مٹھی سے نگرپارکر جاتے ہوئے سڑک کی دائیں سمت ڈرائیور نے گاڑی موڑی تو کئی ایک نے استفسار کیا کہاں لے جا رہے ہو؟ ’’ایک یادگار مقام کی سمت‘‘ اس کا جواب تھا اور گاڑی ذرا سی مسافت کے بعد ایک سائیڈ پر کھڑی کردی ’’سائیں! یہ کنواں ماروی کا ہے۔
جہاں سے اسے عمر نے اغوا کیا تھا، آپ سارے راستے ماروی، بھالوا اور دیگر واقعات بیان کر رہے تھے میں نے سوچا آپ کو ماروی سے ملوا دوں، یہ کنواں، ٹیلے اور چرواہے ان کا تعلق اور رشتہ ماروی سے ہے۔‘‘ یہ کم و بیش سات آٹھ برس پرانی بات ہے جب دوستوں نے شہر کی سیاحت کا پروگرام بنایا تھا۔
ماروی کا دیس تو پورا تھر ہے جسے شاہ لطیف نے ملک ملیر کہہ کر پکارا تھا، ماروی کی وطن دوستی سندھ میں ضرب المثل ہے اور آج بھی حب الوطنی کا تذکرہ ہو تو ماروی کا کردار اور داستان بیان کرکے گفتگو تمام کی جاتی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ پالنے اور ماڈوئی کی بیٹی ماروی خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی دور و نزدیک اس کے حسن کا ذکر کیا جاتا تھا ایک حاسد پھوگ نے امر کوٹ کے حاکم عمر سومرو کو ورغلایا کہ ماروی کی خوب صورتی کا تقاضا ہے کہ وہ امر کوٹ کی رانی بنے، بادشاہ یا حکم راں چھوٹا ہو یا بڑا طاقت و اقتدار کے نشے میں چور ہو تا ہے، اس نے پھوگ کو ہمراہ لیا، میلوں کا سفر طے کرکے اونٹنیوں پر سوار دونوں بھالوا پہنچے جو ماروی کا گوٹھ تھا تو کنوئیں پر سہیلیوں کے ساتھ پانی بھرتی ماروی کو اس کے حسن و جمال کے باعث پہچان لیا اور زبردستی اونٹ پر بٹھا کر امر کوٹ کی راہ لی۔
عمر ماروی کی داستان سندھ میں بچے بچے کو ازبر ہے لیکن بہت سوں کو یہ پتا نہیں کہ ماروی کا قبیلہ کیا تھا، عمر کے قلعے سے واپسی پر اسے کیا کچھ بھگتنا پڑا، اپنی پاک دامنی کی گواہی اس نے کیسے دی، مورخوں میں اختلاف ہے کچھ کا خیال ہے کہ ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے تھا، ممتاز مورخ رائے چند ہریجن نے تاریخ ریگستان میں ماروی کے معنی مارو زادی یا مارو کی بیٹی بیان کیے ہیں جب کہ جنت السند کے مصنف رحیم داد خان مولائی شیدائی نے ماروی کو مارو قبیلے کی حسین و جمیل دوشیزہ بتایا ہے البتہ میر علی شیر قانع حیدری نے ’’تحفۃ الکرام‘‘ جس کا ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے کیا ہے ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے ظاہر کرتے ہوئے اس کا گوٹھ تلھا تحریر کیا ہے۔
بعض دیگر کا خیال ہے کہ سنسکرت میں ماروی کا مطلب ہے پہاڑ اور ماروڑا سے مراد پہاڑوں میں آباد افراد یا قبائل۔ ماضی قریب تک میرپورخاص، عمر کوٹ اور تھر اضلاع تھرپارکر کا حصہ تھے۔ تھر سے مراد ریگستانی علاقہ ہے اور پارکر کوہستانی پٹی کو کہتے ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں کہ تھر میں صرف اور صرف ریتیلے ٹیلے ہیں جن پر سبزہ اگتا ہے نہ گھاس پھوس۔ حقیقت یہ ہے کہ ہلکی برسات بھی تھر کے ریگزاروں کو سبزہ زار بنا دیتی ہے اور زندگی کا حقیقی حسن اپنے رنگ چار سو بکھیرتا ہے۔ بلاشبہ برسات کے بعد تھر قابل دید مقام بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں ماروی کا تعلق مارو قبیلے سے تھا ویسے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں شریک شخصیت کا دعویٰ تھا کہ مارو قبیلہ راجپوتانہ، راجستھان سمیت کئی صوبوں میں آباد ہے اور ان کی سیکڑوں ذیلی شاخیں یا گوتیں ہیں۔
خود شاہ لطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں درجنوں مقامات پر مارو کا لفظ استعمال کیا ہے جن کی نسبت ماروی سے بیان کی ہے اور خود ماروی نے بھی شاہ سائیں کے الفاظ میں اپنے عزیز و اقارب کو مارو کہہ کر مخاطب کیا ہے جب کہ اس نقطہ نظر کے مخالف دلیل دیتے ہیں کہ تھر کے ادب میں مویشی چَرانے والوں کو مارو، بکریاں چَرانے والوں کو پنھوار اور دونوں اقسام کے جانوروں کی نگہداشت کرنے والوں کو ریباڑی پکارتے ہیں اور ماروی کی نسبت ان تینوں قبیلوں سے بیان کی جاتی ہے۔ قدیمی عہد کی یہ شناخت آج بھی برقرار ہے کیوںکہ یہ لوگ مویشی پروی کے دوران گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ خیر محمد برڑو سیوہانی اور ڈاکٹر عبدالعزیز کے مضامین پر ایک طویل سلسلہ گفتگو دو برس قبل کئی اخبارات میں موضوع بحث بنا تھا۔
