امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستان کے صدور اور وزراء اعظم میں عمران خان 42 ویں سربراہ ہیں جو تین روزہ سرکاری دورے پر وائٹ ہاوئس پہنچے تو امریکی صدر ٹرمپ نے اُن کا استقبال کیا، استقبال کے حوالے سے بیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وائٹ ہائوس کی جانب سے اُس وقت جاری کیا گیا تھا جب امریکی اسٹیٹ آفس وزارت خارجہ کی طرف سے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے امریکہ کے سرکاری دورے سے متعلق ایک بھارتی صحافی کے سوال پر لا تعلقی کا اظہار کیا گیا تھا، یوں پاکستان اور دنیا کے مختلف سیاسی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا کیونکہ جب بھی سربراہان حکومت کی سطح پر خصوصاً امریکہ کے سرکاری دورے اور امریکی صدر سے ملاقات کی خبریں سامنے آتی ہیں تو اس سے قبل دونوں ملکوں کے دفتر خارجہ بہت پہلے سے اس کا شیڈول طے کر لیتے ہیں پھر ایسا کیوں کیا گیا ؟ یہ ایک سوال ضرور ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ، ایک بھارتی صحافی کے سوال پر ایسا ہوا۔
واضح رہے کہ اگست 2018 ء میں عمران خان کو بطور وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھائے ابھی تقریباً مہینہ ہوا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اہم اجلاس 18 ستمبر سے 25 ستمبر 2018 تک جاری رہا اور حسب روایت دنیا میں سال بھر کے اہم مسائل پر سربراہان نے اظہار خیال کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اہم سالانہ اجلاس میں چونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے دنیا میں اقوام متحدہ کے 193رکن ملکوں کے سربراہان کو دعوت دی جاتی ہے اور اِن میں سے بہت سے اس اجلاس میں شرکت کرتے ہیں اور بہت سے اپنے وزراء خارجہ یا نمائندوں کو بھیجتے ہیں لیکن امریکہ کے ورلڈ سپر پاور ہونے، عالمی سیاست اور اقتصادیات پر امریکہ کے گہرے اثر ات ہونے کی وجہ سے پاکستان اور پاکستان جیسے بہت سے ملکوں کے سربراہان اپنے دفتر خارجہ کے ذریعے کوشش کرتے ہیں کہ اس موقع پر نیویارک میں امریکی صدر اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں ہو جائیں، یوں 18 ستمبر 2018 کو توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکہ جائیں گے اور چونکہ پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت اور نئے سیاسی قومی لیڈر بر سرِ اقتدار آئے ہیں اس لیے امریکی صدر پاکستان جیسے اہم ملک کے سربراہ سے ضرور ملاقات کریں گے، مگر عمران خان نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جانے اور اس موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے متوقع ملاقات کے اعتبار سے یہ ردعمل دیا کہ اگر صدر ٹرمپ نے کو ئی ایسی بات کی تو اُن کا جواب بھی ویسا ہوگا۔
اس لیے بہتر ہے کہ وہ ابھی امریکہ نہ جائیں، یہ بات عمران خان نے امریکی صدر کے دنیا میں مختلف نوعیت کے اور عجیب و غریب بیانات کے تناظر میں کہی تھی، اور پھر اُن کی جگہ پا کستان کی نمائندگی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کی تھی اور اب جب حالیہ دورے کی د عوت خود امریکہ کی جانب سے تھی تو پہلے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وزارتِ خارجہ نے لاعلمی کا اظہارکیا اور اس کے دوسرے روز وائٹ ہائوس کا انداز مہذب تھا۔ یہاں یہ با ت بھی بہت اہم ہے کہ اس امریکی دورے سے تقریباً 40 روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے جمہوریہ کرغرستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 19 ویں اجلاس میں شرکت کی تھی تو روس کے صدر پوٹن اور چینی صدر کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مقابلے میں عمران خان سے ملاقات میں بہت زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، جس کو پاکستان اور بھارت کے علاوہ امریکہ، فرانس ، برطانیہ ، جاپان،کینیڈا ،آسٹریلیا، اور دیگر ملکوں میں بھی محسوس کیا گیا تھا، اس کے بعد یہ خبریں عام ہوئیں کہ روسی صدر کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو روس کے دورے اور 4 تا6 ستمبر2019 ء کو اسٹرین اکنامک فورم میں شریک کی دعوت دی گئی ہے، اور پھر 9 جولائی ہی کو The Economic TIMES نے روسی سرکاری ذرائع سے اس کی تردید کر دی کہ پاکستانی میڈیا کی جانب سے عمران خان کے حوالے سے یہ خبر بے بنیاد ہے کہ اُن کو روس کے صدر کی جانب سے 4 تا 6 ستمبر اسٹرین اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
