آج دنیا بھر میں خواندگی کا بین الاقوامی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد جہاں تعلیم کے فروغ کے لئے ہر طرح کی کوششوں کے عزم کا اعادہ ہے وہیں ماضی میں خواندگی کے فروغ کے لئے کی جانے والی کاوشوں کی کامیابی اور ناکامیوں کا جائزہ لینا بھی ہے
۔ پاکستان جہاں روز اول سے تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے بڑے عہد تو بہت سے کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کی صد فیصد تکمیل نہیں ہو پائی۔ کیونکہ ایک تو ہم اکثر زمینی حقائق سے ماورا پالیسیاں بناتے ہیں دوسرا اپنی غلطیوں سے ہم سبق نہیں سیکھتے اور اُنھیں کسی نہ کسی صورت دوہراتے رہتے ہیں ۔
نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آج دنیا بھر میں اسکولوں سے باہر بچوں، نوبالغوں (adolescents) اور نوجوانوںکی سب سے بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یونیسکو انسٹی ٹیوٹ آف اسٹیٹسٹکس کے ڈیٹا بیس سے حاصل شدہ اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 2017 میں پاکستان کے پرائمری تا سیکنڈری اسکول کی عمر کے گروپ کے 2 کروڑ4 لاکھ88 ہزار بچے ، نوبالغ اور نوجوان اسکولوں میں داخل نہیں تھے ۔
جبکہ پرائمری سیکشن کے ایج گروپ کے53 لاکھ 24 ہزار بچے اسکولوں سے باہر تھے جو دنیا بھر میںعمر کے اس گروپ کی اسکولوں سے باہر اطفال کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔ عالمی ادارہ کے مطابق پاکستان کے40.8 فیصد پرائمری تا سیکنڈری اسکول کی عمر کے گروپ کی آبادی اسکول سے نا آشنا ہے جو دنیا بھر میں چوتھی سب سے ابتر شرح ہے۔ اسی طرح پرائمری تعلیم ادھوری چھوڑنے کی شرح کے حوالے سے وطن عزیز دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے اور ملک کے 22.7 فیصد پرائمری اسکولوں میں داخلہ لینے والے بچے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے۔
یہ تو ایک بین الاقوامی ادارے کے مرتب کردہ اعدادوشمار ہیں اگر ہم پاکستان کے سرکاری مرتب شدہ اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو اوپر بیان کردہ حقائق سے قریب تر صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ کے نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی سالانہ رپورٹ’’ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس2016-17 ـ‘‘ (فی الوقت دستیاب تازہ اعدادوشمار) کے مطابق ملک کے5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 28 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں پہلی سے بارہویں جماعت کی عمر کے گروپ کے 44 فیصد بچے اسکولوں میں موجود نہیں۔ لڑکیوں کا49 فیصد اور لڑکوں کا 40 فیصد اسکولوں سے لاتعلق ہے۔
بلوچستان میں صورتحال اس حوالے سے بہت گھمبیر ہے جہاں مذکورہ ایج گروپ کے70 فیصد بچے اسکولوں میں داخل نہیں ۔ لڑکیوں کا 78 فیصد اور لڑکوں کا64 فیصد اسکولوں سے دور ہے جو پاکستان میں سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال ہے۔ یہاں ان اعدادوشمار کے بیان کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی طرح کی مایوسی پیدا کی جائے بلکہ اپنی تعلیمی پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں موجود خامیوں کا جائزہ لینے کے لئے تحریک پیدا کرنا ہے تاکہ ہم جو 72 سال کے دوران اپنی شرح خواندگی کو62.3 فیصد کر پائے ہیں اسے سو فیصد کرنے کے لئے مزید72 سال نہ لے لیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اُن تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لایا جائے جو ملک میں خواندگی کے فروغ اور اسکولوں سے باہر ان بچوں کوتعلیم یافتہ کرنے میں اپنا کوئی کردار ادا کر سکیں۔
دینی مدارس کا شمار بھی اُن دستیاب وسائل میں ہوتا ہے جن سے بھر پور استفادہ کے لئے اُنھیں ملک کے قومی تعلیمی دھارے میں شامل کر کے خواندگی کی صورتحال کو ناصرف بہت بہتر کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اسکولوں سے باہر بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
کیونکہ ہمارے ہاں تعلیمی گہواروں سے بچوں کی دوری کی اگر چہ بہت سی وجوہات ہیں لیکن غربت سب سے نمایاں محرک ہے جس کی وجہ سے والدین بچوں کو تعلیم دلوانے کی سکت نہیں رکھتے اور اپنے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے بچوں کو اسکولوں سے دور رکھ کر کام کاج کی بھٹی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔ ایسی صورتحال میں مدارس جو کہ اپنے طالب علموں کو رہائش، کھانا، کتابیںاور دیگر ضروری چیزیں مفت فراہم کرتے ہیں۔ اسکولوں سے باہر موجود بچوں کو تعلیمی نظام میں شامل کرنے کا عمدہ ذریعہ بن سکتے ہیں اگر وہ خود کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کر لیں تو۔کیونکہ ان کے بغیر ہمارا تعلیمی نظام نا مکمل ہے۔
