناغہ ہوگیا، تیسرے دن جب وہ کام پر گئی تو وہاں نئی ملازمہ آگئی تھی، مالکن نے اس کا حساب بے باق کیا اور چھٹی کردی۔ مالکن کا کہنا تھا کہ تمہارے بخار، بیماری سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے ہمیں تو کام سے مطلب ہے، تمہاری بیماری سے ہمارا کام تو نہیں رک سکتا، اس طرح بیوی بے روزگار ہوگئی۔ بچے بہت چھوٹے ہیں، کام نہیں کرسکتے اب یہاں سے میری ذلّت کا نیا دور شروع ہوا۔ میں نے چھوٹے موٹے کام شروع کیے مگر ناکام رہا۔
آخر تنگ آکر میں ایک سڑک کے کنارے کھڑا ہوگیا، میں نے تہیہ کرلیا کہ خود نہیں مانگوں گا کسی نے کچھ دے دیا تو انکار نہیں کروں گا۔ جس دن پہلی مرتبہ بھیک مانگنے کے لیے کھڑا ہوا وہ دن میری زندگی کا آخری دن تھا، اب جو میں زندہ نظر آرہا ہوں وہ ظاہری زندہ ہوں مر تو میں اسی دن گیا تھا۔ اپنی کیفیت تمہیں بتا نہیں سکتا، زخم دیکھنے سے اس کی دکھن اور جلن کا اندازہ نہیں ہوسکتا، وہ تو جس کو لگ چکا ہو، ناسور بن کر رس رہا ہو، وہی اس کا درد کرب جان سکتا ہے۔
اب میں اپنی صفائی پیش بھی کروں تو لاحاصل ہے، کیا فائدہ ہے تم سمجھو میں ایک بھکاری ہوں، منگتا ہوں اور بھک منگا اپنی صفائی میں کیا پیش کرسکتا ہے؟ جگہ جگہ بھکاری کھڑے ہیں اور انہوں نے کہانیاں گڑھ رکھی ہیں تم سمجھو گے میں نے کوئی کہانی بنالی ہے لیکن میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ کہہ رہا ہوں کہ میں بھیک مانگنا ذلّت سمجھتا ہوں اور کوئی پیشہ ور بھکاری نہیں ہوں، تم میرے بچوں سے مل لو، میری بیوی سے مل لو اور خود اندازہ لگالو، اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں، بہت دن تک تو میں نے گھر والوں کو جاکر یہ بتایا کہ مزدوری کررہا ہوں اور یہ رقم مل گئی ہے۔
انہوں نے اعتبار کرلیا لیکن ایک دن ہمارے محلے کے ایک آدمی نے مجھے دیکھ لیا، پھر کیا تھا میرے پہنچنے سے پہلے یہ خبر عام ہوگئی تھی، گھر پہنچا تو کہرام مچا ہوا تھا، بیوی بچے رو رہے تھے، انہوں نے مجھ سے کام کا پوچھا تو میں نے جھوٹ بول دیا کہ مزدوری کرتا ہوں اور جب انہوں نے اس آدمی کی شہادت پیش کردی تو میں کیا کہتا، میں دوسری مرتبہ مرا۔ بس میری زندگی مرنا جینا، مرنا جینا ہے اور یونہی کٹ رہی ہے۔
میں نے محلہ چھوڑنے کا سوچا اور پھر یہ ارادہ ترک کردیا اس لیے کہ یہاں تو یہ مشہور ہو ہی گیا تھا، دوسری جگہ بھی مشہور ہوجاتا، گھر برباد ہوگیا، عزّت خاک میں مل گئی، بیوی بچے خاموش ہوگئے ہیں، بس زندگی کی گاڑی ہے سرک رہی ہے آگے کیا ہوگا؟ مجھے نہیں معلوم، کھانا چاول مزار سے مل جاتے ہیں، مجھے کبھی ساٹھ ستّر روپے مل جاتے ہیں۔
ایک جگہ سر جھکائے کھڑا ہوجاتا ہوں، کچھ مل جاتا ہے تو لے لیتا ہوں، مانگتا نہیں ہوں، طبیعت اب بھی ویسی ہے۔ سوچتا ہوں خانہ بہ دوش ہی رہتا جو میرے خون میں تھی، میں نے اپنے خون سے بے وفائی کی اور اس کی سزا پائی، اچھا نہیں کیا کہ خانہ بہ دوشی چھوڑی اور کہیں کا بھی نہیں رہا، اچھا نہیں کیا میں نے۔ تم پہلے آدمی ہو جس نے اتنی دیر بات کی، حال دل پوچھا، یہاں تو سب کو جلدی ہے کوئی کسی کی نہیں سنتا۔ میں ان کے اس حسن ظن پر شرمندہ تھا اس لیے کہ میں بھی جلدی میں تھا اور انہیں دیکھ کر آگے نکل گیا تھا۔
’’ہر حرکت کے پیچھے اک اسرار چُھپا ہے، تم ہمیشہ جلدی کرتے ہو، وقت کا انتظار کرنا سیکھو بیٹا!‘‘ بابا جی نے درست فرمایا تھا۔
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.