کرۂ ارض کی دوشیزائیں جن کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکا سے ہے، اپنی آنکھوں میں نئی امنگیں اور حسین خواب سجائے، جوش اور مسرت کے بھرپور جذبات کے ساتھ مستعدی سے تیار تھیں ایک دلیرانہ کام انجام دینے کے لیے۔
طے شدہ خلائی پروگرام کے تحت 29 مارچ2019 ء، جمعہ کے روز انہیں بین الاقوامی خلائی اسٹیشن ISS)) کے باہر چہل قدمی (اسپیس واک) کرتے ہوئے ایکسٹر اویلکولر ایکٹیویٹی (EVA)کرنا تھی کہ عین وقت پر قومی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ کی جانب سے انہیں نہ صرف روک دیا گیا بلکہ اس ممکنہ خواتین کے خلائی مشن پوسیبل کو ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ میں بدل دیا گیا۔
ناسا نے اس کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ کچھ آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔ یہ توجیح یوں تھی، ’’اس مکمل خواتین کے خلائی مشن کے لیے درکار ’عورتوں والے سائز کے درست خلائی سوٹ دست یاب نہیں تھے‘‘، چنانچہ عالمی میڈیا اور خاص وعام میں اسے سخت تنقید کا سامنا ہے جسے ایک مذاق کے طور پر بھی لیا گیا، کیوںکہ دو خواتین خلابازوں کے لیے درست ناپ کا ایک ہی سوٹ تھا۔ اس لیے خلاء میں چہل قدمی کے اس مکمل مشن پروجیکٹ کو فی الفور منسوخ کردیا گیا ہے۔
اب چھ ماہ بعد خلاء میں دو شہزادیوں نے 18 اکتوبر 2019 ء کو رکا ہوا مشن کام یابی سے مکمل کرلیا ہے، جو کہ خلائی تاریخ میں نیا باب ہے اور خلائی چہل قدمی کے اس مشن کو تمام خواتین پر مشتمل عملے نے مکمل اور کنٹرول کیا جو ایک نیا عالمی خلائی ریکارڈ بھی ہے۔
,EVAخلائی لبا س یا ’’اسپیس سوٹ کیا ہے‘‘؟: خلائی سفر کے دوران خلابازوں کو خلاء کے ماحول کا جائزہ لینے کے لیے اپنے خلائی جہاز یا اسٹیشن سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ یہ بڑا ہی نازک وقت ہوتا ہے جس میں اپنی حفاظت کے لیے خلابازوں کو مخصوص قسم کا خلائی لباس پہنا لازمی ہوجاتا ہے، تاکہ ان کا جسم خلاء کے زبردست دباؤ کو برداشت کرسکے۔ اس صورت حال میں پہلے وہ ایک تار یا کیبل سے اپنے جہاز سے اسٹیشن سے جڑے رہتے ہیں اور فی زمانہ اب خودمختار قسم کی خلائی کرسیاں بھی موجود ہیں جو کہ انہیں خلاء میں بھٹکنے سے بچاتی ہیں۔ خلاء میں اس طرح باہر نکلنا اسپیس واک یا ’’خلائی چہل قدمی‘‘ کہلاتا ہے۔ انہیں خلاء کے جائزہ کے علاوہ اپنے اسٹیشن کی بھی دیکھ بھال کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کی خلاء میں سرگرمیوں کو ایکسٹر ویکولر ایکٹیویٹی (EVA) کہتے ہیں۔