اس کے دوسرے روز 10 جولائی کو پاکستانی دفتر ِخارجہ کے ترجمان محمد فیصل کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ عمران خان کے روس کے دورے کے اعتبار سے سامنے آنے والی خبردرست نہیں، اُنہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک رابطے میں ہیں اور اس حوالے سے اگر کوئی اعلان ہوا تو مناسب وقت پر بتا دیا جائے گا۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان وہ پہلے قومی رہنما اور سربراہ تھے جنہوں نے 3۔5 مئی 1950 ء کو امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ یہ سرکاری سطح پر تین روزہ دورہ تھا لیکن امریکہ کی جانب سے 30 مئی تک وہ بیگم رعنا لیاقت علی خان اور اُن کے ہمراہ جانے والے اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ امریکہ میں رہے، اُن کا پُر تپاک خیر مقدم کیا گیا تھا، اس دورے کی اطلاع کے ساتھ ہی خبر آئی کہ سابق سوویت یونین کے رہنما جوزف اسٹالن کی جانب سے بھی لیا قت علی خان کو روس کے سرکاری دورے کی دعوت دی گئی ہے اور جب لیاقت علی خان امریکہ کے دورے سے واپس آگئے تو روس کی جانب سے متواتر خاموشی رہی اور پھر خصوصاً 16 اکتوبر 1951 ء کو لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ لیاقت علی خان نے روس کے دورے کو ٹھکرا کر امریکہ کا دورہ کیا جو لیاقت علی خان کی غلطی تھی، یہ پروپیگنڈا اُس وقت ہوا جب بیوروکریٹ اور وزیر خزانہ ملک غلام محمد خواجہ ناظم الدین کے بعد خود گورنر جنرل بن گئے تھے اور خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بنا کر اُن کو بھی فارغ کر رہے تھے،اس حوالے سے کی جانے والی بعض تحقیقا ت یہ بتاتی ہیں کہ جب بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو امریکی صدر ٹرومین کی جانب سے لیاقت علی خان کے دورے سے سات ماہ قبل امریکہ کے دورے کی State Visite کی سطح پر دعوت دی گئی تھی، واضح رہے کہ پاکستان کے صرف دو سربراہان صدر ایوب خان اور صدر ضیاء الحق کو State Visite کی سطح پر امریکہ بلوایا گیا۔
اور11 تا15 اکتوبر1949 ء میں بھارتی وزیر اعظم نہرو نے اپنی بہن وجیالکشمی پنڈت جو امریکہ میں بھارت کی سفیر تھیں کے ہمراہ دورہ کیا تو یہ دورہ بھارت اور امریکہ دونوں کے لیے بہت اہم تھا اور بھارتی وزیر اعظم امریکہ کی اہمیت سے اس قدر واقف تھے کہ انہوں نے اپنی بہن کو ا مریکہ میں سفیر تعینات کیا تھا، اگر چہ امریکی صدر نے بھارت کو بھاری امداد نہیں دی مگر بھارت کو اہمیت دی ، روس یہ چاہتا تھا کی نہرو برطانیہ اور امریکہ کے اتنے قریب نہ ہوں اور سوویت یونین سے بھی بھارت کے تعلقات ہم پلہ حیثیت کے ہوں۔ اسی دور میں بھارت نے برطانیہ کے دولت مشترکہ میں جانے کا فیصلہ کیا تو سوویت یونین نے لیاقت علی خان کو سرکاری دورے کی دعوت دے کر بھارت پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر نہرو خارجی امور کے شاطر کھلاڑی تھے، انہوں نے سرد جنگ کے آغاز ہی پر بھانپ لیا تھا کہ بھارت عالمی سطح پر کس طرح محفوظ اور متوازن انداز میں امریکہ اور سوویت یونین سے تعلقات بھارت کے حق میں کر سکتا ہے، جمہوریہ بھارت کو نہرو نے آئینی طور پر سیکولر رکھا تھا، جب کہ پاکستان اسلام اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا اور آزاد ہوا تھا۔
سوویت یونین کا 1917 کا اشتراکی ا نقلاب 1947 ء میںدوسری جنگ عظیم کے زخم کھانے کے وقت 30 برس کا ہوا تھا، امریکہ جو پہلی جنگ عظیم کی طرح دوسری جنگ عظیم میں بھی آخر میں شامل ہوا تھا اور اِن جنگوں کی وجہ سے دنیا کا سرمایہ، سرمائے دار، سائنسدان، ماہر ین اور اعلیٰ صلاحیتو ں کے حامل افراد امریکہ کو محفوظ جانتے ہو ئے وہاں منتقل ہو گئے تھے اور پھر اشتراکی سوویت یونین اور اس کے حلقہ بردار ملکوںکے خلاف سرد جنگ بھی شروع ہو گئی تھی۔ نہرو کے دورے سے چھ ماہ قبلNATO نیٹو 4 اپریل 1949 ء میں وجود میںآچکی تھی، اور امریکہ ، برطانیہ کے علاوہ اپنے دیگر اتحادیوں سمیت روس کے گرد گھیرا تنگ کر رہا تھا۔ اس تناظر میں سوویت یونین یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وسطی ایشیا کی مسلم اکثریت کی ریاستیں جن کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں پاکستان سے اِن کے تاریخی، مذہبی، ثقافتی رشتے جغرافیائی قربت کے ساتھ صدیوں پر انے ہیں اس لیے پاکستان کے نظریاتی اثرات یہاں منتقل ہو سکتے ہیں۔ یوں نظریاتی لحاظ سے سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان شروع ہی سے تضاد ات کی صورت تھی اور یہی وجہ تھی کہ لیاقت علی خان کے دورے کی دعوت زبانی کلامی رہی اور سوویت یونین نے نہ ہی کو ئی شیڈول دیا اور نہ ہی بات بڑھائی ۔
