(قسط نمبر 13)
میں نے گلگت سے راولپنڈی واپس آنے کے لئے پی آئی اے پر ۶۲ فروری کی بکنگ کرا رکھی تھی۔بیس فروری سے موسم خراب ہونا شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ گلگت سے راولپنڈی آنے والی پرواز سردیوں میں صبح سوا سات بجے اور پندرہ مارچ کے بعد صبح چھ بجے روانہ ہوتی ہے۔گلگت سکردو اور چترال جیسے مقامات پر ملازمت کے لئے آنے والے لوگوں نے چھٹی پر گھرواپس نہ بھی جانا ہو تو اُن کی نظریں ہر صبح آسمان کا طواف کرتی ہیں۔کہ موسم کیسا ہے؟
پرواز ہو سکے گی یا نہیں؟کیونکہ یہ تینوں شہر سربفلک پہاڑوں میں اس طرح سے گھرے ہوئے ہیں کہ فضا سے پیالے کی مانند نظر آتے ہیں۔اگر ان کے اوپر بادل چھائے ہوئے ہوں تو پائلٹ کو اُترنے میں دقت ہوتی ہے اور کوئی بھی ائرلائن اپنے مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈالتی اس لئے پرواز منسوخ ہوجاتی ہے۔
منسوخی سے پہلے علی الصبح آپ کو ایک پیغام کے ذریعے مطلع کیاجاتا ہے۔ اب صبح سوا سات بجے کی پرواز میں سفر کرنے کے لئے آپ کو لازمی طور پر صبح چار بجے اُٹھنا ہوگا۔ تیار ہو کر جب آپ ائرپورٹ پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خراب موسم کی وجہ سے پروازمنسوخ ہوچکی ہے۔
صبح چار بجے اُٹھ کر تیار ہونے سے لے کر یہ اعلان سننے تک کی بھاگ دوڑ ایک ایسی تھکن بن کر آپ پر سوار ہو جاتی ہے جو بیزاری،اُکتاہٹ،جھلاہٹ، بے بسی،جھنجھلاہٹ، ان سب کا مجموعہ ہوتی ہے۔ سٹیلائٹ کے اس دور میں موسم کی کیفیت اور صورت حال مہینہ بھر پہلے بھی معلوم ہو سکتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی آئی اے کے پائلٹس کی مرضی پر بھی پرواز کے ہونے نہ ہونے کا انحصار ہو تا ہے۔
اگر اُن کا مزاج اچھا ہے۔بیوی سے منہ ماری نہیں ہوئی ہے۔کوئی اور پریشانی بھی تنگ نہیں کر رہی تو پھر اچھے بھلے گھنے سیاہ بادلوں میں سے بھی جہاز کو نکال کر وادی میں لے آتے ہیں۔مزاج درست نہ ہو یا دوران پرواز بھی موڈ خراب ہوجائے تو ائرپورٹ کے اوپر سے چکر لگا کر اُتارے بغیر جہاز کو واپس موڑ لیتے ہیں کہ رن وے کیVisibilityٹھیک نہیں تھی۔ جب فروری کے آخری ہفتے کے دوران میں گلگت لگاتار بارش اور پہاڑوں پر برف باری شروع ہوئی توایک طرف موسم مزید سرد ہوگیا تو دوسری طرف پروازیں پے در پے منسوخ ہونا شروع ہوگئیں۔۳۲ سے ۶۲ فروری تک کوئی پرواز نہ ہو سکی۔نتیجہ یہ نکلا کہ میری بکنگ آگے چلتی گئی۔۶۲ فروری کو پی آئی اے کے مقامی دفتر نے بتایا کہ آپ کا ٹکٹ کنفرم نہیں ہو سکے گا۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ایک عرصہ سے گلگت بلتستان اور چترال کی پروازوں کے لئے ٹکٹ کی کنفرمیشن کراچی سے ہوتی ہے اور یہاں ایک جملہ معترضہ کی گنجائش نکلتی ہے، وہ یہ کہ اگر آپ کو کسی ہنگامی وجہ سے اگلے روز کی پرواز کاکنفرم ٹکٹ درکار ہے، بھلے اس سے پہلے دس روز تک پرواز نہ ہوئی ہو اور ٹکٹ ملنے یا کنفرم ہونے کا کوئی امکان موجود نہ ہو، پھر بھی آپ کنفرم ٹکٹ لے کر سفر کر سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ آپ کو پی آئی اے کے دفتر(گلگت، سکردو،چترال)اسلام آباد اور پشاور میں اُن اہلکاروں کا پتہ ہونا چاہیئے جو دو ،تین ہزار روپے زائد لے کر آپ کی نشست کنفرم کر دیتے ہیں۔
