عام طور پر ہمارے ہاں رسوم ورواج پر جب بات ہوتی ہے تو زیادہ تر منفی ہی رخ اختیار کرتی ہے۔ شاید یہ فرسودہ اور لایعنی رسومات کے خلاف ہمارا ردعمل ہو، لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے تو ہماری بہت سی رسوم مثبت رنگ بھی رکھتی ہیں۔ جن کے بہت سے فوائد بھی ہیں، اور بہت سے مسائل سے گلو خلاصی بھی ہوجاتی ہے، لیکن لوگ اسے بھی بے جا خیال کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں پھر ہماری خاندانی اور پھر معاشرتی زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔
ہماری مراد یہاں ’منگنی‘ کی رسم سے ہے، یعنی جب دو خاندان یا ایک لڑکا یا لڑکی باہم شادی کے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو اس موقع پر رشتہ طے کر کے انہیں ایک دوسرے سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی طور پر دیکھا جائے تو ’منگیتر‘ کے اس ناتے کی حیثیت صرف زبان دینے یا وعدہ کرنے کی سی ہے۔ کچھ لوگوں نے اِسے مسترد کرتے ہوئے ’منگنی‘ کے بہ جائے ’نکاح‘ کو اپنانا شروع کر دیا ہے۔ یعنی ہوتی منگنی ہے، لیکن اسی میں نکاح کر دیا جاتا ہے اور رخصتی کو پھر بعد کے لیے اٹھا رکھا جاتا ہے۔
بہت سے حلقے اس سے مطمئن ہوتے ہیں کہ انہوں نے یہ مذہبی راہ اختیار کر کے کوئی فرسودہ رسم ختم کر دی ہے، لیکن اس سے معاشرے پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، کیوں کہ منگنی کے بعد ایک راستہ ہوتا ہے کہ اگر فریقین اس رشتے سے مطمئن نہیں، تو اسے ختم کر سکتے ہیں، منگنی دراصل مستقبل کے میاں بیوی یا دو خاندانوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا وقت ہوتا ہے، کہ وہ ایک کچے دھاگے سے بندھے رشتے میں بندھ کر یہ سوچ لیں کہ وہ تاحیات اس ناتے میں بندھنے کے لیے سود مند ہیں بھی یا نہیں؟
لیکن اگر منگنی کے بہ جائے نکاح ہی طے ہوجائے اور پھر اگر خدانخواستہ اس رشتے کو توڑا جائے تو اس کے نتیجے میں لڑکی کی حیثیت ’’طلاق یافتہ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔ یعنی اب دیکھیے کہ ایک نازک رشتے کو وقت سے پہلے مضبوط کر دینے کے عمل نے ہماری لڑکیوں پر کتنا برا اثر ڈالا ہے۔ چاہے شادی والدین کی طے شدہ ہو، لیکن منگنی کے بعد لڑکا اور لڑکی رابطے میں آجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو جاننے کی خواہش میں ایک دوسرے کی خامیوں اور کمیوں کو بھی سمجھ لیتے ہیں، چوں کہ ہمارے مشرقی معاشرے میں نکاح کی شرعی و قانونی حیثیت بہت مضبوط ہے، لہٰذا اگر لڑکا اپنی منکوحہ سے ملنا چاہتا ہے تو وہ شرعی طور پر اس کا حق رکھتا ہے۔
پھر وہ بلا روک ٹوک ملتے جلتے اور گھومتے پھرتے ہیں کیوں کہ ان کے اوپر کسی قسم کی پابندی جو نہیں ہوتی، مگر اگر ایک فریق کا دل دوسرے سے بھر جائے یا اس کی خامیاں اس کی برداشت سے باہر ہونے لگیں یا پھر اسے اس سے بہتر شخصیت نظر آجائے تو خاص طور پر لڑکا یہ سوچنے لگتا ہے کہ ’’ابھی تو رخصتی نہیں ہوئی یا ابھی لڑکی رخصت ہوکر میرے گھر تو نہیں آئی! لہٰذا ابھی اس بندھن سے بہ آسانی آزاد ہوا جا سکتا ہے وغیرہ‘‘ تو ایسی صورت حال میں ایک لڑکی کی حیثیت معاشرے ، اس کے گھر والوں اور خود اس کے سامنے کیا رہ جائے گی؟ بہت سی لڑکیاں ہیں جو شادی سے پہلے طلاق ہوجانے کے بھیانک اور تلخ تجربے سے گزری ہیں۔
لڑکیوں کی شادی کی عمر نکلے کے ساتھ اب دوسرا بڑا مسئلہ رخصتی سے قبل طلاق یافتہ ہونے والی لڑکیوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ اس مرحلے کے بعد ان کے دوبارہ گھر بسنا مشکل تر ہو جاتا ہے۔ ایسی لڑکیوں سے عموماً دوسری شادی کرنے والے مردوں کے ہی رشتے ملتے ہیں، یا پھر ان کے لیے بڑی عمر کے مردوں کے رشتے آتے ہیں۔ رخصتی ہونے سے پہلے طلاق یافتہ لڑکیوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے، جو ایک شادی شدہ طلاق یافتہ عورت کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ انتہائی تگ و دوکے بعد جب ان کی شادی ہوتی ہے، تو مرد کے دل میں اول روز سے ہی یہ بات گھر کیے ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اس سے پہلے بھی کسی کے نکاح میں رہ چکی ہے۔ اس لیے زندگی میں مسئلے مسائل پیدا ہونے کا احتمال زیادہ رہتا ہے۔
نکاح کا بندھن بہت پاکیزہ ہے، ہم یہاں خدانخواستہ اس پر کوئی کلام نہیں کر رہے، بس کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ نکاح کو منگنی سے متصادم سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔ منگنی ایک نہایت ضروری رسم ہے، جو نکاح کرنے تک کے سال چھے ماہ کا وقت دے دیتی ہے، جس میں دونوں خاندان اور لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے حوالے سے اپنا ذہن مزید واضح کر لیتے ہیں۔ منگنی کے بعد اگر دلوں میں فرق آتا ہے تو یہ موقع ضرور افسوس ناک اور تلخ ہوتا ہے، لیکن یقین مانیے یہ طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل سے بہت بہتر رہتا ہے۔
The post ہماری ہر رسم ہی بری نہیں ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.