قسط نمبر 63
یہ سمے بھی کیسا عجب ہے ناں! رکنے کا نام ہی نہیں جانتا، تھکتا بھی نہیں کہ کہیں سستالے دو گھڑی، بس چلے جارہا ہے، چلے جارہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی آسیب اس کا پیچھا کر رہا ہو، یا شاید یہ خود ہی کوئی آسیب ہے۔ ذرا دم لیجیے! ہم ناداں کتنے غافل ہیں کہ اتنا سا بھی نہیں جانتے کہ یہ اپنے ساتھ ہمیں بھی ہم سفر بنائے ہوئے ہے، اتنا ناتا تو اس سے بنا ہی لینا تھا ناں کہ سفر میں تم ہو بدن چُور چُور میرا ہے!
چلیے! اب کیا کہیں، زخم دیتا ہے یہ وقت تو اس کا مرہم بھی تو خود ہی بنتا ہے ناں جی! تو سمے بہے چلا جا رہا تھا اور حنیف بھائی کو بھی ساتھ بیلی بنائے ہوئے تھا، کئی دن گزر چکے تھے اور وقت انہیں اسیر کیا ہوا تھا۔ اب یہ بھی ایک معمّا ہے ناں کہ کون کسے اسیر بنا لیتا ہے، لیکن پھر یہ بھی کہ اگر اسیری سے رہائی مل جائے تو کیا وہ واقعی آزادی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ ؟ تو الٹ پھیر ہے لفظوں کا، کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے، معلوم نہیں۔
جو جاگتا نظر آتا ہے وہ بھی نیند میں ہے
جو سو رہا ہے، ابھی اور جاگ سکتا تھا
حنیف بھائی سوتے میں جاگتے یا جاگتے میں سوتے، نہ جانے سوتے جاگتے بھی کہ نہیں۔ آنکھیں آبشار بنائے ہوئے ہنستے چلے جاتے اور اور مُسکراتے ہوئے برستے رہتے۔ محو رقص ہوتے تو سارا منظر ان کے ساتھ ناچتا اور ساکت ہوتے تو لگتا کہ سکتہ بھی سانس لینا بھول گیا۔ گم صُم اور کبھی اونچی تان کا سرگم۔ در بہ در تو تھے ہی کہ ہم جیسے در بہ دری کا اعزاز جنم لیتے ہی اپنے ساتھ لاتے ہیں، کسی کی مجال کہ ہمیں کوئی در بہ در کردے، لیکن خاک بہ سر کا مجسّم۔ آپ جیسا زیرک و دانا، بینا ابھی نہیں کہہ رہا، بھی گم راہ ہوا ناں! یہ در بہ دری وہ نہیں صاحب! نہیں، نہیں یہ تو ایک ہی در ہے جو بار بار سامنے ہوتا ہے اور خانہ بہ دوش فقیر پکارتا ہے
گلشن میں، بہاروں میں تُوہے
ان شوخ نظاروں میں تُوہے
پھولوں میں، چاند میں، تاروں میں
جدھر دیکھتا ہوں میں اُدھر تُو ہی تُوہے
چلیے! کچھ اور سہل کیے دیتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ میں رہنا بہت دشوار ہوجائے گا، چلیے! رب ہی سنبھالتا رہا ہے، وہی سنبھالے گا تو کہے دیتے ہیں۔
اُس ایک ذات سے اپنا عجیب ناتا ہے
میں جب بھٹکتا ہوں، وہ راستہ دکھاتا ہے
میں کھو بھی جاؤں اگر زندگی کے میلے میں
وہ مہربان مجھے پھر سے ڈھونڈ لاتا ہے
اس ساتھ لائی ہوئی در بہ دری نے اتنا تو فقیر کو سکھایا ہی ہے صاحب!
فقر، بدنام نہ ہوتا جو فقیر
ایک ہی باب طلب تک رہتا
حنیف بھائی کو یاد کرتے ہوئے اب یہ کیا یاد آگیا۔ وہ حنیف بھائی کی طرح تو خیر نہیں تھا، لیکن وہ بھی ایک نوجوان ہی تھا جو فقیر سے آٹکرایا تھا، عجیب تھا وہ بھی، ہنستے ہوئے روتا اور روتے ہوئے قہقہہ اچھالتا، گفت گو کرتے ہوئے لفظ گم کردیتا اور بولنے پر آتا تو رکنا بھول جاتا، اس وقت نے اسے کھلونا بنایا ہوا تھا، جس سے بچے تو خیر ہوتے ہی معصوم ہیں، مجھ ایسے عیّار و مکّار بھی لطف اُٹھاتے ہیں۔ کیا کہے فقیر! کچھ نہیں کہنے کو بس اس کے لیے اشک ہیں اب بھی ان انکھیوں کے جھروکوں میں۔ چلیے فقیر آپ کو بتائے دیتا ہے کہ کیسا تھا وہ!