اس رقم میں سے کچھ حصہ کراچی صدر دفتر میں بیٹھے ہوئے رشوت خوروں کی جیب میں بھی جاتا ہے۔ جو لوگ پندرہ بیس گھنٹے کا سفر کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور جنہیں فوری ضرورت پڑ جاتی ہے وہ زائد رقم ادا کرکے اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔ بہرحال چونکہ پروازیں سرے سے ہو ہی نہیں رہی تھیں اس لئے موسم میں بہتری کے آثار نہ پاتے ہوئے میں نے سڑک کے راستے راولپنڈی جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے دفتر کے سیلز سیکشن کے انچارج اکبر حسین سے اس کا انتظام کر نے کو کہا کیونکہ وہ ریڈیوپاکستان میں ملازمت کے ساتھ ساتھ گلگت راولپنڈی کے درمیان کار سروس بھی چلاتا ہے۔
اب سڑک کے راستے گلگت سے روالپنڈی جانے میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ گذشتہ دو تین برسوں کے دوران میں چلاس سے آگے بشام تک کے علاقے میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے کچھ ایسے اندوہ ناک واقعات پیش آئے تھے جن کی وجہ سے انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ گلگت سے راولپنڈی کے لئے مسافر گاڑیاں صبح چھ بجے سے دس بجے کے درمیان چلا کریں گی۔
اس کے بعد کسی گاڑی کو راولپنڈی کے لئے روانہ ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔دیر سے روانہ ہونے والی کاروں کو کسی حد تک استشنا حاصل تھا کہ لوگ چیک پوسٹوں پر جھوٹ بولتے اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں چلاس تک جانا ہے تو انہیں آگے جانے دیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ چلاس گلگت بلتستان کے ضلع دیامرکا ضلعی صدر مقام ہے اور اس کے آگے صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع اپر کوہستان شروع ہو جاتا ہے۔ ضلع اپر کوہستان میں داخل ہونے کے بعد کسی گاڑی کو آگے جانے سے نہیں روکا جاتا۔ بہرحال اکبر حسین نے ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا کہ ایک کار گھنٹہ بھر میں راولپنڈی کے لئے روانہ ہوگی، اس میں دو سواریوں کی گنجائش ہے۔
میں نے اگلی سیٹ بک کرا لی۔ اگلی سیٹ کے لئے ساڑھے چار ہزار روپے جبکہ پیچھے بیٹھنے والی تین سواریوں سے چار ہزار روپے کرایہ وصول کیاجا تا ہے۔(یہ ذکر 2015ء کا ہے۔) گلگت اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی کار سروس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ راولپنڈی ہو یا گلگت، ہر دو جگہوں پر سواریوں کو اُن کے گھروں یا ہوٹلوں سے لیاجاتا ہے، اس لئے گھنٹہ بھر بعد چلنے والی کار کو گلگت کی مختلف آبادیوں سے سواریاںاُٹھاتے اُٹھاتے ساڑھے بارہ بج گئے۔میرا دفتر ریڈیو پاکستان گلگت شہر سے چھاؤنی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں جوٹیال کے علاقے میں واقع ہے۔
اس لئے کار جب مجھے لینے آئی تو معلوم ہوا کہ ابھی ایک مسافر نے دنیور سے بیٹھنا ہے۔گاڑی میں موجود مسافروں میں سے ایک میجر صاحب تھے جو گلگت کے رہنے والے تھے اور کھاریاں اپنی ڈیوٹی پر جا رہے تھے۔ دینور سے سواری اُٹھانے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ پر میجر صاحب کو بٹھا دیا گیا تاکہ اُن کی وجہ سے راستے کی چیک پوسٹوں پرآگے جانے میں آسانی رہے۔ میں نے راستے کے لئے درجن بھر کینو خرید رکھے تھے تاکہ بھوک پیاس کی صورت میں پریشانی نہ ہو۔
