غزل
ہماری کب بھلائی ہو رہی ہے
خفا یونہی خدائی ہو رہی ہے
سلامت کچھ نہیں نکلا ابھی تک
کئی دن سے کھدائی ہو رہی ہے
پرندوں کو ستایا جا رہا ہے
درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے
وہ لڑکی بھی پرائی ہو گئی تھی
یہ لڑکی بھی پرائی ہو رہی ہے
مکینوں کے پلٹنے کی خوشی میں
حویلی کی صفائی ہو رہی ہے
اُسے تو آ گیا جینا بچھڑ کر
ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے
(ناصر چوہدری۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
پھر جدائی کی اذیت سے گزارا گیا ہوں
وہ ہے اُس پار، میں اِس پار اتارا گیا ہوں
ترا منصوبہ جہاں بھی تھا، جہاں داری بھی
سرکشوں میں تو یہاں میں ہی شمارا گیا ہوں
باغِ فردوس مرا اصل وطن تو ہے نا
یاد رکھنا کہ میں دنیا میں ادھارا گیا ہوں
اس کی چاہت نے تو مومن بھی نہیں رہنے دیا
ڈنک کھا کھا کے اسی بل پہ دوبارہ گیا ہوں
میں نے ممنوعہ شجر سے تھا بھلا کیا لینا
اپنی مرضی سے نہیں میں تو خدارا گیا ہوں
(سحر شیرازی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
جسم میں گونجتا ہے روح پہ لکّھا دکھ ہے
تُو مِری آنکھ سے بہتا ہوا پہلا دکھ ہے
کیا کروں بیچ بھی سکتا نہیں گنجینۂ زخم
کیا کروں بانٹ بھی سکتا نہیں، ایسا دکھ ہے
یہ تب و تاب زمانے کی جو ہے نا یارو!!
غور سے دیکھو تو لگتا ہے کہ سارا دکھ ہے
تم مِرے دکھ کے تناسب کو سمجھتے کب ہو
جتنی خوشیاں ہیں تمھاری، مِرا اُتنا دکھ ہے
مجھ سے آنکھیں نہ ملانا کہ مری آنکھوں میں
شہر کی زرد گھٹن، دشت سا پیاسا دکھ ہے
یہ مری خاک ہی سہتی ہے ازل سے ورنہ
پسِ افلاک کہاں میرے خدایا دکھ ہے
ہم کسی شخص کے دکھ سے نہیں ملتے حیدر
جو زمانے سے الگ ہے وہ ہمارا دکھ ہے
(فقیہہ حیدر۔ حافظ آباد)
۔۔۔
غزل
کوئی روگ دل کو لگا تو دے، میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
کوئی درد مجھ کو جدا تو دے، میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
رہے نیند آنکھ سے بھی خفا، کہے دل کہ جینا تو ہے سزا
کوئی تیر ایسا چلا تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
مجھے عشق ہو تری چاہ کا، میں سدا رہوں یوں ہی دربدر
مجھے کوئی ایسی دعا تو دے، میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
تجھے دل دیا تھا کبھی سنو، بڑا دکھ سہا تھا ترا سنو
مجھے تُو وفا کا صلہ تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
یہ بے چین رہنا بھی کب بھلا تھا گوارا میرے مزاج کو
تو طبیب ایسی دوا تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
کیا عشق ساجدِ بے نوا نے تمام رسموں کو توڑ کے
مجھے کوئی ایسی سزا تو دے میں تڑپ تڑپ کے اٹھا کروں
(ساجد منظور اعوان۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
آپ خود تو سو گئے ہیں چین سے
گفتگو ہم کر رہے ہیں رین سے
شب لیے بیٹھی ہے بانہوں میں ہمیں
اٹھ رہے ہیں پردے کچھ مابین سے
ایک دوجے کا سہارا ہم بنے
ہو رہی دل جوئی ہے طرفین سے
روز ہی وہ پیچھا کرتا ہے میرا
بیٹھتا وہ بھی نہیں ہے چین سے
چاند میرا اس قدر پاکیزہ ہے
مجھ کو لگتا ہے اٹھا حرمین سے
اے غزالِ غم رسیدہ صبر کر
میں ہوں واقف تیرے ہر ایک بین سے
(غزالہ تبسم غزال۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اسی لیے تو کشش رکھتی ہے زمیں مرے دوست
وہ ایک شخص ہوا ہے یہاں مکیں مرے دوست
ہم ایسے لوگوں پہ اول تو فلمیں بنتی نہیں
بنیں تو ہوتے نہیں اُن کے ناظریں مرے دوست
میں تیری آنکھیں نہیں پلکیں ہی بنا پایا
جو دیکھتا ہے وہ کہتا ہے آفریں مرے دوست
میں اور کیسے کروں قافیہ یہ استعمال
کہ عورتوں سے زیادہ ہے کیا حسیں مرے دوست
وہ دن بھی لائے خدا جب میں اس سے رخصت لوں
وہ میرے پاؤں پکڑ کر کہے نہیں مرے دوست
مرے حوالے سے کرتے ہیں سازشیں عارض
