برصغیر پاک و ہند میںمغل عہد کے ابتدا سے آخر تک‘ تمام ادوار میں شاہی بیگمات کے بعددایۂ خواتین کو ایک خاص مقام حاصل رہا۔ دایہ خواتین کا ادب و احترام ترکوں اور عربوں کے ہاں بھی بہت درجہ رکھتا تھا۔ ہندوستان میںان خواتین کو بہت عزت وتکریم حاصل رہی جن کے ہاتھوں سے شہزادے‘ شہزادیدں تولد ہوئے۔
شہزاد خرم جو کہ بادشاہ بننے کے بعد شاہ جہان کہلائے، روایات کے مطابق عہد جہانگیری میں زبیب النساء نامی دایہ تھیں اور خرم نہ صرف ان کے ہاتھوں تولد ہوئے مزید یہ کہ زیب النساء نے شہزادے کو اپنا دودھ بھی پلایا جس کی وجہ سے ان کو دائی انگہ کا خطاب بھی ملا، اس کی وجہ لفط ’’انگ‘‘ کے معنی ہیں جو کہ جسم یا جنم کے کسی حصے کے ہیں۔ شاہ جہاں تمام عمر آپ سے شدید انس کی حالت میں رہا‘ روایات کے مطابق شاہ جہان نے ان کے اعزاز میں گلابی باغ کی تعمیر کروائی اور دائی انگہ کو بعد از وفات اسی باغ میں دفن کیا گیا۔ ان کی قبر پر ایک انتہائی خوبصورت مقبرے کی تعمیر کروائی گئی۔ یہ باع اور مقبرہ آج بھی جی ٹی روڈ لاہور میںانجینئرنگ یونیورسٹی سے شالا مارباغ کو جاتے ہوئے لب سڑک بائیں جانب د یکھے جا سکتے ہیں۔ دائی انگہ نے اپنی زندگی میں ہی نولکھا باغ کے قریب ایک انتہائی خوبصورت مسجد تعمیر کروائی جو آج تک آپ ہی کے نام سے منسوب ہے۔
مغل سرکار جب تک بام عروج میں رہی اس دور کی تعمیرات بھی سرکاری نگہداشت میں رہیں۔ جب وقت کے پہیے نے پلٹا کھایا تو اہل حکم اور ان کی تعمیرات بھی زبوں حالی کی جانب مائل رہے۔ لاہور میبں تعمیر کی گئیں کئی دیگر عظیم الشان عمارات کے ساتھ ساتھ اس مسجد نے بھی تاریخ کے کئی رنگ دیکھے۔ اس کا حوالہ ہمیں کنہیا لال ہندی کی کتاب تاریخ لاہور (ص273) پر یوں ملتا ہے۔
’’یہ مسجد مغلیہ سلطنت کے وقت بڑی رونق پر رہی کہ بہت سی جائیداد بانیہ نے اس کے ساتھ وقف کی ہوئی ہے۔ جب زمانہ پلٹ گیا اور شہر کو غارت گروں نے بار بار لوٹا اور باہر شہر کی آبادی بالکل ویران ہو گئی تو یہ مسجد باقی رہ گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت اس میں سالہا سال بارود و گولا بھرا رہا۔ جب انگریزی وقت آیا تو یہ مسجد خالی ہوئی اور درج نقشہ نزول کی گئی۔ چونکہ عمارت مطبوع و وسیع تھی‘ مسٹر کوپ صاحب مہتمم مطبوع لاہور کرانیکل نے سرکار سے اجازت لے کر اس مسجد کو کوٹھی بنا لیا۔ چند سال وہ رہتا رہا۔ آخر جب کارخانہ ریل کا اس موقع پر جاری ہوا تو یہ مسجد بھی ریل والوں نے لے لی اور روپیہ قیمت کا کوپ صاحب کو ادا کر دیا۔ اب وہ کوٹھی‘ جس کو مسجد کہنا چاہئیے‘ ریل والوں کے قبضے میں ہے اور مسٹر بو کی صاحب افسر کارخانہ آہنگراں اس میں رہتا ہے‘‘۔
دائی انگہ کی مسجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد ایک عظیم الشان محلہ بھی آباد ہوتا گیا۔ لاہور میں دائی انگہ کی مسجد کی مانند‘ دائی لاڈو کی مسجد بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دونوں دایہ حضرات کی کئی دیگر مماثلتوں کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے ناموں سے منسوب محلے بھی ملتے ہیں۔ دائی انگہ کے نام سے منسوب محلے میں کئی عظیم عمارات تعمیر ہوئیں لیکن یہ تمام محلہ انگریز سرکار کے عہد میں ریلوے کے نظام میں کام آیا۔ اسی محلے کا تذکرہ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔111) پر یوں کیا ہے۔