یاد رہے کہ گلگت میں ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت سبزیاں اور پھل دوگنا قیمت پر فروخت ہوتے ہیں۔ خیر ہم ٹھیک ایک بجے دوپہر روانہ ہوئے۔ گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد جگلوٹ پہنچے تو میں نے گاڑی رکوا لی تاکہ ظہر کی نماز ادا کی جاسکے۔ نماز ادا کرکے واپس آیا تو میجر صاحب کسی شخص سے محو گفتگو تھے، اُس شخص کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا۔میجر صاحب نے مجھ سے پوچھنے کا تکلف بھی نہ کیا اوررخصت کرتے وقت کینوؤں کا لفافہ اٹھا کر بچے کے حوالے کر دیا۔ میں حیرت سے اُن کا منہ دیکھتا رہ گیا۔اب راستے میں کسی جگہ اچھے کینو ملنے کی اُمید بھی نہ تھی۔
جگلوٹ سے آگے بونجی کی بستی آئی جہاں ناردرن لائٹ انفنٹری کا سنٹر ہے۔بونجی ضلع استور میں شامل ہے۔یہاں حکومت نے 4500میگاواٹ کا ایک پن بجلی گھر تعمیر کرنے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن اس کی تعمیر کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔بونجی سے کچھ آگے تھلیچی ہے جہاں سے استور کے لئے سڑک مڑ جاتی ہے اور شاہراہ قراقرم راولپنڈی کی طرف رواں دواں رہتی ہے۔تھیلچی سے کچھ آگے عالم برج ہے جہاں سکردو سے آنے والی سڑک شاہراہ قراقرم سے ملتی ہے۔یہیں وہ منفرد مقام ہے جہاں دنیا کے تین بڑے سلسلہ ہائے کوہ یعنی ہمالیہ،ہندوکش اور قراقرم ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں۔یہیں دریائے سندھ اور دریائے گلگت بھی آپس میں یکجا ہوتے ہیں۔
اس مقام سے پچیس تیس کلو میٹر کے فاصلے پررائے کوٹ برج ہے۔گلگت بلکہ خنجراب سے رائے کوٹ برج تک شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں اسم بامسمیٰ ہے۔یوں لگتا ہے کہ گاڑی ہوا میں تیر رہی ہے۔رائے کوٹ پل پار کرنے کے بعد جب ہم آگے بڑھے تو یہی شاہراہ ریشم شکیب جلالی کے اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ۔
؎ انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔
اُن دنوں پورے پاکستان کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں بھی بارشیں ہورہی تھیں۔پہاڑوں پر برف باری جاری تھی۔اس لئے جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ ہوچکی تھی۔ سڑک کی بہ حالت کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ انتہائی سست ہوچکا تھا۔ ضلع دیامر کے صدرمقام چلاس سے کم و بیش چالیس کلو میٹر آگے مجوزہ دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ آجاتی ہے۔یہاں دریا ایک تنگ گھاٹی سے گذرتا ہے۔ڈیم کی جگہ کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور جو علاقے ڈیم کی تعمیر کے بعد جھیل میں شامل ہوں گے اُن کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے اور زمینوں کے مالکان کو معاوضے ادا کئے جا چکے ہیں۔