پاکستان میں تعلیمی ترقی کے لئے مدارس کی صورت میں موجود غیر استعمال شدہ (Untapped) تعلیمی خزانے کی اہمیت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں2016-17 تک دینی مدارس کی تعداد پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس کے مطابق 34137 تھی جن میں 21 لاکھ77 ہزار سے زائد بچے، نابالغ اور نوجوان زیر تعلیم اور 74 ہزار 6 سو سے زائد اساتذہ تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔اگر ہم مدارس اور عصری تعلیم کے اداروں کی تعداد کا موازنہ کریں تو ملک میں پرائمری تا یونیورسٹی تمام طرح کے عصری تعلیمی اداروں کی مجموعی تعداد 2016-17 میں237958 تھی۔ یوں اس تعداد کے 14.4 فیصد کے برابر تعداد دینی مدارس کی بنتی ہے۔
یعنی ملک میں 7 عصری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں ایک دینی مدرسہ موجود ہے۔ اسی طرح مذکورہ سال ملک میں تمام طرح اور تمام سطح کے عصری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالب علموں کی مجموعی تعداد 4 کروڑ 29 لاکھ91 ہزار سے زائد تھی جس کی 5.1 فیصد کے برابر تعداد مدرسہ طالب علموں کی بنتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ملک میں عصری تعلیمی اداروں کے 19.7طالب علموں کے مقابلے میں مدرسہ کا ایک طالب علم موجود ہے۔ اساتذہ کے حوالے سے موازنہ یہ بتاتا ہے کہ ملک کے تمام عصری اداروں میں 2016-17 کے دوران کل وقتی اساتذہ کی تعداد 16 لاکھ 75 ہزار 7 سو سے زائد تھی ۔
اس تعداد کے4.5 فیصد کے برابر مدارس کے اساتذہ کی تعداد بنتی ہے۔ یوں ملک کے 22.4 عصری تعلیم کے اساتذہ کے مقابلہ میں مدرسہ کا ایک استاد موجود ہے۔1947-48 سے 2016-17 تک عصری تعلیمی اداروں اور مدارس کی تعداد میں اضافے کے تقابلی جائزے سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ کچھ یوں ہیںکہ اس عرصہ کے دوران ملک کے تعلیمی اداروں (پرائمری تا یونیورسٹی )کی تعداد میں2044 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 11099 سے بڑھ کر 237958 ہو چکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں دینی مدارس کی تعداد میں مذکورہ عرصہ کے دوران 13834 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تعداد 245 سے بڑھ کر 34137 ہوگئی ہے۔
اس وقت ملک کے 39.3 فیصد مدارس مردوں کے لئے مخصوص ہیں جبکہ 14.3 فیصد برائے خواتین اور 46.4 فیصد دونوں جنسوں (مرد و خواتین )کے لئے ہیں۔ طلباء اور طالبات کے لئے مشترکہ مدارس کا سب سے زیادہ تناسب آزاد جموں وکشمیر میں ہے جہاں کے مدارس کا 74 فیصد مرد اور خواتین دونوں کے لئے ہے۔ خواتین کے مدارس کا سب سے زیادہ تناسب ملک بھر میں فاٹا میں ہے جو وہاں کے مدارس کا 22 فیصد ہے۔ جبکہ مردوں کے مدارس کا زیادہ تناسب خیبر پختونخوا میں ہے جو 81 فیصد ہے ۔ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹکس 2016-17 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق پاکستان کے دینی مدارس کا 40.4 فیصد پنجاب میں موجود ہے۔
سندھ میں 29.4 فیصد، خیبر پختونخوا میں 13.7 فیصد، بلوچستان میں8.7 فیصد، آزاد جموں و کشمیر میں 4.1 فیصد، 2.2 فیصد فاٹا، ایک فیصد اسلام آباد اور0.4 فیصد گلگت بلتستان میں موجود ہیں ۔ ملک میں گزشتہ ایک عشرے 2006-07 تا2016-17 کے دوران سب سے زیادہ مدارس کی تعداد میں فیصد اضافہ اسلام آباد میں ہوا جہاں یہ اضافہ471 فیصد رہا۔ دوسرا نمایاں اضافہ 439 فیصد سندھ میں ہوا ۔ 333 فیصد اضافہ کے ساتھ بلوچستان تیسرے اور154 فیصد اضافہ کے ساتھ پنجاب چوتھے نمبر پر رہا۔خیبر پختونخوا میں78 فیصد، گلگت بلتستان میں 58 فیصد، فاٹا میں 53 فیصد اور آزاد جموں و کشمیر میں 19 فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستان کی سطح پر یہ اضافہ 174 فیصد رہا۔
ملک میں موجود دینی مدارس کا 3 فیصد سرکاری اور 97 فیصد پرائیویٹ سیکٹر کے زیر انتظام ہے۔ نجی شعبہ میں موجود مدارس پانچ وفاق/ بورڈز کے تحت کام کرتے ہیں جن کی ذمہ داری میں مدارس کی رجسٹریشن، امتحانات اور نصاب کی تیاری شامل ہے۔ یہ تمام وفاق / بورڈز چار مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ رابطہ المدارس اسلامیہ کا قیام 1983 میں لاہور میں جماعتِ اسلامی نے کیا ۔ یہ تمام مسالک کے مدارس کو تسلیم کرتا ہے۔ تنظیم المدارس کا قیام 1960 میں لاہور میں ہوا۔ یہ سنی بریلوی مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔
وفاق المدارس شیعہ 1959 میں لاہور میں قائم ہوا۔ اسی طرح وفاق المدارس 1959 میں ملتان میں بنایا گیا جو دیو بند مکتبہ فکر کا نمائندہ ہے۔ جبکہ وفاق المدارس سلفیہ فیصل آباد میں 1955 میں اہلِ حدیث مکتبہ فکر کی نمائندگی کے لئے قائم کیا گیا۔ یہ پانچوں وفاق/ بورڈز اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ممبر ہیں جو ان تمام کا ایڈمنسٹریٹیو ادارہ ہے جس کا قیام 2003 میں ہوا ۔ اس وقت ملک کے30 فیصد مدارس وفاق المدارس کے تحت کام کر رہے ہیں۔ 21.4 فیصد تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے تحت مصروف ِ عمل ہیں ۔7.4 فیصد رابطہ المدارس اسلامیہ کے تحت فعال ہیں اور 7.3 فیصد دیگر باڈیز کے تحت کام کر رہے ہیں۔ جبکہ 28 فیصد ملکی دینی مدارس کسی وفاق / بورڈ سے رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
