Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

بابائے قوم اور پاکستان

$
0
0

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح دنیا کی تاریخ میں ایک ایسے مدبّر اور سیاسی راہنما ہیں جنہوں نے نہ صرف ایک علیٰحدہ ملک بنایا بلکہ انہوں نے اس ملک کی ترقی، خوش حالی اور استحکام کے لیے ایسے اُصول بھی متعین کیے جو آج بھی پاکستان کے عوام اور حکم رانوں سے اپنے نفاذ و اطلاق کا مطالبہ کررہے ہیں۔

اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قائداعظم کی تقاریر اور بیانات کی اپنے اندر تفہیم پیدا کریں تاکہ پاکستان کی نظریاتی اساس ہر مرحلے پر ہمارے پیشِ نظر رہے۔ اُصولی اور تاریخی طور پر ’’قائدِاعظم اور پاکستان کی نظریاتی اساس‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جو اپنی وسعت اور معنویت میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اپنی وضاحت میں پاکستان کی نظریاتی حیثیت کو بھی ظاہر اور متعین کرتا ہے۔

اس عنوان کے دو حصّے ہیں، پہلا حصّہ قائدِاعظم محمد علی جناح کی جدّوجہد، دُوراندیشی، حکمتِ عملی اور فراست و بصیرت سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا حصّہ پاکستان کی نظریاتی اساس سے متعلق ہے۔ اور یہ دونوں حصّے باہم لازم و ملزوم ہیں۔

جب تک آپ ایک حصّے کا تاریخی طور پر فہم پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک دوسرے حصّے کی حقیقت و معنویت آپ پر منکشف نہیں ہوسکے گی۔ یقیناً ایسی صورت میں میرا یہ فرض ہے کہ میں تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے پہلے قائدِاعظم محمد علی جناح کی حیات و خدمات کو واضح کروں اور اُس کے بعد قائدِاعظم کی تقاریر کے اقتباسات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس کو واضح کروں۔

بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا شمار عہدِجدید کی تاریخ کی اُن عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جو اپنی حیات وخدمات کی روشنی میں تاریخ کا ایک ایسا باب بن جاتی ہیں کہ آنے والی صدیاں اُن کے تذکرے سے گونجتی رہتی ہیں۔ قائدِاعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے تقریباً چوالیس سال ہندوستان کے عوام خصوصاً مسلمانوں کی ترقّی، خوشحالی، سیاسی بالادستی، ثقافتی تحفظات اور حصول آزادی کے لیے جدّوجہد کے حوالے سے بسر کیے۔

اس عرصے میں آپ کو اگرچہ بعض مراحل پر اپنوں اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا، مگر آپ کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابلِ تسخیر سیاسی بصیرت نے بالآخر یہ بات طے کردی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے آپ ہی بلاشرکتِ غیرے ’قائدِاعظم‘ ہیں۔ قائدِاعظم کی اسی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے جون 1937 میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے قائدِاعظم کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اُس میں صرف آپ ہی کی ذاتِ گرامی سے مسلمان قوم محفوظ راہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے۔‘‘

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے نفاذ سے قبل ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی وحدت نہ صرف انتشار کا شکار ہوگئی تھی بلکہ اُن کی نمائندہ سیاسی جماعت ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی، لہٰذا تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر جب ہندوستان کے مسلمان اپنی بقا اور سلامتی کی جانب سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے۔

قائدِاعظم محمد علی جناح نے تدبّر، فراست، غیرمتزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایسے متحد و منظم کردیا کہ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں نہ صرف ایک علیٰحدہ مسلم وطن کی قرارداد منظور ہوگئی بلکہ 14 اگست 1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔

برّصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو ہندوستان کے مسلمان دو صدیوں سے دیکھتے چلے آرہے تھے۔ 14 اگست 1947 کو شرمندہ تعبیر ہوا اور بلاشبہ اس خواب کی تعبیر ایک فرد کی چشم کرشمہ ساز کا نتیجہ تھی۔ اور وہ فردِواحد تھے۔ قائدِاعظم محمد علی جناح… جو اپنی سیاسی زندگی کے اوّلین عشرہ میں ہی ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے۔ یعنی 1916 میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب ملتے ہی اُن کی ذات دو قومی نظریے کی علامت بن گئی تھی اور یہ اُصول طے ہوگیا تھا کہ مستقبل کے ہندوستان کی سیاسی اور دستوری صورتِ حال اسی اُصول کے تحت پروان چڑھے گی جیسا کہ بعد میں حالات اور وقت نے ثابت کردیا۔

قائدِاعظم کی سیاسی زندگی کے آخری پندرہ سال مسلم ہندوستان کی آئینی اور سیاسی بالادستی کے حصول کے حوالے سے بسر ہوئے۔ انہی پندرہ سال کے دوران جہاں انہوں نے مسلمانوں کے منتشر ہجوم کو ایک قوم کی صورت میں متشکل کیا وہاں اُن کو یہ بھی باور کرایا کہ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ایک عظیم تاریخی ورثے کے ہی مالک نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار بھی ہیں جو ایک مکمّل ضابطہ حیات ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران قائدِاعظم نے اپنی تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے جہاں دو قومی نظریے کی وضاحت کی وہاں مطالبہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی حقانیت کا بھی اعلان کیا۔

قائدِاعظم کی تقاریر، بیانات اور خطوط ایسی بنیادی سچائیاں ہیں جن کی تفہیم اور تفتیش سے ہم نہ صرف قائدِاعظم کے تصوّر پاکستان، قائدِاعظم کی حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت سے آشنا ہوسکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی ترقّی و خوشحالی اور استحکام کے لیے ایک حتمی لائحہ عمل تک رسائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

جب تک ہم ان تقاریر، بیانات اور خطوط کا مطالعہ نہیں کریں گے اور اپنے اندر ان کا فہم پیدا نہیں کریں گے اُس وقت تک نظریاتی تحفظ اور قومی وحدت کے حوالے سے بہت سے سوالات ہمیں ہمارے قومی مستقبل کے حوالے سے ڈراتے رہیں گے۔

جہاں تک 1949 میں منظور ہونے والی ’قراردادِ مقاصد‘ کا تعلق ہے تو مَیں قائدِاعظم کی تقاریر و بیانات کے آئینے میں اس قرارداد کو پاکستان کے آئین کی تشکیل کی جانب پہلا قدم تصوّر کرتا ہوں۔ ایک ایسا قدم جس میں وہ وعدے اور دعوے پورتے ہوتے دکھائی دے رہے تھے جو قائدِاعظم اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے تحریکِ پاکستان کے دوران متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں اور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے عوام سے کیے تھے۔ قائدِاعظم نے جہاں اپنی تقاریر سے مسلمانوں کے اندر اُن کے جذبہ قومیت کو فروغ دیا، وہاں متعدد بار اس امر کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنّت کے مطابق ہوگا۔

اور ہم پاکستان کو حقیقی معنی میں ایک اسلامی فلاحی مملکت بنائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے مطالبہ پاکستان کو مسلمانوں کی ملی و فکری بیداری کی تحریک قرار دیا اور 2 مارچ 1941 کو لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ’’مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔‘‘ یہ فخر تاریخی شعور اور ملّی احساسِ وراثت کی دلیل تھا جس کا قائدِاعظم بار بار اعلان کیا کرتے تھے۔ 30 ستمبر 1943 کو ایک پیغام میں انہوں نے فرمایا، ’’ہم ایک عظیم الشّان تاریخ اور درخشاں ماضی کے وارث ہیں۔ ہمیں خود کو اسلام کی حقیقی نشاۃ الثانیہ کے لیے وقف کردینا چاہیے۔‘‘

اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جب آپ سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا آئین کس طرح کا ہوگا؟ تو آپ نے جواب میں کہا، ’’مَیں کون ہوتا ہوں آپ کو آئین دینے والا! ہمارا آئین ہمیں آج سے تیرہ سوسال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبرؐ نے دے دیا تھا۔‘‘ ہمیںتو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذ کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظام حکومت قائم کرنا ہے اور یہی پاکستان کا مقصد ہے۔‘‘