دوسری جانب اگرچہ پاکستان اُس وقت بھارت کے مقابلے میںکافی حد تک علاقائی خارجی محاذ کی بنیاد پر کمزور پوزیشن میں تھا، سوویت یونین، بھارت اور چین کے تعلقات آپس میں مضبوط تھے افغانستان بھی بھارت اور روس کے زیادہ قریب تھا، مگر جب لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکہ نے پاکستان میں سوویت یونین کے خلاف فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے کہا تو لیاقت علی خان نے یہ کہا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کروایا ہے۔ وہ قائد اعظم کے اصولوں کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کو آزاد اور متوازن رکھنا چاہتے تھے، اُن کے بعد گورنر جنرل غلام محمد علاج کی غرض سے 8 نومبر تا 13 نومبر1953 ء بوسٹن میں رہے، اور اس دوران انہوں نے امریکی صدر آئزن ہاور سے ملاقات بھی کی اور بہت سے معاملات ابتدائی طور پر طے پائے، واضح رہے کہ 1951 ء سے 1953 ء تک لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم رہے اوراسی دوران ایران میں روس نواز اور اشتراکی نظریات کی حامل شخصیت ڈاکٹر مصدق حسین 21 جولائی 1952 ء تا 19 اگست 1953 ء ایران کے وزیر اعظم رہے اور ایرانی شہنشاہ رضا شاہ پہلوی ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
امریکی سی آئی اے نے منصوبہ بندی کرکے ڈاکٹر مصدق حسین کی حکومت کا خاتمہ کروایا،اور شہنشاہ ایران دوبارہ مضبوط ہوئے، اسی دوران چین جو یکم اکتوبر 1949 ء کو آزاد ہوا تھا کوریا کی جنگ 25 جون 1950 ء تا 27 جولائی 1953 ء سوویت یونین کے ساتھ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے خلاف لڑا، اب پاکستان کی غیر جانبداری بڑا سوال تھا۔ ایک جانب سرد جنگ کا زور تھا، پاکستان اسلامی نظریاتی ملک ہونے کے ناطے اُس وقت سوویت یونین ، چین اور بھارت کو قبول نہیں تھا، بھارت سے تعلقات دوستانہ نہیں تھے بلکہ جنگ کے بعد دشمنی کی صورت تھی اور یوں پاکستان کو اُس وقت اِن کے مقابلے میں امریکہ کی ضر ورت تھی، لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ بھارت نے متوازن انداز کی خارجہ پالیسی میں کو اپناتے ہوئے امریکہ سے بھی فائدے حاصل کئے اور سوویت یونین سے بھی اور پاکستان کو فائدے کی بجائے اِن دونوں ملکوں سے نقصان پہنچا، محمد علی بو گرا جو17 اپریل 1953 ء سے12 اگست1955 تک وزیر اعظم رہے اور بعد میں صدر ایوب خان کی کابینہ میں 1962-63 ء وزیر خارجہ رہے۔
اِن کے زمانے میں پاکستان، امریکہ، فرانس، برطانیہ، نیوزی لینڈ،آسٹریلیا، فلپائن، تھائی لینڈ کے ساتھ 8 ستمبر 1954 ء میں’’SEATO ‘‘ South East Asia Treaty Organization معاہدے میں شامل ہو گیا اور پھر 1955 ء میں بغداد پیکٹ یا CENTO معاہدے میں پاکستان، برطانیہ ، عراق، ایران اور ترکی کے ساتھ شامل ہو گیا یہ دونوں معاہدے سوویت یونین اور چین کے خلاف تو تھے ہی مگر بغداد پیکٹ مشرق وسطیٰ کے مصر سمیت اُن ملکوں کے خلا ف تھا جو امریکہ برطانیہ اور اُس کے اتحاد یوں کے خلاف تھے۔ محمد علی بوگرا نے 14 تا21 اکتوبر 1954 امریکہ کا دورہ کیا یہ Official Visite تھا، اب پاکستان کو امریکی فوجی اور مالی امداد شروع ہوگئی تھی، اس دوران بھارتی وزیراعظم پنڈٹ جواہر لال نہر و نے 19 تا31 اکتوبر 1954 ء چین کا طویل دورہ کیا اور اس کے ساتھ ہی بھارت اور چین میں ہندو چینی بھائی بھائی کا نعرہ گونجا، اس کے بعد نہرو کا سب سے اہم دورہ سوویت یونین کا تھا جو7 تا 23 جون1955 ء رہا، واضح رہے کہ 1927 ء میں اُنہوں نے سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب کی دسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے والد پنڈت موتی لال نہرو کے ہمراہ اُس جشن میں شرکت کی تھی۔