پاکستان کے دینی مدارس میں زیر تعلیم طلباء کا 63.8 فیصد مردوں اور 36.2 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ اسلام آباد میں قائم مدارس میں زیر تعلیم طالب علموں کی زیادہ تعدادطالبات پر مشتمل ہے جو وفاقی دارالحکومت میں موجود دینی مدارس میں پڑھنے والے طالب علموں کا 58.3 فیصد ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں مرد طلباء کا تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ 83.7 فیصد ہے۔ ملکی مدارس میں پڑھنے والے شاگردوں کا 47.2 فیصد پنجاب،21.4 فیصد سندھ، 10.9 فیصد خیبر پختونخوا، 7.9 فیصد فاٹا، 6.3 فیصد آزاد جموں و کشمیر، 4.6 فیصد بلوچستان،0.9 فیصد گلگت بلتستان اور 0.7 فیصد اسلام آباد کے مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔
اس کے علاوہ ملکی مدارس میں 2006-07 سے2016-17 کے دوران طالب علموں کی تعداد میں مجموعی طور پر 36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصہ کے دوران سب سے زیادہ اضافہ فاٹا میں ہوا جہاں مدارس کے طلباء کی تعداد 269 فیصد بڑھی۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں اس دوران مدارس کے طلباء کی تعداد میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی۔
ملکی دینی مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا 43.6 فیصد پنجاب کے مدارس سے وابستہ ہے۔ اس کے بعد20 فیصد اساتذہ سندھ کے دینی مدارس سے منسلک ہیں ۔ 19.4 فیصد خیبر پختونخوا ،5.7 فیصد آزاد جموں و کشمیر، 5.2 فیصد بلوچستان، 4.3 فیصد فاٹا اور 1.1 فیصد اسلام آباد جبکہ 0.8 فیصد گلگت بلتستان کے مدارس میں کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ملکی مدارس کے اساتذہ کا 76.4 فیصد مردوں اور23.6 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔
اسلام آباد میں خواتین اساتذہ کا تناسب مرد استادوں سے زیادہ ہے وہاں مدارس کے اساتذہ کی53.2 فیصد تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔ جبکہ مرد اساتذہ کا تناسب گلگت بلتستان میں ملک بھر سے زیادہ ہے جہاں 97 فیصد اساتذہ مر دوں پر مشتمل ہیں ۔ اسی طرح ملکی سطح پر مذکورہ بالا ایک عشرہ کے دوران دینی مدارس کے استادوں کی تعداد میں 34 فیصد مجموعی اضافہ ہوا ۔ سب سے زیادہ فیصد اضافہ فاٹا میں ہوا جو 61.5 فیصد ہے جبکہ سب سے کم اضافہ خیبر پختونخوا میں ہوا جو 22 فیصد ہے۔
ان تما م اعدادوشمار کے تجزیہ سے کچھ اور حقائق بھی سامنے آتے ہیں جن کے مطابق ملک کے فی مدرسہ طالب علموں کی اوسط تعداد 63.8 بنتی ہے۔ جبکہ فی مدرسہ اساتذہ کی اوسط تعداد 2.19 اور ایک استاد کے مقابلے میں طالب علموں کی اوسط تعداد 29.2 بنتی ہے۔
خواتین کے مدارس میں فی مدرسہ طالبات کی تعداد مردوں کے مدرسہ کی اوسط تعداد سے زیادہ ہے جو161.3 بنتی ہے جبکہ مردوں کے مدرسہ میں یہ اوسط103.6 طالب علم ہیں۔ اسی طرح عورتوں کے فی مدرسہ میں خواتین اساتذہ کی اوسط تعداد 3.6 بنتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مردوں کے مدارس میں اساتذہ کی اوسط تعداد 4.3 بنتی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین کے ایک مدرسہ میں ایک خاتون استاد کو اوسطً 44.7 طالبات کو پڑھانا ہوتا ہے جبکہ مردوں کے مدارس میں فی مرد استاد کو 24.4 طالب علموں کو پڑھانا ہوتا ہے۔
ملک میں روایتی مدارس دو طرح کے کورس کرواتے ہیں۔ اول: حفظِ قرآن کورس۔ دوم: عالم کورس۔ حفظِ قرآن کورس میں بچے کو مکمل قرآن زبانی یاد کرایا جاتا ہے۔ جبکہ عالم کورس ایک قابل اسلامک اسکالر بنانے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے نصاب میں عموماً عربی زبان، تفسیر، شریعہ، حدیث، فقہ، منطق اور اسلامی تاریخ کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کورس کے فارغ التحصیل گریجویٹ اکثر مذہبی اور سیکولر اسکولز میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔اس کے علاوہ ملک میں دینی مدارس چار سطحوں پر کام کرتے ہیں۔
ناظرہ، حفظ، درس نظامی اور تخصص۔ ناظرہ مدارس بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کی تربیت فراہم کرتے ہیں ۔ ایسے مدارس مساجد سے متصل ہوتے ہیں عموماً امام مسجد بچوں کو قرآن پاک پڑھنا سکھاتے ہیں۔ اس طرح کے مدارس کے اوقات کار صبح سویرے یا پھر شام کے ہوتے ہیں بچے ان میںایک گھنٹے تک پڑھتے ہیں۔ حفظ کے مدارس کا کام قرآن پاک پڑھنے کے بنیادی طریقوں کے ساتھ ساتھ قرآن کو زبانی یاد کرانا ہے۔ یہ مدارس عموماً مساجد یا پھرعلیحدہ صورت میں ہوتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں ایک اقامتی اور دوسری غیر اقامتی۔ اقامتی مدارس میں طلباء اُس وقت تک مدارس میں ہی رہائش رکھتے ہیں جب تک وہ قرآن پاک مکمل طور پر زبانی یاد نہ کر لیں ۔