30 اکتوبر 1947 کو لاہور سے ایک نشری تقریر میں قوم سے فرمایا، ’’اسلام کی تاریخ جواں مردی اور عزم و حوصلہ کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے… ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب و تاریخ ہے، کسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

ایک اور مرحلے پر انہوں نے فرمایا، ’’تم میں ایک اعلیٰ قوم کی نشانیاں موجود ہیں جو دُنیا کی کسی قوم میں نہیں۔ بس اپنی تاریخ کے سائے میں سانس لیتے رہو اور عظمت کے ایک نئے دور کا آغاز کرو۔‘‘ 8 نومبر 1947 کو مسلم افواج کے حفاظتی دستوں اور راولپنڈی کے عوام کے نام ایک پیغام میں فرمایا، ’’ہم کو خطرات درپیش ہیں لیکن آپ سب کامل اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کا وقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کیے ہوئے ان خطرات کے درمیاں سے کام یابی کے ساتھ گزر جائیں گے۔‘‘

اس کے علاوہ قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد 25 جنوری 1948 کو ان الزامات اور شکوک و شبہات کی جن کے تحت بعض حلقوں کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا اور بعض حلقے یہ کہتے تھے کہ پاکستان ایک تھیوکریٹک ریاست ہوگی، براہِ راست اور واضح طور پر تردید کرتے ہوئے کہا، ’’مَیں ان لوگوں کی ذہنیت کو نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اُصول آج بھی اسی طرح قابلِ نفاذ ہیں۔

جس طرح آج سے تیرہ سوسال پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم و روایات کا مجموعہ یا روحانی ضابطہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے زندگی کا ایک ضابطہ بھی ہے، جو سیاست، معیشت اور اسی طرح کے دوسرے معاملات میں اس کے رویّے کو منضبط کرتا ہے… مَیں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں، بلکہ غیرمسلموں کو بھی کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ کسی کو ایسی جمہوریت سے خوف کیوں لاحق ہو جو انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ کے اُصولوں پر قائم کی گئی ہو۔‘‘ ’’ان کو کہہ لینے دیجیے۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دُنیا کو دکھائیں گے یہ رہا ایک اعلیٰ آئینی نمونہ۔‘‘

فروری 1948 میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری خطاب میں فرمایا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے آئین کی حتمی صورت کیا ہوگی۔ البتہ مجھے اتنا یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری طرز کا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے تمام ضروری اور بنیادی اْصولوں پر مبنی ہوگا۔‘‘ 19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کے عوام کے نام نشری خطاب میں فرمایا، ’’پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہ ؐکی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اُس اسلامی ملّت اور برادری کے رکن ہیں جس میں حقوق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیے، پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہوگا۔ اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دیگر عقائد کو گوارا کریں۔‘‘

قائدِاعظم کی تقاریر سے یہ اقتباسات درج کرنے کی مجھے ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ جہاں قائدِاعظم کی اُس فکر تک رسائی ممکن ہوسکے جو اپنی معنویت میں اسلام دوستی پر مبنی تھی وہاں یہ بھی معلوم ہوسکے کہ وہ پاکستان کے آئین کے حوالے سے کیا عزائم رکھتے تھے۔ یہاں مَیں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ 14 اگست 1947 کو انتقالِ اقتدار کی تقریب میں جب ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں پاکستان میں آباد اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی مثال دی تو قائدِاعظم نے مجلس دستور ساز پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ماؤنٹ بیٹن کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی جوابی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ اکبراعظم نے تمام غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔

اس کی ابتدا تو آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐنے کردی تھی۔ آپؐ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ اُن کے ساتھ رواداری برتی اور اُن کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے ایسے ہی رہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسے ہی انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اُصولوں سے بھری ہوئی ہے۔ اِن اُصولوں کی ہم سب کو تقلید کرنا چاہیے۔‘‘

