60 اور 70 کے عشروں میں رضیہ بٹ، اے آر خاتون اور دیبا خانم کی تحریروں میں ناول کی مرکزی کردار کو فوجی جوان اچھے لگا کرتے تھے چوڑے شانوں، کلف والی وردی اور اس پر لگے بیج اور تمغے، پڑھنے والے اور پڑھنے والیاں بھی ان داستانوں کے اسیر تھے، لیکن اسی عشرے میں میجر کے رینک پر فائز خورشید قائم خانی کے جی میں جانے کیا سمائی کہ اس نے فوج کی شان دار ملازمت تج کر معاشرے کے پس ماندہ طبقات سے رشتے استوار کیے۔
خانہ بدوش، شیڈولڈ کاسٹ، کچلے ہوئے، پسے ہوئے نچلی ذاتوں کے اچھوت ہندو قبائل جنھیں ذات پات کی برتری والے سماج میں مسلمان ایک طرف خود ان کے ہم مذہب بھی کراہت سے دیکھتے تھے۔ بھیل، کولہی، شکاری، کبوترے، جوگی، باگڑی، اوڈھ اور جندراوڑے جن کے ہوٹلوں میں چائے کے کپ تک الگ رکھے جاتے تھے خود اٹھاتے اور استعمال کے بعد دھو کر وہیں رکھ جاتے کہ ان کی ذات قبیلے والا دوسرا فرد آئے تو اس کے کام آسکے۔ میجر خورشید قائم خانی ان اقوام کی محبوب شخصیت تھے۔
سندھ کے دیہی سماج میں عام آدمی اپنے سے بلند مرتبہ شخص کو وڈیرہ، بھوتار، میجری، رئیس اور سائیں وڈا کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ خورشید کو میجر کہلوانے کا شوق تھا نہ میجری منوانے کی عادت، وہ تو خورشید تھا۔ صحیح معنوں میں آفتاب جس کی کرنیں کھیتوں، کھلیانوں، میدانوں، کہساروں، سمندروں اور دریاؤں حتیٰ کہ ندی نالوں اور جوہڑوں پر یکساں روشنی بکھیرتی ہیں۔
1933 کے کسی مہینے میں بھارتی راجستھان کے گاؤں میں آنکھ کھولی اور 9 جنوری 2013 کو طویل علالت کے بعد کراچی کے اسپتال میں آنکھیں موند لیں۔ 80 برس کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا اور عمر بھر کی بے قراری کو قرار آیا۔
فوج کی ملازمت چھوڑی تو پنشن ملی نہ دیگر مراعات۔ شوریدہ سر مگر سراپا محبت خورشید قائم خانی نے ٹنڈوالٰہ یار آکر جدی پشتی زمین سنبھالی قناعت کی زندگی بسر کرنے والے نے ہندو بھیل کسان رکھے اور کبھی حساب کتاب نہ کیا جو بٹائی پر ملا قبول کیا اور اس میں بھی اپنے ان دوستوں کا حصہ رکھا جن سے لوگ بالعموم دور رہتے تھے۔
ٹنڈو الٰہ یار ماضی میں ضلع حیدرآباد کی تحصیل تھا جسے گذشتہ عشرے میں سندھ کے وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے ضلع کا درجہ دیا تھا۔ اسی شہر کو میجر خورشید کے والدین نے قیام پاکستان کے بعد نیا وطن بنایا تھا۔ اس کی کشادہ سڑکوں، پُرپیچ گلیوں اور طرح دار لوگوں کے بیچ لڑکپن اور جوانی گزارنے والے خورشید نے اپنی قائم خانی برادری کے دیگر افراد کی طرح پاک فوج جوائن کی مگر بے چین طبیعت اکتائی تو دیر نہ لگائی اور واپسی پر اسی شہر کی مٹی سے رشتہ استوار کیا۔
ٹنڈو الٰہ یار کے صحافی اور ادیب اشفاق لغاری کہتے ہیں کہ خورشید کے سوچنے کا انداز ہی منفرد اور یکتا تھا۔ سندھ میں جب کسی کو سپردخاک کریں تو کہتے ہیں’’مٹی ماں کے حوالے کیا‘‘ خورشید اس جملے پر فدا تھا کہتا تھا دفن کیا، تدفین کی، سپرد خاک کیا میں وہ اپنائیت نہیں جو مٹی کو ماں کہنے میں ہے۔ ٹنڈو الٰہ یار خوب صورت بستی ہے مردم خیز بھی۔ ضیاالحق دور میں شاہی جبر کے باعث کراچی کے کسی عقوبت خانے میں نظریات پر جان قربان کرنے والے نذیر عباسی شہید سے لے کر سندھ میں لوک دانش کے بڑے کردار وتایو فقیر تک کتنے ہی ہیرے، موتی اور لعل اس شہر کی شناخت ٹھہرے ہیں۔