کہیں کہیں مرے دشمن، کہیں کہیں مرے دوست
(آفتاب عارض۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
جیسا اس نے بھیجا ویسا بھیجوں گا
میں بھی اس کو پھول کا تحفہ بھیجوں گا
بھیجا ہے اس نے بھی مجھ کو پیار محبت
میں بھی اس کو پیار کا دریا بھیجوں گا
جانے میں بھی کیا کیا سوچتا رہتا ہوں
یہ بھی، وہ بھی جانے کیا کیا بھیجوں گا
لکھ کر تیرے ہونٹوں پر اک کومل سا
میں بھی کوئی میر سا مصرع بھیجوں گا
بھیجوں گا میں سب کچھ اس کو تحفے میں
جھیل، سمندر، چاند، ستارا بھیجوں گا
بھیجی ہے اس نے اپنی تصویر اسد
میں بھی اس کو خواب میں چہرہ بھیجوں گا
(اسد وحید۔ ملتان)
۔۔۔
غزل
کھو دیا ہے وجود؟ کھونے دو
جو بھی ہوتا ہے یار، ہونے دو
لاش اپنی لیے میں پھرتا ہوں
لاش اپنی ہی مجھ کو ڈھونے دو
جی یہ الجھے ہے، سانس اٹکے ہے
جی کو بہلاؤ، کچھ کھلونے دو
اشک ٹوٹے تڑخ کے آنکھوں سے
ہار اشکوں کے اب پرونے دو
یہ سبو، یہ دھواں ہے میرا علاج
دل میں یہ زہر اب سمونے دو
حالتِ دل خراب ہے حامی
حالتِ دل خراب ہونے دو
(محمد حمزہ حامی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
نئے دن کی مسافت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
چلو ہم بھی تجارت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
خدا سے التجائیں اور دعائیں لب پہ ہوتی ہیں
تری ہم جب عیادت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
ترا چہرہ ہے ٹکڑا چاند کا کوئی ستاروں میں
تری شب بھر زیارت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
کسی دن ان کو پوچھے گا خدا اپنی عدالت میں
جو مجرم کی وکالت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔
ہمیں دنیا میں کب فن کار کوئی مانتا ہے وہ
مگر فن کی ریاضت کے لیے گھر سے نکلتے ہیں
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
کیا تجھ کو دوستی کا مطلب نہیں پتا ہے
مطلب کہ زندگی کا مطلب نہیں پتا ہے
آنسو چمکتے دیکھے ہیں کیا کبھی ہمارے؟
یعنی تجھے خوشی کا مطلب نہیں پتا ہے
کب تک پڑا رہوں گا در پر ترے میں یارا
مجھ کو تو بندگی کا مطلب نہیں پتا ہے
اک شور میں رہا ہوں تنہا میں زندگی بھر
سو مجھ کو خامشی کا مطلب نہیں پتا ہے
(علی اسد۔ منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
روٹھ جاؤں میں اگر مجھ کو مناتے کیوں ہو
زہر لگتے ہو مجھے، ربط بڑھاتے کیوں ہو؟
جو بھی دل میں ہے بتا دیتا ہے لہجہ تیرا
تم سے بنتی نہیں گر بات، بناتے کیوں ہو
ہوں طرف دار تمھارا، تمھیں معلوم تو ہے!
بن کے انجان مرا دل یہ جلاتے کیوں ہو
سچ بتا دو مجھے، میں جان سکوں حالتِ دل
تم حقیقت کو بھلا مجھ سے چھپاتے کیوں ہو
خَتم الجھن ہو، کرو فیصلہ کوئی اعجاز
کشمکش کیسی، یہ ہیجان بڑھاتے کیوں ہو
(اعجاز کشمیری۔ بھمبر، آزاد کشمیر۔ مقیم: چین)
۔۔۔
غزل
مختصر سی مختصر ہے زندگی
آدھے رستے کا سفر ہے زندگی
بے خبر ہے موت کی یلغار سے
حد سے بھی زیادہ نڈر ہے زندگی
اپنی قسمت سے نہیں شکوہ اگر
خوب صورت، خوب تَر ہے زندگی
میں نے پوچھا تو کہا احباب نے
کچھ نہیں بس دردِ سَر ہے زندگی
سختیوں اور تلخیوں کے باوجود
مہرباں نایاب پر ہے زندگی
(سید اعجاز حسین نایاب۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
مجھے منزل کو رونا پڑ گیا ہے
مرے پاؤں میں رستہ اڑ گیا ہے
مری مقتل میں گردن کٹ چکی ہے
خبر دینے کو میرا دھڑ گیا ہے
ترے حصے کی چھاں تجھ کو مبارک
مرے حصے کا پتہ جھڑ گیا ہے
جدا ہونے میں اب میری خوشی ہے
وہ ایسی بات پر جو اڑ گیا ہے
فرشتہ صفت تھا وہ شخص جو کہ
مچا کر شہر میں گڑبڑ گیا ہے
بہاریں چاہ کر نہ آ سکیں گی
اثر یوں چھوڑ کر پت جھڑ گیا ہے
یہ تیری یاد ہے، آتش ہے، کیا ہے؟
علی دل ایک ہی تھا، سڑ گیا ہے
(علی پیر۔ ساہیوال)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.