ایک مراسلہ نگار کا تو موقف تھا کہ تھر میں گھاس کی ایک خاص قسم مارو گھاس کہلاتی ہے جو مویشیوں کی پسندیدہ غذا بھی ہے۔ کہتے ہیں راجستھان کے چارن قبیلے کی ایک گوت ’’ورسدا‘‘ کہلاتی ہے جن کے پاس مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ ہیں اور اس حوالے سے انھیں مارو کہا جاتا ہے۔ حالاںکہ ان کے ہاں مارو پہاڑ ہے نہ مارو گھاس نہ ہی ماروی سے قبائلی تعلق۔ خیر محمد برڑو کا اصرار ہے کہ ماروی ریباڑی تھی یعنی مویشی اور بکریاں چرانے والے قبیلے کی فرد۔
ماروی کے منگیتر ’’کھیت‘‘ کا تعلق بھی ریباڑی قبیلے سے بیان کیا جاتا ہے جو اس کا چچا زاد بھائی تھا۔ ماروی نے عمر کی شاہی حویلی یا محل میں خوش و خرم زندگی گزارنے پر تھر کے ریتیلے علاقے کو ترجیح دی جہاں اس کے اپنے پیارے رہتے تھے۔ جب عمر سومرو نے محسوس کیا کہ تمام تر جبر کے باوجود ماروی اس کے ساتھ شادی پر تیار نہیں اور وہ عزیز و اقارب کو یاد کرتی ہے تو اسے بھالوا/ملیر پہنچا دیا۔ وہ ماروی کے عزم و حوصلے اور پیاروں سے لگاؤ کو شکست دینے میں ناکام رہا تھا۔ گاؤں پہنچنے پر کچھ لوگوں نے اس کی پاک دامنی کو چیلنج کیا اور الزامات عائد کیے۔ دو روایات ہیں ایک یہ کہ خود عمر نے وہاں پہنچ کر اس کی پاکیزگی کی گواہی دی، دوسرے یہ بھی کہ لوہے کی سلاخوں کو آگ میں سرخ کرکے ماروی کے ہاتھوں میں دیا گیا۔ اس کے ہاتھوں میں چھالے پڑے نہ نشان جس پر اس کی بے گناہی تسلیم کی گئی۔ آج بھی بالائی سندھ اور بلوچستان کے بعض قبائل میں یہ رسم موجود ہے جس میں دہکتے انگاروں پر سے ملزم کو گزارا جاتا ہے۔ وہ خندق پار کرجائے تو بے گناہ ورنہ مجرم گردانا جاتا ہے۔ مرحوم سردار اکبر بگٹی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے قبیلے میں سچ اور جھوٹ کا تصفیہ اسی طرح کرتے تھے۔
ماروی نے خود کو عمر سومرو کی قید میں بھی اپنے منگیتر کھیت کی امانت سمجھا اور اسیری کی شدت برداشت کی شاہ لطیف کے الفاظ میں:
کیا ہے قید میرے جسم و جاں کو
عبث اے سومرا سردار تو نے
نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسائی
دیے کیوں روح کو آزار تو نے
بالآخر عمر کو اس کے مستحکم ارادوں کے سامنے اپنی بے بسی اور کم زوری کا ادراک ہوا اور اس نے شکست تسلیم کی جو ماروی کی رہائی کی صورت میں تھی۔ ماروی کے گوٹھ بھالوا سے متصل کنوئیں پر کھڑے سب لوگ سوچ رہے تھے کہ اپنوں کی محبت، دھرتی سے لگاؤ، مضبوط ارادوں نے ماروی کو تاریخ میں امر کردیا آج تھر کی ماروی دیس سے محبت کی علامت ہے اس کا قبیلہ ریباڑی تھا یا مارو پنہوار یا چارن وہ سب کی ہے اور سب اسے اپنا گردانتے ہیں۔
ہوشو، روپلو، دودو کی طرح، دولہا دریا خان کی طرح اور مخدوم بلاول یا شاہ عنایت کی طرح جو سندھ کی شناخت ہیں۔ غریبوں کے ہمدم، افتادگان خاک کے ہم نشیں۔ ماروی کے گاؤں سے نکلے تو ہماری اگلی منزل بھوڈے سر تھا۔ حنیف میمن، ارشد کھوکھر، شبیر بھائی سب کی خواہش تھی کہ تھر کے آثار دیکھیں بھوڈے سرکی مسجد، ننگرپار کر کا قصبہ اور اطراف میں سربلند کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ، یہاں موجود جابجا جین مت کے مندر اور دیگر عبادت گاہیں۔
گرینائٹ کا پہاڑ، اس میں بہتا جھرنا، دنیا کے نایاب حشرات الارض سب ایک طویل گفتگو کے مستحق ہیں۔ لیکن ماروی کا سحر سب پر غالب رہا۔ ننگرپارکر سے واپسی اور تھر کے گیٹ وے نوکوٹ سے گزرتے ہوئے جہاں بھی چرواہے دیکھے ماروی یاد آئی، اس کا قبیلہ یاد آیا اور اس کی جرأت و بہادری جو اسے تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
The post ماروی کون تھی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.