خلاء باز ایسے سفر پر جاتے ہیں جہاں ہوا کا عمل دخل نہیں خلائی سفر کا یہ نہایت گھٹن وقت ہوتا ہے جس میں حرارت اور سردی، دونوں سے بیک وقت واسطہ پڑتا ہے۔ اسی لیے خلائی سفر کے لیے خاص سوٹ ڈیزائن کیے جاتے ہیں جو کہ ان کی حفاظت کو یقینی بناتے میں مدد کرتے ہیں۔ خلائی سوٹ خلاء باز کے اطراف ایک باحفاظت فضائی ماحول مہیا کرتا ہے۔ لباس میں زمینی ماحول جیسا تاثر پید ا ہوتا ہے۔ درجۂ حرارت اور اندرونی دباؤ کو قائم رکھا جاتا ہے۔ خلابازوں کے کندھوں پر پانی او ر ہوا کے ٹینکر لدے ہوتے ہیں سوٹ کے اندر موجود پلاسٹک کی ٹیوبوں کے ذریعے ٹھندا پانی رواں رہتا ہے جب کہ خلائی سوٹ کے اندر ’’انڈرویئر‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس سے خلابازوں کی رفاہ حاجت پوری ہوتی ہے اور صفائی کا نظام انہیں پرسکون رکھتا ہے۔ حال ہی میں ناسا نے خلاء بازی کے لیے ایک نئے قسم کا رنگ دار سوٹ بھی لاؤنچ کردیا ہے۔
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن(ISS)؟: زمینی مدار میں خلائی اسٹیشن ایک عارضی انسانی رہائش گاہ ہوتی ہے۔ بنیاد طور پر یہ ایک مصنوعی سیارچہ یا سیٹیلائٹ ہی ہوتا ہے جو خلاء میں گردش پذیر رہتا ہے۔ اس کا مقصد خلاء میں ایک ایسا پلیٹ فارم یا اڈا تعمیر کرنا ہوتا ہے جہاں خلائی سفر کے دوران مسافر اور خلاء میں کام کرنے والے ورکر رہتے ہیں۔ یہ روس کا نواں خلائی اسٹیشن ہے اس سے پہلے‘‘ میر‘‘ اور شروع میں خلائی اسٹیشنز کی سیریز ’’سیلوٹ‘‘ کے نام سے لاؤنچ کی جاچکی ہیں۔ میر اسٹیشن میں 11 جولائی 1999 ء میں ہوا کا دباؤ کم ہوگیا تھا جس کے بعد اسے تباہ کردیا گیا۔ میر کے بعد2000ء سے روس نے ایک نئے اور زیادہ پائے دار طویل مدتی منصوبے کے لیے حالیہ خلائی اسٹیشن ISS کو تعمیر کیا ہے اور اس کی بہتری جاری ہے۔
اس عظیم منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 20 بلین پاؤنڈز لگایا گیا تھا جب اسے لاؤنچ کیا گیا اور اس مہنگے ترین پروجیکٹ کا کسی ایک ملک کے لیے سنبھالنا ممکن نہ تھا جس کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس میں دنیا کے 15 سے زائد ممالک معاونت کررہے ہیں۔ خلائی سفر اور اسٹیشن میں رہتے ہوئے روس کو وسیع تجربات حاصل ہیں۔ اسی لیے روس اس بڑے مشترکہ منصوبے کی سربراہی کررہا ہے ۔ امریکا کے علاوہ برازیل، جاپان، کینڈا اور گیارہ یورپین ممالک اپنے سائنسی تحقیقی خدمات کے لیے کام کررہے ہیں اور اس عظیم پروجیکٹ میں برابر کے حصے دار ہیں۔ شروع میں اس کی کارکردگی کی مدت 14 برس رکھی گئی تھی۔
400 ٹن وزنی خلائی اسٹیشن ISS جس کی عرفیت ’’الفا‘‘ رکھی گئی ہے اسے روسی طاقت ور راکٹ کی مدد سے خلاء کے حوالے کیا گیا تھا۔ اس کے خلائی جہاز کے پے لوڈ (گنجائش) کا وزن 20 ٹن تھا۔ اسٹیشن کو پارٹس کی شکل میں خلاء میں پہنچاکر بنایا گیا ہے۔