دکھوں سے بھری ہوئی، افلاس و غربت سے اَٹی ہوئی، مایوسی و ناامیدی کی دلدل میں دھنسی ہوئی بے یار و مددگار خلق خدا۔ جی، جی! اس میں آسودہ و خوش حال، ہنستے، مسکراتے، قہقہے برساتے ہوئے لوگ بھی ہیں، لیکن کتنے ہیں ایسے۔ کم، بہت ہی کم، نہ جانے کیسے کیسے سینہ خراشی کے کاموں پر مامور ہیں معصوم، مقہور، بے بس و لاچار، استحصال زدہ اور غیر منصفانہ تقیسم وسائل کا شکار لوگ، جنہیں چند مٹھی بھر بے حیا، ظالم و جابر و مَردُود اور بہ زور قبضہ گیر خاندانوں نے، جن کی پشت پر چند مذہب اور مشائخ کا روپ بنائے بہروپیے بھی ہیں، اس جہنم میں دھکیلا ہوا ہے۔
یہ مقہور و مظلومین اپنے پیٹ کا دوزخ بہ مُشکل بھرنے کے لیے کیسے کیسے کام کرنے پر مجبور کردیے گئے ہیں، وہ خود دکھوں میں گھرے اور اپنے ہی آنسوؤں میں نہائے ہوئے ہیں۔ لیکن کام کرتے ہیں دوسروں کو ہنسانے کا۔ مُشکل، کٹھن اور محنت طلب کام تو یہ ہے ہی، لیکن خود کو مار کر، فنا کرکے، اپنی عزت نفس کو قربان کرکے اور خود کو فراموش کرکے دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا کتنا بھلا کام ہے یہ۔ ہاں دوسروں کو کچھ لمحے ہی سہی ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کر دینا، نیکی اور کِسے کہتے ہیں بھلا ۔۔۔۔ ؟ ہاں! جوکر جسے ہم اور آپ مسخرہ کہتے ہیں۔ وہ یہی کام کرتا ہے۔ میں اس سے ملا تو میرے سامنے ایک شعر رقص کر رہا تھا۔
سجائے رکھتے ہیں چہرے پہ جو ہنسی کی کرن
نہ جانے رُوح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں
وہ بھی ان مظلوم لوگوں میں سے ایک تھا۔ ریستوراں میں آنے والے۔ لذت کام و دہن کے رسیا اپنی گاڑی سے اترتے تو اُن کے بچے اُس سے ہاتھ ملاتے اور وہ انہیں اپنی حرکتوں سے ہنساتا تھا۔ کچھ بچے اس کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے۔ میں کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ اسے ذرا فرصت ملی تو میں نے اپنا تعارف کرایا۔ وہ خوش دلی سے ملا اور کہنے لگا: ’’بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘
ہاں مجھے بھی۔ میں تم سے تمہاری بپتا سننا چاہتا ہوں۔ وہ ہنسنے لگا: ’’مجھ پر جو بیت رہی ہے، وہ آپ سن کر کیا کریں گے؟‘‘ ہاں سوال تو اس کا بالکل بجا تھا۔ بہت مشکل سے وہ آمادۂ گفت گُو ہوا تھا۔ پھر میں اس کی بتائی ہوئی جگہ پر موجود تھا۔ وہ حیرت سے بولا: ’’سر! آپ تو واقعی پہنچ گئے۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہاں وعدہ جو کیا تھا تم سے ملنے کا تو چلا آیا فقیر۔۔۔۔۔ !
پھر وہی ہُوا کہ غم وہ کہ لہو کردیں اندر سے ہمارا دل ۔۔۔۔۔ چلیے سُنیے اور بُھول جائیے!
ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ سب مجھ سے چھوٹے، والد صاحب ایک ٹیکسٹائل مل میں سینئر سپروائزر تھے۔ اچھی گزر بسر ہو رہی تھی۔ میں میٹرک کا امتحان دے چکا تھا کہ ابّو بیمار ہوگئے۔ پہلے تو انہیں بخار ہوا ہم سمجھے کہ کوئی مرض نہیں ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا دوائیں لیں معلوم ہوا کہ انھیں نمونیا ہوگیا ہے اور پھر ایک دن وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ جمع پونجی تو ہمارے پاس کچھ تھی نہیں، سفید پوشی کا بھرم تھا بس اور سچ تو یہ ہے یہ سفید پوشی خود بھی ایک بڑا آزار ہے ناں، بس ایک ڈھونگ۔ لیکن اب تو اچانک ہی اتنا بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ پریشان تو میں بہت ہوا کہ گھر میں بڑا تھا، میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میں خود کام کروں گا اور ان حالات کو بدل دوں گا، لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ زندگی اتنی مُشکل بھی ہوسکتی ہے۔
حالات اتنی آسانی سے نہیں بدل سکتے صاحب۔ میں نے ابّو کے چہلم کے بعد کام کی تلاش شروع کی اور پھر یہ بھی خُوب ہے کہ اپنے کھانے کو ہے نہیں لیکن چہلم بھی کرنا ہے کہ اگر نہیں کیا تو انہیں اپنے باپ کے مرنے کا ذرا سا دکھ نہیں، سننا پڑتا ہے۔ سنا تو میں نے یہ تھا کہ کرنے والا ہو کوئی، تو کام کی کمی نہیں ہے، لیکن صاحب! ایسا ہے نہیں، میرا تجربہ تو یہی ہے۔
کس، کس جگہ نہیں گیا میں کام کے لیے، فیکٹریوں میں، دکانوں میں اور تو اور میں بلڈنگز بنانے والوں کے پاس بھی گیا۔ بس وہی رونا کام نہیں ہے۔ صبح سے رات گئے تک میں مختلف جگہوں پر دھکے کھاتا اور گھر آکر بہنوں بھائی اور ماں کا سوچتا اور کُڑھتا رہتا۔ رشتے دار تو بس رشتے کے ہوتے ہیں، اور ان سے کیا گلہ کروں، ہر ایک پریشان ہے یہاں تو۔ ایک دن میں سُپراسٹور پر کام کی تلاش میں گیا، کام نہیں ملا۔ باہر نکل رہا تھا کہ مجھے پریشان دیکھ کر ایک صاحب نے پوچھا: کام کی تلاش میں ہو، کام کروگے ۔۔۔۔ ؟ میں نے کہا ضرور کروں گا۔ مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔
میں نے ان سے کہا کام کروں گا اور پوری محنت اور لگن سے کروں گا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے: ’’ہاں کام تو بہت محنت کا ہے اور خود کو مارنے کا بھی۔‘‘ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیا کام ہے کہ جس میں خود کو مارا جائے۔ آخر کام کیا ہے بتائیے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے: ’’جوکر‘‘ بنو گے؟ میں ان سے زیادہ ہنسا اور کہا کہ جوکر تو میں ویسے بھی بنا ہوا ہوں۔
میں تو سمجھا تھا کہ وہ مذاق میں مجھے جوکر بننے کا کہہ رہے ہیں، لیکن جب وہ سنجیدہ ہو کر بولے کہ تمہیں جوکر بننا ہوگا، تب مجھے جھٹکا لگا کہ واقعی ۔۔۔۔۔۔! کہانی بہت طویل ہے، دو دن میں سوچتا رہا اور بالآخر ان سے مل کر ہامی بھرلی۔ وہ پروگرام آرگنائزر تھے، شادی بیاہ میں، اسکولوں کی تقاریب اور مختلف ہوٹلوں میں مجھ جیسے ضرورت مند نوجوانوں کو جوکر بنا کر کھڑا کر دیتے تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور دیگر لڑکوں سے ملایا کہ اب یہ بھی کام کرے گا۔ اسے کام سکھاؤ۔
