مسئلہ کشمیر کے کئی پہلو ہیں ۔جہاں کرب اور درد کی وادی کشمیر میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی موت کا رقص جاری ہے وہیں آزادکشمیر میں رہنے والے بھی اس تقسیم سے کئی حوالوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
تاہم آزاد کشمیر میں اس تقسیم کے براہ راست متاثرین سیز فائر لائن (جسے لائن آف کنٹرول یا خونی لکیر بھی کہا جاتا ہے) کے مکین ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کو جبری تقسیم کرنے والی 742 کلومیٹر لمبی خونی لکیر پر دو ایٹمی ملکوں کے درمیان چھوٹے ہتھیاروں سے جنگ جاری رہتی ہے۔ خونی لکیر کی اس 742 کلومیٹر لمبی پٹی پر آزاد کشمیر کی تقریباً چھ لاکھ آبادی خوف کے سائے میں اپنی زندگی گزار رہی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق1990ء سے اب تک لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے نتیجے میں صرف آزادکشمیر کے تقریباً 900 مقامی باشندے زندگی کی بازی ہارچکے ہیں جبکہ مقامی ذرائع یہ تعداد کئی گنا زیادہ بتاتے ہیں، زخمیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ جانی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سول آبادی کے مسائل بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران کنٹرول لائن کا ہر سیکٹر فائرنگ سے متاثر رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 2019 ء کے پہلے آٹھ ماہ میں 35 شہری (پچیس مرداور دس خواتین) لقمہ اجل بنے، 165 شہری زخمی (96 مرد 69 خواتین) ، 300 املاک (گھر، سکول اور مساجد) مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے، 70 مویشی مارے گئے اور کئی گاڑیاں اس فائرنگ کی زد میں آ کر تباہ ہوئیں۔
لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے ایک طرف انسانی مسائل جنم لیتے ہیں تو دوسری طرف یہ آزاد کشمیر کی سیاحت کیلئے زہر قاتل اور ماحولیات پر سخت اثر انداز ہوتی ہے۔یہاں کے مکین مستقل خوف و ہراس اور غیر یقینی صورت حال میں زندگی گزارتے ہیں ۔ انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ کب کہاں سے گولی یا گولا آئے اور ان کی جان چلی جائے یا ان کا مکان ، جائیداد اور فصلیں تباہ کر دے۔
دوران فائرنگ متاثر ہونے والوں اور اپاہج ہو جانے والوں کی زندگی کیسے گزرتی ہے، یہ نارمل حالات میں رہنے والوں کیلئے تصور کرنا بھی مشکل ہے اور حال میں ہی کلسٹر بم (کھلونوں کی صورت میں بم ) ہندوستانی افواج کی نئی چال ہے جو بچوں کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔لائن آف کنٹرول پر بسنے والوں کی زندگی کو سمجھنے کیلئے حالیہ پیش آنے والا ایک واقعہ قارئین کیلئے پیش ہے جس سے وہاں کی زندگی کے کئی پہلو سامنے آ جاتے ہیں:
گزشتہ دنوں لائن آف کنٹرول کے قریب ایک خاندان کے لیے جشن کا دن اُس وقت ماتم میں تبدیل ہوگیا جب ان کے گھر کے دو بزرگ بھارتی گولہ باری میں ہلاک ہوگئے۔ مکین محمد صدیق کے مطابق ان کے گھر میں شادی کی تقریب تھی جس میں وہ مہمانوں کو کھانا کھلا رہے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہوئی اور ایک زور دار دھماکے سے مکان لرز اٹھا اور بھگدڑ مچ گئی۔
قریب کے مہمان اپنے گھروں کو بھاگ رہے تھے جبکہ دور کے مہمان خوفزدہ ہوگئے اور ان کے رشتہ دار فائرنگ کی زد میں آئے جن میں حسن دین چاچا اور لال محمد شامل تھے۔ دونوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹ رہے تھے۔ لال محمد تو تھوڑی دیر میں فوت ہو گئے مگر حسن چاچا تین گھنٹے تک تڑپتے رہے اور پھر جان دیدی۔