اس دورے کے موقع پر روسی سربراہ خروشیف نے پہلے کہا گیا کہ بل کلنٹن پاکستان نہیں آئیں گے لیکن بل کلنٹن آخر 25 مارچ کو پاکستان آئے اور صدرپرویز مشرف سے ملا قات کی۔ اس دوران امریکی صدر نے دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر تحمل اختیار کرنے پر زور دیا، اور اس کے فوراً بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اعلیٰ سطح پر مذاکرات کا عمل شروع ہوا اور پرویز مشروف بھارت گئے جہاں آگرہ میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ طے پا جانے والا مشترکہ اعلامیہ اچانک منسوخ کر کے بھارت نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کو الجھا دیا۔ پاکستان پر امریکہ سمیت علاقائی اور عالمی دبائو میں اُس وقت بے پناہ اضافہ ہوا جب 11 ستمبر2001 ء کو امریکہ میں پنٹاگون، ٹریڈ سینٹر پر اغواشدہ طیاروں سے حملہ کیا گیا اور امریکہ نے اِس کا الزام افغانستان میں اسامہ بن لادن پر عائد پر کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے قرار دادیں منظور کروا کر نیٹو کے ساتھ افغانستان پر بھرپور حملہ کردیا، اور پاکستان کے سامنے دوآپشن رکھ دئیے کہ پاکستان جنگ میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یا تو امریکی موقف کا ساتھ دے یا پھر جنگ کا سامنا کرے، پاکستان کو یہاں کڑے امتحان سے گزرنا پڑااور یہاں سے ہی پاکستان کی شدید مشکلات کاآغاز ہوا جو اب تک کسی نہ کسی انداز سے جاری ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا پہلا دورہ نائن الیون کے29 دن بعد 10 نومبر2001 ء کو کیا جب وہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک گئے اور پھر صدرجارج ڈبلیو بش سے ملے۔
پرویز مشرف کا دوسرا دورہ 12 تا 14 فروری 2002 ء آفیشل ورکنگ ویزٹ تھا،صدر بش سے ملاقات کی۔ امریکہ کا تیسرا دورہ 12 ستمبر 2002 تھا جب وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوئے اور پھر صدر بش سے ملاقات کی، صدر پرویز مشرف کا چوتھا دورہ ِامریکہ ورکنگ وزٹ 23 تا 27 جون 2003 ء، پانچواں دورہ 24 ستمبر2003 ء تھا، جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے گئے اور صدر بش سے ملاقات بھی کی۔اس دوران وزیر اعظم ظفرا للہ جمالی نے 30 ستمبر تا 4 اکتوبر 2003 امریکہ کا ورکنگ وزٹ کیا، صدر مشرف کا چھٹا دورہ 21 اور22 ستمبر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا تھا اور انہوں نے صدر بش سے ملاقات کی ۔ وزیراعظم شوکت عزیز ورکنگ وزٹ پر19 تا 24 جو لائی امریکہ میں رہے۔ صدر بش سے ملاقات رہی۔
صدر پرویز مشرف کا ساتواں دورہ ِ امریکہ ورکنگ وزٹ تھا جو 3 ۔4 دسمبر2004 ء رہا، صدر پرویز مشرف نے اپنا آخری اور آٹھواں دورہ بطور صدرِ پاکستان 20 سے22 ستمبر2006 ء میں کیا۔ اس دوران اُنہوں نے امریکی صدر سے بھی ملاقا ت کی اور پھر افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ملے۔ واضح رہے کہ 2000 ء پھر2001 ء اور 2002 ء تک بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے امریکہ کے تین دورے کئے اور صدر مشرف کی طرح امریکی صدر سے ملاقاتیں کیں۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے 2003 ء سے 2013 ء تک امریکہ کے 8 دورے کئے جب کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے یکم مارچ 2006 سے افغانستان بھارت اور پاکستان کاچار روزہ اہم ترین دورہ کیا۔ و ہ یکم مارچ کو افغانستان گئے جہاں کابل میں انہوں نے صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی، نئے امریکی سفارتخانے گئے، بڈگرام میں امریکی فوجیوں سے خطاب کیا، اسی دن وہ افغانستان سے بھارت پہنچے اور وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملا قات کی، اور یو ایس ۔ انڈیا سول نیوکلئیر ایگریمنٹ پر دستخط کئے، اس کے بعد 3 مارچ کو صدر جارج ڈبلیو بش پاکستان اسلام آباد آئے اور پرویز مشرف سے ملا قات کی اور 4 مارچ 2006 ء کو واپس چلے گئے۔