41 فٹ اور 13انچ قطر والے الفا اسٹیشن کو کمرشل مقاصد کے لیے 2004 ء میں کھولا گیا تھا جسے ’’سٹی آف دی اسکائی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ زمین کے اطراف اس کی رفتار 1800 میل فی گھنٹہ ہے اور اسے مزید وسعت دی جارہی جس کے لیے ایکسٹر ویکولر ایکٹیویٹیز یعنی خلائی سرگرمیوں ( EVA ) کے لیے 1,729 گھنٹوں کی چہل قدمیوں کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ خلائی اسٹیشن خلاء میں ایک سروس اسٹیشن بھی ہوتا ہے جہاں اسپیئر پارٹس اور ایندھن کا ذخیرہ ہوتا ہے، تاکہ خلائی جہازوں کو بوقت ضرورت امداد بہم پہنچائی جاسکے۔
ایک اسٹیشن ایک ہوٹل کی شکل میں بھی ممکن ہوسکتا ہے جس میں خلاء باز کئی ماہ قیام پذیر رہ سکیں گے۔ خلائی اسٹیشن ایک گھر کی طرح ہوتا ہے جس میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات خلاء بازوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہاں بجلی کا نظام سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ خلائی اسٹیشن ISS کے باہر نصب بیٹریاں بجلی مہیا کرتی ہیں جو کہ اسٹیشن پر لگے بڑے بڑے سولر پینلوں (Arrays) سے خارج ہونے والی بجلی سے چارج ہوتی رہتی ہیں اور بجلی جمع کرتی ہیں۔ چار بیٹریوں کے سیٹ کو بیٹری چارچ / ڈسچاری یونٹ (BCDU) کہا جاتا ہے۔ BCDUکے آپریشنز دسمبر 2000 ء سے جاری ہیں۔ حالیہ مشن اسی یونٹ کی بیٹریوں کو دستیاب نئی بیٹریوں کی تبدیلی کے لیے کیا گیا جس سے بجلی کی مقدار میں اضافہ ہوگیا ہے۔
پچھلے منسوخ شدہ مشن میں دو نوجوان خواتین کرسٹینا کوچ(Christina Koch ) اور این میکلین ( Anne Mcclain) تھیں، اب این میکلین کی جگہ جسیکامیر ( Jessica Meir) کو جڑواں خلائی چہل قدمی کے مشن میں موقع دیا گیا ہے، این اس اہم مشن کا حصہ بننے سے رہ گئیں۔ دونوں خلاباز کرسٹینا اور جسیکا میر ناسا کی تربیت یافتہ خلاباز ہیں، جو خلاء کی تاریخ میں ایک نیا تاریخی ریکارڈ قائم کرچکی ہیں۔ یہ ناسا کی اس تمام خواتین پر مشتمل پروجیکٹ مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد ’’خواتین خلائی جوڑی ‘‘ کی شکل میں اسپیس واک کرتے ہوئے کام کرنا تھا۔ ان سرگرمیوں میں خلاء باز کو محفوظ بنانے والا لباس یعنی ’’خلائی سوٹ‘‘ نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ حالانکہ ناسا کے مطابق میکلین کی خلائی تر بیت وقت دونوں ہی سائز، بڑے اور درمیانے لباس کو پہنا کر کروائی جاچکی تھیں۔
عین وقت پر لباس پہننے کے بعد این میکلین کو ادراک ہوا کہ ان کا سوٹ انہیں فٹ نہیں آرہا اور مشن کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا۔ خلائی ادارے ناسا نے بتایا تھا کہ ان سوٹوں میں اوپری طرف، قمیض والی جگہ پر گڑبڑ ہے۔ اس وقت ناسا کے پاس بین الاقوامی اسٹیشن پر موجود صرف دَو درمیانے سائز کے خلائی سوٹس تھے جن میں سوٹ کے اوپری حصے موجود ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف ایک ہی سوٹ خلائی چہل قدمی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے خلائی لباس کو تیار کرنے میں 6 گھنٹے درکار ہوتے ہیں، تو ایسی صورت حال میں انہوں نے اس کام کو بدلنے کے بجائے عملے کو بدلنا نسبتاً آسان اور محفوظ سمجھا۔
