یہ بجا ہے کہ خاتونِ خانہ کی معمولی سی بیماری سے بھی گھر کا نظام در ہم برہم ہو جاتا ہے، لیکن جن گھرانوں میں خاتونِ خانہ کی زیادہ تر ذمہ داریاں ماسیاں نباہتی ہیں وہاں ماسیوں کی ایک دن کی بھی چھٹی بہت بڑا مسئلہ بن جاتی ہے اور اگر اطلاع کیے بغیر یہ چھٹی ہو جائے تو ہمیشہ کی چھٹی کی دھمکی دیا جانا تو عام سی بات ہے، لیکن ریما چاہنے کے باوجود بھی ایسا نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے گھر کی ماسیوں کو عادت کی طرح استعمال کرتی ہے اور خالہ گل شبو کو ریما کی یہ حرکتیں سخت نا پسند ہیں۔
بے شک وہ ’خبری‘ بنی گھر گھر پھرتی ہیں، لیکن اپنا یہ شوق وہ گھر کے تمام کا م نمٹا کر پورا کرتی ہیں۔ صبح کاذب کے وقت ہی اُٹھ جاتی ہیں، تلاوتِ کلام پاک اور فجر کی نماز پڑھنے کے بعد گھر کے کاموں میں جت جاتی ہیں اور چاشت کی نماز کے وقت تک روزمرہ کے امور سے فراغت بھی پالیتی ہیں اور اس کے بعد خالہ گل شبو محلے بھر کے ’دورے‘ پر روانہ ہو جاتی ہیں۔ کسی کی عیادت کرنی ہے، کسی کو مبارک باد دینا ہے، کوئی اُن کے مشوروں کا منتظر ہے تو کوئی اُن سے اوروں کے گھروں کی سُن گُن لینے کے لیے بے کل ہے۔۔۔
یوں خالہ گل شبو سب کے ’دلوں کا چین‘ بنی ہوئی ہیں۔ گو حُسنہ آپا کو کبھی کسی کے گھر کا حال جاننے کی خواہش نہیں ہوئی، لیکن خالہ گل شبو اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے ہمیشہ حُسنہ آپا ہی کا انتخاب کرتی ہیں۔
خالہ گل شبو کو سستی سخت نا پسند ہے۔ کاہل اور بدسلیقہ خواتین ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں، یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام تر حسن و نزاکت کے باوجود ریما اُن کے دل کو کبھی نہ بھائی، لیکن محلے داری نباہنے کے لیے اُس سے ملتی ہیں۔ ریما کی امی کی بیماری کا معلوم ہُوا تو اُن کی مزاج پرسی کے لیے چلی گئیں، لیکن ذراہی دیر میںاُن کا فشارِ خون بڑھنے لگا۔ خالہ گل شبو یہ تو جانتی تھیں کہ ریما کاہل ہے، لیکن اس درجہ سستی کا تو اُنہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ریما کے بے حد اصرار پر ایک ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر اُٹھیں تو ریما کے گھر سے نکل کر وہ سیدھی حُسنہ آپا کے گھر چلی گئیں۔
حُسنہ آپا: السلام علیکم خالہ! !یہ لیجیے پہلے پانی پی لیجیے۔گرمی اور پسینوں سے بُرا حال ہو رہا ہے آپ کا۔ اب بتائیے خیر تو ہے نا؟ پریشان لگ رہی ہیں۔
خالہ گل شبو: آگ برس رہی تھی، تُونے ٹھنڈک ڈال دی دل میں۔ اﷲ تجھے خوش رکھے حُسنہ بچی! کیسا میرا خیال رہتا ہے تجھے اور ہاں۔ خیر کیسی بی بی؟ ذرا دیر کو ریما کے گھر کیا چلی گئی حواس ہی ٹھکانے پر نہیں رہے۔
حُسنہ: ریما کی امی کی طبیعت اب کیسی ہے؟
خالہ گل شبو: اﷲکے فضل سے پہلے سے بہتر ہیں، لیکن سچ پوچھو تو مجھے ریما کی ماں سے بڑھ کر اُس کی فکر لگ گئی ہے۔ کوئی روگ نہ لگا بیٹھے پوستی۔
حُسنہ: اﷲ نہ کرے خالہ! کیوں ہولائے دے رہی ہیں؟ میری تو دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ ہُوا کیا؟ کچھ تو بتائیے؟
خالہ گل شبو: ریما نے بھی حد کر دی، مجال ہے جو اپنے تختِ شاہی سے اُتر کر ہاتھ پاؤں بھی چلالے۔ ہاں تولہ بھر زبان جتنی جی چاہے چلوالو۔
حُسنہ: پر ہُوا کیا؟ ریما تو بڑی دل چسپ اور خوش اخلاق ہے۔
خالہ گل شبو: بے شک ہے۔ تم نے اُس کے رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں؟ مجال ہے کہ ماسیوں کے بنا سانس بھی لے لے؟
