رشتے کے لیے آنے والی خواتین لڑکیوں سے ایسے ایسے سوالات کرتی ہیں، جو نہایت دل آزاری کا باعث بنتے ہیں۔ انہی سوالات کی وجہ سے بہت سے والدین مایوسی کی گہری دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی اور اس کے والدین کسی جرم کے سزاوار ہوں اور رشتے کے لیے آنے والے دراصل ان سے جرم کی تفتیش کر رہے ہوں۔ یہ لڑکی دیکھنے کا سارا وقت زہر میں بُجھے لہجے، طنزیہ جملے اور استہزائیہ مسکراہٹوں کے ساتھ بتایا جاتا ہے۔
پھر اس صورت حال کا نتیجہ کسی بھی انتہائی قدم کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے۔ کاش ایسے رویے رکھنے والی خواتین ایک بار بھی یہ سوچ لیتیں کہ اس وقت اس مسترد کی گئی لڑکی پر کیا بیت رہی ہے، یا ان کے طور طریقوں سے ان کے مخاطب والدین اور لڑکی پر کتنی اذیت گزر رہی ہے۔ یہ لڑکیاں بار بار صرف ماں کے کہنے پر ہی یہ اذیت سہنے لوگوں کی نظروں کے سامنے آجاتی ہیں۔
کبھی والدین اور کبھی ان لوگوں کا چہرہ دیکھتی ہیں کہ دیکھیے کہ اب کی بار ان کے لیے کیا فیصلہ ’سنایا جاتا ہے اور لڑکے کی ماں اور بہن وغیرہ ڈھنگ سے جواب تک دینا مناسب نہیں سمجھتیں۔۔۔ یوں ایک اور طرح کی اذیت پورے گھر والوں کا مقدر ہو جاتی ہے، کیوں کہ بعض اوقات نفی میں جواب دینے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی، اور لڑکی والے ایک امید اپنے دل میں لیے دروازے کی جانب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔۔
تب اس بیٹی کے دل میں بھی یہ سوال اٹھتے ہیں کہ ’’ماں تم مجھے اپنے گھر میں کیوں نہیں رکھ سکتیں؟ ان ’رشتوں‘ کے نام پر مجھے بار بار کیوں ’’بیوپاریوں‘‘ کے سامنے تماشا بنواتی ہو؟ میں بھی تھک گئی ہوں ماں۔۔۔ مجھے خود اپنے ہاتھوں سے زہر دے دو، تاکہ میں ابدی نیند ہی سو جاؤں۔‘‘ یہ بیٹیاں جب بوڑھے والدین کے سامنے بھرم رکھتے رکھتے تھک جاتی ہیں تو پھر چھپ چھپ کے اشک بہاتی ہیں، اس وقت یہ آنسو کم اور تیزاب زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔۔۔
بیٹوں کی ماؤں اور بہنوں نے کبھی سوچا ہے رد کیے جانے کی اذیت کیا ہوتی ہے؟ اس کی اذیت صرف وہ مائیں جانتی ہیں، جن کی اپنی بیٹی بھی اسی تکلیف سے گزری ہو۔ بہت سے سوالات غیر مناسب ہوتے ہیں، اور بہت سی باتیں پوچھے جانے کا ڈھب نہایت جاہلانہ ہوتا ہے۔
کیا آپ سوالات ان بیٹیوں کی بہ جائے ان کے والدین سے نہیں کر سکتیں؟
بیٹے کے لیے پسند کی جانے والی لڑکی کے عیب ڈھونڈتے وقت اپنے بیٹے کی خامیاں کیوں پوشیدہ ہو جاتی ہیں؟ کیا سارے معیار اور کسوٹیاں صرف لڑکیوں کا ہی مقدر ہیں؟ اگر کردار کی پرکھ کرنی ہے، تو پھر لڑکے اور لڑکی دونوں کے کردار کو جانچنا چاہیے۔۔۔ اور اگر بات شکل و صورت یا قد کاٹھ کی ہو تو پھر بھی لڑکے اور لڑکی دونوں کی شکل و صورت سامنے رکھنی چاہئیے آخر قصور وار صرف لڑکی ہی کیوں ہوتی ہے؟
بہت سی مجبور لڑکیوں کے اپنے گھرمیں ٹیوشن پڑھانے پر بھی اعتراض کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ وہ صرف اپنے ماحول اور معاشرت کی بنا پر گھر کی چار دیواری میں رہ کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر رہی ہوتی ہے۔ جب حالات اس نہج پہ پہنچ جائیں تو پھر لڑکیاں کہاں جائیں؟
یہ ہماری ماؤں اور بہنوں کو آخر لڑکیاں دیکھنے جاتے ہوئے ہو کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ کیوں بھول جاتی ہیں کہ ان کے خاندان میں بھی بیٹیاں ہیں، یہ سارے ماضی اور آنے والے مستقبل کو ایک لمحے کے لیے بھی دھیان میں نہیں لاتیں۔۔۔ان کے رویوں سے ایسا لگتا ہے کہ شاید انہیں اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کرنی یا اب ان کے کنبے میں کبھی بیٹی ہی پیدا نہیں ہوگی۔۔۔
اگر ایک چیز غلط ہے تو سامنے والے سے اچھے یا بہتری کی توقع رکھنے کے بہ جائے آپ خود کیوں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ نہیں کرتیں، تاکہ ایک اچھی قابل تقلید مثال قائم ہو اور ہم اپنے گھر کی بچیوں کی خاطر ہی سہی، دوسروں کی بیٹیوں یا ان کے والدین کو تکلیف دینے سے باز آجائیں۔۔۔
The post ساری ’کسوٹیاں‘ صرف لڑکی کے لیے۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.