یہ محمد صدیق کے تایازاد بھائی کی شادی کی تقریب تھی اور جاں بحق ہونے والوں میں سے ایک ان کے حقیقی چچا اور دوسرے ان کے پڑوسی ہیں۔ محمد صدیق کے مطابق گولہ باری اس قدر شدید تھی کہ تین گھنٹے تک کوئی بھی گھر سے باہر نکل سکا نہ ہی کوئی ہماری مدد کوآ سکا۔ قریب ترین ہسپتال تتہ پانی میں ہے اور وہاں پہنچنے میں بھی کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ خوف و ہراس کی وجہ سے کوئی باہر نکلنے کو تیار نہیں تھا۔ حسن دین چاچا تین گھنٹے تک تڑپتے رہے اور پھر زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی جان نکل گئی۔ گولہ باری میں اتنا وقفہ بھی نہیں آیا کہ ہم انہیں ہسپتال لے جا سکتے۔‘
جس گاؤں میں یہ واقعہ پیش آیا وہ لائن آف کنٹرول کے بالکل سامنے ہے اور راستہ بھارتی فوج کی چوکیوں کے بالکل سامنے سے گزرتا ہے۔ ان کے مطابق: ’رات کی تاریکی میں دونوں لاشیں وہاں سے نکالیں اور روڈ تک پہنچنے میں ہمیں کم از کم تین گھنٹے لگے۔‘تدفین کے لیے بھی لاش کو آبائی گاؤں کے بجائے لگ بھگ تین کلو میٹر دور دوسرے گاؤں لے جانا پڑا۔‘ محمد صدیق کہتے ہیں جس دن بارات اٹھنا تھی، اس دن جنازے اٹھانے پڑگئے۔ آپ خود سوچیں گھر میں جنازہ ہو جائے تو پھر بارات کی کیا اہمیت؟ ابھی تو دولہا بھی چاچا کی میت لے کر ڈڈیال گیا ہوا ہے، حالات ٹھیک ہوں گے تو شادی بھی ہو جائے گی۔‘
مستقل خوف کے ساتھ یہاں کے بسنے والوں کے کئی نفسیاتی مسائل بھی ہیں۔ یہاں کے بچوں کے نزدیک پُر امن اور بغیر گولہ باری کے زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے اور وہ بچپن سے ہی خوف کا شکار رہتے ہیں۔ ان کیلئے پُرامن زندگی صرف ایک واہمہ ہے۔ اس کے ساتھ صحت اور تعلیم کی سہولیات کا فقدان ہے۔ صحت کی سہولیات مقامی سطح پر میسر نہیں ہوتیں۔
پونچھ ڈویژن میں کہیں بھی فائرنگ ہو تو زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد علاج کیلئے کوٹلی یا راولاکوٹ لانا پڑتا ہے اور اگر کوئی زیادہ زخمی ہو تو یہ مسافت (تقریباً دو گھنٹے سے زائد سفر ہے) طے کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح مظفرآباد ڈویژن میں زخمیوں کو مظفرآباد سی ایم ایچ میں شفٹ کرنا پڑتا ہے۔لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں فائرنگ کے دوران مہینوں تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر تعلیمی سرگرمیاں معطل رہتی ہیں۔
نیلم کی رہائشی حفصہ مسعودی بتاتی ہیں کہ فائرنگ کے دوران وادی نیلم میں زندگی ایسی ہے جیسے ایک طویل بند غار ہواور اس کا واحد خارجی رستہ دشمن کے اختیار میں ہو اور غار کے اندر بھی جب چاہے دشمن آپ پر بغیر بتائے حملہ کر سکتا ہے۔ اگر چھپ چھپا کر باہر نکلنے کی کوشش کریں گے تو بھی کئی خطرات کا سامنا ہوگا۔
نیلم وادی کے لوگوں نے 41 سال اس حالت میں گزارے ہیں ۔ غیر محفوظ ہونے کا احساس کیا ہے، یہ وادی نیلم کے عوام سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ جب روزمرہ استعمال کی اشیائے خور و نوش کے بھاؤ بھی دس گنا زیادہ ہو جائیں تو متوسط طبقے کے ایک عام انسان کی زندگی بھی ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہے اور یہ بوجھ اس وادی کے لوگوں نے41 سال سے برداشت کر رہے ہیں ۔غیر محفوظ ہونے کا وہ احساس آج بھی اسی طرح ہے کہ سرحدوں پر فائرنگ ہوتی رہتی ہے اور اس کا رخ کسی بھی وقت مقامی آبادی کی طرف مڑ سکتا ہے۔