اب امریکہ کا واضح جھکائو بھارت کی جانب تھا اور افغانستان میں بھی وہ بھارت کو متحرک دیکھنا چاہتا تھا، 2000 ء سے پاکستان چین تعلقات گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر کے حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے تھے۔یوں شروع میں تو امریکہ کسی حد تک مصلحت کرتا نظر آیا اور ملکی و علاقائی سطح پر شروع میں صدر پرویز مشرف پر امریکہ کا ساتھ دینے پر شدید تنقید ہوئی اور پھر مشرف پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، مگر بعد میں امریکہ کی جانب سے بھی تنقید ہوئی کہ صدر پرویز نے پوری طرح وہ نہیں کیا جو امریکہ چاہتا تھا، مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ایک بار پھر پاکستان شدید دہشت گردی کا شکار ہوا، 27 دسمبر2007 ء کو راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد صورتحال مزید خراب ہوتی گئی، 2008 ء کے عام انتخابات کے بعد پہلے سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے اور بعد میں آصف علی ز رداری صدر ِ مملکت ہوئے۔27 سے30 جولائی2008 ء ورکنگ وزٹ کیا
اور23 ستمبر 2008 ء کو صدر زرداری نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی پھر 6 مئی2009 ء کوصدر آصف زرداری نے امریکہ کا ورکنگ وزٹ کیا، اسی سال24 ۔25 ستمبر کو نیو یارک میںفرینڈز آف ڈیموکریٹ پاکستان کے اجلاس میںشرکت کی۔11 سے13 اپریل 2010 ء نیوکلیئر سکیورٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔14 جنوری 2011 ء میں امریکہ کا دورہ کیا، اسی سال 21 مئی کو صدر زرداری نے نیٹو اجلاس میں شرکت کی، صدر اوبامہ سے ملاقات کی۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی یہ حکومت 2008 ء کے انتخابات کے بعد اُس وقت برسر اقتدار آئی تھی جب اس سے قبل نواز شریف اور مرحومہ بینظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا تھا اور پھر متحر مہ بینظیر بھٹو شہید کردی گئیں تھیں۔
اس دور میں حسین حقانی 26 مئی 2008 ء سے 22 نومبر2011 ء تک امریکہ میں پاکستان میں سفیر رہے، ان کے حوالے سے یہ باتیں عام ہوئیں کہ انہوں نے پاکستان کے اداروں کو جمہوریت کے خلاف قرار دیتے ہوئے امریکہ کو یہ باور کر وانے کی کوشش کی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں، 9 مارچ 2011 ء کو قدافی اسٹیڈیم لاہور کے قریب سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا، 2 مئی 2011 ء کو ایبٹ آباد کے واقعہ میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کاروائی کے بعد اُن کی موت کا اعلان کیا گیا، ڈالر کی قیمت اوُپن مارکیٹ میں 108 روپے تک گئی۔ اس کے بعد 11 مئی 2013 ء عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ ن کی حکومت بنی۔ تحریک انصاف نے اِن انتخابات میں مسلم لیگ کی جانب سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے اور پھر کچھ عرصے بعد اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دیا۔ نواز شریف پر نجی حیثیت میں بھارتی وزیراعظم سے تعلق کے اعتبار سے بھی الزامات عائدکئے گئے۔
مریم نوازکے حوالے سے ایک اخبار کے ذریعے افواج پاکستان کے خلاف بڑی قوتوں کو عالمی سطح پر ملوث کرنے کے الزامات بھی منظر ِعام پر آئے۔ 3 اپریل 2016 ءInternational consortium Investigative Journalists ICIJ کی جانب سے11.5 ملین صفحات پر مشتمل خفیہ دستاویزات منظر عام پر آئیں جو پانامہ لیک کہلائیں، اور اِن میں نواز شریف اور اِن کے خاندان کے حوالے سے اربوں روپے کی کرپشن کی باتیں بھی عام ہوئیں جس پر وزیر اعطم نوازشریف نے اسمبلی کے فلور، ٹی وی اور ریڈیو پر قوم سے خطاب میں اور انٹرویو میں اپنی صفائی میں متضاد بیانات دئیے اور پھر عدالت میں ایک قطری خط بھی پیش کیا گیا، 20 اپریل 2017 ء کو عدالت نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قراردے دیا، نواز شریف نے تیسری مرتبہ بطور وزیر اعظم پاکستان پہلی مرتبہ 20 سے 23 ستمبر2013 ء امریکہ کا ورکنگ وزٹ کیا، اور صدر اوبامہ سے ملاقات کی، 22 اکتوبر 2013 ء ہی کو پھر امریکہ گئے۔
اس کے بعد 2014 ء میں نیویارک گئے اور اقوام متحدہ کی قومی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی، 19 ستمبر 2015 ء میں بھی امریکہ گئے، 16 دسمبر 2014 ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ پیش آیا جس کے بعد دہشت گردی کے خلاف فوج کی جانب سے پہلے آپریشن ضرب عضب اور پھر آپریشن ردالفساد شروع ہوا اور پارلیمنٹ نے نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد پر قوانین وضع کئے اورخصوصی اختیارات کے ساتھ دہشت گردوںکے خلاف کاروائیاں شروع ہوئیں۔ نواز شریف کے اس تیسرے دور حکومت میں باراک اوبامہ امریکہ کے صدر رہے، اور بھارت میں نریندر مودی وزیر اعظم ہوئے، جنہوں نے 2017 ء تک امریکہ تین دور ے کئے، ایک دورے میں جب وہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تو دونوں رہنماجنرل اسمبلی کے ہال میں ملے، نواز شریف کے اس دور حکومت میں نریندر مودی میاں نواز شریف کی سالگرہ پر لاہور بھی تشریف لائے۔
