ارے صاحب! کہاں سیاست اور ریاست کے معاملات میں الجھے ہیں، حزبِ اختلاف اور حکم رانوں کی تکرار پر بے قرار ہیں، ملک کے حالات پر بے چین ہیں، پہلے اپنے مسائل تو حل کرلیجیے، خود حل نہیں کرسکتے تو ہمیں بتائیے، چلیے مت بتائیے، ہم ہی آپ کے مسائل کا حل ٹوٹکوں کی صورت میں پیش کیے دیتے ہیں، امکان ہے ان ٹوٹکوں میں سے کوئی نہ کوئی آپ کے کام آئے گا:
رنگ گورا کرنا ہے؟
ہم مغرب کو ترقی سے ہم کنار کرتے ہر ڈھنگ کے مقابلے میں اُس کے رنگ سے متاثر ہیں۔ لڑکوں کی مائیں بہو ڈھونڈتی ہیں تو پہلی شرط ہوتی ہے ’گوری ہو‘۔ بعض ایسوں کے لیے بھی گوری دلہن ڈھونڈی جاتی ہے جن کی رنگت گورے پن سے مکمل کوری ہوتی ہے۔ کسی کو ان کے چہرے پر اپنا اعمال نامہ نظر آتا ہے تو کوئی اپنے دل کا ایکسرے دیکھ لیتا ہے۔ ایسے بیٹوں کی ماؤں کی خواہش پوری ہوجائے تو جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کے راج کا منظر سامنے ہوتا ہے، اور گوری بہو لانے والی خاتون جو گھر کے سیاہ و سفید کی مالک تھیں اب اپنے سیاہ کی ملکیت سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔
خیر یہ تو ہم نے یوں ہی برسبیل تذکرہ لکھا ہے، ہمیں تو رنگ گورا کرنے کا ٹوٹکا بتانا ہے۔ بڑا آسان ٹوٹکا ہے۔ بس کچھ دن تحریکِ انصاف والوں کے ساتھ گزاریے، ڈھٹائی اور کھلی حقیقت سے انکار میں کمال حاصل ہوجائے گا۔ پھر دھڑلے سے جنید جمشید کا ایک گانا ذرا سی ترمیم کے ساتھ گا گاکر لوگوں کے ساتھ خود کو بھی سُنائیے، ’مجھے ڈر کس کا ہے، مرا تو رنگ گورا ہے۔‘ اس ٹوٹکے پر عمل کرنے کے بعد جب اپنے آپ کو آئینے میں دیکھیں گے تو آپ کو ٹام کروز اور بریڈپٹ کا عکس نظر آئے گا۔
گنج پَن کا علاج
گنج پَن کا شکار بہت سے افراد یہ سُن کر مایوس ہوجاتے ہیں کہ ’گنج پَن لاعلاج ہے‘ حالاںکہ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ ’تو پیسے لا ہمارے کَنے گنج پن کا علاج ہے۔‘
ویسے تو بالوں کا فائدہ کیا ہے؟ انہیں بنانے اور کٹوانے میں وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ پھر لوگ بال کی کھال نکالتے ہیں، معاشی حالات خراب ہوں تو بال بال قرضے میں جکڑ جاتا ہے، اور بعض لوگوں کے بال آنکھ میں آجائے تو آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں۔ اب ان سب مسائل کے باوجود کوئی اپنے چاند سے سر پر کالے بالوں کا گرہن لانا چاہتا ہے تو اس کی مرضی، ہم ایسے حضرات کے لیے گنج پن کے مسئلے سے نجات کا ٹوٹکا بتائے دیتے ہیں۔
5 کلو لیمو لیں، ان کا رس نچوڑ لیں، پھر اس رس میں 10 کلو گاجر کا رس، تخم بالنگا ڈیڑھ پاؤ، 3 کلو چلغوزوں کے چھلکے باریک پیس کر، 12 لیٹر پیٹرول اور باکردار بھینس کا دودھ 15 کلو ملائیں اور ملاکر خوب ہلائیں۔ پھر اسے دھیمی آنچ پر چڑھا دیں۔ 10 منٹ بعد اُتارلیں۔ 15 منٹ بعد پھر چڑھا دیں۔ 10 منٹ بعد اتار کر 15 منٹ بعد دوبارہ چڑھا دیں۔ یہ اُتار چڑھاؤ مسلسل 10 گھنٹے تک جاری رکھیں۔ اگلے روز صبح اندھیرے منہ اُٹھ کر ایک جگ میں یہ محلول بھر کر اس سے سر دھوئیں۔ جو بچا ہو وہ پھینک دیں۔ یہ عمل 3 دن تک دہرائیں، چوتھے روز آپ کو بالوں سے نفرت ہوجائے گی اور آپ گنجے پن پر مطمئن ہوجائیں گے۔ ممکن ہے ٹوٹکا پڑھ کر ہی آپ کو افاقہ ہوگیا ہو۔