’’یہ محلہ شاہان اسلام کے وقت دائی انگہ نام کی ایک معزز دایہ نے آباد کیا تھا۔ عالی شان حویلیاں امرائے عظام کی اس میں بہت تھیں اور تمام محلوں سے آراستہ محلہ تھا۔ موضع غارت گری کے وقت اس کے رہنے والوں نے اپنی حفاظت کا انتظام بہت کیا۔ پختہ دروازے اور فصیل بنوائی۔ مدت تک اپنے محلے میں غارت گروں کو داخل ہونے نہ دیا۔ آخر روز روز کی مزاحمت سے تنگ آ گئے اور مکانات چھوڑ کر بھاگ گئے۔ محلہ ویران ہو گیا۔ یہ وہ موقع تھا جہاں سٹیشن ریلوے کا کارخانہ ہے۔ طرح طرح کے مکانات بنے ہوئے ہیں۔ پرانی عمارات میں صرف ایک مسجد پختہ دائی انگہ کی موجود ہے جس کو صاحبان انگریز نے کوٹھی کی صورت بنا لیا ہے۔ اس کے بغیر اور کوئی علامت محلے کی موجود نہیں ہے۔‘‘
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد انگریز سرکار کے عہد میں جو کچھ اس محلے اور مسجد کے ساتھ ہوا۔ وہ کسی بھی طور اطمینان بخش نہ تھا۔ محلے کو تو اس وقت کے مسلما ن نہ بچا سکے۔ لیکن اس مسجد کے بارے میں ان کے جذبات پنپتے رہے اور جب 1901ء میں منشی محمد الدین فوق مرحوم نے اپنا اخبار جاری کیا تو اس کے پہلے ہی پرچے میں مسجد کی بے حرمتی اور اس کے استعمال کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کے بعد دیگر اخبارات نے بھی مسلمانوں کی اس تاریخی عبادت گاہ کے حق میں تحریر کرنا شروع کیا۔ یوں مسجد کی واگزاری ایک تحریک بن گئی اور مسلمانوں کے شدید احتجاج کے باعث 1903ء میں یہ مسجد مسلمانوں کو باعزت طور پر لوٹا دی گئی لیکن پھر بھی ریلوے کے نظام کی توسیع کے باعث اس مسجد کا ایک بڑا حصہ ریلوے لائن اور ریلوے پلیٹ فارم نمبر ایک کی نذر ہو گیا۔ لیکن مسجد کی عمارت کا مزکری حصہ ان حوادث کے باوجود قائم و دائم رہا۔ مسجد کی خوبصورتی اور عمارت کی مضبوطی کے بارے میں کنہیا لال ہندی نے تاریخ لاہور (ص۔273) پر یوں تحریر کیا۔
’’یہ مسجد اندر سے کانسی کار ہے۔ محرابوں پر کام کانسی نہایت عمدہ و تروتازہ اب تک موجود ہے جس پر قرآن شریف کی آیتیں و درود شریف بہ خط نسخ خوش خط تحریر ہیں۔ صاحبان انگریز نے بھی بہ سبب خوبصورتی کے بحال و برقرار رکھا ہوا ہے کہ ایسا رنگین و منقش کام ہونا اب مشکل ہے۔ مسجد کی تین عالی شان محرابیں قالبوتی خوش قطع ہیں‘ دو خرد‘ ایک کلاں عمارت تمام خشتی منقش کالنسی کار ہے۔ اندر سے بھی مسجد کے تین درجے ہیں۔ قالبوتی سقف اور اوپر سقف کے تین گنبد مدود عالی شان بنے ہیں۔ پہلے اس کے چار مینار تین تین منزلہ تھے۔ اب دو والے مینار باقی ہیں۔ پچھلے گر گئے ہیں۔ ایک ایک منزل ان دونوں کی بھی گر گئی ہے اندر سے پولے نہیں ہیں‘‘۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اس مسجد نے کوئی خاص اچھے حالات نہیں دیکھے۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں اس مسجد کی مغربی سیدھ میں فوجی بیرکیں تعمیر کی گئیں لیکن مسجد کی خاص عمارت عبادت ہی کے لئے استعمال میں رہی۔ مسجد کی مرمت اور دیگراضافی عمارات کی تعمیر میں اس کے پرانے طرز تعمیر کو بالکل ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا۔