ناسا کے خلائی مرکز ہوسٹن کی ترجمان برینڈی ڈین نے اس سلسلے میں کہا ہے کہ ہر شخص کی ضروریات میں تبدیلیاں الگ الگ ہوسکتی ہیں کیوںکہ ہر کسی جسم کا خلاء کی صفرکشش ثقل پر مختلف ردعمل دکھاتا ہے، جو کہ تجربوں سے ہی پرکھا جاسکتا ہے۔ 2004 ء میں امریکا کی ورجینیا یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈبائیو میکینکس کی تحقیق کے مطابق کار کے حادثات میں ڈرائیوروں کی سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے تجربات میں معلوم ہوا کہ خواتین کو گہری چوٹ کا خدشہ مردوں کے مقابلے میں 47% فیصد زیادہ ہوتا ہے اور درمیانی چوٹ کا% 71 فیصد ہوتا ہے۔ دہائیوں سے جو ڈمیاں استعمال ہورہی ہیں ان کی پچاس فیصدی اوسط ساخت مردانہ جسم کے مطابق ہوتی ہے۔ اسی لیے حادثے کے درست نتائج کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، جب کہ 2015 ء کی ایک تحقیق جو جریدے ’’نیچر ‘‘ میں چھپی ہے، کہتی ہے کہ خواتین کے جسم کی حرارت میں مردوں کے مقابلے میں پانچ ڈگری فرق ہوسکتا ہے، کیوںکہ خواتین کا میٹابولزم مردوں کی نسبت 35% فیصد کم ہوسکتا ہے۔
امریکی ریڈیو کے مطابق 1990 ء میں ناسا نے اپنے چھوٹے سائز کے خلائی لباس کی تیاری میں بجٹ کی کٹوتی کی تھی جس کے لیے خلائی پروجیکٹ کو روک دیا گیا تھا۔ تاہم ناسا کے حکام نے خواتین خلابازوں کی پرفارمنس کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خلاء میں مردوں کی طرح یکسوئی سے کام کرتی ہیں۔ خواتین ناسا کی ایک تہائی فورس کا حصّہ ہیں۔ ان میں 28% فیصد سنیئر ایگزیکٹیو لیڈر شپ جب کہ16% فیصد سنیئر سائنٹیفک ورکرز ہیں۔ دنیا کی پہلی خاتون خلاء باز ویلنٹینا ٹریشکووا 16 جون 1963 ء کو اپنے کام یاب تاریخی سفر روانہ ہوئیں اور بخیریت واپس آگئیں۔ مردوں کی خلاء میں کام یاب پروازوں کے بعد یہ جاننا ضروری ہوگیا تھا کہ عورتوں کے جسم پر خلاء کے کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خلائی تسخیر کے حوالے سے روس اور دنیا کے دوسرے اہم ترین انسان الیکسی لینوف بھی چل بسے، عین اس جڑواں خواتین کی خلائی چہل قدمی کے مشن سے سات روز پہلے11 اکتوبر کو ان کی 80 سال میں موت واقع ہوئی۔ ایک دوسرے روسی لیجنڈ خلاء باز ویلری بائیکووسکی کی زندگی کا سفر بھی رواں سال مارچ میں اختتام کو پہنچا۔ دونوں آنجہانی خلابازوں کی روس کی خلائی تحقیق میں بہت زیادہ خدمات ہیں۔ خلاء میں اولین خلائی چہل قدمی الیکسی لینوف نے کی تھی جنہیں ’’بلونڈین ‘‘ (سنہرے بالوں والا) کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
