غزل
ظلمتِ شب کے بہت دور حوالے جاتے
ہم کہاں ڈھونڈنے بے سود اُجالے جاتے
بے بصر لوگ اکٹھے تھے درِ جاناں پر
دیکھنے جاتے مگر دیکھنے والے جاتے
اچھا ہوتا جو زمانے کی طرح سوچتے ہم
روگ سینے میں محبت کے نہ پالے جاتے
خود بخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ہم بھی غالب کی طرح کوچۂ جاناں سے اسد
نہ نکلتے توکسی روز نکالے جاتے
(اسد اعوان۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
سن مری داستان حیرت میں
اے زمین آسمان، حیرت میں
اک تحیر ہے چار سو میرے
روک دی ہے اڑان، حیرت میں
عین منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
اب تلک ہوں میں جان، حیرت میں
یعنی محفوظ ہوں، خدا شاہد
تیر ششدر، کمان حیرت میں
اب وفا کی کھپت نہیں کوئی
بند کردی دکان حیرت میں
شور کرتی ہے آنکھ پاگل سی
دیکھتی ہے زبان حیرت میں
(زوہیب نازک۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
شہ کہہ رہا ہے تیر و کماں بیچ دیجیے
تاب و تواں یقین و گماں بیچ دیجیے
کل تک جو بوڑھی سوچ سے رکھتا تھا اختلاف
وہ کہہ رہا ہے فکرِ جواں بیچ دیجیے
میری انا نے کل مجھے چپکے سے کہہ دیا
غربت سے تنگ ہیں تو مکاں بیچ دیجیے
لازم نہیں کہ بیچیے بازار میں مجھے
بہتر جہاں سمجھیے وہاں بیچ دیجیے
شاید اسے پسند ہے دھرتی کا بانجھ پن
جو کہہ رہا ہے آبِ رواں بیچ دیجیے
(قیصر عباس قیصر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
ازل سے لکھی ہوئی کہانی میں آ گئے ہیں
ہم ایک کُن سے ابد کے معنی میں آگئے ہیں
یہ رائیگانی ہمارے پرکھوں کا مسئلہ تھا
اسی لیے ہم بھی رائیگانی میں آ گئے ہیں
پسند اسے ہے ہماری تجسیم اس لیے ہم
ہوا، زمین اور آگ پانی میں آ گئے ہیں
جو اپنے دشمن کی بد گمانی سے ڈر رہے تھے
وہ اپنے یاروں کی بد گمانی میں آگئے ہیں
(توصیف یوسف اشعر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
سنیے حضور مجھ کو نہیں سادگی پسند
کچھ کچھ فسوں کے ساتھ ہے کچھ خامشی پسند
رہتے ہیں سانپ بن کے مری آستیں میں جو
ان دوستوں کی مجھ کو نہیں دوستی پسند
ورثے میں یہ ملی تھی مجھے مہرباں مرے
اِس واسطے مجھے ہے بہت تیرگی پسند
مجھ سے ملا تھا خواب کے عالم میں اور کہا
میں بے سکوں تھا اس لیے کی خودکشی پسند
بے سمت کر رہا ہوں سفر جان بوجھ کر
کس نے کہا مجھے ہے میاں روشنی پسند
لڑکی تو کہہ رہی ہے مجھے ناپسند ہے
اب تُو بتا، ہے تجھ کو وہی واقعی پسند
دیکھو مماثلت کی بھی حد ہو گئی سحر
اس کو ہے چاند مجھ کو بہت چاندنی پسند
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال، جھنگ)
۔۔۔
غزل
ہم سب خاک کا بستر ہونے والے ہیں
خستہ حال سے ابتر ہونے والے ہیں
پتہ نہیں انجام ہمارا کیا ہو گا
اپنی عمر سے اوپر ہونے والے ہیں
اک بنجارن عشق کمانے والی ہے
جادو ٹونے منتر ہونے والے ہیں
ہم سینہ بہ سینہ چلنے والے لوگ
اب تو مست قلندر ہونے والے ہیں
شاید سب کی جان نکلنے والی ہے
لگتا ہے سب پتھر ہونے والے ہیں
ساجد اپنی نسلیں بڑھتی جاتی ہیں
کھیت ہمارے بنجر ہونے والے ہیں
(ساجد رضا خان۔ جھنگ)
۔۔۔
غزل
نیلے گگن سے تیر کے اتری ہے ہر کرن
تیرا سنہری روپ ہے سازینۂ سخن
شبنم کے قطرے قطرے سے اڑنے لگے اگن
خوش بو بدن چھوئے تو بنے پگلی سی پوَن
اس حسنِ نازنیں کا اچھوتا ہے بانکپن
اور عشق اپنے حال پہ رہتا ہے خندہ زن
گلشن میں جھولا جھولتی رہتی ہیں تتلیاں