واضح رہے کہ 2008 ء تا 2013 ء پیپلز پارٹی اور اس کے رہنما صدر آصف علی زرداری پر بھی یہ تنقید ہوتی رہی کہ وہ امور خارجہ،داخلہ اور وزارتِ خزانہ کے بعض معاملات کو عالمی سطح پر بالا بالا طے کرتے رہے اور متعلقہ شعبوں سے بھی بعض معاملا ت کو پو شیدہ رکھا جس سے ملک کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، اور بعض تجز یہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال نوازشریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے بعد بلا جھجھک سی ہو گئی اور وزیر اعظم کے سمدی خزانہ کے وزیر اسحاق ڈار نے سکوک بانڈز کے اجرا سمیت زیادہ شرح سود اور طویل المدت ادائیگی کے شیڈول پر اربوں ڈالر کے بیرونی قرضے لیے اور ہزاروں ارب روپے کے اندرونی قرضے لئے اور ملکی خزانے کو بھاری بوجھ تلے دباتے ہوئے مصنوعی طور پر ڈالر کی قیمت کو 100 روپے سے 104 روپے تک رکھا۔
اسی طرح وزارت خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم نواز شریف نے خود اپنے پاس رکھا۔ آئی ایس آئی نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا اور باوجود ذرائع ابلاغ اور پارلیمنٹیرین کے بارہا اصرار کے وزیر اعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ بھی کلبھو شن کا نام نہیں لیا۔ مبصر ین کے مطابق مسلم لیگ کے دور حکومت میں صرف وزارت داخلہ تھی، جو بہت حد تک معاملات کو قومی مفاد میں رکھنے میں کامیاب رہی، یوں 2013 سے 2017 ء اور پھر جب نواز شریف کے بعد شاہد خاقان عباسی وزریر اعظم بنے تب بھی ملک کے اندر یہ تبصرے ہوتے رہے کہ حکومت بہت سے ایسے قومی معاملات جن میں اعلیٰ فوجی قیادت سے مشاورت اور معلو مات کا تبادلہ ضروری تھا مسلم لیگی قیادت نے اس کو نظر انداز کیا، جبکہ 2008 ء سے2016 ملک میں دہشت گردی کی شدت رہی اور افواجِ پاکستان اِس کے خلاف مستقل مزاجی سے مصروفِ عمل رہی اور2017 تک تقریباً فتح حاصل کر لی، ساتھ ہی پانامہ لیک کے بعد تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں کرپشن کے خلاف اپنی تحریک تیز تر کر دی، لیکن دوسری جانب میاں نواز شریف نے اپنی بالادستی قائم کرنے کی جوکوشش کی تھی اُس سے ملک اور جمہوری نظام کے ساتھ خارجی سطح پر پاکستان امریکہ تعلقات کو اس لیے نقصان پہنچا کہ وزیر اعظم نواز شریف جو خود ہی وزیر خارجہ بھی تھے وہ حقائق کو پوری طرح سامنے نہیں لائے۔ اس دوران عالمی اور علاقائی سطحوں سیاسی و خارجی بساط پر بڑی اور درمیانی قوتوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے پرا کسی وار کے انداز سے بڑی شاطرانہ اور تیز چالیں چلی جا رہی تھیں، جس میں عالمی سطح کا میڈیا اور پاکستانی میڈیا جس کو پاکستان میں وسیع تر آزادی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ملی تھی وہ بھی ہر دو اعتبار سے اہم کردار ادا کرنے لگا ۔
25 مئی 2018 ء کے عام انتخابات کے بعد 18 اگست کو عمران خان وزیر اعظم بنے تو بھاری قرضوں پر واجب الادا اربوں ڈالر کی واپسی کی اقساط اور سود ایسا تھا کہ مہنگائی کا طوفان برپا ہوا۔ سعوی عرب، عرب امارات، قطر اور چین سے فوری قرضوں کے بعد آئی ایم ایف سے ایک سخت شرائط کا معاہدہ ہوا، یوں عمران خان اور تحریکِ انصاف کی مقبولیت کا گراف چند مہینوں ہی میں کچھ نیچے آیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ فاٹا کے علاقے جو باقاعدہ طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کے اضلاع بنے، اور پھر جن دنوں وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر تھے اَن اضلاع میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی اِن نئی اور اضافی16 نشستوں پر انتخابات ہوئے جن میں آزاد امیدواروں کے بعد پی ٹی آئی کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی، یہ بھی اتفاق تھا کہ اس دورے کے وقت ہی عالمی عدالت نے پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کلبھو شن یادیو کا فیصلہ سنایا جس میں اس جاسوس کو پاکستان میں قید رکھنے کو جائز قرار دیا، مگر ساتھ ہی وزیر اعظم کے امریکہ کے دورے پر روانگی سے قبل ہی پارلیمنٹ کے اندر مضبو ط اپوزیشن نے بہت سی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ سڑکوں پر حکومت کے خلاف اور نئے انتخابات کے مطالبے پر احتجاج شروع کر دیا، یوںجب وزیر اعظم عمران خان امریکہ کے تین روزہ سرکاری دورے پر روانہ ہو رہے تھے تو واشنگٹن اور اسلام آباد دونوں کو اس دورے سے زیادہ توقعات نہیں تھیں پھر پاکستان اور امریکہ سمیت پوری دنیا اس سے بھی قدرے فکرمند تھی کہ عمران خان اور صدر ٹرمپ دونوں ہی مزاجاً کسی مروت کے قائل نہیں لہٰذا باہمی گفتگو میں بدمزگی کے اندیشے بھی تھے۔
عمران خان کا یہ تین روزہ سرکاری دورہ اُن کے امریکہ پہنچنے پر 22 جولائی سے شروع ہوا، اس میں سب سے اہم وہاں عمران خان کا تقریباً تیس ہزار پاکستانیوں سے خطاب تھا، یہ وہ پاکستانی ہیں جو وطن سے دور ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں جمہوریت،آزادی، دیانتداری اور انسانیت کی حرمت کے اعتبار سے شعور عام اور بہت بلند ہے۔ اِن کا اتنی بڑی تعداد میںعمران خان کے امریکہ کے جلسے میں شرکت کرنا پاکستان کی تاریخ کا اہم واقعہ قرار دیا گیا ہے، انگریزی کے ایک معتبر اخبار نے وزیر اعظم عمران خان کے کامیاب دورہ ِ امریکہ کے بارے میں یوں لکھا،He came, he saw ,he conquered ۔ وہ آیا ،اُس نے دیکھا،اُس نے فتح کر لیا، واقعی عمران خان کے انداز، طرزِ گفتگو اور نظر وں میں عزم اور اعتماد تھا جسے کیمروں کی مدد سے دنیا کے اربوں ناظرین نے براہ ارست دیکھا۔ اس امریکی دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ،آئی ایس آئی کے سر براہ بھی عمران خان کے ہمراہ تھے جنہوں نے پینٹاگان میں سینئر امریکی عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اگر چہ اس سے قبل بھی وزراء اعظم کے ہمراہ فوجی قیادت بھی جاتی رہی مگر اس بار صورتحال یوںمختلف تھی کہ افواجِ پاکستان نے کم از کم دس برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ حقیقی معنوں میں صرف اور صرف پاکستان کے لیے لڑی اور دنیا پر یہ واضح کردیا اوّلیت ملکی قومی دفاع کی ہے جس کے لیے پا کستان اپنی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی خود طے کرے گا۔ اس میں دنیا پر یہ بھی واضح کر دیا کہ پاکستان کسی کے خلاف کسی کا آلہ کار نہیں بنے گا۔
اور عمران خان شروع ہی سے اس موقف کے حامی تھے اور اب بھی وہ برملا یہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کی جنگ نہیں لڑیں گے، یوں پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی ہے کہ وہ ہمسایہ ممالک سے دوستی باہمی احترام کے ساتھ چاہتی ہے اور علاقائی سطح پر ایران، قطر، ترکی، عرب امارات، ملائشیا، سعودی عرب سب سے پاکستان کے اچھے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اِن ملکوں کے اکثر سربراہان عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستا ن کا دورہ کر چکے ہیں۔ دوسری جانب چین سے پاکستان کے تعلقات ہر اعتبار سے مضبوط ہیں مگر پاکستان اپنے امور میں خود آزادانہ فیصلے کرتا ہے، روس سے ماضی کے مقابلے میں تعلقات آج بہت بہتر سطح پر ہیں، اور پاکستان امریکہ پر گزشتہ دس برسوں میں یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ امریکہ سے ہمیشہ سے بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے مگر پاکستان نے علاقے میں خصوصاً بھارت کے مقابلے میں دفاعی لحاظ سے توازن کا خیال رکھنا ہے یعنی پاکستان بھارت سے اچھے ہمسایوں کی طرح باہمی احترم کی بنیاد پر تعلقات کو ترجیح تو ضرور دیتا ہے مگر علاقے میں بھارت کی بالا دستی قبول نہیں اور اس کے لیے وہ کم سے کم سطح پر سہی اتنی عسکری اور دفاعی قوت ضرور برقرار رکھے گا کہ کسی بھی نازک موقع پر اپنا دفاع بہتر انداز سے کر سکے، عمران خان نے اپنے دورے میں امریکی صدر ٹرمپ سے روبرو بات چیت کی،کیپیٹل ہال میںامریکی کانگریس کے سینئر لیڈورں سے خطاب کیا، تاجروں اور سرمایہ کاروں سے ملاقاتیں کیں۔