جھیل کا حصہ بننے والے علاقہ میں چلاس شہر کے قریب سے گذرنے والی شاہراہ قراقرم اور اس سے ملحقہ بستیاں اور بنجر زمینیں شامل ہیں۔ داسو ڈیم بھی تعمیر ہونے والے منصوبوں میں شامل ہے اس لئے چلاس سے داسو تک شاہراہ قراقرم کی ازسرنو تعمیرکا کام موجودہ سڑک سے کافی اونچائی پر شروع کیا جا چکا ہے۔دونوں ڈیموں کی زد میں آنے والی سڑک کم و بیش دو سو کلو میٹر طویل ہوگی۔دیامر بھاشا ڈیم کی سائٹ پر پنجاب رینجرز کی ایک چیک پوسٹ بنی ہوئی ہے۔رینجرز کے جوان دریائے سندھ پر رسوں کے ذریعے چرخی کی مدد سے چلنے والے آہنی پنجرے میں بیٹھ کر دریا کے آر پار آتے جاتے اور اس اہم مقام کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
( اسی چیک پوسٹ کو مارچ 2015ء کے دوسرے ہفتے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا اور رینجرز کے پانچ جوان شدید زخمی ہوئے جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راولپنڈی منتقل کیا گیاتھا۔)گلگت سے رائے کوٹ تک شاہراہ ریشم دریائے سندھ کے دائیں کنارے آگے بڑھتی ہے۔رائے کوٹ پُل کے بعد داسو تک دریا اس شاہراہ کے دائیں کنارے ہوجاتا ہے۔رائے کوٹ پُل سے ہی قاتل کہلائے جانے والے پہاڑ نانگا پربت کے دامن میں پریوں کے مسکن فیری میڈوز کو جانے والی کچی سڑک کا آغاز ہوتا ہے جو تاتو گاؤں تک جاتی ہے۔
چلاس اور داسو کے درمیان شاہراہ ریشم ایک جگہ خاصی اونچائی پر جا کر پھر نیچے اُتر آتی ہے۔اس حوالے میرے چچا ائر کموڈور (ریٹائرڈ)نبی بخش پراچہ مرحوم کے خسر فقیر احمد پراچہ نے (جو سکریٹری محکمہ تعمیرات و مواصلات صوبہ خیبر پختونخواکے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے) بتایا کہ اس علاقہ میں جب شاہراہ ریشم تعمیر ہورہی تھی۔
(1966-78) تو اس دوران لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک کیپٹن کو ’جو کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن میں یہاں اس منصوبے سے منسلک اور تعینات تھے‘ پہاڑ پر اوپر آباد گاؤں کی ایک دوشیزہ اچھی لگی جو اپنی بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے آتے جاتے کہیں اس کیپٹن کے سامنے آگئی تھی دل کے ہاتھوں مجبور کیپٹن نے جب رشتہ مانگا تو اُس لڑکی کے والدین نے گاؤں والوں کے مشورے سے ایک شرط عائد کی کہ زیر تعمیر شاہراہ ہمارے گاؤں سے گذار دیں اور رشتہ لے لیں۔ کیپٹن صاحب کے بس میں یہ بات نہ تھی کہ وہ طے شدہ نقشے سے انحراف کرکے سڑک کا رُخ اپنی محبوبہ کے گاؤں کی طرف موڑ دیتے۔ لیکن خوش قسمتی سے اُس کیپٹن کی یونٹ کے بٹالین کمانڈر بھی دل والے تھے جنہیں اس ساری روداد کا علم ہو چکاتھا۔ بٹالین کمانڈر نے منظور شدہ نقشہ بیسویں صدی کے اس فرہاد کے لئے تبدیل کیا۔ سڑک کو کافی اونچائی پر لے جاکر اپنے کپتان کی ہونے والی دلہن کے گاؤں تک پہنچایا اور یوں ایک کوہستانی چرواہے کی بیٹی لاہور والوں کی بہو بن گئی۔
خراب سڑک کا یہ سلسلہ داسو تک چلتا ہے۔اب رائے کوٹ برج سے داسو تک یہ فاصلہ تواڑھائی پونے تین سو کلو میٹر بنتا ہے لیکن اسے طے کرتے کرتے مسافروں کا صبر جواب دے جاتا ہے۔کمر کے مہرے ہل جاتے ہیںاوروہ تختہ ہوجاتی ہے،گھٹنوں میں بل پڑنے لگتے ہیں۔ پیٹ میں چوہے دوڑنے لگتے ہیں،پیاس سے حلق میں کانٹے اُگ آتے ہیں اور نظریں کالے پتھروں اور چٹانوں کو دیکھتے دیکھتے پتھرا جاتی ہیں۔ داسو شہر سے پہلے ثمر نالہ پر کچھ ہوٹل بنے ہوئے ہیں جہاں مسافروں کے لئے کھانا پینا دستیاب ہے۔