اس طرح کے مدارس میں ہفتہ میں ایک چھٹی اور سال میں ایک مہینہ یا ڈیڑھ مہینہ رمضان اور عید پر چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ غیر اقامتی حفظ کے مدارس میں بچے روزانہ 8 سے10 گھنٹے وقت دیتے ہیں اور گھر واپس چلے جاتے ہیں ۔ یہ مدارس بھی مساجد میں یہ علیحدہ دونوں صورتوں میں ہوتے ہیں۔ درس نظامی عموماً آٹھ سالہ تعلیم پر مشتمل ہے جس میں قرآن، اس کا ترجمہ، تفسیر، احادیث، اسلامی فقہ، عربی وفارسی زبانیں اور دیگر معاونتی مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ تخصص وہ سطح ہے جس میں اسپیشلائزیشن کورسز جیسا کہ مفتی اور قاضی کرائے جاتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر مدرسہ صرف ایک سطح پر کام کرتا ہو اکثر مدارس تمام یا ایک سے زائد سطحوں پر کام کرتے ہیں اور اقامتی اور غیر اقامتی دونوں صورتوں میں موجود ہیں۔
اسلامی تاریخ میں مدارس اسلامی اور سائنٹیفک علوم کے مراکز تھے۔ خاص کر ساتویں سے گیارہویں صدی تک ان مدارس نے البیرونی، ابن سینا، الخوازمی، جابر بن حیان اورابن خلدون جیسی کئی ایک نامور ہستیوں کو پیدا کیا۔ یہی مدارس یورپ میں جدید علوم کی بنیاد بنے۔ان مدارس میں موجود جدید علم سے آگاہی کے لئے عیسائی اسکالرز نے اسلامی دنیا کا سفر کیا۔ یورپ میں پہلے کالج کی بنیاد ایک عیسائی مبلغ Jocius de Londoniis نے مشرقِ وسطی سے پیرس پہنچنے پر رکھی۔کئی سو صدیوں تک اسلامی تعلیم کے مراکز مدرسہ، مساجد اور جامعات نے قابلِ ذکر کارنامے انجام دیئے۔
اندلس سے لیکر برصغیر تک مدارس نے سائنس، ریاضی، فلسفہ اور ادویات کے حوالے سے کئی ایک اہم مفکروں کی تربیت کی اور ٹھوس مذہبی بنیادوں کو بھی استوار کیا۔ برصغیر میں دینی مدارس کا آغاز محمد بن قاسم کی آمد کے بعد شروع ہوا۔ تیرہویں صدی کے آغاز میں سلطان قطب الدین ایبک نے مذہبی اور عصری تعلیم کے لئے کافی تعداد میں مساجد تعمیر کیں۔ اس نظام کو باقاعدہ مدرسہ کی شکل مغل دور میں دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن تغلق کے دور حکومت میں صرف دہلی میں ایک ہزار کے قریب مدارس تھے۔ مغل دورِ حکومت میں ان مدارس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی جانب متوجہ کیا کیونکہ یہ مدارس ایک جانب سرکاری ملازمتوں کے لئے لوگوں کو تیار کرتے تو دوسری جانب مستقبل کے مذہبی علما بھی پیدا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب کوئی طے شدہ نصاب مدارس میں نہیں پڑھایا جاتا تھا اور مختلف اساتذہ مختلف درسی کتابیں استعمال کرتے تھے۔
مدرسہ ایجوکیشن اِن سب کونٹینینٹ، میتھزاینڈ ریلیٹیز نامی ریسرچ پیپر کے مطابق’’ برصغیر میں ابتدائی طور پر مدارس کی تعلیم 10 مضامین پر مشتمل تھی جس کے لئے 17 کتابوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ اٹھارویں صدی میں مدرسہ فرنگی محل لکھنو (Madrassa Firangi Mahal Lucknow ) کے ملا نظام الدین سہالوی نے ہم عصر(Contemporary) مدارس کی بنیاد رکھتے ہوئے ایک نصاب کی تشکیل کی جسے درسِ نظامی کے نام سے جانا جاتا ہے‘‘۔ اس نصاب میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ اُ س وقت کے چند عصری علوم کو بھی شامل کیا گیا۔
بعدازاں برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد مدارس نے برطانوی اقتدار کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے لئے بڑا خطرہ جانا کیونکہ برطانوی حکومت نے مغربی طرز کے اداروں کو متعارف کرا کے اور انگلش کو سرکاری زبان کی حیثیت دیتے ہوئے برصغیر میں دینی مدارس کے تعلیمی کردار کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا اور اسے ریاست اور معیشت کے لئے بالکل غیر متعلق کر دیا ۔ اس صورتحال میں مدارس نے اپنے نصاب میں جو چند سیکولر مضامین تھے انھیں بھی نکال دیا تاکہ صرف اسلامی تعلیم پر توجہ دی جائے ۔
خالص مذہبی بنیادوں پر بنائے گئے نصا ب کا مقصد ایسے مذہبی راہنما اور اسکالرز پیدا کرنا تھا جو عوام کو مذہب کی تعلیم دیں اور لوگوں کے اسلام سے تعلق کو مضبوط کریں۔ یوں بہت سے مدارس نے درسِ نظامی کے طرز کا نصاب اپنایا اور مفت تعلیم، رہائش، کھانا اور کتابیں فراہم کرنا شروع کیں اور اپنی آزادانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے برطانوی حکومت کی امداد اور سپر ویژن کو مسترد کردیا اور یہ طریقہ کار آج تک جاری ہے جس میں آج کے دور کی ضروریات کے تحت اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ مدارس کی صورت میں موجود تعلیمی خزانے سے بھر پور استفادہ کیا جا سکے۔
مدارس میں اصلاحات کوئی انہونی چیز نہیں گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے یہ مسلم معاشروں میں بار بار چلنے والا رجحان رہا ہے۔ محمد عبدو ح (Muhammad Abduh ) نے الازہر یونیورسٹی میں اصلاحات متعارف کرائیں ۔ انڈونیشیا کی آزادی کے کارکنوں نے ملک کے دینی تعلیمی اداروںمیں الازہر یونیورسٹی کی طرز کی اصلاحات کیں ۔ اسی طرح شیخ احمد الہادی اور شیخ طاہر جلال الدین نے ملائیشیا میں مدارس کی اصلاحات کا آغاز کیا۔ 1979 میں بنگلہ دیش میں مدرسہ اصلاحات کے منصوبوں کو عملی شکل دی گئی۔ پوری مسلم دنیا میں دینی تعلیم کے اداروں میں کئے جانے والے اصلاحی منصوبوں کی بنیادی کوشش نصاب میں ترامیم تھیںجس کا مقصد دینی تعلیم کو اتنی تقویت فراہم کرنا تھاکہ وہ عصر حاضر کی دنیا کے مطابق ہو جائے۔ عظیم مسلم اسکالر امام غزالی نے مسلم تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اول: لازمی تعلیم ۔دوم: اختیاری تعلیم۔ ان کے مطابق لازمی کورسز میں قرآن مجید، احادیث، اسلامی فقہ اور اسلامی تاریخ کا شامل ہونا ضروری ہے۔