روس میں پہلی خاتون کی پرواز کے 19 سال کے ایک بار پھر عظیم خاتون کے خلائی سفر کی داستان کو دُہرایا گیا۔ اس بار عام گھرانے کی لڑکی کے مقابلے میں ایک سوویت ملٹری کمانڈر کی بہادر اور دلیر بیٹی کو خلائی سفر پر روانہ کیا گیا۔ یہ لڑکی 34 سالہ سیوتلانہ ہیں جن کی طویل عرصے کے بعد خلاء میں بھیجے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ وہ اپنے پہلے خلائی سفر پر 19 اگست 1982 ء کو خلائی جہاز سیوزٹی۔7 سے روانہ ہوئیں تھیں ان کی اگلی پرواز 17 جولائی 1984 ء میں ہوئی جب وہ خلائی جہاز سوئزٹی ۔12 سے خلاء میں پہنچیں، سوتلانا ساویتسکایا (Svetlana Saviskaya) نے خلاء میں رہتے ہوئے خواتین کی طرف سے پہلی بار اِیکسٹرا وِیکولرَ اِیکٹیوٹیز انجام دی تھیں۔ اس طرح وہ مرد خلاء باز الیکسی لنیوف کے بعد خواتین کی پہلی چہل قدمی کرنے والی خلاباز بن گئیں۔
اسی سال امریکا کی جانب سے بھی خاتون نے خلاء میں چہل قدمی کرکے ریکارڈ قائم کردیا تھا۔ سیوتلانہ 3 گھنٹے، 35 منٹس تک خلاء اسٹیشن سے باہر رہیں اور وہ روس کی جانب سے 2010 ء تک خلائی چہل قدمی کرنے والے 57 خلابازوں کی لسٹ میں واحد خاتون ہیں۔ امریکا کی جانب سے پہلی تاریخی خلائی چہل قدمی آنجہانی ایڈوروائٹ نے کی تھی اس کے بعد اب تک خواتین کو صرف خلائی مہمات میں مردوں کے ساتھ شریک کار بنایا جاتا رہا ہے، جب کہ انہوںنے خلاء کی سرگرمیوں (EVA) ، میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیا تھا۔ سنہ1984 ء سے خاتون خلاباز سیوتلانہ کی اولین خلائی چہل سے اب تک 15 خواتین خلائی چہل قدمیاں کرچکی ہیں، ان میں سوائے ایک کے تمام خواتین امریکی ہیں۔ حالیہ چہل قدمی اور اس سے متعلق سرگرمی EVA کئی عشروں کی محنت کا نچوڑ ہے۔
امریکا قومی خلائی ایجنسی ناسا (نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈ منسٹریشن) کی دونوں خلاباز خواتین جسیکا اور کرسٹینا آپس میں بہترین دوست بھی ہیں۔ 40 سالہ کرسٹینا کَوچ الیکٹریکل انجینئر ہیں جب کہ ان کی ہم عمر جسیکامیر میرین بائیلوجی ڈاکٹر ہیں جو مارچ سے خلائی اسٹیشن پر ہیں جن کی یہ چوتھی خلائی چہل قدمی تھی جب کہ وہ پروگرام کے مطابق اسٹیشن پر فروری2020 ء تک قیام پذیر رہیں گی۔ کرسٹینا نے گاڈرڈ(Goddard)خلائی مرکز رہتے ہوئے سائنسی آلات کا استعمال کیا اور کاسمولوجی (کائنات) اور آسٹروفزکس(فلکیاتی طبیعات) کا مطالعہ کیا ہے اس کے علاوہ وہ امریکی انٹارٹک پروگرام کی تحقیقاتی معاون بھی رہیں ہیں اور انہوں نے جنوبی قطب پر ایک سال گزارا تھا جب کہ ان کی ساتھی خلاباز جسیکا میر نے ناسا کی صفر کشش ثقل پر انسانی جسم کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے اور سخت ماحولیاتی حالات پر جانوروں کی فزیالوجی (جسمانی ساخت) پر کام کرچکی ہیں۔
