سیدناعلیؓ
مولف:ڈاکٹرعلی محمد الصلابی
ناشر: دارالسلام، 36لوئرمال، سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور، 04237324034
خلفائے راشدین کی سیرت امت کے لئے ایک عظیم خزانہ ہے۔ اس میں بڑے لوگوں کے تجربات ہیں، مشاہدات ہیں، خبریں ہیں، امت کے عروج اور غلبے کی تاریخ ہے۔ اس کے مطالعہ سے ہمیں دیکھنے کا موقع ملتاہے کہ کن کن مواقع پر اہل حق کو عروج و ترقی ملی، اس کے اسباب کو جاننے اور جانچنے کا موقع ملتاہے۔
اور پھر جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی نظرآتا ہے اور یہ جاننے کا موقع ملتاہے کہ کب کب امت مسلمہ پستی ، زوال اور تنزل کا شکار ہوئی، کب اسے سیاسی، سماجی اور معاشی میدانوں میں پسپا ہونا پڑا۔اس پستی اور ذلت کے اسباب کو جاننے کا موقع ملتاہے۔
زیرنظرکتاب امیرالمومنین علی بن ابی طالبؓ کی پیدائش سے لے کر شہادت تک کے واقعات پر مشتمل ہے۔ ان کے اسم گرامی، حسب و نسب، لقب، ولادت، خاندان، قبیلہ، اسلام اور مکہ میں آپ کے اہم کارناموں اور ہجرت کا تذکرہ۔ قرآن کے سائے میں آپ کا زندگی بسر کرنا اور زندگی پر اس کے اثرات۔ آپؓ کے بارے میں قرآن مجید میں کیا نازل ہوا؟ حضرت علیؓ کا قرآن کریم سے شرعی احکام کے استنباط اور اس کے معانی کے فہم کا اسلوب کیا ہے؟ یہ سب کچھ اس کتاب کا حصہ ہے۔
حضرت علی المرتضیٰؓ سے متعلق متعدد موضوعات بہت سی کتابوں میں مذکور ہیں لیکن زیرنظرکتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ایسا بہت کچھ ہے جو دوسری کتب میں کم ہی نظرآتاہے۔ نبی کریم ﷺ کی مصاحبت اور دوسرے اصحاب کرامؓ سے تعلقات کا بھی ذکر ہے۔ اس میں ایک جرنیل، ایک قاضی اور ایک حکمران کے طور پر آپ کی حیات مبارکہ کا تذکرہ ہے۔
حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت اور پھر حضرت علی المرتضیٰ ؓ کی شہادت پر بھی مفصل ابواب تحریر کئے گئے ہیں۔ پوری کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد محسوس ہوتاہے کہ واقعتا یہ داماد رسول، فاتح خیبر، خلیفہ راشد سیدناعلی بن ابی طالب ؓ کی تابناک سیرت کا مستند تذکرہ ہے۔آپ کے پاس یہ کتاب ہے تو پھر اس عظیم خلیفہ راشدؓ کی حیات مبارکہ کو جاننے کے لئے کسی دوسری کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
خطبات جمعہ و عیدین
مصنف: مولانا ابوالکلام آزاد۔۔۔۔۔قیمت: 220 روپے
ناشر: مکتبہ جمال، حسن مارکیٹ، اردو بازار ،لاہور،فون:03008834610
ہرقوم کے کچھ خاص تہوار اور جشن کے دن ہوتے ہیں جن میں اس قوم کے لوگ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خوشی مناتے ہیں۔ ظاہرہے کہ جشن منانا انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس لئے انسانوں کا کوئی طبقہ اور فرقہ ایسا نہیں جن کے ہاں تہوار اور جشن کے کچھ دن مخصوص نہ ہوں۔اسلام عیدین اور جمعہ کے ایام کو خوشی کے ایام قراردیتاہے لیکن انھیں بھی بے مقصد نہیں رکھتا۔ وہ اپنے پیروکاروں کو ان ایام کو بھی اصلاح معاشرہ کے لئے استعمال کرنا سکھاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین، صحابہ کرام سمیت امت کے تمام قائدین نے ان مواقع پر ایسے خطبات ارشاد کئے جن سے لوگ اپنی اصلاح کرتے تھے۔ یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔
