خانہ پُری
چھین لے مجھ سے
’شوہر‘ میرا۔۔۔!
ر۔ط۔م
پچھلے مہینے شارجہ سے خبر آئی کہ خاتون نے حد سے زیادہ محبت اور کبھی جھگڑا نہ کرنے پر عدالت میں جا کر طلاق کا مطالبہ کر دیا۔۔۔!
یعنی وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ’نہ ملے تب ہی تو محبت کہلاتی ہے۔۔۔ ورنہ تو شادی ہوجاتی ہے۔۔۔!‘ اگر ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں، سسی پنوں، سوہی ماہیوال اور شیریں فرہاد وغیرہ جیسے ہجر کے ماروں کے گھر بس گئے ہوتے، تو ضرور لڑ جھگڑ کر اِس عشق وشق سے باز آچکتے، اور آج کے عاشق خود کو اِن سے تشبیہہ نہ دے رہے ہوتے، اور اگر رانجھے، مجنوں، پنوں، ماہیوال اور فرہاد شادی کے بعد بھی محبت سے باز نہ آتے، تو انہیں بھی شارجہ کی خاتون کی طرح کے ’مطالبۂ طلاق‘ سہنا پڑ جاتا۔۔۔
شارجہ کی یہ خاتون فرماتی ہیں کہ شوہر بغیر ہدایت کے گھر کی صفائی کرتے ہیں اور کھانا بھی بناتے ہیں، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ شوہر ان سے کم سے کم ایک دن کے لیے جھگڑا کریں۔ وہ شادی کے بعد سے کسی بات پر جھگڑے یا بحث کے لیے ترس گئی ہیں۔ عدالت کو چاہیے تھا کہ بیوی سے کہتے کہ اس پر کام کا بوجھ تھوڑا سا کم کریں، تاکہ وہ کسی جھگڑے کے بارے میں بھی سوچ سکے۔۔۔ خاتون نے اتنی اطاعت گزاری اور محبت کے سبب اپنی زندگی کو ’عذاب‘ قرار دیتے ہوئے علاحدگی کا مطالبہ کیا، عبیداللہ علیم کے الفاظ میں ؎
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے
کوچۂ محبت کے لیے تو یہ ’’عبرت ناک‘‘ اور ’اُڑ کر بِکنے والی خبر ہے‘ مگر وہ عشق ہی کیا، جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور ممکنات اور ناممکنات پر غور کرنے کی چُھوٹ دے ڈالے۔۔۔ ’اہل محبت‘ کی تو بصارت سے بصیرت تک پر پردے ہی پڑے رہیں گے، البتہ لڑجھگڑنے والے جوڑے ضرور مطمئن ہوں گے اور سچی مچُی میں جان چھڑانے والے ضرور ’شدید محبت‘ کی طرف ’متوجہ‘ ہو سکتے ہیں، کہ شاید پھر اُن کی خاتون بھی۔۔۔
شارجہ کی عدالت نے خاتون کی درخواست مسترد کرکے دونوں کو باہمی رضا مندی سے کوئی فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ بہ الفاظ دیگر عدالت کہہ رہی تھی کہ مل جل کر کسی دن ’پھڈا‘ طے کر لیا کریں۔۔۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالت حکم کر دیتی کہ ہر ہفتے بعد نماز جمعہ 24 گھنٹے کے لیے عدالت کے سامنے ایک شان دار اور پروقار جھگڑا ’منعقد‘ کر لیا جاوے۔۔۔!
