بابا، گاؤں جاؤ تو
کتابیں لے کر آنا
اور ایک اچھا سا قلم بھی
میں لکھوں گی اور پڑھوں گی
ادّی (بہن) کی طرح آگے بڑھوں گی
اس جیسے کئی گیت سندھ کے دیہات میں مروج ہیں جہاں تعلیم کی روشنی پھیل رہی ہے اور علم کے دیے تربیت کے چراغوں کے ساتھ مل کر شان دار مستقبل کی کرنیں بکھیر رہے ہیں یہ 21 ویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتامی برسوں کا سندھ ہے ایک سو برس قبل سندھ میں جامعات نہ تھیں اور کالج بھی معدودے چند۔ ان دنوں گریجویشن کے لیے ممبئی یونیورسٹی یا پھر علی گڑھ جانا پڑتا تھا لیکن آج جام شورو، نواب شاہ اور کراچی جامعات کے شہر ہیں۔
ایک دو نہیں نصف درجن سے زائد تعلیمی بورڈ ہیں اور لاکھوں پرائمری، سیکنڈری، مڈل اور ہائر سیکنڈری اسکول، ہزاروں کالجز اور درجنوں جامعات گویا ایک صدی میں تعلیمی انقلاب آیا ہے لیکن تعداد بڑھی تو کوالٹی متاثر ہوئی اور ڈگری ہولڈر بھی وہ قابلیت نہیں رکھتے جو ماضی میں میٹرک پاس کو میسر تھی یہ نوحہ اپنی جگہ مگر دوسری طرف بہتری بھی آئی ہے سندھ کی پس ماندہ اور معاشرتی لحاظ سے لوئر کلاس سمجھی جانے والی برادریوں میں بھی شعوری بیداری آئی ہے اور ان کے لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی آگے بڑھ رہی ہیں اور فکری اعتبار سے ان کے عزائم و ارادے بھی بلند و مستحکم ہیں گذشتہ دنوں ایک خبر نے ارض مہران ہی نہیں دیگر صوبوں کے اصحاب دانش کو چونکا دیا۔
اوڈ، باگڑی، میگھواڑ، کولہی اور گرگلے ایسی اقوام تصور کی جاتی تھیں جو تعلیم سے نابلد، پرانے رسم و رواج پر کاربند اور اونچ نیچ، چھوت چھات کے نظام میں انتہائی پس ماندہ لیکن شانتی اوڈ پولیس میں بھرتی ہوئی تو اس کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خاصا چرچا رہا۔ شاہ پور چاکر کے ریاض داہری، الیاس انجم، ٹنڈو محمد خان کے وسیع قریشی، مٹھی کے نند لعل لوہانو، کندھکوٹ کے گوکل داس، ڈہرکی کے طاہر عباس، ماتلی کے اسلم قائم خانی، حیدرآباد کے اسلم چنا سے گفتگو رہی تو مزید آگہی ہوئی سندھ کے خانہ بدوش قبائل پر میجر خورشید قائم خانی نے خاصا تحقیقی کام کیا تھا۔
ٹنڈو الٰہیار میں قیام پاکستان کے بعد راجستھان سے ہجرت کرکے آباد ہونے اورکراچی میں 80 برس کی عمر میں انتقال کر جانے والے خورشید قائم خانی کو سندھ کی پس ماندہ اقوام میں دیوتا کا درجہ حاصل تھا۔ ٹنڈو جام کے ظفر انجم قائم خانی بتانے لگے کہ انھوں نے پسماندہ اور معاشرتی اعتبار سے ناقابل توجہ برادریوں پر تحقیقی کام کیا تھا اور کئی کتابوں کے بھی مصنف تھے بات ہو رہی تھی شانتی اوڈ کی جو پولیس میں بھرتی ہوئی تو اس کے قبیلے کا قد کاٹھ بھی بلند ہوگیا مٹی کی دیواریں کھڑی کرنے والے اوڈ قبیلے کی شناخت ان کا یہ وصف ہی ہے قدیمی کچا قلعہ حیدرآباد کی دیواریں آج بھی اوڈ برادری کی صناعی کا شاہکار ہیں اوڈ عورتیں ہوں یا مرد محنت کش ہوتے ہیں شانتی کے والد رائے چند نے محنت مشقت کرکے اپنی بیٹی کو اس کی خواہش کے مطابق تعلیم دلوائی اور اس وقت کے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے میرٹ پر بھرتیاں کیں تو شانتی ہی نہیں گنگا میگھواڑ اور کملا لوہار کے بھی نصیبے جاگے اور وہ بھی میرٹ پر پولیس میں ملازم ہوئیں رائے چند نے صرف بیٹی ہی کو نہیں پڑھایا اس کے 3 بیٹے بھی گریجویٹ ہیں لیکن ملازمت سے محروم۔