’’چل بھائی! ہم جیسا ایک اور پنچھی شکار ہوگیا۔‘‘ یہ پہلا جملہ تھا جو میں نے وہاں سُنا۔ میں اپنا پہلا دن کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ جب انہوں نے میرا میک اپ شروع کیا۔ گرمی کے دن اور ایک اسکول کی تقریب اور پھر جو کر کا کاسٹیوم۔ پہلے تو میں بہت رنجیدہ ہو ا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا، لیکن میک اپ کے بعد جب میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو خود کو ہی نہیں پہچان سکا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے بھائی، ماں اور بہنوں کو میرے اس کام کا پتا چلے۔ وہ صاحب مجھے لے کر ایک بڑے پرائیویٹ اسکول پہنچے اور صدر دروازے پر کھڑا کر دیا۔ یونی فارم پہنے ہوئے بچے آرہے تھے اور میں ان سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ سب میری ناک پر چپکی ہوئی ٹیبل ٹینس کی گیند کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
مت پوچھیے بہت مُشکل ہے، زندگی، اتنی آسان نہیں ہے صاحب۔ پہلے تو اس کی آنکھیں نم ہوئیں اور پھر وہ رو پڑا۔ بہت مشکل ہوئی مجھے اسے دلاسا دیتے ہوئے: تم تو فن کار بن گئے، لوگوں کو ہنسانا بھی تو نیکی ہے، تم کوئی بھیک نہیں مانگ رہے، محنت سے کما رہے ہو، اس میں اتنا رنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے۔ ’’ایک بات پوچھوں آپ سے؟‘‘ میں نے کہا ضرور پوچھو: ’’کیا آپ یہ کام کر سکتے ہیں؟‘‘ مجھے خاموش دیکھ کر وہ خود ہی بولا: ’’دلاسے، اچھے الفاظ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتے صاحب!‘‘
ہاں! تو پہلے دن پانچ گھنٹے کام کے مجھے سو روپے ملے۔ یہ میری پہلی کمائی تھی۔ میں نے ان سے کہا یہ تو بہت کم ہیں، تو انہوں نے کہا تمہیں ابھی کام نہیں آیا، جب سیکھ جاؤ گے تو پیسے بھی بڑھ جائیں گے۔ شروع تو میں اتنے ہی ملتے ہیں، خیر جیون کی گاڑی رینگنے لگی تھی۔ آہستہ آہستہ میں بھی اس رنگ میں رنگ ہی گیا۔ ماحول کا بہت اثر ہوتا ہے۔ لیکن مجھ پر دُہری مشکل آن پڑی تھی خود کو چھپانا بھی تھا، کام کے وقت تو بے تکی باتیں اور عجیب حرکتیں کرنا پڑتی تھیں کہ اگر نہ کرتے تو بڑے لوگ کیسے ہنستے، مسکراتے اور چہچہاتے اور گھر میں گفت گُو کرنا تھی بہت مہذب لہجے میں اور رہنا تھا رکھ رکھاؤ کے ساتھ۔ لیکن میں نے یہ انتہائی مُشکل کام آخر کر دکھایا۔ پانچ سال تک تو میں نے ان صاحب کے ہاں کام کیا اور پھر اپنا گروپ بنا لیا۔ اب ہم پانچ لوگ ہیں۔ اب ہم سب مسخرے ہیں، کہتے ہوئے اس کا زور دار قہقہہ گونجا اور پھر بتانے لگا: اپنا پروگرام خود کرتے ہیں۔ میرا بھائی اب ’’بی کام‘‘ میں ہے۔
دو بہنوں کی جیسے تیسے شادی بھی کر دی ہے۔ سب کہتے ہیں کہ بھائی آپ اب شادی کریں، لیکن میں ٹال دیتا ہوں۔ وہ اب بھی یہ نہیں جانتے کہ میں کام کیا کرتا ہوں، بس اتنا بتایا ہے کہ ایک دفتر میں کام کرتا ہوں۔ جب رات کو دیر سے آتا ہوں اور اکثر آتا ہوں تو یہ کہہ دیتا ہوں صاحب لوگوں کی پارٹی تھی تو مجھے رکنا پڑتا ہے۔ اب تو سب گھر والے عادی ہوگئے ہیں اور مجھ سے کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ بس خوشی یہ ہے کہ میں نے اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی حد تک اس میں کام یاب بھی ہوگیا ہوں۔ لیکن میں خود تباہ ہوگیا ہوں۔