اِس خبر کا راوی ساس اور نند وغیرہ جیسے ’بنیادی‘ لوازمات کے بارے میں خاموش ہے، یقیناً ان کی عدم موجودگی کے سبب ہی یہ سکون اتنا بڑھا ہے کہ گھر ٹوٹنے کی نوبت آگئی۔ اس ’مہلک سکون‘ پر تو کوئی شاعر ہی بہتر روشنی ڈال سکتا ہے، ہم ٹھیرے ٹوٹی پھوٹی سی نثر میں اپنا قلم گھسیٹنے والے۔۔۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہ یہ شوہر ہی کوئی بہت ’ڈھیٹ‘ قسم کا عاشق ہے، کہ کچھ بھی ہو جاتا، یہ نہ لڑ کر دیتا۔۔۔ تبھی اس کی محبت سے ’تنگ‘ بیوی عدالت جا پہنچی ؎ اتنی محبت‘ عذاب ہے یارب۔۔۔
چھین لے مجھ سے ’شوہر‘ میرا۔
عدالت کا در کھٹکھٹانے سے پہلے اس نے گھر میں کُہرام اٹھانے کے کیا کیا جتن نہ کیے ہوں گے، یہ بات شادی شدہ حضرات بہت زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں، اور ہم جیسے ابھی صرف سوچ ہی سکتے ہیں۔۔۔ تاہم اس خبر کے بعد ہوسکتا ہے کہ اب کوئی شوہر محبت جتائے تو بیوی کو تشویش ہونے لگے، جون ایلیا کی روح سے معذرت کے ساتھ؎
بہت نزدیک ’آتے جا رہے‘ ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا۔۔۔
۔۔۔
’’کشمیر وہ بیوہ ہے۔۔۔‘‘
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
پانچ اگست 2019ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی شق اپنے آئین سے ختم کر کے وادی کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔ ہر قسم کے مواصلاتی رابطے منقطع کر کے حریت راہ نماوں،کٹھ پتلی کشمیری قیادت کو بھی جیلوں یا گھروں میں بند کردیا۔ پاکستانی قیادت، عوام اور دفاعی سربراہان نے خوب جوش و جذبے کا اظہار کیا، معاملہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں بھی پہنچ گیا، جو بلاشبہ ایک کام یابی ہے۔ دنیا کو بھی تشویش ہوئی اور ’’ثالثی‘‘ کی کوششیں بھی ہوئیں۔ کشمیر کے لیے آپ کی آوازوں کا شکریہ۔۔!
لیکن کیا اتنا کافی ہے؟؟
پاکستانی قیادت، اپوزیشن اور عوام کو تو چھوڑئیے، آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کی زبوں حالی کا ہی یہ عالم ہے کہ یوم سیاہ مناتے ہوئے لیڈران اپنے اپنے سیاسی قبلوں کی تصاویر اٹھائے پھر رہے تھے۔ ’لائن آف کنٹرول‘ روند کر اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے لیے ریلیف آپریشن کی جوشیلی باتیں کرنے کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر امریکا پدھار گئے۔ دراصل ہماری حکومتوں کا مطمع نظر اسلام آباد اور مقبوضہ کشمیر کی قیادت کا خواب نئی دہلی ہے۔
ہمارے وزیرخارجہ کا سہما، اترا چہرہ اور خود کو تسلیاں دیتا ہوا بیان ہے، جب کہ دوسری طرف نریندر مودی کی انتہائی پرسکون گفتگو اور پراعتماد انداز یہ ظاہر کر رہا تھا کہ کشمیر اور لداخ کی حیثیت بدلنے کا بھارتی حکومت کا اقدام نہیں بدلے گا۔۔۔!
یاد آیا۔۔۔! 1990ء کی دہائی میں ایک مرتبہ کشمیری عوام لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے لیے چکوٹھی میں جمع ہوئے تھے اور پنجاب کانسٹیبلری نے انہیں جی بھر کر جام شہادت پلائے تھے۔۔۔! کون چاہے گا کہ ان کے کاروبار بند ہوجائیں۔ ثالث کی اسلحے کی مارکیٹ ہی تو اس خطے کی بدامنی پر قائم ہے۔ وہ خطہ جس کے حالات کبھی ’’کشیدگی‘‘ سے باہر نہیں آئے اور خطہ، جو ہمیشہ اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔
اس شور میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مرتے کشمیریوں کی آہیں اور سسکیاں شاید آپ کے کانوں تک کبھی نہ پہنچ پائیں گی۔ چار سالہ کشمیری نونہال صدام کو تو اس آرٹیکل کے خاتمے اور اس پر اٹھنے والے ہنگامے کا علم بھی نہ تھا، مگر اسے موت کی نیند سونا پڑا۔۔۔! مرنے والوں کو اب کشمیر کی آزادی سے فرق نہیں پڑے گا۔ کشمیر تو وہ بیوہ ہے، جسے نہ سسرال والے رکھنا چاہتے ہیں اور نہ میکے والوں کو اس کی ضرورت ہے، مگر مفاد پرستی کو تسکین پہنچانے کے لیے اسے آئے دن سولہ سنگھار کروا کے چوراہے میں پیش کیا جاتا ہے۔ خدا جانے کس طرف کی بولی اٹھ جائے اور اسے بھی ٹھکانا نصیب ہو ورنہ یہ منڈی ہمیشہ یوں ہی سجتی رہے گی۔
۔۔۔
’’میں بھی چاہتا تو پسندیدہ باتیں کر سکتا تھا۔۔۔!‘‘
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
ایتھنز کے لوگو۔۔۔! اب میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ تمہاری کردار سازی اور زندگیاں ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں، جو اس شہر کی بدنامی کا سبب ہیں، کیوںکہ انہوں نے مجھے صرف اس لیے موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا کہ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔
تھوڑے عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ یہی قدرت کا فیصلہ ہے اور تاریخ کا بھی، لیکن میرا خطاب بنیادی طور پر انہی لوگوں سے ہے جنہوں نے مجھے موت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔
ایتھنز کے لوگو۔۔۔! مجھے اپنے دلائل دینے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، کیوں کہ اس سے میری فکر عام ہوتی اور عوام الناس میرے نظریات سے متاثر ہوتے۔ یہ سزا قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے ان کو درست مان لیا ہے یا میں غلطی پر تھا۔ میں اپنے نظریات پر اب بھی قائم ہوں۔ میں موت سے بچنے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لوں گا، کیوں کہ میں ایک آزاد انسان کی موت مرنے کو ترجیح دوں گا۔
میں اگر چاہتا تو اپنی جان بچانے کے لیے وہ سب باتیں کہتا جو تم لوگوں کو پسند ہیں، جو تم لوگ ہر ایک سے سننے کی خواہش رکھتے ہو اور جو باتیں تم لوگ سننے کے عادی ہو۔ میں سچ سے توبہ نہیں کروں، بلکہ مرتے دم تک سچ بولتا رہوں گا۔ چاہے یہ بات تم کو ناگوار گزرے۔ اپنی جان بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ میں تمہارے آگے ہتھیار ڈال دیتا اور خود کو تمہارے رحم وکرم پر چھوڑ دیتا تو شاید میری جان بخشی ہوجاتی، لیکن میں نے سچ کی خاطر موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تم لوگ ناانصافی اور ظلم کے ذمہ دار ہو اور تم کو اپنے ان برے اعمال کی سزا ضرور ملے گی۔ تم پر تاریخ کے ہر دور میں نفرین اور لعنت بھیجی جائے گی۔
(سزائے موت سننے کے بعد سقراط کے خیالات)
۔۔۔
صدلفظی کتھا
’’حالت‘‘
رضوان طاہر مبین
’’پوری قوم کو دوپہر 12 بجے آدھے گھنٹے کے لیے گھر سے باہر نکل کر احتجاج کرنا چاہیے۔‘‘
ثمر نے امر سے کہا۔
’’بالکل، کشمیر کے لیے ہمیں متحد ہونا چاہیے۔۔۔!‘‘
امر نے تائید کی۔
دونوں کچھ دن بعد ملے۔
امر نے ثمر کو دیکھتے ہی آواز لگائی:
’’اَماں۔۔۔ باتیں تو بڑی کر رہے تھے۔۔۔ خود ہی نہیں نکلے۔۔۔؟‘‘
’’ارے، بارش کا پانی اتنا تھا، کہاں نکلتا؟ لیکن تمہاری طرف تو کیچڑ نہ تھی، تم کیوں پانچ منٹ بھی نہ رکے۔۔۔؟‘‘
ثمر نے پوچھا۔
’’کیا کرتا۔۔۔ مکھیوں کی بہتات سے باہر رہنا دوبھر تھا۔۔۔!‘‘
امر نے جواب دیا۔
۔۔۔
علامہ سے دعا بھی لے لی۔۔۔
مرسلہ: محمد شکیل مکی، لودھراں
مولانا تاج وَر نجیب آبادی، علامہ اقبال کے مداحوں میں سے تھے، کہا کرتے تھے کہ ’’پنجاب کی سرزمین نے یہ بہت تناور انسان پیدا کیا ہے، لیکن یہاں کے عوام کے دماغ ابھی اونگھ رہے ہیں۔۔۔‘‘
ایک دن میں نے عرض کیا ’’مولانا زندگی میں جس قدر اقبال کی شہرت ہے یہاں اور کس کو یہ رتبہ ملا ہے؟‘‘