اختیاری تعلیم یا مضامین میں اُن کے مطابق ہر قسم کے معاشرتی اور فطرت و مظاہر فطرت کے علوم (Natural sciences) شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر اختیاری مضامین سے طلباء کو جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مسلمانوں کو باعزت بقاء مہیا کرتا ہے تو ایسے علوم کو اسلامی علوم کے ساتھ لازماً سیکھنا چاہیئے۔ اسی طرح علامہ شبلی نعمانی جیسے بلند پایہ مذہبی اسکالر نے بھی ایک صدی قبل پرانے نصاب میں جدید نصاب کے انضمام کی بات کی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے مدرسہ کی تعلیم میں شامل کورسز میں اصلاح اوران کے ازسرنو تعین کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اشرف شاہین قیصرانی بلوچستان کے علمی حلقوں کا ایک بہت معتبر نام ہیں ۔ آپ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ، مسند سیرت کے سربراہ (ڈائریکٹر) اور2012 میں بطور ڈین ( ریسرچ) فیکلٹی آف آرٹس کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔’’ مسلم کلچر آف بلوچستان‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں ۔ اپنے تدریسی فرائض کے علاوہ کئی ایک اہم موضوعات پر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے متعدد تحقیقی مقالات کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔ سیرت طیبہ اُن کی دلچسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ جس پر وزارتِ مذہبی امور، حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں دس مرتبہ ان کے تحقیقی مقالات پر سند امتیاز اور نقد انعامات سے نوازا گیا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی شہرت کے حامل تحقیقی جرائد میں ان کے چھتیس سے زائد تحقیقی مقالات شائع ہوچکے ہیں۔ چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد قومی اور بین الاقوامی سطح کے سیمینا رز اور کانفرنسوں میں بطور مقالہ نگار اور مندوب شرکت کر چکے ہیں۔ ملکی مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے اُن کے ساتھ ہونے والی خصوصی نشست کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جوابات اُنھوں نے یوں دیئے۔
س:۔ مدارس میں دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم سے طالب علموں کو کیا فوائد ہوتے ہیں؟
ج:۔ مدارس کا بنیادی مقصد دینی اسکالرز پیدا کرنا ہی ہے اور کوئی بھی فرد کسی بھی شعبے میں اگر مہارت تامہ حاصل کرنے کا خواہشمند ہے تو وہ عصری علوم سے بے بہرہ نہیں ہو سکتا۔ عصری علوم کی تحصیل سے نہ صرف دینی طلبا کو اسلامی علوم میں مہارت حاصل ہوگی بلکہ اُن کی سوچ میں بھی اعتدال آئے گا۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ صرف مساجد اور مدارس تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ بلکہ ہر طبقہ فکر اُن کی رائے سے مستفید ہوگا اور وہ معاشرے سے جڑ جائیں گے۔ اسی طرح اُنہیں روزگار کے وسیع تر مواقع بھی حاصل ہوں گے۔
س:۔ مدارس کے نصاب میں کیا تبدیلیاں کی جائیں جو مدارس پر ہونے والی تنقید کے سامنے بند باندھ سکیں اور مدارس کی نشاۃ ثانیہ کا باعث بنیں؟
ج۔ اس سوال کو دو پہلوئو ں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ( i ) مدارس میں رائج نصاب کا جائزہ (ii ) اس نصاب کی تشکیل نو کا معاملہ۔ اول الذکر پہلو کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ عصرِ حاضر میں پاکستان کے مدارس میں جو نصاب رائج ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ازسر نو جائزہ بلکہ تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس پر بہت سے ادارے پہلے بھی کافی کام کر چکے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں ۔ میری نظر میں اس پر جامع تحقیق اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس مختصر انٹرویو میں میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ دین اور شریعت کے بنیادی ماخذ صرف دو ہیں۔ قرآن اور حدیث۔ مدارس میں حدیث پر تو خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ حدیث کی تقریباً تمام معتبر کتابیں پڑھادی جاتی ہیں۔ لیکن اسماء الرجال، جرح و تعدیل، روایت و درایت اور دیگر فنون حدیث جن سے حدیث کی درجہ بندی ہوتی ہے اُس پر طالب علموں کی دسترس نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
جہاں تک قرآن اور تفسیر کا معاملہ ہے ان کا نصاب بہت کمزور ہے۔ نہ تو اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر جیسے علوم شاملِ نصاب ہیں نہ ہی قدیم اور جدید تفاسیرکا باہمی موازنہ اور مطالعہ شامل نصاب ہے۔ بیضاوی اور جلالین کے کچھ حصے اور قرآن پاک کی چند سورتوں کی تفسیر پڑھا کر کام چلایا جاتا ہے۔