ان ہوٹلوں کو منور کرنے کے لئے اسی نالے پر بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن لگے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم عصر کی نماز پڑھنے اور کھانا کھانے کے لئے رک گئے۔ گلیشئر سے نکلنے والے نالے کے کنارے ہوٹل کے تنور کے اردگرد لگی نشست گاہ میں بیٹھ کر کھانے کا جو لطف آیا وہ شاید بڑے شہروں کے فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانوں میں بھی نہ ہو۔ ثمر نالہ سے روانہ ہوئے تو داسو پہنچنے سے پہلے ہماری گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔ فاضل ٹائر لگانے کے بعد ہم نے ڈرائیور سے کہا کہ چونکہ رات سر پہ ہے اور سفر طویل ہے اس لئے قریب ترین آبادی آنے پر پنکچر لگوا لینا۔داسو پہنچے تو شام گہری ہوچکی تھی ۔عشا ء کا وقت ہوچلا تھا۔لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ باوجود اس قدر اہم شاہراہ پر واقع ہونے کے داسو کے تمام پنکچر لگانے والے اپنی دکانیں بند کر چکے تھے۔
داسو شہر سے پہلے دریا پر بنا ہوا پُل سڑک کو دریا کے دائیں کنارے لے آتا ہے۔ داسوسے آگے ایک پیٹرول پمپ کے قریب سڑک کے کنارے ایک کھوکھا بنا ہوا تھا جس کے باہر پنکچر لگانے والوں کا عالمی ٹریڈ مارک یعنی پرانے ٹائر رکھے ہوئے تھے۔ کھوکھا اندر سے بند تھا۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک شخص نے باہر جھانک کر دیکھا کہ کون اُس کے آرام میں مخل ہوا ہے۔ڈرائیور نے اُس سے درخواست کی کہ وہ ٹیوب لیس ٹائر میں پنکچر لگا دے۔موصوف نے بادل نخواستہ پنکچر لگانے کی حامی بھری۔ جب اس نے ٹائر دیکھا اور اسے ہوا بھر کے چیک کیا تواُس نے کہا کہ جس جگہ پنکچر ہوا ہے وہاں پنکچر لگانا ممکن نہیں ہے البتہ آپ چاہیں توایک نئی ٹیوب اسی میں ڈال کر اپنا گذارہ چلا سکتے ہیں۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ڈرائیورنے وہ ٹیوب خرید لی۔ اندھیرے کی وجہ سے ٹیوب کا سائز دیکھا نہیں جا سکا۔ ساڑھے تین سو روپے کی ٹیوب آٹھ سو روپے میں خرید کر فاضل ٹائر اُتار کر اس کی جگہ نئی ٹیوب والا ٹائر لگا کر جب ہم داسو سے روانہ ہوئے تو گھنٹہ بھر کے سفر کے بعد وہی ٹائر دوبارہ پنکچر ہوگیا۔ ٹائر تبدیل کرنے کی مشقت جھیلنے کے بعد ڈرائیور نے پتن آکر دم لیا جو ضلع لوئر کوہستان کا صدر مقام ہے۔ یہاں ایک پنکچر والے کی دکان کھلی تھی۔
اُس نے بتایا کہ آپ کی گاڑی کا ٹائر 13سائز کا ہے اور اس میں لگی ہوئی ٹیوب12سائز کی ہے اور اس کی کوالٹی بھی انتہائی ناقص ہے۔پتن والی دکان میں نئی یا پرانی ٹیوب نہیں تھی اس لئے مجبوراً ناقص ٹیوب ہی میں پنکچر لگوا کر ہم نے ڈرائیور سے کہا کہ اب اس ٹائر کو فاضل سمجھ کر کار کی ڈگی میں رکھ لو اور اللہ کا نام لے کر آگے چلو۔ پٹن سے بشام تک کا فاصلہ 65 کلو میٹر ہے اور سڑک نئی اور بہتر بن چکی ہے۔ ضلع اپر کوہستان شروع ہوتے ہی جگہ جگہ کٹی ہوئی عمارتی لکڑی کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔
یہ سلسلہ بشام تک جاری رہتا ہے۔لاکھوں مکعب فٹ قیمتی عمارتی لکڑی جس کی مالیت اربوں روپے بنتی ہے بارشوں اور دھوپ کی نذر ہو رہی ہے۔بشام صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کا ایک معروف قصبہ ہے۔جس کا نام پہلی بار1973ء میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے مشہور ہوا تھا۔بعد میں شاہراہ قراقرم کی تعمیر مکمل ہوئی تو گلگت بلتستان اور چین کا سفر اختیار کرنے والے سیاحوں اور تاجروں کے لئے آتے جاتے ہوئے بشام میں رکنا ایک مجبوری بن گیا کیونکہ یہ قصبہ راولپنڈی اورگلگت کے درمیان واقع ہے۔