عمر کوٹ کا ضلع عمر ماروی کی رومانوی داستان کے حوالے سے بھی مشہور ہے اور یہاں قلعہ اور شہنشاہ جلال الدین اکبر کی پیدائش بھی ہے جب بادشاہ ہمایوں دہلی کے تخت سے محرومی کے بعد راجستھان کے راستے بلوچستان ہوتا ہوا ایران گیا تھا اسی ضلع کے روپلو کولہی نے برطانوی اقتدار کو اس کے نصف النہار میں للکارا اور پھانسی کا پھندا چوما تھا اور اسی رانا جاگیر کے راجپوتوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں برٹش امپائر کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی جب خطہ اتنا زرخیز اور مردم خیز ہو تو اس کے اثرات آنے والی نسلوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں شانتی، کملا اور گنگا پر مائی بختاور لاشاری کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہوں گے جو آج بھی ہاری حق دار تحریک کی ہیرو شمار ہوتی ہے قیام پاکستان سے قبل مائی بختاور نے وڈیرہ کلاس کو چیلنج کرکے جان دے دی تھی لیکن بٹائی کا حق منوا لیا تھا۔
شانتی، کملا اور گنگا ہی نہیں حیدرآباد کے ملحقہ ضلع مٹیاری میں باگڑی قبیلے کی لڑکیوں نے اپنے گھر میں اسکول کھول کر فروغ تعلیم کا وہ بیڑا اٹھایا ہے جو عالمی سطح پر فنڈ بٹورنے والی سندھ کی این جی اوز بھی نہیں کرسکی ہیں۔ ملالہ یوسفزئی کی کام یابیوں کو فخر سے دیکھنے والی لیلیٰ باگڑی نے بتایا کہ اس نے کلاونتی، سونیا، سیبا، نینا، دیاونتی کے ہمراہ ایک بیڑا اٹھایا ابتدا میں مٹیاری کے باگڑی محلے میں ان کے گھر میں کلاس کا آغاز ہوا تو بہت کم بچوں نے اسکول کا رخ کیا لیکن اب بچوں کی تعداد سو کے لگ بھگ ہوچکی ہے اور ان میں غالب اکثریت لڑکیوں کی ہے اور لیلیٰ کہتی ہیں کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہماری کمیونٹی علم کی روشنی سے مالا مال ہو کیونکہ ماضی میں باگڑی لڑکیوں میں پڑھنے لکھنے کا تصور نہ تھا اس اسکول کے تمام اخراجات یہ تمام سہیلیاں مل کر پورے کرتی ہیں۔
خود لیلیٰ، کلاونتی، سیبا، سونیا، نینا اور دیاونتی ابھی طالب علم اور مستقبل میں اعلیٰ تعلیم اور بڑے مناصب کی متمنی ہیں یہ باگڑی دوشیزائیں ٹنڈو محمد خان کی عائشہ لغاری اور مٹھی کی آسو کولہی کا تسلسل ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں حکومتی اعانت کے بغیر علم کی روشنی پھیلا رہی ہیں ایک ٹی وی رپورٹ میں مٹیاری کے ٹیکم باگڑی، گوپال داس، موہن رام و دیگر کا خیال تھا کہ یہ کوشش کام یاب رہے گی اور آنے والے دنوں میں مٹیاری کے باگڑی محلے کے بچے نئی شناخت کے ساتھ سامنے آئیں گے وہ بتا رہے تھے کہ اسی محلے کے راجا رام باگڑی نے لڑکیوں کا حوصلہ دیکھا تو اسکول کے لیے نہ صرف کمرے دیے بلکہ کتابیں اور قلم بھی عطیہ کرتا ہے مٹیاری کے سرہندی، مخدوم اور راشدی و بھٹائی پیر بھی سامنے آئیں تو علم کے یہ چراغ مینارہ نور بن سکتے ہیں۔