زیرنظرکتاب مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو انھوں نے وقتاً فوقتاًعیدالفطر، عیدالاضحی اور جمعتہ المبارک کے مواقع پر ارشاد فرمائے۔ مولانا آزاد عیدین اور جمعۃ المبارک کے خطبات کو معاشرتی اصلاح کا وسیلہ سمجھتے تھے ان کے نزدیک جمعہ ایک وعظ ہے جس کے لئے خطیب کو مکمل قابلیت کے ساتھ موضوع پر عمیق دسترس ہونی چاہئے۔
یہ خطبات جہاں خطبات کی اصل روح کو اجاگرکرتے ہیں وہاں خطباء، واعظین اور طلبہ کے لئے بھی مشعل راہ ثابت ہوں گے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب ہمارے خطبائے کرام فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں یا پھر ایسے قصے کہانیاں ہی بیان کرتے رہتے ہیں جو سال کے بارہ مہینوں میں بار بار بیان کی جاتی ہیں۔
ایک عام مسلمان کو بالعموم اور علمائے کرام کو بالخصوص اسلام کا ایسا داعی ہوناچاہئے کہ جو لوگوں کو صرف اور صرف اللہ اور اس کی رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کے لئے مائل اور قائل کرتا رہے، جس کی بات میں اس قدر تاثیر ہو کہ لوگوں کے دل ودماغ مسخر ہوجائیں۔ بہرحال خطبائے کرامکو مولانا ابوالکلام آزاد کے ان خطبات سے روشنی حاصل کرنی چاہئے۔
آیات الٰہی کا نگہبان
مصنف: محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ۔۔۔۔قیمت:600 روپے
ناشر:مکتبہ فروغ اقبال،970، نظام بلاک، اقبال ٹاؤن، لاہور
زیرنظرکتاب کے پیش لفظ میں مصنف نے لکھا:’’ اِس وقت مسلمان علم کے دور بدویت سے گزر رہاہے، اس دور کو ہم صحرائی دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ دُور دُور تک سراب ہی نظرآتے ہیں۔ جو عالم ہے وہ حکیم نہیں، اگرحکیم ہے تو اس کے پاس کوئی منزل ، نہ نشان منزل۔ صحرائے علم پر چھائی کالی رات میں دو چار جگنو اپنی چمک دکھارہے ہیں، جو چلنا چاہتے ہیں انھیں بھی راستہ نہیں مل رہا، اقبال ایسی زوردار بارش سے بھی پیاسی زمین روئیدگی نہیں پکڑسکی۔ رگ تاس میں رس نہیں بھرسکا، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ کوشش کو ترک کردیاجائے۔
علم کے اس صحرا میں کھلے ہوئے بے شمار گل لالہ ہیں‘‘۔ اس کے بعد جناب محمد الیاس کھوکھر نے مختلف گل ہائے لالہ کے نام لئے ہیں، تاہم میں اس میں مصنف کا نام بھی شامل کروں گا، جن کے پاس دلِ مضطر ہے، جسے کسی طور بھی چین نہیں۔ وہ فکر اقبال کی شمع لئے مسلسل متحرک ہیں۔’بوستانِ اقبال‘،’ اقبال کا ایوانِ دل‘ اور اب’ آیات الٰہی کا نگہبان‘ کے عنوان سے کتابوں کی صورت میں اس قوم کو راستہ دکھا رہے ہیں۔
یہ کتابیں آج کل لکھی یا مرتب کی جانے والی کتابوں جیسی ہرگز نہیں ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے نیند آتی ہے، بلکہ یہ کتابیں نیندیں اڑا دینے والی ہیں۔ مثلاً اسی کتاب کو دیکھ لیجئے جس کے نو ابواب ہیں۔’مئے غفلت کا سرمت‘،’ مسلم ناداں‘،’ دیروحرم‘،’ عندلیبِ باغِ حجاز‘،’ اسیرِ حلقہ دام‘،’ اے گرفتار ابوبکرؓ و علیؓ‘،’ حاصل کشتِ عمر‘،’ مسلمان۔ خداحافظ‘ اور’اقبال۔فکر اسلام کا ترجمان‘۔کتاب کا دیباچہ مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی کی ایک تحریر’انسان کی تباہی کا اصل سبب‘ کی صورت میں ہے جبکہ خود مصنف نے پیش لفظ ’علامہ اقبال کیسے تھے؟‘ کے عنوان سے لکھاہے۔
یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ایک شاندار تحفہ ہے جو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں انقلاب برپاکرناچاہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں گے۔
150مشاہیرِ ادب
مولف: ملک مقبول احمد۔۔۔۔قیمت: ایک ہزار روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور03000515101/03008422518
بھلے وقتوں میں ناشران کتب، محض کتابیں ہی نہیں چھاپتے تھے، کاروبار ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے ادب دوست ہواکرتے تھے جو اپنا تن من دھن اس دوستی کی خاطر قربان کردیتے تھے۔ اسی میں وہ خود بھی بڑے ادیب بن جاتے تھے، وہ ادیبوں کی خدمت اپنے اوپر لازم قراردیتے تھے۔
ملک مقبول احمد اسی اچھے دور کی ایک یادگار ہیں۔ ویسے تو ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں اکثرلوگوں کو اپنے سوا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا جبکہ اچھے لوگ دوسروں کو دیکھتے ہیں، اپنے اردگرد موجود لوگوں کو ان سے متعارف کراتے ہیں۔ ملک صاحب نے بھی یہ کام کیا،انھوں نے 1954ء میں لاہور میں ایک ا کیڈمی قائم کی جس نے بہترین کتابوں کو شانداراندازمیں شائع کیا اور اردو ادب کی خوب آبیاری کی۔
اس دوران میں ملک مقبول احمد کا جن مشاہیر ادب سے تعلق رہا، انہی کے خاکے لکھتے رہے اور روز انھیں جمع کردیا جو زیرنظرکتاب کی صورت میں سامنے آچکے ہیں۔ ان میں معروف ادیب، ناول نگار،افسانہ نگار،ڈرامہ نگار، شاعر،نعت نگار، نعت خواں، علما، سفرنامہ نگار، صحافی، کالم نگار، دانشور، گلوکار،آرٹسٹ، معلمین، ججز، مترجمین، نقاد، ماہرین تعلیم،مزاح نگار، مورخین، اطباء، محققین، خاکہ نویس اور قانون دان، غرضیکہ زندگی کے ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے رجالِ عظیم شامل ہیں۔
اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہرفرد ورطہ حیرت میں مبتلا ہوجاتاہے جب وہ ڈیڑھ سو روشن ستاروں کو ملک مقبول احمد کی نظر سے دیکھتاہے جبکہ ان میں سے ہرستارہ ایک روشن جہان کی مانند ہے۔یہ کتاب ایک حوالے اور ریفرنس کا کام دے گی اور ادب کے طلبا اس سے مستفید ہوں گے۔ ملک صاحب نے نہایت عرق ریزی، محنت، توجہ اور لگن کے ساتھ ان روشن ستاروں کے بارے میں نہ صرف مستند معلومات جمع کیں بلکہ ان جلیل القدر شخصیات کا دلکش اور دل آویز مرقع پیش کردیا ہے جسے یقینی طور پر دل چسپی سے پڑھاجائے گا۔
نام: پنجر(ناول)
مصنفہ: امرتاپریتم۔۔۔۔قیمت:500روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم ، واٹس ایپ: 03215440882