اعلیٰ سطح کے امریکی تھنک ٹینک سے بھی واشنگٹن میں خطاب کیا، امریکی میڈیا کو انٹرویوز دئیے، صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی سینیٹر لینڈسی گراہام سے ملاقات کی، امریکہ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی صدر ننسی لینڈورگ سے بات چیت کی،کیپیٹل ہل ہی میں وہ ننسی پیلوسی سے ملے اور پھر ایک اہم ملاقات سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پیمپیو سے ہوئی، اوّل تو یہ بات بہت اہم ہے کہ وائٹ ہائوس آنے پر خود امریکی صدر نے وزیراعظم عمران خان کا استقبال کیا، اسی طرح کا استقبال باقی اعلیٰ امریکی شخصیات نے بھی کیا اور عمران نے ہر جگہ اور ہر موقع پر فی البدیع تقاریرکیں، کو ئی پرچی نہیں دیکھی اور باتیں جچی تلی معقول اور متاثر کن تھیں، نائن الیون کے حوالے سے سوال کا جواب دیا کہ ’’ہم نے70000 جانی نقصان کے ساتھ اربوں ڈالر کا مالی نقصان برداشت کیا جبکہ القاعدہ افغانستان میں تھی، پاکستان میں کوئی جنگجو نہ تھا، امریکی جنگ کی وجہ سے نقصان ہوا، ایران سے جنگ کو غلطی قرار دیا، افغانستان امن کو ضروری قرار دیا، انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں آج سیاسی اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے، انہوں نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے حوالے سے کہا کہ کسی کو اِن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، انہوں نے امریکہ اور ایران کے درمیان مصالحت کی پیش کش کی، پوری دنیا کے لیے صدر ٹرمپ کا عمران خان سے یہ کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم ندرا مودی نے اُن سے کہا ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کرے، اس پر بھارت کی پارلیمنٹ سمیت مختلف فورمز پر شدید ہنگامہ آرائی ہوئی مگر امریکی وزارتِ خارجہ نے ٹرمپ کی بات کی دوبارہ تصدیق کی، یوں یہ پاکستانی موقف کی بڑی فتح ہوئی ہے، دوسری جانب افغا نستان کے امن معاملات پر بھی پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی ہے۔
یوں وزیر اعظم عمران خان کے اگر اس امریکی دورے کو درج بالا پورے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر اعتبار سے کامیاب نظر آتا ہے اور اگر صدر ٹرمپ کی باتوں پر عملدر آمد ہو جائے تو واقعی خطے میں امن ہو جائے گا، کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا اور ایک بڑے ملک اور سپر طاقت امریکہ کے صدر کی جانب سے یہ باتیں بہت ہی حوصلہ افزا ہیں ، مگر ایک یہ کہ امریکہ نے پاکستان سے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے جو گذارش کی ہے اس کے ساتھ عمران خان کا جواب یہ تھا کہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن پوری کوشش کریں گے کہ افغانستان میں مستحکم امن کے لیے مذاکرات ہوں، جب کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ کوئی اچھی علامت نہیں اورجب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں اُس وقت بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مزید دس ہزار فوجیں بھیج دی ہیں، پھر ایک اندیشہ یہ بھی ہے کہ کیا واقعی صدر اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اِن دو اہم نکات پر مستقل مزاجی سے عملدرآمد پر مستقبل میں بھی متفق رہیں گے؟ پھر یہ بھی اہم ہے کہ ملک کے اندر بھی سیاست دان سیاسی جماعتیں اور قائدین بھی اِن دو اہداف کے لیے حکومت کا ساتھ دیں۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی جلد پا کستان کا دورہ کریں گے، اگر یہ دورہ ہوتا ہے تو یہ ملک کی تاریخ کسی امریکی صدر کا کسی منتخب جمہوری حکومت اور منتخب وزیراعظم کے دورِاقتدار میں پہلا دورہ ہوگا، واضح رہے کہ اب تک جو امریکی صدور پاکستان آئے وہ صدر جنرل ایوب خان، صدر جنرل یحیٰی خان، صدر جنرل ضیا الحق اور صدر جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں آئے، یوں اگر صدر ٹرمپ مستقبل قریب میں پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو وہ توقعات جو اس وقت دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھی ہیں، اِن پر یقین بڑھ جائے گا، اور اس صورتحال میں یہ امید ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کا حل آئندہ چار برسوں میں ممکن ہو جائے ۔
The post پاکستانی سربراہان مملکت کے امریکی دورے appeared first on ایکسپریس اردو.