پھولوں کے آس پاس پھریں جیسے نو رتن
بجتے ہیں دل کے تار مدھر لے کی تان پر
جھنکارِ جلترنگ، سریلی چھنن چھنن
تصویرِ یار اتار کے چپکے سے چل دیے
دیوار گر پڑی مرے کمرے کی دفعتاً
اے عشقِ نارسا ترے ہر امتحان میں
کورا ورق ہی جھاڑتا رہتا ہے ممتحن
(علیم اطہر۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
دل سے کسی کی یاد کا سایا نہیں گیا
اک شخص ہے جو مجھ سے بھلایا نہیں گیا
یہ رعبِ حُسن ہے کہ محبت کا خوف ہے
تم کو کبھی گلے سے لگایا نہیں گیا
گھیرا ہوا ہے مجھ کو ندامت کی آگ نے
برسوں سے جل رہا ہوں بجھایا نہیں گیا
پھر سے بناؤ توڑ کے اے کوزہ گر مجھے
ایسا بنا کہ جیسے بنایا نہیں گیا
برسوں سے سو رہے ہیں جو غفلت میں سیف جی
سویا ضمیر ان کا جگایا نہیں گیا
(سیف الرّحمٰن۔ کوٹ مومن، سرگودھا)
۔۔۔
غزل
چاند اُترا ہے آج آنگن میں
آ گیا ہے وہ میرے جیون میں
جگمگایا ہے سارا گھر میرا
کس قدر چاندنی ہے چندن میں
کس نے دیکھا ہے تیرا حسن و جمال
مور ناچا ہے جانے کس بَن میں
کیوں بناتے ہو محل، مال و متاع
کچھ نہ جائے گا ساتھ مدفن میں
رو کے ہلکان ہو گیا ہوں میں
یاد آئی ہے اُس کی ساون میں
میرا ساتھی، وہ ہم سفر میرا
کھو دیا میں نے اُس کو اَن بَن میں
کون کمتر کا یار ہے بزمی
سارے برتر کے یار ہیں دھن میں
(شبیر بزمی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
اس محبت کا مرحلہ سارا
طے نہیں مجھ سے ہو سکا سارا
اس کو دن رات اتنا رویا ہوں
آنسوئوں میں وہ بہہ گیا سارا
کوئی منزل ہے کیا تمھاری بھی
پوچھتا ہے یہ راستہ سارا
مسئلے سب ادھورے ہیں میرے
اصل میں یہ ہے مسئلہ سارا
کاش آدھا بدل گیا ہوتا
ہو گیا ہے وہ بے وفا سارا
وصل میں زہر بچ گیا باقی
ہجر کا سانپ ڈس گیا سارا
(اسد علی باقی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
مشقِ سخن تمام ہوئی ہے ابھی ابھی
اک نظم اختتام ہوئی ہے ابھی ابھی
تا دیر گُل بدن سے رہا محوِ گفتگو
بلبل بھی ہم کلام ہوئی ہے ابھی ابھی
اک سانحے میں ہم سے جدا ہو گئے تھے جو
ان سے دعا سلام ہوئی ہے ابھی ابھی
کچھ دیر قبل زیست یہاں تھی رواں دواں
ہڑتال پہیہ جام ہوئی ہے ابھی ابھی
لو شوق آج تم بھی ذمیں دار ہو گئے
اک قبر تیرے نام ہوئی ہے ابھی ابھی
(شاہد شوق۔ ترہالہ ، مظفر آباد آزاد کشمیر)
۔۔۔
غزل
شدید چاہت کا رنگ ہم پر چڑھا ہوا ہے
تمہارا دکھ جو ہمارے پلے پڑا ہوا ہے
کبھی خزاں کی اداس شامیں، کبھی بہاریں
نہیں خبر کہ یہ دل کہاں پر اَڑا ہوا ہے
بدل نہ لینا ارادہ آنے کا جانِ جاناں
تمہاری راہوں میں اک دوانہ کھڑا ہوا ہے
ہمارے ذہنوں پہ عشق طاری ہوا ہے جب سے
ہے عقل عاری جنون سَر پر چڑھا ہوا ہے
ابھی تلک ہم مفارقت سے نہیں ہیں الجھے
ہمارا رشتہ حسن کسی سے جڑا ہوا ہے
(محمد حسن رضا حسانی۔ کلاسوالہ، سیالکوٹ)
۔۔۔
غزل
لپٹا پڑا ہوں دیکھو، اِک سنگِ آستاں سے
شاید وہ ترس کھائیں، تھک کر میری فغاں سے
رَبّ کی خلافتوں کا، وارِث ہوں میں اکیلا
کہتے ہیں مجھ کو آدم، اترا ہوں آسماں سے
اے نامہ بَر یہ کہنا، یہی آخری ہے حسرت
اک بار میرا قصہ، سُن لیں میری زباں سے
جتنی شکایتیں تھیں، سب بھول بھال کر مَیں
تکنے لگا وہ چِہرہ، گزرا وہ جب یہاں سے
یہ روڈ شہر والا، جب سے بنا مزمل
بچے بچھڑ گئے ہیں گائوں کے اپنی ماں سے
(مزمل سجاد جعفری۔ ودھیوالی، لیہ)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.