جبکہ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ فہم قرآن اور اُس کی حقیقی روح کو سمجھا جائے۔ دورانِ تعلیم ہر سطح پر قرآن اور تمام تفاسیر کا مطالعہ بہر صورت لازم ہے ۔ اور اسی سے علوم القرآن پر دسترس حاصل ہو سکتی ہے۔ سب سے زیادہ توجہ فقہ پر دی جاتی ہے اور ذہین طلباء فقہ کے اکثر مسائل زبانی یاد کر لیتے ہیں۔ لیکن فقہ میں مسلکی عقائد کے علاوہ دیگر فقہاء کی آرا سے نابلد ہوتے ہیں ۔ فقہ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی بہت قدیم ہیں جن میں دورِ جدید کے مسائل پر گفتگو ہی نہیں ہوتی ۔ نتیجتاً اجتہاد کی صلاحیت بالکل مفقود ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ جدید مسائل پر دارالافتاء سے جو لوگ رجوع کرتے ہیں اُن کے مسئلے کی حقیقی نوعیت کو سمجھے بغیر قدیم کتابوں سے مسئلے کا ایک ہی جواب دے دیا جاتا ہے جس سے سوال کنندہ کی تشفی نہیں ہوتی۔ نصاب کا چوتھا اہم جزو عربی زبان ہے جو رٹا لگوا کر پرانے طریقہ کے مطابق پڑھائی جاتی ہے۔اس سے عربی بولنے کا ملکہ تو بالکل حاصل نہیں ہوتا البتہ عربی کی صرف اور نحو کسی حد تک سمجھ آجاتی ہے۔
لیکن قرآن، حدیث اور فقہ کے عربی متنوں کا براہ راست ترجمہ کرنا واجبی سا رہتا ہے۔ ایک بات اور بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے علوم ایسے بھی پڑھائے جاتے ہیں جن کی ضرورت ہی اب نہیں۔ مثلاًفلسفہ، منطق، قدیم ریاضی، مناظر فلکیات وغیرہ۔ اس طرح نہ تو تاریخ سے واقفیت ہوتی ہے نہ جغرافیہ سے۔ نہ جدید زبانوں سے اور نہ ہی معاشرے کی جدید ضرورتوں اور مسائل سے۔ مذاہب عالم کو پڑھانا تو شاید شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور انگریزی تعلیم کو بھی۔ اب آئیے سوال کے دوسرے حصے کی جانب یعنی اِس نصاب کی تشکیل نو کیسے ہو ۔ آدھا جواب تو آپ کو میری پہلی گفتگو میں ہی مل گیا ہوگا۔ البتہ چند باتیں میں اس حوالے سے بھی عرض کروں گا۔ نہ صرف نصاب میں عصری علوم کو شامل کرنا ضروری ہے بلکہ جو نصاب رائج ہے اس کو بھی ازسر نو ترتیب دینا ہوگا۔ طریقہ تدریس بھی جدید سانچوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہے ۔
معلمین اور مدرسین کی اہلیت اور صلاحیت کا تعین بھی کرنا ہوگا اور جدید عصری تعلیم کے اہم اور لازمی مضامین کو بھی نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ عصری تعلیم سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ ہمیں مدارس کے طلباء کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا ہے بلکہ مدارس کے نصاب ِ تعلیم سے اعلیٰ پائے کے علماء، اسکالرز، مفسرین، مجتہدین، محدثین، فقہاء، قاضی ، مفتی، خطیب، واعظ اور مبلغ پیدا کرنے ہیں تاکہ معاشرے کو مذہب کی حقیقی روح اور جدید تعبیر و تشریح کے ساتھ ایک اعتدال پسند (Moderate) معاشرہ بنایا جا سکے۔ میرے نزدیک اس سلسلے میں نصاب میں عصری علوم میں سیرت طیبہ، تاریخ، جغرافیہ، مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ، معاشیات، سائنس، جدیدریاضی، کمپیوٹر اور انگریزی و عربی زبان کی تدریس لازم ہے۔ نیز فرسودہ مضامین منطق، فلکیات، قدیم ریاضی، قدیم فلسفہ وغیرہ کو نصاب سے خارج کرنا ہوگا۔ جن کا مطالعہ اب تضیعِ اوقات کے سوا کچھ نہیں۔ سب سے زیادہ ضرورت قرآن اور تفاسیر اور علوم القرآن کے نصاب کو جدید خطوط پر اُستوار کرنے کی ہے۔ کیونکہ قرآن اور تفاسیر کے عمیق مطالعہ سے ہی دین کی حقیقی روح کو سمجھا جا سکتا ہے اور قرآن ہی تمام علوم کا بنیادی سرچشمہ ہے۔
آپ نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کون کون سے عصری علوم کو کس کس سطح پر پڑھایا جائے۔ میرے نزدیک یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا مدارس میں داخلہ کے لئے بنیادی تعلیم کا ہے۔ اگر مدارس خود پرائمری تعلیم کی ذمہ داری لیتے ہیں تو پھر پرائمری سیکشن میں اُنہیں صرف عربی، انگریزی، ریاضی اور حفظ قرآن یا قرآن ناظرہ کی تعلیم دینی چاہیے۔ مڈل سیکشن میں اِن مضامین کے ساتھ ساتھ حدیث، سیرت،سائنس، کمپیوٹر اور تاریخ جیسے مضامین بھی شامل کر لینے چاہیئں۔ اور میٹرک کی سطح پر چند مضامین کا اضافہ کر دینا چاہیے۔
یا پھر مدارس میں داخلے کی بنیادی اہلیت ہی کم ازکم میٹرک سیکنڈ ڈویژن ہونی چاہیے۔ اور بعد کے 6 سال میں صرف قرآن، حدیث، تفسیر،فقہ، تقابلِ ادیان، سیرت، عربی ، معاشیات اور کمپیوٹر وغیرہ جیسے مضامین پڑھائے جانے چاہئیں۔ اور اس کے بعد دو سال کا تخصص (Specialization) بھی کسی ایک اسلامی فیلڈ میں لازمی ہونا چاہیے۔ بہر حال یہ ایک مشاورتی بورڈ زیادہ بہتر طریقے سے رائے دے سکتا ہے کہ سمسٹرسسٹم ہو یا سالانہ امتحان ہو۔ کس کس سطح پر کون کون سے اسلامی اور عصری علوم پڑھائے جائیں اور طریقہ امتحان کیا ہو۔ کیا اِن مدارس کو سیکنڈری و اعلیٰ سیکنڈری بورڈز اور یو نیورسٹی سے الحاق کرنا چاہیے یا نہیں۔ کیا بورڑ اور یو نیورسٹیاں اپنے شعبہ امتحانات میں مدارس کے امتحانات کے لیے مخصوص شعبہ قائم کرسکتے ہیں یا نہیں۔ مدارس اور وفاق ہائے مدارس کی مشاورت سے یہ باتیں طے کی جاسکتی ہیں۔بشرطیکہ حکومت بھرپور دلچسپی لے اور مدارس بھی قومی دھارے میں شامل ہونے پر رضامند ہوں۔