قائدِاعظم کی تقاریر کی سب سے اہم فضیلت ہی یہ ہے کہ وہ مختصر فقروں میں اپنا مافی الضمیر بیان کردیتے ہیں۔ تقاریر کے اِن اقتباسات میں ایک عقیدہ بھی موجود ہے اور ایک لائحہ عمل بھی۔ ایسا لائحہ عمل جو ہندوستان میں مسلم قوم کے مسلّمہ کردار کی بازیابی کے لیے ایک منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ قائدِاعظم نے 8 مارچ 1944 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طالب علموں کو باور کرایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ جہاں دیگر مذہبی اور ثقافتی وجوہات رہی ہیں وہاں اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ مطالبہ جداگانہ قومیت کی بنیاد پر اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔‘‘

14 فروری 1948 کو سبّی دربار بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات انہی سنہری قوانیں کی پابندی کرنے میں ہے جو ہمارے شارح اعظم پیغمبر اسلامؐ نے ہمارے لیے متعین کیے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصوّرات اور اُصولوں پر استوار کریں۔‘‘ 12 اپریل 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور کے ایک استقبالیہ میں فرمایا، ’’ہم ایک ایسی مملکت تعمیر کررہے ہیں جو پورے عالم اسلام کی تقدیر سازی میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔‘‘

مَیں نے ابھی تک قائدِاعظم محمد علی جناح کی اُس تقریر کا حوالہ نہیں دیا جو قائدِاعظم کے تصوّر پاکستان کے حوالے سے نہ صرف معروف ہے بلکہ جس کو ایک مخصوص مکتبہ فکر ذاتی تاویلوں اور عذر بے جا کے ذریعے متنازع بنا دینے کی دانستہ کوششوں میں مصروف ہے۔ میری مراد ہے 11 اگست 1947 کی وہ تقریر ہے جو قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل کراچی میں مجلسِ دستور ساز کے افتتاح کے موقع پر کی تھی۔ اور جو واضح طور پر 1949 میں مجلسِ دستور ساز میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد کو استناد فراہم کرتی ہے۔

مَیں یقیناً اس تقریر کو من وعن یہاں نقل نہیں کررہا ہوں لیکن جزوی طور پر اس کے مفہوم کو پیرا وائز (Parawise) ضرور بیان کروں گا:

1۔پاکستان کے لیے دستور مرتّب کرنا۔

2۔وفاقی قانون ساز ادارے کو کامل خودمختار ادارے کی شکل دینا۔

3۔امن و امان کو برقرار رکھنا تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور اُن کے مذہبی عقائد کو مکمّل طور پر تحفظ دے سکے۔

4۔رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ۔ یہ ایک زہر ہے، اس کا سختی سے قلع قمع کرنا پڑے گا۔

5۔غذائی اجناس اور اشیائے ضرورت کی چور بازاری اور گرانی کا خاتمہ۔

6۔اقربا پروری، احباب نوازی اور ذاتی مفادات کے حصول کی لعنت کا خاتمہ۔

7۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔

8۔اپنی عبادت گاہوں میں جانے کا آزادانہ حق۔

9۔پاکستان کو خوشحال بنانے کے لیے عوام کی فلاح و بہبود پر توجّہ۔ عوام سے میری مراد عام الناس اور غریب عوام ہیں۔

10۔ذات پات کے نظام اور صوبائی عصبیتوں کا خاتمہ۔ (یہاں مَیں یہ بات پوچھنے میں شاید حق بجانب ہوں گا کہ اِن دس نکات میں سے ہم نے کس پر اور کہاں تک عمل کیا؟)

قائدِاعظم نے اِن نکات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا، ’’اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘

آخر میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا، نہ مسلمان مسلمان … مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘

یہی دو پیراگراف ہیں جن کی بنیاد پر کچھ لوگ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ تصوّر کرنے کے حق میں ہیں۔ لیکن وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ یہ دونوں پیراگراف میثاقِ مدینہ میں بھی موجود ہیں۔ یہ پیراگراف اقلیتوں سے معاملات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ تحقیق قائدِاعظم اور تحریکِ پاکستان کے ضمن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ محقق پروفیسر شریف المجاہد کی ہے اور جسے گذشتہ ہے کہ ایک ایسا لفظ قائدِاعظم کے نظریات سے بیس سال کے دوران کسی جانب سے بھی رد نہیں کیا گیا۔