امرتا پریتم کا یہ ناول 1947ء میں ہونے والی تقسیم برصغیرپاک وہند کے تناظر میں لکھاگیا ہے۔ یہ ایک بے بس عورت کی کہانی ہے جو انتقام کا شکار ہوئی، جو اپنے بطن کے بیٹے کو بھی ماں کا پیار نہ دے سکی، جو تاعمر اپنے گھر ، اپنے کنبے اور اپنے منگیتر کو نہ بھلاسکی، جس نے تقسیم کی خوں ریزی میں خود کو خطرے میں ڈالا اور دوسری عورتوں کی عصمت وعفت کی حفاظت کی لیکن خود… موقع نہ ملنے پر بھی اپنے بیٹے کی خاطر واپس نہ جاسکی… اپنے کنبہ میں، اپنے عزت کے گہوارے میں۔ یہ عورت کون تھی، آپ کو ناول پڑھنے سے بخوبی معلوم ہوگا۔
امرتاپریتم نے اس عورت کے دکھ ، بے بسی کو عین اسی طرح بیان کیا جیسا کہ بیان کرنے کا حق تھا۔ ایک ایک حرف درد اور دکھ سے بھرا ہوا، ایک ایک لفظ انسانوں کو آئینہ دکھاتاہے۔ آپ اس ناول کو ایک نوحہ بھی کہہ سکتے ہیں اور چند لمحے ان مظلوموں کے لئے آنسو بہاسکتے ہیں جو اس داستانِ خونچکاں کا شکار ہوئے۔کہانی کا ایک کردار پارو ہے جو عجیب وغریب مخمصے میں گرفتار ہوتی ہے، ایک کردار رشید کا ہوتاہے جو ایک نیک فطرت انسان ایک لازوال کردار نبھاتاہے۔
ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ ناول پہلے ہی سے پڑھ رکھاہو، ممکن ہے کہ اس ناول پر بننے والی فلم کو دیکھنے والوں میں سے بھی کچھ لوگ زندہ ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد نے دکھ اور درد کی یہ کہانی پڑھی نہ دیکھی۔ انھیں یہ کہانی ضرور پڑھنی چاہئے جو ایک سرمئی دن سے شروع ہوتی ہے جب بوری کے ایک ٹکڑے کو پاؤں کے نیچے دبائے ہوئے پارو مٹر کے دانے نکال رہی ہوتی ہے اور اس کا اختتام بھی پارو کی اس بات پر ہوتاہے جو اس نے اپنے سابقہ منگیتر رام چند سے کہی تھی:
’’ چاہے کوئی ہندو لڑکی ہو، چاہے مسلمان جو بھی لڑکی ٹھکانے پر واپس پہنچ رہی ہے، سمجھو کہ اسی کے ساتھ پارو کی روح بھی ٹھکانے پر پہنچ رہی ہے۔‘‘ پھر پارو کی لاری خالی سڑک پر گرد اڑاتے چل پڑتی ہے۔ اس آغاز اور اختتام کے درمیان میں کیاہے، اسے جاننے اور اس سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
ہچکی لیتا سورج
شاعرہ: گل افشاں رانا۔۔۔۔قیمت:250 روپے
ناشر:دست خط، لائل پور ٹی ہاؤس، فیصل آباد،فون:03346648790
محترمہ گل افشاں رانا ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو وہیل چیئر پر بیٹھ کر آسمان کو ہاتھ لگاتی ہیں، کم ازکم ان کی شاعری اور ان کا فکشن پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوتاہے۔ ان کی شاعری زیرنظرمجموعہ کی صورت میں منظرعام پر آچکی ہے جبکہ ان کے ناول، ناولٹ، کہانیاں اکثر ڈائجسٹوں کی دنیا میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
ان کی نثرعمدہ ہے یا غزل اور نظم، یہ فیصلہ کرنا ، مشکل کام ثابت ہورہاہے۔ اگرآپ کی ملاقات اِس بلند ہمت شاعرہ اور ناول نگار سے ہو تو آپ کو ان میں سٹیفن ہاکنگ کا بلندعزم نظر آئے گا، آپ کو وہ’ ہیلن کیلر‘ نظر آئیں گی، آپ ان کی غزل پڑھیں تو وہاں موضوعاتی تنوع ملے گا، تغزل کا خاص نسوانی رنگ نظر آئے گا۔ مثلاً وہ کہتی ہیں:
کبھی ہاتھوں کے بل کھسکو، کبھی کرسی پہ پہیوں سے
تقاضا ہے کہ منزل کی طرف پیہم چلا جائے
٭٭٭
ندی، چاند، تارے ہوں، تم ساتھ ہو
کبھی تم سے یوں بھی ملاقات ہو
بجے سانس کے ساز، ہم چپ رہیں
نظر ہی نظر میں ہراک بات ہو
٭٭٭
کیا کہیں عشق میں جو خسارا ہوا
سب ہوئے پر نہیں وہ ہمارا ہوا