مولانا تنک مزاج تو تھے ہی، بگڑ گئے جیسے ان کی خاموشی کے پھوڑے کو چھیڑ دیا ہو، بولے ’’ابے الو! تجھے کیا خبر کہ علامہ اقبال کس مقام کے انسان ہیں، یہاں ایسی شخصیتوں کے جوہر تو مرنے کے بعد کھلا کرتے ہیں، کیوں کہ مردہ قومیں مردوں کو پوجتی ہیں اور زندہ قومیں زندہ لوگوں کے جوہر کو سراہتی ہیں۔‘‘
میں نے مولانا سے کئی بار کہا ’’مولانا! مجھے علامہ اقبال کو دکھا دیں، آپ کی بڑی نوازش ہوگی۔‘‘ مولانا نے کہا ’’ہرگز نہیں، میں تجھے اپنے ساتھ ہرگز نہیں لے جا سکتا کسی اور کے ساتھ بھیج دوں گا، دیکھ آنا۔‘‘
میں نے کہا ’’مولانا میں تو آپ ہی کے ساتھ جاؤں گا آپ سے زیادہ یہاں میرا ہم درد کون ہو سکتا ہے؟‘‘
مولانا بولے ’’تُو بڑا بے ادب اور منہ پھٹ آدمی ہے، تجھے ساتھ لے جا کر میں کیا اپنی توہین کراؤں؟‘‘
میں نے نہایت لجاجت سے کہا ’’مولانا! میں وعدہ کرتا ہوں، جب تک وہاں سے واپس آئیں گے اس وقت تک میں ہونٹ سیے رکھوں گا، ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالوں گا۔‘‘ مولانا سن کر خاموش ہوگئے۔
ایک دن مولانا نے مجھے گھر سے بلوایا اور کہا ’’ذرا کپڑے ڈھنگ کے پہن آ۔۔۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا گورنر صاحب کے یہاں جانا ہے؟‘‘
مولانا: ’’ابے جاہل! علامہ اقبال کے یہاں جانا ہے، جس کے لیے تو روز میرے سر رہتا ہے۔‘‘
میں: ’’مولانا انہیں میرے کپڑوں سے کیا غرض، وہ تو آپ کو دیکھیں گے، آپ اپنے مقام کا لباس پہن لیں، میں تو آپ کے خادم کی حیثیت سے آپ کے ساتھ جاؤں گا اور میرے پاس کپڑے ہیں بھی کہاں۔ دو جوڑے ابھی دھوکے سوکھنے کے لیے ڈال کے آیا ہوں، وہ بھی کئی جگہ سے گونتھ رکھے ہیں۔‘‘
مولانا: ’’اچھا چل یوں ہی چل، لیکن جب تک وہاں رہے زبان سی لینا۔‘‘
میں: ’’جیسا حکم ہو، میری کیا مجال ہے کہ سرتابی کروں۔‘‘ اس کے باوجود مولانا تمام راستے مجھے تلقین کرتے گئے کہ ’’وہاں زبان کھولنا گستاخی ہے، گستاخی۔‘‘
جب مولانا، علامہ کی کوٹھی کے دروازے پر پہنچے تو مولانا نے پھر مجھے خاموش رہنے کی تاکید کی اور میں تیوری پر بل ڈال کر خاموش ہوگیا۔
مولانا نے جھلا کے کہا ’’کچھ منہ سے تو پھوٹ، سن رہا ہے کہ نہیں؟‘‘
میں: ’’آپ ہی نے تو کہا ہے کہ خاموش رہنا۔ میں تو بڑی دیر سے خاموشی پر عمل پیرا ہوں۔‘‘
مولانا مسکراتے ہوئے علامہ کے یہاں ایک نیم روشن کمرے میں پہنچ گئے۔ مولانا تاج وَر اور علامہ تو باتیں کرتے رہے اور میں ان دونوں بزرگوں کو ایک پجاری کی طرح دیکھتا رہا۔
جب چلنے لگے تو علامہ نے مولانا سے میرے متعلق دریافت کیا۔ مولانا نے فرمایا ’’غریب مزدور آدمی ہے، نہ جانے شعر و شاعری کا روگ کہاں سے لگا لیا اور میرے یہاں آنے جانے لگا، عرصے سے آپ کو دیکھنے کا متمنی تھا۔‘‘ علامہ نے میرا نام دریافت کیا میں نے شرماتے ہوئے لہجے میں کہا ’’احسان۔۔۔‘‘
علامہ نے فرمایا ’’نام تو مزدوروں والا نہیں، اچھا! خدا اسم بامسمیٰ کرے۔۔۔‘‘
مولانا جب سڑک پر آئے تو کہنے لگے ’’احسان، تو نے بڑے آدمی کو دیکھا ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا ’’حضور! میں بلاشبہ آپ کا ممنون ہوں۔‘‘
مولانا: ’’میں نے تجھے اسی لیے خاموش رہنے کو کہا تھا کہ تو بات نہ کرنا جانتا ہے نہ سنتا، بھلا مجھے تیری ممنونیت سے کیا فائدہ؟‘‘
میں نے کہا ’’مولانا شکریہ کوئی جرم تو نہیں۔‘‘ مولانا نے کہا ’’چپکا چپکا چل بات نہ بڑھا، میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ تو خوش نصیب ہے کہ علامہ سے مل بھی لیا اور دعا بھی لے لی۔‘‘n
(احسان دانش کی خود نوشت ’جہان دانش‘ سے لیا گیا)
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.