ایندھن بھروانے،مسافروں کے کھانے پینے اور نماز کی ادائی کے لئے رکی ہوئی گاڑیوں کی طویل قطاریں بشام میں ہر وقت دیکھی جا سکتی ہیں۔کسی دور میں بشام سمگل شدہ اشیاء کا بہت بڑا مرکز تھا۔افغانستان کے نام پر دنیا بھر سے آنے والاسامان تعیش باڑہ اور لنڈی کوتل کی طرح بشام میں بھی دستیاب تھا۔اسی طرح چین سے آنے والے برتن،کپڑا اور دیگر اشیاء بھی ملتی تھیں۔اب توسابق اور موجودہ حکمرانوں کے طفیل پورا ملک ہی باڑہ مارکیٹ بن چکا ہے۔بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں بسنے والے ہم بیس بائیس کروڑ لوگ تمام کے تمام غیرملکی اشیاء کے صارفین میں تبدیل ہو چکے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
ہمارے اپنے ملک کے کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ پالش کی ڈبیا سے لے کر گاڑیوں اور طیاروں تک ہر شے ہمیں غیر ممالک سے چاہیئے۔جوتے بنانے والے معروف کارخانے اب لاہور اور گجرات میں اپنے کارخانے بند کرکے اپنا مال چین سے بنوا کراپنی مہریں لگا کر بیچ رہے ہیں۔ کچومر عوام کا نکل رہا ہے۔جو نئے جوتوں کو تین سے چھ ماہ کے عرصے میں ٹوٹتا اور بکھرتا دیکھ کرپھر نئے جوتے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی حالت اونی کپڑوں کی ہے۔بنوں وولن ملز،لارنس پور اور اسی نوعیت کی دیگر ملوں کا گرم کپڑا تین سے چار ہزار روپے جوڑا ملتا ہے۔اسی طرح کا اونی کپڑا چین سے آکر بازاروں میں ہزار بارہ سو روپے فی جوڑا فروخت ہو رہا ہے۔
سوتی اور مکس کپڑوں میں بھی چین سے آنے والا کپڑا سستا اور ہر جگہ دستیاب ہے۔سلائی مشینوں۔سایئکلوں،موٹر سایئکلوں سے لے کر بجلی سے چلنے والی مختلف اشیاء جبکہ ، کھانے پینے کی چیزوں میں سبزیوں،پھلوں،دالوں اور مصالحہ جات تک بلکہ جس چیز کا ذکر کریں یا نام لیں وہ آپ کو چین کی بنی ہوئی،چین میں پیدا کی ہوئی کم قیمت میں دستیاب ہوگی اور ملک کی اپنی صنعت،تجارت،زراعت ،مقامی تاجر،کاشتکار،کسان اورباغبان تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔
اگر برسراقتدار لوگ ملک کے سارے علاقوںکو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتے۔ ترقیاتی منصوبوں، نئی صنعتوں کے قیام، جدید ذرائع آمدورفت کی تعمیر اور بحالی ، موٹر ویزکی تعمیر، قومی و بین الصوبائی شاہراہوں کی تعمیر و مرمت، نئی صنعتی بستیوں کے قیام، روایتی اور فنی تعلیمی سہولیات کی فراہمی،ریلوے نیٹ ورک کی بحالی یا اسی نوعیت کا کوئی بھی کام، ہر سرگرمی ایک ہی خطے سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجائے تو پھر ایسی ترقی کے ثمرات ملک بھر کے لئے نہیں ہوتے۔نہ ہی وہ حکومتیں پنپ پاتی ہیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سی پیک کے مختلف منصوبوں میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو جس طرح سے نظر انداز کیا اُس کا ذکر کرنا اب لاحاصل ہے۔ جب چین کی حکومت نے جغرافیائی حقائق اور فاصلوں کی طرف توجہ مبذول کرائی اور عوامی حلقوں کی طرف سے احتجاج کی آوازیں زیادہ پُرشور ہونے لگیں تو بادل نخواستہ نواز حکومت نے مغربی روٹ پر کام شروع کرنے کا عندیہ دیا اور یہاں بھی ڈنڈی ماری اور خیبرپختونخوا کے ایک بڑے علاقے کو سی پیک کے ثمرات سے محروم رکھ کر اپنا خبث باطن عیاں کیا۔اور حویلیاں سے آنے والی موٹر وے کو پشاور موٹر وے سے منسلک کرنے کے بجائے ہکلہ سے یرک 465کلومیٹر تک کا طویل فاصلہ صوبہ پنجاب کے اضلاع اٹک اور میانوالی سے گذار کر ڈیرہ اسماعیل خان پہنچانے کا کام شروع کیا۔