سندھ میں سائیں جلال محمود شاہ کی سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے 3 برس تک وابستہ رہنے والی زاہدہ ابڑو آج کل ایک رسالے ’’ہم سری‘‘ کی ایڈیٹر اور فروغ تعلیم کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ علاقائی اخبارات و جرائد میں مضامین اور شاعری کے ذریعے سماجی شعور کو بیدار کرنا ان کا مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی مجموعہ کلام ’’آئیے، خوبصورتی تلاش کریں‘‘ بھی آنے والا ہے اور تمنا یہ ہے کہ پروین شاکر کی طرح احساس اور جذبات کو بیان کروں۔ انھوں نے تھر کے لوک گیتوں کو اظہار کا بہتر ذریعہ قرار دیا جو ایک خاص کیفیت اور لطف دیتا ہے وہ فروغ تعلیم ہی کو سندھ کی ترقی کی ضمانت قرار دیتی ہیں جس سے وہ 23 برس تک وابستہ رہی ہیں۔
اسی طرح ضلع سانگھڑکی زاہدہ ڈاہری ہیں جنھوں نے جدوجہد کی علامت کے طور پر خود کو منوایا ہے یہ شہر سیاسی شعور کے اعتبار سے بہت بلند ہے طلبا سیاست میں عثمان نوری (جو کراچی سے رکن قومی اسمبلی چنے گئے) سلیمان ڈاہری، قابل ڈاہری، شاعرہ زوبی ڈاہری، بختاور منگنھار، صاحبزادی ڈاہری، اسمٰعیل وسان، عملی سیاست میں اشتیاق پٹھان، صحافت میں راؤ محفوظ علی، کرم علی ڈاہری سمیت متعدد بڑے نام ملتے ہیں۔ زاہدہ نے معصوم بچوں سمیت 12 دن تک سندھ میں فروغ تعلیم کے لیے 12 اضلاع کا پیدل مارچ بھی کیا تھا وہ اپنے گوٹھ انڑآباد (عمر آباد) میں خواتین کے اجتماعات بھی منعقد کرتی رہتی ہیں۔
15 اکتوبر کو ہر سال دیہی خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن کی تقریب میں شرکت ہوئی تو خاتون مقرر نے کہا کہ سندھ کی دیہاتی خواتین ایک مرد کے مقابلے میں چھ گھنٹے زائد کام کرتی ہیں۔ سڑک پر مشقت، پتھر کوٹنے، بوجھ اٹھانے سے کھیت، مزدوری تک اور گھروں میں مویشیوں کی نگہداشت سے دیگر امور تک ان کا کام علی الصبح شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ 70 فیصد دیہی خواتین ان کاموں میں مردوں کا ہاتھ ہی نہیں بٹاتیں بلکہ ان سے زیادہ محنت کرکے انھیں ریلیف دیتی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں زراعت کا شعبہ تو تقریباً خواتین کے سپرد ہے خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزارنے والی عورتوں میں اب شعوری بیداری آئی ہے تو اس کے ثمرات بھی گنگا، کملا اور شانتی جیسی درجنوں لڑکیوں کی صورت نظر آئے ہیں جو پسماندہ اقوام سے تعلق کے باوجود اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں ہیں۔ دیہات کی خواتین کو صنفی امتیاز کا بھی سامنا ہے تعلیم سے دور، فیصلوں میں عدم شرکت اور دیگر اسباب نے بھی انھیں غیر مستحکم کیا ہے حالانکہ پاکستان دنیا کا چھٹا ملک ہے جہاں خواتین بہ لحاظ آبادی اکثریت میں ہیں اور ملکی آبادی کا 48.35 فیصد عورتیں ہیں جبکہ خواتین کی 59.21 فیصد دیہات میں مقیم ہے قومی آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ تعلیم و صحت پر خرچ ہو تو خواتین اپنا فعال معاشرتی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ محترمہ نورالہدیٰ شاہ کو پڑھے لکھے افراد ان کے ٹی وی ڈراموں کے حوالے سے ہی جانتے ہیں حالاںکہ ان کی تحریریں بھی سندھی سماج کا آئینہ ہیں۔