س۔ مدارس میں علمی تحقیق کی سرگرمیوں کو کیسے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اور ان کے معیار کو کیسے بین الاقوامی سطح پر رائج طریقہ کار کے مطابق لایا جا سکتا ہے؟
ج۔ مدارس میں علمی تحقیق سے متعلق آپ کا سوال بہت اہم ہے کیونکہ عام مدارس میں تو تحقیق (Research)کا کوئی تصور تک موجود نہیں البتہ چند بڑے مدارس کے علماء اور معلمین اس سلسلے میں ضرور قدرے دلچسپی رکھتے ہیں۔لیکن یہ تحقیق بھی کسی عربی کتاب کے ترجمہ، شرح یا افتاء تک محدود ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تخصص (Specialization) کے لیے ایک تحقیقی مقالہ شہادۃ العالمیہ یعنی Master کی سطح پر ہو اور طریقہ تحقیق (Research Methodology) بھی پڑھائی جائے۔ اور کسی بھی خالص علمی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھوایا جائے اور ایم فل کے مساوی ڈگری بھی دی جائے۔ معلمین اور اساتذہ کی کم ازکم علمی قابلیت ایم فل ہو اور وہ کسی ایک موضوع پر Specialized بھی ہوں۔ علمی تحقیق کو رائج کرنے کے لیے ایک اور تجویز بھی دی جا سکتی ہے کہ مدارس کے علماء اور طلباء ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی رواج دیں تاکہ تحقیق، تحریر اور تقریر کا ذوق پیدا ہو لکھنے کی مشق بھی ہو۔ اور طریقہ تحقیق (Research Methodology) کے اصول و مبادی ہر سطح پر اُن کے ذہن میں ازبر ہو جائیں۔ کتابیں شائع کی جائیں۔ کالجوں اور یو نیورسٹیوں کی طرح ان کے سہ ماہی، ششماہی یا سالانہ میگزین اور ریسرچ جرنلز بھی جاری ہوں۔ یہ طریقہ ہے جس سے تحقیقی جمود کو توڑا جا سکتا ہے۔
س۔کیامدارس میں رائج اساتذہ کے طریقہ تدریس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے؟
ج۔اگر چہ طریقہ تدریس عصری تعلیم کے اداروں میں بھی تسلی بخش نہیں۔ لیکن مدارس کا طریقہ تدریس خاص طور پر تجدید اور اصلاح کا طلبگار ہے۔ بعض مدارس میں طلباء پر تشدد کرنے اور زبردستی مدارس میں مقید کرنے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے ۔’’رٹا سسٹم‘‘ سوال کرنے کی ممانعت، فرش پر بچوں کو بٹھانا اور خود معلمین کا بھی فرش پر بیٹھ کر پڑھانا، وائٹ بورڈ/ بلیک بورڈ کا استعمال نہ کرنا، جدید آلات ِ تعلیم سے محرومی اور سبق یاد نہ کرنے پر سخت جسمانی اذیتیں دینا ایسے معاملات ہیں جن سے نہ صرف بچوں کی شخصیت اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے بلکہ نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ تدریسی طریقہ کا ر کا صرف استاد سے طالب علموں کی جانب علم کی منتقلی پر بنیاد کرنا اور طلباء کو اِس میں شامل نہ کرنا۔طریقہ تدریس کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ طلباء کو ہر مضمون میں صرف ایک ہی مقررہ نصابی کتاب پڑھائی جاتی ہے اور اُس موضوع سے متعلق دیگر کتابوں سے نہ تو آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طالب علم میں نہ تو تحقیق اور مطالعے کا ذوق پیدا ہوتا ہے نہ ہی دیگر فقہاء اور علماء کی رائے سے استفادہ کرنے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس سے جامد مسلکی سوچ پیدا ہوتی ہے۔
س:۔ مدارس کے اساتذہ کا معیار زندگی کیا ہمارے دیگر اساتذہ کے معیار زندگی کے مساوی ہے؟
ج :۔ یہ ایک معمہ ہے کہ یہ حضرات بہت قناعت پسند ہوتے ہیں۔ معمولی مشاہرہ، انتہائی سادہ طرز زندگی اور صبرو شکر کی دولت ہی اِن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ لیکن یہی قناعت پسندی معاشرے کے عام افراد سے اُنہیں علیحدگی پسندی پر بھی آمادہ کرتی ہے۔ وہ دین کے خدمتگار ہیں لیکن معاشرہ اُنہیں زکوۃٰ، چندہ، عطیہ اور صدقات وغیرہ کا مستحق سمجھتا ہے۔ چند بڑے مدارس کو چھوڑ کر تقریباً تمام مدارس اِنہی وسائل پر ہی گزر بسر کرتے ہیں۔ اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چند قابل اور خوشحال علماء ہوتے ہیں وہ معلم کا پیشہ ہی اختیار نہیں کرتے اور مجموعی طور پر اوسط درجہ قابلیت کے حامل علماء ہی یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مجموعی تعلیمی معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں اصل ذمہ داری تو حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ اِن معلمین اور مدرسین کو بھی وہی سہولیات فراہم کرے جو عصری تعلیم کے اساتذہ کو فراہم کی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بلکہ زیادہ تر مدارس حکومت کی سر پرستی قبول کرنے میںبھی پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس امداد یا سر پرستی کی بجائے اپنی آزادی کو ترجیح دیتے ہیں۔
س:۔ کیا مدارس کے طالب علموں کو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟
ج:۔ معاشرے کے مذہب پسند افراد مدارس کے طلباء کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مذہب بیزار افراد کی تو بات ہی الگ ہے لیکن معاشرے میں ایک عمومی تاثر یہ بھی بنتا جارہا ہے کہ مدارس کے طلباء کی وضع قطع دیکھ کر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ مغرب نے جس طرح مدارس کے طلباء کو پیش کیا ہے اس کا کافی اثر ہمارے معاشرے پر بھی ہو چکا ہے۔
جو کہ حقیقتاً لغو ہے۔ اس کی ایک علمی تحقیق سے اس وضاحت کرتا چلو ںجنوری2018 میں ڈنمارک کے رائل ڈیفنس کالج نے ایک رپورٹ ’’ دی رول آف مدارس ‘‘ کے نام سے شائع کی جس میں پیٹر برجن اور سواتی پانڈے کی ایک تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق 2006 میںمغربی لوگوں کے خلاف ہونے والے کچھ اہم دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے موجود79 دہشت گردوں کے تعلیمی پس منظر کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں کی اکثریت کالج تعلیم یافتہ تھی۔ اور اِن میں سے صرف 09 مدارس میں زیر تعلیم رہے تھے۔ لہذا تمام مدارس اور اِن کے سب طلباء کو ایک جیسا خیال کرنا نا انصافی اور جہالت ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم بات تشدد اور سزائیں، زکوٰۃ ، خیرات لینے کے طعنے کہیں بھی ہوں ان سے عزت نفس تو مجروح ہوتی ہی ہے اور مدارس کے طلباء بھی اِس سے محفوظ نہیں۔
س:۔ مدارس کو تعلیم کے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے حکومتی، مدارس اور عوامی سطح پر کیا اقدامات کیے جائیں؟
ج:۔ مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کوششیں تو بہت ہوئیں لیکن یہ خاصا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ مدارس اپنی آزادی پر کمپرومائز (Compromise) کرنے کو تیار نہیں۔ حکومتی اقدامات بھی غیرتسلی بخش ہیں ۔ اور عوام میں بھی عمومی طور پر مذہبی طبقہ سے دوری پیدا ہو رہی ہے۔ تینوں سطحوں پر یعنی خود نظام مدارس، حکومت اور عوام کی مثلث میں باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ مدارس کو اپنے نصاب تعلیم، طریقہ امتحانات، اساتذہ کی تعلیمی قابلیت، ماحول اور فکری سوچ کو بدلنا ہوگا۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اِن مدارس اور اُن کے طلباء اور اساتذہ کو وہی سرپرستی فراہم کرے جو وہ عصری علوم کے اداروں کو فراہم کرتی ہے۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ آج بھی شرعی مسائل اور فتاویٰ کے لیے اِن پر اعتماد کرتے ہیں ۔ مذہبی رسوم کی انجام دہی کے لیے بھی اِنہی مذہبی رہنمائوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ اس لیے عوامی حلقوں سے حکومت پر زور دیا جائے کہ وہ مدارس کے مسائل حل کرے اور اُنھیں مالی وسائل فراہم کرے جبکہ مدارس پر یہ زور دیا جائے کہ وہ اپنے آپ کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہوں۔ یعنی حکومت کی مکمل سرپرستی ہو اور مدارس اپنے تدریسی ماحول کو عصری علوم سے مزین کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عوام کا اِن اعتماد قائم نہ ہو۔ اس طرح سے جو خلیج عصری تعلیم کے اداروں اور مدارس میں حائل ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔‘‘
پاکستان میں ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف تک تقریباً ہر حکومت نے مدرسہ اصلاحات کی کوششیں کیں ۔ ان اصلاحات میں سے ہر ایک کی حتمی روح مدرسہ کے نظام کو باضابطہ تعلیمی نظام کے ساتھ جوڑنا تھا تاکہ مدرسے کے فارغ التحصیل گریجویٹس کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ لیکن باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے اکثر مدارس میں رائج تعلیمی نظام طلباء کو جدید دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کر رہا ہے؟ کیونکہ اِس وقت پاکستان کے اکثر مدارس کے نصاب میں عصری علوم جن میں انگریزی، ریاضی، سائنس، مطالعہ پاکستان اور کمپیوٹر کی تعلیم شامل نہیں اور صرف درسِ نظامی کا نصاب چند تبدیلیوں کے ساتھ پڑھایا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ مدارس کی رجسٹریشن، آمدن کا آڈٹ، اساتذہ کو تربیت فراہم کرنا اور مدرسہ کے معاملات کے حوالے سے ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام جیسے چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔اس تمام تر صورتحال میں اب یہ معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مدارس کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور مدرسہ تعلیم کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے مدارس کی مشاورت سے سنجیدہ اقدامات کریں۔ جبکہ مدارس بھی وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسلامی دنیا کے اُن مدارس کاعملی روپ اختیار کریں جن کی ماضی میں مغرب نے تقلید کر کے آج کا عروج حاصل کیااور یہ سب کچھ باہمی مشاورت اور اعتماد سے ہی ممکن ہے تاکہ ہم بھی اقوام عالم میں خواندہ قوم کے طور پر اپنا مقام بنا سکیں ۔
The post قومی نظام تعلیم میں مدارس کا انضمام۔۔۔۔۔ ایک تشنہ ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.