جس پر تادم تحریر کام مکمل نہیں ہو پایا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پنجاب میں ترقی دیکھنی ہو تو لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، ساہیوال، اوکاڑہ ،فیصل آباد، سرگودھا، راولپنڈی اور جہلم میں دیکھی جا سکتی ہے۔
میانوالی، اٹک، بھکر، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لودھراں، لیہ، بہاولنگر، مظفر گڑھ، ملتان، رحیم یار خان اوربہاولپور کے عوام ترقی کے اُن ثمرات سے اُسی طرح محروم ہیں جس طرح سے صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع کوہاٹ، ہنگو،کرک،لکی مروت،بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان ، لوئر دیر،اپر دیر،چترال،لوئر کوہستان،اپر کوہستان اور شانگلہ صوبائی دارالحکومت پشاور،مردان،چارسدہ،سوات ،ایبٹ آباد،ہری پوراورصوابی کے مقابلے میں ہمیشہ سے نظرانداز کئے جاتے رہے ہیں۔ایک خاص ذہنیت آسیب کی طرح پاکستان پر چھائی ہوئی ہے۔جس کے مطابق مختلف علاقوں کے قدرتی وسائل تو سارے ملک کے لئے ہیں لیکن جب نئی شاہراہوں، تعلیم،صحت،روزگار کے مواقع،رسل و رسائل،توانائی کے نئے منصوبوں کی بات ہو تو ہر صوبے میں مخصوص علاقوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور پہلے سے محرومیوں کے شکار علاقے اور اُن میں بسنے والے عوام نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔
عوام کو بے وقوف سمجھنے اور بنانے کا سلسلہ تو ایک عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اس میں شدت انتخابات سے کم وبیش ایک برس پہلے آجاتی ہے۔لطیفہ یہ ہے کہ نظر انداز کئے جانے والے علاقوں میں کئے گئے انتخابی جلسوں کے دوران میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔مثال کے طور پر اکتوبر 2016ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کوہاٹ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کوہاٹ راولپنڈی ریلوے سروس کی بحالی کا اعلان کیا تھا جو گذشتہ چار برس سے بند پڑی تھی۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں صرف کوہاٹ ہی ہے جس کا رابطہ راولپنڈی کے ساتھ سڑک اور ریل دونوں ذرائع سے ہے۔کوہاٹ راولپنڈی ریل کار اور ٹرین سروس انتہائی کامیابی سے چلتی رہی۔ لیکن غنڈہ گرد،قبضہ گیراور سینہ زور ٹرانسپورٹ مافیا اور ر یلوے کے بدعنوان عناصر کی ملی بھگت سے اس ٹرین سروس کو خسارے کی نذر کرکے بند کرا دیا گیا اور یوں جنوبی اضلاع کے لاکھوں عوام خاص طور پر کوہاٹ شہر اور گردونواح کی آبادی اور یہاں پاک فوج اور پاک فضائیہ میں تعینات عملے کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے اعلان کو سال بھر سے زائد ہوچلا ہے۔لیکن یہ ٹرین سروس بحال نہیں ہو پائی ہے۔(یہ ٹرین مسلم لیگ (ن)کی حکومت ختم ہونے کے بعد بحال ہوئی۔لیکن پاکستان ریلوے کے ارباب اختیار پورے پشاور ڈویژن میں سب سے زیادہ منافع بخش راولپنڈی ۔کوہاٹ ٹرین سروس کے درپے ہیں۔اس وقت کوہاٹ جانے والی ٹرین کے ساتھ لگنے والی سات بوگیوں میں سے چھ زمانہ قدیم کی بوگیاں لگائی جاتی ہیں۔جبکہ ایک بوگی نسبتاً نئی ہوتی ہے۔