عہد حاضر میں جب ریلوے اسٹیشن سے علامہ اقبال روڈ سے گڑی شاہو کی جانب جایا جائے تو اسٹیشن سے آگے پہلے ہی چوک کے دائیں جانب ہومیوپیتھک کی دوائیوں کی بہت سے دکانیں نظر آتی ہیں اور اسی چوک سے پہلے بائیں جانب ایک سڑک ریلوے پلیٹ فارم نمبر ایک تک جاتی ہے۔ اس سڑک کو بوگی روڈ کہا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے ریلوے کی بوگیوںکے باعث اس سڑک کو بوگی روڈ کا نام دیا گیا ہو ۔ اسی سڑک پر ریلوے کا ڈی ایس آفس اور ہسپتال ہے۔ اسی عمارت میں کبھی ایک گرجا گھر بھی ہوتا تھا جو کہ اب دیگر امور کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ تقسیم سے قبل اس مسجد کے اردگرد کی آبادی ریلوے ملازمین کی رہائشوں پر مشتمل تھی۔ اب بھی یہ علاقہ زیادہ تر ملازمین ہی کے زیر استعمال ہے۔ لیکن پھر بھی تقسیم کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد سہارنپور‘ انبالہ ور یوپی سے آکر بسی۔ مسجد کی جنوب مشرقی سیدھ میںعیسائیوںکی آبای ہے جو کہ بیل احاطہ کے نام سے معروف ہے۔ اسی علاقے میں کبھی مشہور ٹیسٹ کرکٹر یوسف یوحنا رہا کرتے تھے جو بعدازاں مسلمان ہو کر محمد یوسف کے نام سے پہچانے گئے۔ مسجد کے اردگرد کا علاقہ انگریز تعمیرات اور عہد انگریز میں تعمیر ہونے والی ریلوے کی کالونی اور کوٹھیوں سے بھرا پڑا ہے۔ خوش قسمتی سے یہاں پر دیگر تعمیرات کی اجازت نہیں وگرنہ اس کی حالت بھی لاہور کے دیگر پرانے علاقوں سے قطعاً مختلف نہ ہوتی جہاں پر مارکیٹوں اور پلازوں کی بھرمار ہے۔ مسجد کی مشرقی سیدھ میںکارسن کرکٹ گراؤنڈ ہے۔ جہاں آج بھی بہت زیادہ کرکٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی گراؤنڈ کی جنوبی سیدھ میں برٹ ہال ہے لیکن انگریز عہد میں اس ہال میں ہونے والے ناچ کے باعث آج تک یہ ہال ’’ناچ گھر‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ برٹ ہال میں ریلوے کمیونٹی سنٹر کے ساتھ ساتھ دیگر دفاتر بھی موجود ہیں۔
اس ہال کو آج کل بطور شادی گھر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ناچ گھر کی گراؤنڈ بھی ہے جو کہ زیادہ تر ہاکی اور فٹ بال کے کھیل کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ جب تک پتنگ بازی پر پابندی نہ تھی تو اس گراؤنڈ میں اپنے وقت کے جگت استاد پتنگ باز‘ پتنگ بازی کرتے دیکھے گئے۔ جب ہم دائی انگہ کی مسجد کی شمال مشرقی سیدھ میں آتے ہیں تو ہمیں انگریز عہد میں تعمیر شدہ ایک بے مثال پل دکھائی دیتا ہے جوکہ ڈی ایس آفس سے ریلوے سگنل ورکشاپ تک جاتا ہے۔ اس پل کو ’’اینٹرلاک پل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ریلوے سگنل ورکشاپس سے ایک راستہ جی ٹی روڈ تک جاتا ہے۔ آج کے دور میں اس پل کو استعمال کرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ویگن‘ بس یا پیدل سفر کرتے ہیں۔
اس پل کی تعمیر میں سب سے کمال چیز یہ ہے کہ پل کی دونوں جانب کی سیڑھیوں کی دونوں سیدھوں میں ریل کی پٹڑی ہے جو کہ سائیکل سوار حضرات ان پٹڑیوں پر سائیکل کا پہیہ رکھ کر اوپر پل تک جاتے ہیں اور دوسری جانب نیچے کو اترتے ہیں یہ پل لوہے کے پائپوں کی مدد سے کھڑا کیا گیا ہے اور اسی پل سے مغرب کی جانب لاہور ریلوے اسٹیشن کی عمارت دکھائی دیتی ہے۔ اس پل کے نیچے ریل کی پٹڑیوں کا ایک جال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ آج کل ان سیڑھیوں پر الگ الگ بڑی تعداد میں ریل کی سفری اور سامان کی ترسیل کی بوگیاں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔
مقامی آبادی اس جگہ کو ریلوے کا قبرستان کہہ کر پکارتی ہے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلی سرکار میں موجود وزراء میں سے کچھ کا یہ خیال تھاکہ دنیا میں کئی ایسے ممالک بھی ہیں جہاں پر ریلوے کا نظام موجود نہیں، سو پاکستان کو بھی ان ممالک میں شمار کر لینا چاہئیے، ایک زمانے تک ان ریل کی پٹڑیوں کی چوری کے بہت سے واقعات دیکھنے کو ملے۔ اسی پل کی جنوبی سیڑھیوں کے سامنے والی گلی کو ’’سیلون سائیڈ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی گلی کے اختتام پر ایک بجلی کا پول ہے جو کہ دائی انگہ کی مسجد کے ساتھ واقع ہے۔ اسی پول پر کئی ننگی تاریں ہیں جو کسی بھی وقت کسی حادثے کا باعث بن سکتی ہیں۔ پل کی انہی سیڑھیوں کے ساتھ ہی ایک میز کرسی پر وزیر آباد سے آئے ایک بزرگ حمام کی برسوں سے بالوں کی کٹائی اور شیو بنا کر اپنے بال بچوں کی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ 1995ء میں ان صاحب کی ایک اچھی خاصی دکان کراچی میں تھی جو کہ لسانی تضادات کے باعث جلا دی گئی اور آج بھری پری دکان کا مالک سڑک پر میز کرسی رکھے اپنا وقت رب کا شکر ادا کر کے گزار رہا ہے۔
مسجد کا وسطی داخلی دروازہ عین ریلوے پلیٹ فارم نمبر ایک کے سامنے ہے۔ اس کو ایک زمانے تک انڈیا کا ایک پلیٹ فارم بھی کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اسی پلیٹ فارم پر انڈیا کی گاڑی آ کر رکا کرتی تھی۔ لیکن اب یہاں محض بوگیاں ہی کھڑی ہوتی ہیں جس طرح آج بھی بڑے بزرگ نہر سے گزرتی ریلوے لائن کو امرتسر ریلوے لائن کہہ کر پکارتے ہیں اسی طرح کچھ بزرگ آج بھی اس ریلوے پلیٹ فارم کو انڈیا ہی کی مناسبت سے پکارتے ہیں۔ فن پہلوانی کے زوال کے باعث 1980ء کی دہائیوں میں لاہور کے ایک انتہائی معروف پہلوان ہندوستان سے آئی سواریوں سے جگا ٹیکس بھی وصول کیا کرتے تھے۔ مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے ایک قدیمی تالاب اپنے فوارے سمیت دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اب یہاں وضو نہیں ہوتا کیونکہ اس میں کئی رنگ برنگی مچھلیاں چھوڑ دی گئیں ہیں۔ اس فوارے کے بائیں جانب وضو خانے اور غسل خانے ہیں اور سامنے مغرب سیدھ میںامام صاحب کا گھر ہے جس کا طرز تعمیر بالکل جدید ہے اور کسی بھی طور مسجد کی عمارت سے میل نہیں کھاتا۔ دائیں سیدھ میں عہدرفتہ کی یہ عظیم یاد گار دکھائی دیتی ہے۔ جس کی دونوں جانب ایک ایک مینار ہے۔ یہ دونوں مینار چھت سے اوپر تک اصل تعمیر کے بعد تعمیر شدہ ہیں جبکہ مسجد کی بنیادی تعمیر میں چار عظیم الشان میناروں کا ذکر ملتا ہے۔ ان دونوں میناروں کے درمیان میں مسجد کے تین عظیم الشان گنبد اپنی پوری آب و تاب سے دکھائی دیتے ہیں۔ سامنے اور دائیں بائیں سیدھوں کی دیواروں اور مسجد کے اندرونی ہال میں پرانا کاشی کاری کا نفیس کام آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کی انتظامیہ نے ہال کے وسطی حصے میں جدید طرز کی ٹائلیں نصب کی ہیں۔ اس بات کا شدید امکان موجود ہے کہ کسی بھی وقت اس عظیم الشان مسجد کی قدامت کے رنگ ختم کر کے یہاں طرز جدید کی ٹائلیں نہ لگا دی جائیں۔ مسجد کے صحن میں لوہے کے پائپوںکی مدد سے برقی پنکھوں کی تنصیب کی گئی ہے۔ لیکن اس تنصیب میں بھی کسی طور پر قدامت کو کسی بھی طور مد نظر نہیں رکھا گیا۔
دائی انگہ کی تعمیر کردہ یہ مسجد اور ان کا مقبرہ آج بھی لاہور کی قدیم عمارات میں بہترین حالت میںموجود ہیں۔ لیکن ان کو مزید سرکاری نگہداشت کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ لوگوں میں تاریخ کا شعور اجاگر کیا جائے تاکہ پچھلے وقتوں کی ان نایاب اور انمول تعمیرات کو ان کے مقام کے برابر کی حفاظت اور عزت وتکریم ملے۔