جسیکا میر 19 ستمبر سے آئی ایس ایس پر ہیں دونوں دوستوں نے ناسا ایک ساتھ جوائن کیا تھا۔ خلابازوں کی کلاس میں ان کا نک ِنیم “Eight Balls” ہے۔ ان کی سب سے ہائی پرسنٹیج تھی جو کسی بھی خاتون خلاباز گروپ کی اب تک کی سب سے نمایاں کارکردگی رہی ہے۔ اب تک سب سے زیادہ خلاء میں وقت گزارنے والی خواتین کرسٹینا کوَچ بن چکی ہیں جو کہ ماہ اکتوبر کے اختتام پر 241 دن ISS اسٹیشن پر بسر کرچکی ہیں جو کہ کسی خاتون خلاباز کا سب سے زیاد ہ لگاتار خلاء میں رہائش کا نیا ریکارڈ ہے۔ اسی کے ساتھ ان کی ساتھی خلاباز جسیکا میر کو بھی لگاتار خلاء میں رہتے ہوئے 42 روز ہوچکے ہیں۔
حالیہ کامیاب مشن پانچ خلائی چہل قدمیوں کے پروگرام اور اُس خلائی مشن کا حصہّ ہے جس کا نام “Expedition-61″ رکھا گیا ہے جو چھ بین الاقوامی خلابازوں پر مشتمل ٹیم شامل ہے۔ اس میں چہل قدمیوں اور خلائی سرگرمیوں کے ساتھ لیب میں سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں۔ اس ٹیم میں کرسٹینا اور جیسکا کے علاوہ ناسا کے خلاباز جوائنٹ فلائٹ انجینئر اینڈیو مورگن، روس انٹر کاسموس کے دو سنیئر خلاباز الیگیذینڈر اِکورتوو(Alexander Skvortov) ،اَولیِگ اِسکریپوچکا(Oleg Skripochka) اور اس تجرباتی مشن ایکس۔61 کے کمانڈر لوُسا پاَرِیمیتانو(Luca Parmitano)ہیں جن کا تعلق یورپی خلائی ایجنسی (ESA) سے ہے اور وہ اٹالین ہیں جب کہ خلائی اسٹیشن کے اس وقت مینجر کینی ٹوڈ(Kenny Todd) ہیں۔
سنیئر خاتون خلاباز اسٹیپنی ولسن (Stephanie Wilson) نے زمینی خلائی مرکز سے اپنی آواز کے ذریعے تمام خواتین پر مشتمل عملے کی مکمل نگرانی کی جو کہ ہوسٹن کے خلاء مرکز پر موجود تھیں۔ ولسن 42 دن خلاء میں بسر کرچکی ہیں جو کہ انہوں نے تین مختلف پروازوں کے مدد سے چار سالوں(2006-2010) میں بنایا ہے۔ بطور خلاء باز ولسن کا انتخاب اپریل 1996 ء میں ہوا تھا وہ پہلی افریقی۔ امریکی خاتون خلاباز Mac Jemison کے بعد خلاء میں جانے والی دوسری خاتون خلاباز بن گئیں۔ ولسن نے ہی 2013 ء میں کرسٹینا اور میر کا انتخاب کیا تھا۔ اس چہل قدمی کی نگراں جیکی کیگینی (Jackie Kageny)ہیں۔ فلائیٹ انجینئر جسیکا میر اور سائنس دان کرسٹینا کَوچ کی راہ نمائی اور مدد ایکس۔61 کے کمانڈر لُوسا پاَرِیمیتانو اور ان کی ٹیم کے دوسرے خلاباز بھی کرتے رہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے بروقت نمٹا جاسکے۔