ذکر ہورہا تھا بشام کا جہاں سے تھاکوٹ تک کی سڑک بھی نئی بنی ہوئی ہے اس لئے وقت گذرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ تھاکوٹ میں دریائے سندھ پر بنے ہوئے پُل کو پار کرنے کے بعد شاہراہ قراقرم اور دریائے سندھ کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ پھر ہزارہ ڈویژن کا ضلع بٹگرام اور اس کی بستیاں بٹل ، شنکیاری وغیرہ یکے بعد دیگرے تیزی سے گذرنے لگتی ہیں۔ پہاڑی موڑوں اور گھنے جنگلوں میں سے گذرتے ہوئے ہماری گاڑی جب مانسہرہ پہنچی تو رات کے دو بج رہے تھے۔ یاد رہے کہ ہم گلگت سے دوپہر ایک بجے روانہ ہوئے تھے۔
گویا تیرہ گھنٹے مسلسل سفر کرنے کے باوجود ہم ابھی راولپنڈی سے تین چار گھنٹے کی مسافت پر تھے۔ بہرحال دوپہر کا کھانا شام پانچ بجے کے لگ بھگ ثمر نالہ کے مقام پر کھانے کے بعداب کسی ہوٹل پر رکنا لازم تھا۔ ڈرائیور اور تین مسافروں نے رات دو بجے باقاعدہ کھانا کھایا جبکہ میں نے اپنی عادت کے مطابق تنور سے تازہ روٹی لگوا کر چائے کے ساتھ کھائی۔
مانسہرہ میں آدھا گھنٹہ رکنے کے بعد ہم راولپنڈی کی طرف روانہ ہوئے ۔ اگر یہ دن کا وقت ہوتا تو بٹگرام، شنکیاری،مانسہرہ،ایبٹ آباد،حویلیاں ہری پور،حسن ابدال،واہ کینٹ اور ٹیکسلا سے گذرنے میں ہمیںآٹھ گھنٹے لگ جاتے۔کیونکہ ان شہروں میں گاڑیوں اور لوگوں کے ہجوم کے باعث ٹریفک کی رفتار انتہائی سست ہو جاتی ہے۔
اب ہزارہ موٹر وے مکمل ہوجانے کے بعد برہان انٹر چینج سے مانسہرہ تک پہلے سے آدھے وقت میں پہنچا جا سکتاہے۔لیکن اب موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ موٹر وے عوام کے لئے کھول تو دی گئی ہے لیکن ابھی سروس ایریاز،حفاظتی باڑ،اور راستے کی پوری پوری نشاندہی جیسے کام زیر تکمیل ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہزارہ موٹر وے کے افتتاح کے ایک ہفتے کے اندر اندر درجن بھر گاڑیوں کے جان لیوا حادثات صرف اس لئے رونما ہوئے کہ گاڑیاں چلانے والوں نے تیزرفتاری سے کام لیا تھا۔ بہرحال مانسہرہ سے روانہ ہونے کے تقریباً اڑھائی گھنٹے بعد جب میں اپنے گھر راولپنڈی پہنچا تو تھکن کے مارے سیدھا کھڑا ہونا محال ہو رہا تھا۔ جیسے تیسے کرکے بیگ گاڑی سے اُتارا اورگیراج کا تالہ کھول کر اندر آیا تاکہ سوئے ہوئے لوگوں کی نیند خراب نہ ہو۔
گلگت اور راولپنڈی کا فاصلہ 625 کلومیٹر ہے۔ اگر ان دونوں شہروں کے درمیان سیدھی لکیر کھنچی جائے تو یہ فاصلہ275کلومیٹر رہ جاتا ہے۔لیکن قراقرم ،ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوںکی گہری گھاٹیوں، ترائیوں، دروں اور پیچ در پیچ موڑوں سے گذرتے ہوئے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے یہ شاہراہ قراقرم جسے شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔جب راولپنڈی تک پہنچتی ہے تو یہ فاصلہ 625کلومیٹر پر پھیل جاتا ہے۔
The post براستہ سڑک گلگت سے پنڈی آنا کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.