قیام پاکستان کے بعد جلد ہی اس وقت کے پالیسی سازوں اور حکومت کواس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ ملک کو خوش حالی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا حصول آنے والے دور کی اہم ضرورت ہوگی، یہ ہی وجہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہٹ کر سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا حصول بھی ماضی کے حکم رانوں کی ترجیحات میں شامل رہا۔یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ انیس سو پچاس کی دہائی میںفرانس، روس، امریکا اور برطانیہ نے اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والے ایٹمی بجلی گھر بنا لیے تھے، اس کام یاب تجربے کے بعد انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ہم سایہ ملک بھارت کے علاوہ سویڈن، کینڈا، اسپین، نیدرلینڈز، اٹلی، جاپان، بلجیئم اور سوئیزرلینڈ نے بھی ایٹمی بجلی گھر بنا لیے۔
اس صورت حال میں وقت کا تقاضا تھا کہ پاکستان بھی اپنی بجلی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر کرے لہٰذا کینیڈا کی مدد سے کراچی میں جوہری توانائی سے چلنا والا پہلا بجلی گھر تعمیر کیا گیا۔ بھاری پانی سے چلنے والے پاکستان کے اس پہلے کراچی نیوکلیئرپاور پلانٹ نے 1972میں پیداوار شروع کی اور اس طرح 137میگا واٹ کے کراچی نیوکلیئرپاور پلانٹ کی تعمیر سے پاکستان دنیا کا پندرہواں ملک بن گیا جو جوہری توانائی سے بجلی حاصل کر رہا تھا۔
لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا اور 1976 میں کینیڈا نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کو چلانے سے معذرت کرلی اور اسے چالو رکھنے سے متعلق ہر قسم کی امداد بند کردی تاہم ملک کے قابل فخر سائنس دانوں نے بندش کو مثبت انداز میں لیا اور پاور پلانٹ کو چلانے، ایندھن کی تیاری اور مرمت سے متعلق امور پر اپنی توانائیاں صرف کیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے میں پاور پلانٹ کو چلانے اور اس کے ایندھن کی تیاری اور مرمت کے کاموں میں مہارت حاصل کر لی۔ کینیڈا نے انکار کیا کیا ’’گویا دبستاں کھل گیا‘‘ پاکستان نے جوہری توانائی کے باب میں نئی تاریخ مرتب کرنا شروع کر دی۔ سائنس دانوں نے دن رات کی محنت سے وہ استعداد حاصل کر لی کہ جو شائد پاور پلانٹ کو کینیڈا کے تعاون سے چلانے کی صورت میں کئی سالوں تک بھی حاصل نہ ہوتی۔۔
جوہری توانائی سے بجلی گھر بنانے کے منصوبے،مناسب جگہ کی تلاش اور فزیبلیٹی میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔اس لیے ایک نئے جوہری توانائی سے چلانے والے ایٹمی پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے جگہ کے تلاش میں بھی کئی سال لگ گئے، چھبیس دسمبر 1992 وہ دن تھا کہ جس دن چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ون کی بنیاد رکھی گئی اور کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد وہ دن بھی آیا کہ اس پاور پلانٹ سے پندرہ ستمبر سن دوہزار کو بجلی کی باقاعدہ پیداوار بھی شروع ہوئی۔تین سو پچیس میگا واٹ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ون پاکستان کی جوہری توانائی کی منزل نہ تھا بلکہ یہ تو وہ سنگ میل تھا کہ جس پر چل کامیابیوں کے اور جھنڈے گاڑنے تھے۔آٹھ اپریل دو ہزار پانچ کو چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ٹو کی بنیاد رکھی گئی۔اس پاور پلانٹ کی تعمیر میں دن رات ایک کر دئیے گئے کم وسائل کے باوجود بھی چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ٹو نے تیس سو تیس میگا واٹ کی باقاعدہ پیداوار اٹھارہ مئی دو ہزار گیارہ میں شروع کر دی۔اس طرح مجموعی طور پر چھ سو ساٹھ میگا واٹ سے زیادہ بجلی چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ ون اور ٹو سے حاصل کی جارہی ہے۔
جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کی کوششیں ختم نہیں ہوئیں بلکہ وطن عزیز کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گام زن کرنے کے لیے چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ تھری اور چشمہ نیوکلیئر پلانٹ فور پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ فور کے منصوبے کا سنگ بنیاد یکم اپریل سن دو ہزار گیارہ کو رکھا گیا۔چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اکتیس مارچ دو ہزار سولہ تک جبکہ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ اکتیس دسمبر دو ہزار سولہ تک اپنی پیداوار شروع کرکے نیشنل گرڈ سٹیشن سے منسلک ہوجائینگے۔اور دوہزار سولہ تک دونوں پلانٹس سے مجموعی طور پر چھ سو تیس میگا واٹ کی بجلی حاصل کی جاسکے گی۔
جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کی کوششیں یہاں تک محدود نہیں ہے بلکہ وزیراعظم میاں نواز شریف چھبیس نومبر دو ہزار تیرہ میں کراچی میں گیارہ گیارہ سو میگا وات کے دو جوہری توانائی سے چلانے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ K 2,K3 کاسنگ بنیاد بھی رکھ دیا ہے۔یہ نیوکلیئر پلانٹس اکیاسی سے اکیانوے ماہ میں تیار ہو جائینگے۔اس میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ پاکستان چھوٹے جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر میں مہارت حاصل کرنے کے بعد گیارہ سو میگا واٹ کے بڑے بجلی گھر تیار کرے گا۔
پاکستان نے جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے وژن2050 بنایا ہے جس کے مطابق اب تک سال2013تک پاکستان میں جوہری توانائی سے سات سو پچاس میگا واٹ کی بجلی تیار کی جارہی ہے۔سال دوہزار سولہ تک چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس تھری اور فور کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد ایک ہزار چار سو تیس میگا واٹ بجلی کا حصول ممکن ہو گا۔اسی طرح سال دو ہزار اکیس تک تین ہزار پانچ سو تیس میگا واٹ،سال دو ہزار اکتیس تک نو ہزار میگا واٹ،سال دوہزار چالیس تک پچیس ہزار میگا واٹ اور سال دوہزار پچاس تک بیالیس ہزار میگا واٹ بجلی جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کے ٹو اور کے تھری کے بعد مظفر گڑھ میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی منصوبہ کرلی گئی ہے جس کی منظوری جلد ہی ایکنک سے لے لی جائے گی۔
آخر سولر،ہائیڈل اور وینڈ مل سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے جوہری توانائی سے بجلی کیوں پیدا کی جارہی ہے۔اس وجہ یہ ہے کہ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے سات روپے فی یونٹ کی بجلی نیشنل گرڈ سٹیشن کو دی جا رہی ہے جبکہ چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس تھری اور فور سے سن دو ہزار سولہ میں فی یونٹ بجلی نو روپے59پیسے پر دی جائے گی۔اس وقت وینڈ مل سے تیار ہونے والی بجلی چار مختلف پیداواری کمپنیاں تیرہ روپے پچیس پیسے سے سولہ روپے گیارہ پیسے فی یونٹ کے حساب سے دے رہی ہیں جبکہ سولر انرجی سے ملنے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت اکیس روپے انچاس پیسے ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو سب سے سستی بجلی جوہری توانائی کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہے۔
سستی بجلی کے حصول کے علاوہ قیمتی زرمبادلہ کے سالانہ بچت کو دیکھا جائے تو سالانہ ایک ہزار میگا وات جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صورت میں سالانہ ملک کو ایک ارب ڈالر کا کثیر زرمبادلہ بچ سکتا ہے۔کیونکہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی کی سالانہ تیاری پر ایک ارب ڈالر سے زیادہ لاگت صرف فرنس آئل کی خریداری پر آتی ہے اور ہر چند ماہ میں تیل کے ریٹ میں اتراؤ چڑھاؤ کا فرق بھی بجلی کی قیمت پر پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تیل کے بڑے ذخائر رکھنے والے ممالک جس میں متحدہ عرب امارات،برطانیہ اور امریکا بھی جوہری توانائی سے چلانے
والے بجلی گھر تیار کر رہے ہیں۔امریکا نے پینتس سال گزرنے کے بعد گذشتہ سال نو مارچ دوہزار
تیرہ بارہ سو پچاس میگاواٹ جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھر پر کام شروع کر دیا ہے ۔اسی طرح برطانیہ نے اٹھارہ سال کے بعد سولہ سو ستر میگاواٹ جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھرکے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے۔تیل کے ذخائر رکھنے والے ممالک جس میں متحدہ عرب امارات سال دو ہزار سترہ تک،سعودی عرب سال دوہزار دو ہزار بیس تک جبکہ ترکی دو ہزار اٹھارہ تک، بیلاروس دو ہزار انیس تک،اردون،بنگلہ دیش،مصر،ویتنام نے بھی دو ہزار بیس تک جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھربنانے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔
دیکھا جائے تو جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک دونوں نے دو ہزار بیس کے بعد کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ایک طرف تو اگر ناروے،پولینڈ،سینیگال،آئرلینڈ جیسے ممالک منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو دوسری جانب کینیاِِ،گانا،نائیجریا،چلی،تھائی لینڈ،سری لنکا جیسے ممالک بھی جوہری توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے دوہزار بیس کے بعد کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو جوہری توانائی سے بجلی کا حصول اک مہنگا ذریعہ ہے تاہم دوسرے ذرائع کی نسبت یہ دیرپا اور سستا طریقہ ہے۔محدود وسائل کی وجہ سے وسیع پیمانے پر جوہری توانائی سے بجلی کا حصول ممکن نہیں ہے تاہم اگر ایک نظر دیکھا جائے تو سال دو ہزار تیس تک بجلی کی کل پیداوار کا پاکستان میں پانچ اعشاریہ چار فیصد جوہری توانائی سے حاصل ہو گا جبکہ بھارت دوہزار تیس تک اپنی کل بجلی کی پیداوار کا چار فیصد جوہری توانائی سے حاصل کرے گا۔اسی طرح جنوبی کوریا انتیس فیصد،روس چودہ فیصد جبکہ چین سات فیصد بجلی دو ہزار تیس میں جوہری توانائی سے حاصل کرسکے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کم وسائل اور عالمی پابندیوں اور امداد نہ ہونے کے باوجود پاکستان نے جوہری توانائی سے بجلی حاصل کرنے کا کارنامہ ایک دن ،ہفتے میں نہیں حاصل کیا ہے بلکہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے منزل بہت تگ و دو اور شب روز کی مسلسل محنت اور تحقیق کے بعد حاصل کی ہے۔
پاکستان ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے جو کہ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے بجلی حاصل کر رہے ہیں۔یہ تب ہی ممکن ہوا کہ جب پاکستان اٹانک انرجی کمیشن کے اداروں سے انتہائی تربیت یافتہ سٹاف دن رات کی محنت سے اس ناممکن کو ممکن بنایا۔
پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام پر جہاں بین الاقوامی اخبارات میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اور بہت سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ کہ پاکستان نے جوہری پروگرام کے شروع دن سے ایک احساس ذمہ داری کے تحت ایک خود مختار ادارہ پاکستان نیوکلیئر ریگولیرٹی اتھارٹی بھی بنایاہے جو کہ جوہری پروگرام کے لیے محفوظ پروگرام جو کہ بین الاقوامی ادارہ آئی اے ای اے کے حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے۔
یہ امر بھی تعجب خیر ہے کہ پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس کا ہر تین ماہ بعد آئی اے ای اے اورڈبلیو اے این او کے اہلکار ہر تین ماہ کے بعد معائنہ کرتے ہیں اس کے باوجود بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے پرامن جوہری پروگرام کیخلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔
تابکاری یا دوسر ی ناآگہانی آفات سے بچنے کے لیے پاکستان کے نیوکلیئر پاور پلانٹس میں تمام حفاظتی اقدامات بین الاقوامی معیار کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں کراچی میں بننے والے نیوکلییر پاور پلانٹس کے ٹو اور کے تھری کی تعمیر میں خصوصی طور پر حفاظتی اقدامات کو مدنظر رکھا گیا ہے بلکہ حال ہی میں تسامی اور زلزلے سے جاپان میں نیوکلیئر پاور پلانٹس کو پہچنے والے نقصان کو خصوصی طور پر دیکھتے ہوئے تمام تر حفاظتی اقدامات بشمول مستقبل میں کسی ناآگہانی قدرتی آفات کی صورت میں پاور پلانٹس میں تمام حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔
پاکستان میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کے وژن دوہزار پچاس میں نیوکلیئر پلانٹس کی تعمیر میں تمام تر حفاظتی اقدامات کو پہلی ترجیح میں رکھا گیا ہے۔
ٹیکنالوجی کے حصول میں پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے باوجود اس کے کوئی ملک بشمول امریکا پاکستان کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول میں مد د نہیں کر رہا ہے صرف چین اس وقت پاکستان کا مشکل وقت کا دوست ہے جو کہ ہر طرح کی مدد پاکستان کو دے رہا ہے۔
دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا سب سے بڑا اتحادی رہا ہے لیکن اس کے باوجود جب سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی بات ہو تو امریکا نے پاکستان کی بجائے بھارت کی مدد کرنا بہتر سمجھا یہی وجہ ہے کہ اب تک امریکا بھارت کے ساتھ ایک سو تیئس سے زیادہ جوہری توانائی کے مختلف منصوبوں کے معاہدوں پر دستخط کر چکا ہے۔
نام نہاد دوستوں کی مدد نہ کرنا بھی پاکستان کے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی پروگرام کے قدم نہ ڈگمگا سکا ہے اور نہ ترقی کی راہ میں اس کی رفتار سست کر سکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سال دوہزار پچاس دور ہی سہی لیکن آنے والی نسل کو جوہری توانائی سے بیالیس ہزار میگا واٹ بجلی کا تحفہ ضرور ملے گا۔