اس سے پہلے 11 اکتوبر کو کرسٹینا نے اپنے ساتھی خلاباز اینڈریو مورگن کے ہمراہ چہل قدمی کرتے ہوئے پرانی نکل بیٹروں کو لیتھیم آئن بیٹریوں سے تبدیل کردیا تھا جس میں 6 گھنٹے اور 45 منٹس صرف ہوئے۔ یہ اب تک43 ویں اورISS کی مرمت و دیکھ بھال کے لیے 22ویں خلائی چہل قدمی تھی جس میں مکمل طور پر خواتین عملہ شامل تھا۔ پہلی تاریخی جڑواں خواتین کی چہل قدمی اپنے شیڈول کے مطابق 5 گھنٹے اور 32 منٹ تک جاری رہی اور ہدف کو پور ا کیا گیا۔ تاریخی چہل قدمی18 اکتوبر کے دن شروع ہوئی 11:38 (گرینچ وقت) اور ایکسٹرا ویکولر ایکٹیوٹی (EVA) کا آغاز کیا گیا :50 11(گرینچ وقت) صبح کے وقت ہوا۔ اسٹیفنی ولسن گراؤنڈ پر ، لُوسا اور مورگن آئی ایس ایس کے اندر موجود تھے جو اس مشن کی ہدایات دیتے رہے ۔کوچ کے پاسEVA کا بیگ تھا جس میں کام کرنے کے اوزار اور آلات ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ لائف سپورٹ سسٹم بھی لدا ہوتا ہے۔
کوچ کے سفید خلائی سوٹ پر سرخ پٹیاں تھیں جو ان کی شناخت بتاتی رہیں۔ خلائی اسٹیشن پرExP-61 کے حوالے سے جو سائنسی تجربات کیے جارہے ہیں ان میں پرواز سے پہلے اور پرواز کے بعد صفر کشش ثقل پربائیولوجیکل صحت کے اثرات کا جائزہ ، خون دماغ پر کیسا ردعمل رکھتا ہے۔ کینسر تھراپی (علاج)، انسانی وجود کے بنیادی مادے DNA کی سیکوئنس اور خلائی زراعت اور روبوٹکس ٹیکنالوجی پر تحقیقا ت وغیرہ شامل ہیں۔ اس سے پہلے خاتون خلاء باز کیٹ رُوبن(Kate Rubin) وہ پہلی شخصیت بن چکی ہیں جنہوں نے خلاء میں DNA کے تسلسل کا مشاہدہ کیا تھا جو کہ تاریخ میں پہلا تجربہ ہے۔ کیٹ نے یہاں اسٹیشن پر رہتے ہوئے اپنی زندگی کے سب سے خطرناک مہلک مرض کو پیدا کرنے کی اہلیت کا مطالعہ کیا، زمین کے برعکس صفر کشش ثقل پر۔ اس مشن میں کینیڈا کے روبوٹکس بازو” Canadarm ـ”نے بھی خدمات انجام دیں۔
امریکا بھر کے طول وعرض میں اس مشن کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور اسے خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک تقلیدی مثال سمجھا جارہا ہے۔ امریکا کے صدر ٹرمپ نے ایک لائیو وڈیو کانفرنس میں جواں سال خلاباز لڑکیوں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے انہیں مبارک باد دی ہے اور کہا ہے کہ ’’تم نے جو کیا ہے اس پر ہمارے ملک کو تم پر فخر ہے!‘‘ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر Jim Bidenstine کہتے ہیں کہ اس طرح کی تمام کاوشیں خلابازوں کو چاند پر بھیجنے کی تیاریوں کا سلسلہ ہیں۔ پہلے مرد / خاتون کو 2024 ء تک چاند پر بھیجا جائے گا۔ ناسا کے معاون ایکٹیو ایڈمنسٹریٹر (برائے انسانی تجربات اور آپریشن) Ken Bowersoxنے بھی مشن کی کام یابی پر کہا ہے کہ خواتین نے ایک عام معمول کے کام کی طرح پرفارمنس دی ہے۔ عظیم تر خلاء کا پرامن استعمال اور انسانی تحقیقات کے علم میں اضافے میں خواتین اب برابر کی حصّہ دار بن چکی ہیں۔ امریکی ریپلکن خاتون کیتھرین کلارک نے اس پر دل چسپ ٹوئٹ کی ہے،
“One Giant Leap for Womenkind!”
The post خلاء میں پہنچیں صرف خواتین appeared first on ایکسپریس اردو.