حُسنہ: ماسیاں؟ کیا مطلب؟ دو ماسیاں رکھی ہیں ریما نے؟
خالہ گل شبو: خدانخواستہ وہ دو کیوں رکھنے لگیں۔ گھر میں ہُن برس رہا ہو تو پانچ ماسیاں رکھنے کا حق تو بنتا ہے نا؟
حُسنہ: پانچ ماسیاں؟ میاں کی خون پسینے کی کمائی ا یسی بے دردی سے خرچ کرتی ہے۔ توبہ توبہ! لیکن ماسیاںکام ہی کیا کرتی ہیں؟
خالہ گل شبو: یہ پوچھو کیا نہیں کرتیں؟ جھاڑو، برتن، کپڑوں کی دھلائی، استری، آٹا گوندھنا، سالن پکانا اور مہمانوں کی خاطر تواضع کی ذمہ داری بھی۔
حُسنہ: سب ہی کچھ تو ماسیاں کر لیتی ہیں پھر ریما کیا کرتی رہتی ہے سارا دن؟
خالہ گل شبو: ماسیوں کو ہدایات دیتی ہے، ٹی وی دیکھتی ہے، ’سوشل میڈیا‘ سے با خبر رہتی ہے۔ بچے کو پڑھاتی ہے۔ اﷲ اﷲ خیر صلّا۔۔۔
حُسنہ: یہ تو کوئی اچھی بات نہیں۔ ماسی تو میرے گھر میں بھی آتی ہے، لیکن صرف جھاڑو پونچھے کے لیے۔۔۔ مگر میں ماسی کے ساتھ بھی لگی رہتی ہوں۔
خالہ گل شبو: اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فرصت ہی نہیں ملتی مجھے، کا راگ بھی الاپا جاتا ہے۔ مستقل بیٹھے رہنے کی وجہ سے وزن ہی نہیں کولیسٹرول بھی بڑھ گیا۔ بلڈ پریشر اکثر بڑھ جاتا ہے، شوگر بھی ہو گئی ہے۔ وہ بھی اکثر بے قابو رہتی ہے۔
حُسنہ: ریما سے کہیے سستی ختم کرے۔ چہل قدمی کیا کرے۔ آپ کو تو بہت مانتی ہے۔
خالہ گل شبو: کہا تھا پر! میرا تو دل بہت ہول رہا ہے، جو آج دیکھ کر آئی ہوں۔ اپنی سلطنت پر اوروں کو دندنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے باؤلی نے۔
حُسنہ: کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں۔
خالہ گل شبو: کام والی کی جوان بیٹی، اقبال میاں کے آتے ہی اُن کی خدمت گزاریوں میں لگ جاتی ہے اور بیگم صاحبہ پیار بھری ہدایات دیتی رہتی ہیں۔
حُسنہ: یہ تو بڑی نادانی کی بات ہے خالہ۔ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار رہی ہے ریما۔ آپ نے سمجھایا نہیں؟
خالہ گل شبو: کہا کیوں نہیں، تم تو جانتی ہو جو کہتی ہوں ڈنکے کی چوٹ پر کہتی ہوں صاف صاف کہہ دیا۔ اچھی خاصی سگھڑ ہو۔ کاہلی چھوڑو، اپنا گھر خود دیکھو۔ جب گھر والی اپنے گھر اور گھر والے کو اوروں پر چھوڑ دیتی ہے، تو ایک دن وہ خود اُس کو بھی چھوڑ کر اُن ہی کو اپنا لیتا ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی عام سی اور گھر والی کیسی ہی حسین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں۔
حُسنہ: پھر کیا کہا سُن کر۔۔۔؟
خالہ گل شبو: میری ہنسی اُڑا رہی تھیں۔ جانتی تو ہیں خالہ جیت کر لائے ہیں اقبال مجھے۔ دل پر حکمرانی کرتی ہوں، اُن کے۔ پھول کہتے ہیں وہ مجھے۔ زینت ہوں میں اُن کے گھر کی۔
حُسنہ: اور اگر اقبال بھائی کے دل کی دنیا بدل گئی تو؟
خالہ گل شبو: یہی بات تو باؤلی نہیں سمجھ پا رہی۔ جو گزشتہ کل میں اُسے جیت کر لایا تھا آنے والے کل میں اپنی نا سمجھی سے ریما نے اُسے ہار دیا تویہی پھول اقبال کے قدموں کی دھول بن جائے گا۔
حُسنہ: اﷲ نہ کرے جو کبھی ایسا ہو۔۔۔
خالہ گل شبو: دعا تو میری بھی یہی ہے کہ ریما کا گھر خوشیوں کے ساتھ بسا رہے۔ ورنہ اپنے گھر اور مرد کو ماسیوںکے رحم و کرم پر چھوڑنے والی خواتین کے حصے میں خسارے ہی آتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اُن مردوں کے دل کا چین جو بن جاتی ہیں۔ اﷲ ریما اور اس جیسی تمام خواتین کو ہدایت دے ۔
حُسنہ: آمین!
The post ’’ماسی بنی دل کا چین۔۔۔‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.