لیپہ سیکٹر کے قریب رہنے والے اقبال اعوان بتاتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر زندگی کیلئے انتہائی غیریقینی صورتحال ہے، یہاں دونوں فوجوں کے درمیان بھی آبادی ہے اور جب کشیدگی بڑھتی ہے اور فائرنگ ہوتی ہے تو معجزے ہی مقامی آبادی کو بچاتے ہیں۔ اقبال اعوان بتاتے ہیں کہ اگر شیلنگ کے دوران کوئی شدید زخمی ہو جائے تو اسے مظفر آباد لے جانا پڑتا ہے۔ سڑک کی ناپختگی اور بُری حالت کے باعث مظفرآباد پہنچنے کیلئے کئی گھنٹے لگتے ہیں۔اگر بارش ہو جائے تو آدھا راستہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ بارش کی وجہ سڑک خراب ہو جاتی ہے اور علاقے میں گاڑیاں نہیں چل سکتی۔
تیتری نوٹ کے ایک مقامی محمد اشرف نے بتایا کہ 2003ء سے پہلے یہاں شدت سے شیلنگ اور گولہ باری ہوتی تھی لیکن جب سے راولاکوٹ اور پونچھ بس سروس شروع ہوئی ہے اس وقت سے اس سیکٹر پر گولہ باری میں خاصی کمی آئی تھی لیکن گزشتہ چار پانچ برسوں سے شدید گولہ باری ہوتی ہے۔ عباس پور سے تعلق رکھنے والے صحافی حسیب شبیر نے بتایا کہ پونچھ ڈویژن کے علاقوں میں جب لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی ہے تو وہاں کے عوام گھروں میں محصور ہوجاتے ہیں۔
اس علاقے میں ہندوستانی آرمی کی چیک پوسٹس بلندی پر ہیں اور پاکستانی فوج کی چیک پوسٹس آبادی کے درمیان ہیں۔جب کشیدگی بڑھتی ہے تو سامنے انڈین آرمی سب سے پہلے سکول کو نشانہ بناتی ہے اور پاکستانی چیک پوسٹ پر فائرنگ کے بہانے سول آبادی کو نشانہ بناتی ہے۔ جب فائرنگ ہوتی ہے تو سکول مہینوں بند رہتے ہیں، انسان اور مویشی گھروں میں قید رہتے ہیں۔
پینے کا پانی تک بھی نہیں ملتا کیونکہ کشیدگی کے دوران بازار بند رہتے ہیں اور سڑک پر گاڑی نہیں چلائی جا سکتی۔ اگر کوئی زخمی ہو تو اسے رات کے اندھیرے میں گاڑی کی لائٹس بند کر کے راولاکوٹ لے جانا پڑتا ہے کیونکہ یہاں صحت کے مرکز میں ابتدائی طبی امداد کے علاوہ کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔اس قدر سنگین ہونے کے باوجود کے باوجود یہ مسئلہ بہت کم پاکستانی میڈیا کی زینت بنتا ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے سینئیر تجزیہ نگار ارشاد محمود کا کہنا ہے کہ 2003ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جب لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو اس علاقے میں زندگی نے ایک نئی کروٹ لی۔ نیلم اور راولاکوٹ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے۔خاص طور پر نیلم ویلی میں کنٹرول لائن سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن گئی جہاں جا کر وہ جموں و کشمیر کے نقشے پر مصنوعی طور پر کھڑی کی گئی دیوار برلن کو چشم نم سے دیکھتے ہیں۔ مقامی لوگ انہیں اشارے سے بتاتے ہیں کہ دریا کی دوسری جانب ان کے بھائی بند آباد ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔
اس علاقے میں ہر روز منقسم خاندانوں کے دکھوں اور مصائب کی ایسی ایسی کہانیاں رقم ہوتی ہیں کہ ان پر کئی فلمیں بن سکتی ہیں۔ سرما میں نیلم میں پانی کم ہو جاتا ہے تو دریا کے دونوں جانب لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر باتیں کرتے ہیں۔
پتھر سے باندھ کر سندیسے دریا کے پار بھیجتے ہیں ۔جب سیاح یہ منظر دیکھتے ہیں تو دل تھام لیتے ہیں۔ حکومت پاکستان بھارتی فائرنگ سے ہونے والے نقصانات سے دنیا کو کم ہی آگاہ کر پائی ہے۔ملکی اور غیر ملکی صحافیوں اور سفارت کاروں کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ خود صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان مقامات پر لے جائے تاکہ وہ یہاں کی اسٹوریز سامنے لاسکیں۔ہر روز ٹی وی چینلز پر درجنوں پروگرام ہوتے ہیں لیکن مجال ہے لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی کی کوریج کریں۔