آپا نے جس طرح وڈیرانہ معاشرے، جاگیردارانہ رویوں پر سے نقاب کھینچا ہے وہ ان کا ہی خاصا ہے۔ نورالہدیٰ شاہ نے اونچی دیواروں، طویل و عریض حویلیوں، مقفل کمروں اور فرسودہ رسم و رواج کو آئینہ دکھایا تو بہادری کا نشان بن گئیں حالاںکہ ماضی قریب تک ابراہیم منشی، استاد بخاری، سرویچ سجاولی اور شیخ ایاز و دیگر نے بھی ان موضوعات کو چھیڑا تھا لیکن بلند آہنگ نورالہدیٰ شاہ سے ملا۔ غیرت کے نام پر اپنی ناموس کی حفاظت اور دوسروں کی عزت پر حملے کرنے والے ’’بے غیرتوں‘‘ پر تازیانے کا کام ان تحریروں نے بھی کیا جن میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ بدکار قرار دے کر ماری گئی ’’کاری‘‘ عورتوں کے تو قبرستان ہیں جنھیں کفن، غسل اور نماز جنازہ کے بغیر گڑھوں میں دبا دیا گیا لیکن پورے سندھ میں بدکار مردوں کا کوئی قبرستان نہیں کیا سارے مرد پاک باز ہیں؟
ممتاز سماجی کارکن عظمیٰ نورانی نے ایک ورک شاپ میں امید دلائی تھی کہ جب تک خواتین اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کریں گی انھیں انصاف نہیں ملے گا لیکن جس دن انھوں نے تعلیم کو ہتھیار بنایا ان کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ یہ عظمیٰ نورانی کا موقف نہیں بدیہی حقیقت ہے ضلع سانگھڑ کے نواحی گوٹھ امان اللہ ڈاہری کا محبوب گرگلہ بھی ایک مثال ہے جو خانہ بدوش قبیلے گرگلہ سے تعلق رکھتا ہے مگر بالی شاہی، شکاری، کبوترے، سامی اور جوگیوں کی طرح بھیک مانگنے، مردہ جانور کھانے سے کوسوں دور ہے یہ قبائل اپنی عورتوں سے بھیک منگوانے، جسم فروشی سمیت کتنی ہی بری عادتوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے بچے کم عمری سے بھیک مانگ کر سفر کا آغاز کرتے ہیں محبوب نے بھی جو آج کل سوڈھو کہلاتا ہے کم عمری میں بھیک مانگی لیکن ایک روز اس کی زندگی میں انقلاب آگیا وہ بھی اس طرح کہ وہ امان اللہ ڈاہری گوٹھ میں ایک دکان کے باہر شدید گرمی میں سانس لینے کے لیے رکا تو اسٹیشنری شاپ کے مالک پنھل ڈاہری نے سندھی روایت کے مطابق ’’حال احوال‘‘ کیا بچے کو اس کا انداز بھایا تو اکثر سستانے کے لیے وہاں جانے لگا دکاندار نے جو ہائی اسکول میں ٹیچر بھی تھا اس کی رغبت صاف ستھرے بچوں کی سمت دیکھی تو اسے حصول علم پر آمادہ کیا اسٹیشنری دی اور ایک خط بھی جس میں ہیڈ ماسٹر سے سفارش کی گئی تھی اسکول میں اس کی خستہ حالی اور مردہ جانور کھانے، بھیک مانگنے والے خاندان کے باعث بچے ساتھ بٹھانے پر آمادہ نہ تھے۔
محبوب نے زمین پر بیٹھنا قبول کیا مگر تعلیم نہ چھوڑی اور محض تین برس میں پرائمری کی پانچ جماعتیں پاس کرلیں کہ ہر برس دو جماعتوں کا امتحان دیا۔ ہائی اسکول سے مڈل کیا اس دوران اس کی شادی قبیلے میں ہوگئی تو دلہن نے میکے میں شکایت کی کہ محبوب نہ بھیک مانگتا ہے نہ مردہ جانور کھاتا ہے جس پر قبیلے والوں نے اس کی والدہ کو رکھ کر والد کو بچوں سمیت برادری سے نکال دیا اور اس کی شادی شدہ بہن کو بھی رشتہ توڑ کر ساتھ بھیج دیا۔
محبوب کو اس واقعے کا آج تک رنج ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اپنے تمام بہن بھائیوں کو پڑھایا اور اب وہ سب محنت کرتے ہیں بھیک نہیں مانگتے ایک اخبار میں اے بی آریسر نے یہ روداد لکھی تو عظمیٰ نورانی اور شیما کرمانی کی تقاریر یاد آگئیں جن میں انھوں نے کہا تھا کہ تعلیم ہی تبدیلی لاتی ہے۔ شانتی، کملا اور گنگا کی طرح محبوب بھی تعلیم کی وجہ سے ہی سماج میں محترم ہے اور سچ یہ ہے کہ سندھی عورت اب سماج کی قیدی نہیں رہی علم کی روشنی نے اسے بہادر بنادیا ہے۔
The post سندھی عورت سماج کی قیدی نہیں رہی appeared first on ایکسپریس اردو.