میں نے حیران ہوکر اس کی طرف دیکھا: خود کیوں تباہ ہوئے تم، محنت کی تم نے، کوئی بھیک نہیں مانگی، کسی کی جیب نہیں کاٹی، کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ تم تو بہت عظیم ہو یار! اس کی آنکھیں پھر برس پڑیں: چھوڑیں صاحب کیسا عظیم! میں نے اسی ماحول میں رہ کر چرس پینا شروع کر دی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی چھوڑی ہے۔ اکثر پیتے ہیں یہ لوگ، ورنہ تو کام ہی نہیں کرسکتے۔ ہاں اس کام میں خود کو مارنا پڑتا ہے۔ لیکن میں خوش بھی ہوں کہ اپنا فرض پورا کیا۔ وہ پھر سے شوخ ہوا اور بتانے لگا: ایک شاپنگ سینٹر کا افتتاح تھا تو وہاں ایک بچہ ضد کرکے بیٹھ گیا کہ ممّی! مجھے یہ چاہیے مجھے خرید کر دیں۔ وہ مجھے کھلونا سمجھ رہا تھا اور سچ ہے وہ صحیح سمجھ رہا تھا۔ ہم کھلونے ہی تو ہیں، بہت مُشکل سے وہ مانا اس کی ماں کہہ رہی تھی یہ پیسوں کا نہیں ملتا۔ میرا جی چاہنے لگا کہ اس کی ماں سے کہوں میں کھلونا ہی تو ہوں، میں برائے فروخت ہی ہوں، خریدا جاسکتا ہے، مجھے خرید لیں۔
میں نے اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا: تم نے راج کپور جی کی فلم ’’جوکر‘‘ تو دیکھی ہوگی کیا شان دار اور جاں دار فلم ہے ناں، یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے دوست! ہاں دیکھی ہے، کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ کسی ڈرامے یا فلم میں کام کرنے کا نہیں سوچا تم نے۔ وہ بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا: آپ بھی کسی اور سیارے کی مخلوق لگتے ہیں مجھے۔ ’’یہ سماج کام کو نہیں پرچی کو دیکھتا ہے۔ آپ کے پاس اگر پیسہ ہے تو بن جائے گا کام اور اگر پیسہ نہیں تو پرچی ہونی چاہیے اور پرچی بھی تگڑی، جس کی بات کوئی نہیں ٹال سکے۔ ‘‘
مستقبل میں کیا کرو گے، بس یہی یا کچھ اور سوچا ہے؟ اس نے میرا سوال سنا اور کہنے لگا: خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہتر زندگی سب کا خواب ہوتا ہے، میرا بھی ہے۔ میں بہت تھک چکا ہوں۔ بھائی کسی لائق ہوجائے، چھوٹی بہن کی شادی ہوجائے تو کچھ سوچوں گا۔ انسان تو ہر وقت اپنے لیے سہولتوں اور آسائشوں کے خواب دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے، میں بھی دیکھتا ہوں اب میں خواب دیکھنا تو نہیں چھوڑ سکتا ناں، لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے محنت کی ہے کوئی بھیک نہیں مانگی، کسی کے مال کو نہیں لُوٹا، کسی کی جیب نہیں کاٹی، میں نے تو لوگوں کو ہنسایا ہے لیکن اگر میری ماں میرے رشتے کے لیے کہیں گئی اور انہوں نے میرے کام کا کہیں سے معلوم کرلیا اور وہ جان گئے کہ میں تو جوکر ہوں تو کیا میری ماں یہ نہیں سنے گی کہ چل بھاگ یہاں سے جوکر کی ماں! فقیر کے پاس اس کا کیا جواب تھا ۔۔۔۔۔۔ ؟
وہ بہت پیار سے مجھ سے ملا اور بہت خلوص سے رخصت کرتے ہوئے بولا: ’’بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے، جی کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اس دور میں یہ بھی نعمت ہے کہ کوئی کسی کی بات سن لے اور دھیان سے سُن لے یہاں تو کوئی کسی بات ہی نہیں سنتا۔‘‘
یہ دیکھیے! اگر بینا ہیں تو، دلِ زندہ رکھتے ہیں تو، اور اگر آپ ان سے محروم ہیں تو آپ تو خود قابل رحم ہیں، جائیے بات ہی ختم ہوئی، فقیر رخصت ہوا۔
پاگل تو ہُوں کہ خود ہوں تماشا بنا ہُوا
اور خود پہ ہنس رہا ہوں تماشائیوں کے ساتھ
اور یہ بھی لیجیے دوآتشہ!
درد تو خیر کس نے دیکھا ہے
زخم بھی کیا نظر نہیں آتا
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.