اسی نوعیت کی ایک تحقیق معروف قانون دان اور محقق سیّد شریف الدین پیرزادہ نے بھی اپنے ایک مضمون میں درج کی تھی۔ پروفیسرشریف المجاہد اور سیّد شریف الدین پیرزادہ کے مضامین روزنامہ ’ڈان‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہاں مَیں یہ عرض کرتا چلوں کہ قائدِاعظم محمدعلی جناح نے تحریکِ پاکستان کے دوران یا قیامِ پاکستان کے بعد اپنی تقاریر میں کبھی نظریاتی حوالے سے سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ افسوس یہ کیسا غیراخلاقی رویّہ منسوب کیا جاتا ہے جو کبھی آپ نے لادینی معانی میں اپنی زبان سے ادا ہی نہیں کیا۔

مجھے طوالت کا احساس ہے، لیکن یہ موضوع ہی ایسا ہے جس سے سرسری طور پر گزرا نہیں جاسکتا۔ قائدِاعظم کے کسی بیان یا نکتہ نظر سے سیاسی روایت کے پیش نظر یا آزادی اظہار کی تائید میں اختلاف تو کیا جاسکتا ہے لیکن اُس کی حقیقی معنویت کو تاویلات میں اُلجھا کر یا اُس میں اپنے نکتہ نظر کی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش ایک واضح بددیانتی ہے۔ ایک مخصوص مکتبہ فکر قائدِاعظم کے خیالات کو اپنے نظریات کے آئینے میں پیش کرتا ہے جو یقینا بابائے قوم قائدِاعظم کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ شاید اسی لیے یہ مخصوص طبقہ قرارداد مقاصد کو بھی مطعون کرتا رہتا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت سے انکاری ہے، جب کہ قراردادِ مقاصد اپنے متن میں قائدِاعظم کی حقیقی فکر کی ترجمان ہے۔

قراردادِ مقاصد قائدِاعظم کے انتقال کے تقریباً چھ ماہ بعد یعنی 12 مارچ 1949 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں ’قراردادِ مقاصد‘ ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس قرارداد میں نہ صرف قوم کے مخصوص تاریخی ورثے کی عکاسی کی گئی ہے بلکہ اس میں قائدِاعظم محمد علی جناح کے افکار و خیالات کی روشنی میں قومی نصب العین کا تعیّن بھی کیا گیا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں اُن اُصولوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی بنیادوں پر مستقبل میں پاکستان کا آئین مرتّب کیا جانا تھا۔ اسی لیے اس قرار داد کو آئین ساز اسمبلی نے منظور کرکے پاکستان کے مجوزہ آئین کے دیباچے کی حیثیت دے دی۔ پاکستان کے تمام آئین اسی قرارداد کی روشنی میں مرتّب کیے گئے ہیں۔

یہاں اس قرارداد کے نکات کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ قرارداد منظور نہ کی جاتی تو پاکستان کے آئین کو قرآن و سنّت اور قائدِاعظم کے افکار کے مطابق خطوط میسّر نہ آتے، اور وہ طبقہ جو انگریزوں اور ہندوؤں کے زیرِاثر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں تھا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتا اور ہم تحریکِ پاکستان اور مطالبہ پاکستان کے حقیقی مقاصد سے روگردانی کے مرتکب ہوجاتے۔ اس قرارداد نے پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعیّن کیا اور ہم کو اپنی نومولود ریاست کو ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کہنے کا اعزاز بخشا۔ اور یہ سب کچھ بانی پاکستان کی دْور اندیشی، بصیرت اور اپنے مقاصد سے گہری اور ناقابلِ شکست وابستگی کے نتیجے میں ہوا۔ اور ہم اس پر فخر مند ہیں کہ یہی قرارداد قائدِاعظم کے افکار و خیالات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔

The post بابائے قوم اور پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>