موٹاپے سے نجات
موٹاپا وہ مصیبت ہے جس سے نجات کے لیے جلاپا بھی کام نہیں آتا، بلکہ دبلوں پتلوں سے جل بُھن کر غصے میں بھوک اور بڑھ جاتی ہے، اور نتیجہ اضافہ شدہ توند کے ساتھ نکلتا ہے۔ موٹے ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ پانی کی طرح موٹاپا بھی اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ موٹاپے کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں لیکن وہ سب ڈاکٹروں، ادویہ سازوں اور جِم مالکان کو ہیں، اس لیے ہم ان کا تذکرہ نہیں کرتے۔
موٹاپے سے نجات کا مفید ترین ٹوٹکا یہ ہے کہ دبلوں سے نجات حاصل کرلیجیے۔ جو دبلے آپ کی دسترس میں ہیں انہیں کھلا کھلا کر اتنا موٹا کردیجیے کہ ان کی چھوٹی ہوجانے والی پینٹیں اور قمیصیں آپ کے جسم پر فٹ آجائیں۔ دوسرا ٹوٹکا یہ ہے کہ چھانٹ چھانٹ کر فربہ خواتین و حضرات سے ملیے اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر دیکھیے زندگی کتنی خوب صورت ہے۔ ان کے ساتھ سیلفی بنواکر فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سجائیے، جسے دیکھ کر ہر ایک آپ سے وزن گھٹانے کا راز پوچھ رہا ہوگا۔
کپڑوں سے داغ صاف کریں
یوں تو ’داغ اچھے ہوتے ہیں‘ اور ’ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب داغ لگ جائے تو دل سے ایک ہی صدا بلند ہوتی ہے ’لاگا چُنری میں داغ مٹاؤں کیسے۔‘ یعنی داغ چُنری پر لگے، شیروانی پر یا وردی پر، مٹانا ضروری ہے، البتہ ’مٹاؤں کیسے‘ کی پریشانی چنری اور شیروانی وغیرہ ہی پہننے والے کو لاحق ہوتی ہے۔
بعض رنگوں اور لباسوں پر لگنے والے داغ نظر نہیں آتے اور نظر آ بھی جائیں تو نظر چُرانا ضروری ہوتا ہے ورنہ دیکھنے والا خود نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے ان مخصوص رنگوں اور کپڑوں کی سہولت ہر ایک کو تو حاصل نہیں ہوتی، ہاں کوئی سہولت کار بن جائے تو اور بات ہے، تو جن کے کپڑوں پر لگے داغ دکھائی بھی دیتے ہیں اور ان کی نشان دہی بھی کی جاسکتی ہے، ایسے افراد کے لیے ان داغوں کا مسئلہ حل کرنے کو ہمارے پاس بڑا ہی کارآمد ٹوٹکا ہے۔
کریں بس اتنا کہ جس کپڑے پر ایک، دو داغ لگے ہوں اسے داغوں سے اتنا بھردیں کہ کپڑے کا اصل رنگ روپ ان داغوں میں چُھپ جائے۔ مثال کے طور پر اگر کپڑوں پر قورمے کا داغ لگ گیا ہے تو یہی کپڑے پہنے پہنے قورمے کی دیگ میں اُتر جائیں، باہر نکلیں گے تو وہ داغ غائب ہوچکا ہوگا جس کی خاطر یہ ڈبکی لگائی تھی۔
فی الحال ان چند ٹوٹکوں پر گزارا کریں، مزید کوئی مسئلہ درپیش ہو تو ہم سے رجوع کریں ہم آپ کو مزید ایسے ایسے ٹوٹکے بتائیں گے کہ آپ کو ہم پر ٹوٹ کے پیار آئے گا، اتنا کہ عین ممکن ہے آپ ہم پر ٹوٹ پڑیں۔
The post گنج سے داغ لگنے کے رنج تک مسائل کا حل بتاتے ہمارے ٹوٹکے appeared first on ایکسپریس اردو.