غم کی شب چشمِ نم پھرستم پر ستم
بے کسی بے بسی میں گزارا ہوا
ایک نثری نظم میں انھوں نے ’منافقت‘ کو اِس اندازمیں بیان کیا کہ پڑھنے والا انگشت بدنداں رہ جاتاہے۔ اسی طرح ’بھرم‘ کے عنوان سے ایک نظم میں انھوں نے عورت کی بہادری اور ہمت کو اس خوبی سے بیان کیاہے کہ پڑھنے والا جھوم جھوم اٹھتاہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان کی شاعری اور اس کے پیچھے خیال میں، آپ کو اوریجنیلیٹی ہی نظر آئے گی۔ وہیل چئیر پر بیٹھی شاعرہ کی شاعری کا پہلا پہلا مجموعہ اس قدر زور آور ہوگا، پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ دورحاضر میں ایسی مثالیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
تبصرہ نگار: عمرعبدالرحمن جنجوعہ
پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے
تحقیق وتدوین: فیصل عرفان۔۔۔۔قیمت:400روپے
ناشر: فیصل عرفان، ڈاک خانہ بھنگالی گوجر، تحصیل گوجرخان، فون: 03009835428
معروف صحافی و شاعر انوار فطرت لکھتے ہیں کہ پوٹھوہار وہ جگہ ہے جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا۔ خطہ پوٹھوہار کی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے۔ ہماری مشینی زندگی میں جہاں کتابوں کی جگہ موبائل اور کمپیوٹر نے لے رکھی ہے، وہاں ہم لٹریچر خصوصاً علاقائی لٹریچر سے کوسوں دور ہوگئے‘‘۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے فیصل عرفان کی کتاب ’’پوٹھوہاری اکھانڑتے محاورے‘‘ موصول ہوئی۔ آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو علاقائی زبان پوٹھوہاری سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اس کتاب کے سرورق سے آخر تک حرف بہ حرف آپ کو پوٹھوہار کی میٹھی زبان اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
زبان کا رشتہ کسی کلچر یا تہذیب سے وابستہ ہوتا ہے، زبان علاقائی ہو، قومی ہو یا عالمی ، غرضیکہ زبان کوئی بھی ہو اس کے اپنے روز مرہ محاورے اور ضرب الامثال ہی اس کی انفرادی خصوصیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس کے برجستہ اور برمحل استعمال سے جملے اور شعر دونوں میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ زیرنظرکتاب کی صورت میں جناب فیصل عرفان نے انتہائی مشکل کام ، انتہائی قلیل مدت میں مکمل کیا۔ اس حوالے سے بھی وہ داد کے مستحق ہیں۔
’’پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے‘‘ کے عنوان سے اس کتاب میں محاوروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، سونے پر سہاگہ جو محاورے ہمارے بزرگوں کے ساتھ ہی دفن ہوتے جا رہے تھے، انہیں کتاب میں محفوظ کردیاگیاہے۔ اب خطہ پوٹھوہار کے باسیوں کا فرض ہے کہ وہ ان محاوروں اور ضرب الامثال کو اپنے روزمرہ استعمال میں لائیں۔ صرف اسی صورت میں زبانیں زندہ رہتی ہیں، دولت مند ہوتی ہیں اور بڑی زبان کا درجہ حاصل کرتی ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ زیرنظرکتاب خطہ پوٹھوار سے تعلق رکھنے والوں کے لئے ایک قیمتی دولت کی حیثیت رکھتی ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.