سیز فائرلائن پر موجود آبادی کے لئے حفاطتی بنکرز تعمیر کرنے کیلئے وفاقی حکومت نے2016 ء میں پانچ ارب روپے مختص کئے تھے جنھیں فائرنگ کے دوران مقامی آبادیوں کیلئے متبادل کے طور پر استعمال ہونا ہوتا ہے تاہم چار سال گزرنے کے باوجود بھی وہ بنکرز تعمیر نہ ہوسکے جن سے مقامی آبادیوں کو کسی حد تک راحت پہنچنے کی امید تھی۔
سیز فائر لائن کے دونوں اطراف سویلین آبادی ہی متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کو چاہئیے کہ وہ سیز فائر لائن کو حقیقی سیز فائر لائن بنائیں اور ایسا معاہدہ طے پایا جائے کہ سیز فائر لائن پر فائرنگ نہیں کی جائے تاکہ دونوں اطراف کے مقامی آبادی سکون کا سانس لے سکے۔
کنٹرول لائن کیا ہے؟
تقسیم برصغیر کے بعد جب کشمیر میں جنگ ہوئی اور تقسیم ہوا تو اقوام متحدہ کی وجہ سے جنگ بندی ہوئی اور جنگ بندی لائن (سیز فائر لائن) وجود میں آئی جس نے کشمیر کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ 1972 میں شملہ معاہدے کے دوران جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول بنا دیا گیا۔
1989 میں جب کشمیر میں عسکری تحریک شروع ہوئی تو لائن آف کنٹرول بھڑک اٹھی اور کنٹرول لائن عبور کرتے ہوئے ہزاروں کشمیر لقمہ اجل بنے۔ 2003 میں کنٹرول لائن پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا اور پاکستان اور بھارت نے مشترکہ طور پر باڑ لگائی۔ اس سے قبل لائن آف کنٹرول کی حدود متعین نہیں تھی۔2003 میں ہونے والی فائر بندی2012 ء تک کسی طور قائم رہی اس کے بعد پھر سے یہ خونی لکیر بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں سینکڑوں انسانوں کا خون بہا اور بہہ رہا ہے۔
منقسم خاندان
لائن آف کنٹرول پر زیادہ تر منقسم خاندان آباد ہیں ان خاندانوں کا کچھ حصہ مقبوضہ کشمیر اور کچھ آزاد کشمیر میں پایا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے، دریائے نیلم کے اطراف بسنے والے خاندانوں کی زندگی اس کی بڑی مثال ہیں جب ایک طرف کسی کی ڈولی اٹھتی ہے تو ان کے رشتہ دار جو دریا کے اس پار رہتے ہیں دریا کے کنارے پر جمع ہو کر ان کی خوشیوں کا حصہ بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح غمی کے مواقع پر بھی رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پونچھ ڈویژن میں بھی کئی منقسم خاندان ہیں جو ایک دوسرے سے ملنے کی آرزو میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تیتری نوٹ کے ایک شہری نے بتایا کہ ان کے کئی رشتہ دار دریائے پونچھ کے دوسری طرف آباد ہیں لیکن عشروں گزر گئے ان سے ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کے سفری آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ ہم اپنے رشتہ داروں سے مل سکیں۔
جنگلی حیات کی تباہی
لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا بڑا نقصان ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کا پیدا ہونااور جنگلی حیات کے خاتمے کا سبب بھی ہے۔ جب فائرنگ ہوتی ہے تو قریب کے جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے جس سے جنگلات اور جنگلی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔اسی طرح فضا میں بارود دھوئیں اور بدبو سے فضا آلودہ ہوتی ہے.
جس کے باعث سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جنگلی حیات پانی کی تلاش اور رہنے کی جگہ کی تلاش کیلئے بھاگتے ہیں اور کئی مرتبہ شہری آبادیوں کا رخ بھی کر لیتے ہیں۔جب کئی دنوں بعد انھیںیک دم پانی ملتا ہے تو زیادہ پانی پینے کے باعث بھی جانوروں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
The post لائن آف کنٹرول کے آس پاس لوگ کیسے جیتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.