فن کی دنیا کے بڑے نام قیصر نظامانی، راشد منہاس کی شہادت پر اپنے بیٹے کا نام راشد رکھنے والے ایئرکموڈور شبیر قائم خانی جنھوں نے ٹنڈو الٰہ یار کے قریب اسی بیٹے کی یاد میں راشد آباد بسایا ہے جہاں تعلیم، صحت اور تفریح کی سہولتیں اہل علاقہ کے لیے آسان کی ہیں راشد منہاس نے وطن پر جان واری تھی تو راشد قائم خانی نے جو پی اے ایف میں پائلٹ تھا اور پرواز کے دوران کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں انجن کی خرابی پر طیارہ قریبی لیاری ندی میں گرا کر علاقے کے باشندوں کی جان بچالی تھی اور خود شہادت کا مرتبہ قبول کیا تھا۔ ویسے علاقے کی ایک اور شناخت مگسی قبیلہ بھی ہے۔ رئیس اللہ بخش مگسی جو پی پی ، پی پی ش اور مسلم لیگ (ن) میں رہے۔
سیاسی ثبات ان کے صاحبزادے عرفان گل مگسی اور صاحبزادی راحیلہ مگسی میں بھی نہیں (ق) لیگ، پی پی فنکشنل لیگ، (ن) لیگ جہاں سہولت ملی شمولیت اختیار کرلی۔ اسی شہر کی گلیوں، چوباروں نے امام باڑے کے مکین خورشید قائم خانی کو بھی دیکھا جس سے معروف لکھاری خدیجہ گوہر نے پوچھا تھا کہاں پیدا ہوئے؟ تو جواب تھا راجستھان۔ اب کہاں رہتے ہو؟ تو مسکرایا اور کہنے لگا ’’سندھ میں لیکن درحقیقت کہیں بھی نہیں۔‘‘ خدیجہ نے اس کی سمت دیکھا اور کہاں کیوں؟ ’’بس خدیجہ! میں نے تقسیم کے عمل کو دیکھا ہے ماں کے ہمراہ ہجرت کی تھی اور درد کے وہ مناظر آنکھوں نے جذب کیے ہیں کہ میں نے بٹوارے کو قبول نہیں کیا۔‘‘ خورشید نے گفتگو تمام کرنا چاہی لیکن خدیجہ آخر خدیجہ تھی جس کے انگریزی ناول کا خورشید نے ’’امیدوں کی فصل‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا تھا۔ سوال جڑ دیا ’’پھر بھی گھر تو کہیں ہوگا؟‘‘ خورشید نے مختصر جواب دے کر اگلے سوال کا راستہ ہی بند کردیا کہ ’’خانہ بدوشوں کے گھر نہیں ہوتے۔ میرے ذہن میں آج تک راجستھان کے اس شہر کا خاکہ ہے جہاں میں نے جنم لیا تھا۔‘‘ خدیجہ کی موت کے بعد وہ مزید تنہا ہوگیا تھا۔
اشفاق لغاری بتاتے ہیں کہ قیصر نظامانی کے والد نور محمد نظامانی، جوگی بستی کا رانجھا، فیض شیدی، اسحٰق منگریو، علی نواز گھانگرو سمیت کتنے ہی اس کے حلقہ احباب میں شامل تھے لیکن اسے طمانیت خانہ بدوشوں کی بستی ہی میں ملتی تھی جوگی بستی کے رانجھا کی بیٹی کو اس نے تعلیم دلوائی، اخراجات برداشت کیے، لجپت راؤ کو پڑھایا لکھایا خود جوگی بستی میں اسکول قائم کیا اور خانہ بدوشوں سے اس کی محبت بھی دکھاوے کی نہ تھی وہ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے تھے۔ رانجھا کی بیٹی اسے باپ کا درجہ دیتی تھی چائے، پانی اور کھانا لاتی تو جوگیوں کے ساتھ تناول کرتے یہ جوگی بھی خوب ہیں انھیں لوگ محض سپیرا سمجھتے ہیں حالاںکہ ان کی اپنی ایک دنیا ہے اسحٰق منگریو جو صحافت میں ایک بڑا نام ہیں بتانے لگے کہ جوگی بڑے آرٹسٹ ہیں بین یا مرلی بجانا آسان نہیں گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔
سانپ اس سُر پر مست ہوکر جھومتا ہے تو یہ روزی روٹی کماتے ہیں لوگ اسے تماشا جانتے ہیں مگر سانپ کو پکڑنا، بین بجانا اور سانپ کے کاٹے فرد کا علاج کرنا کوئی ان سے سیکھے اسی طرح سامی ہیں جو ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر قسمت کا احوال بتاتے ہیں۔ سندھ سے ہند بلکہ یورپ تک کے خانہ بدوش اس آرٹ کے ماہر ہیں وہ ماضی حال اور مستقبل کی گتھیاں کھول دیتے ہیں آپ کیا تھے، کیا ہیں اور کیا بنیں گے۔ یوں بتاتے ہیں جیسے سامنے لکھا ہوا پڑھ رہے ہیں۔ 45 برس پہلے کی بات ہے ایک سامی نے ہتھیلی دیکھ کر مجھے کہا تھا۔ تم یہ گاؤں اور دکان چھوڑ کر بڑے شہر میں ’’ریڈوے‘‘ پر کماؤ گے وہ ریڈیو کو ریڈوا بتا رہا تھا اور سامنے دھری پنسل کی سمت اشارہ کیا کہ ہر وقت اسے ساتھ رکھو گے۔
پنسل نہ سہی پین سہی لیکن لکھنا اور بولنا ہی اب پیشہ ٹھہرا ہے تو یہ تحریر لکھتے ہوئے اس سامی کی مشابہت ذہن میں تازہ کی تو کانوں میں بڑی بڑی بالیاں ، انگلیوں میں سبز، نیلے اور سرخ پتھروں والی انگشتریاں اور کندھے پر رکھے لمبے بانس کے دونوں سروں پر جھولیوں میں سانپوں کی پٹاریاں رکھنے والا وہ ارجن یاد آیا جو اکثر میری دکان پر آتا اور صرف پانی پیتا تھا میں اسے اپنے گلاس میں پانی دیتا تو وہ پہلے انکار کرتا کہ میں سامی ہوں لیکن میرے اصرار پر مان جاتا اور پھر باتیں کرتا تو مختصر جملوں میں معنی خیز اشارے دیتا ایک بار کہنے لگا ’’سجن (دوست) سانپ نہیں مارتا اس کا خوف مارتا ہے میں نے اس سانپ کا جو پٹاری میں ہے زہر نکال دیا ہے مجھے خوف نہیں آتا یہ مجھے کاٹ لے کچھ نہیں ہوگا لیکن شہری بابو کو کاٹ لے تو وہ ڈر سے مر جائے گا۔‘‘
پھر میں کراچی چلا آیا اخبار کی وابستگی اور ریڈیو، ٹی وی کے تعلق نے رزق روزگار دیا تو شہر کی مصروفیات نے گاؤں کو بھلا دیا لیکن خورشید قائم خانی کے تذکرے اور جوگیوں، سامیوں کے فن کا ذکر اسحق منگریو سے چھڑا تو ارجن نامی ’’سجن‘‘ (دوست) بہت یاد آیا۔ اسحٰق کہتے ہیں کہ شاہ لطیف نے اپنے کلام میں خانہ بدوشوں کو موضوع بنایا ہے۔ جوگی، سامی، خانہ بدوش قبیلے ان کے رسم و رواج شاہ کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ شاہ کے بعد خورشید قائم خانی جنھوں نے ان قبائل پر تحقیق کی اور دنیا کو ان کی عادات، خصائل اور خوبیوں سے متعارف کرایا اسحق منگریو نے کراچی کے لٹریچر فیسٹیول میں خانہ بدوشوں پر سیشن میں یہ بات اپنی گفتگو میں تفصیل کے ساتھ بیان کی تھی۔
سندھ کے جوگی اپنی میت کو جلانے کی بجائے دفناتے ہیں خورشید قائم خانی کے دوست اور جوگی کلچر سے رغبت رکھنے والے فیض شیدی نے ایسی ہی ایک تدفین کا احوال تفصیل سے بیان کیا تھا جس میں مذکور تھا کہ جوگیوں کا قدیمی قبرستان عمر کوٹ میں ہے لیکن یہ کسی اور علاقے میں ہوں تو خاموشی کے ساتھ ڈیرے ہی میں قبر کھود کر اسے دفنا کر مٹی برابر کرکے نقل مکانی کر جاتے ہیں۔ بہت کم میت کو عمر کوٹ لے جاکر کریا کرم کرتے ہیں۔ فیضو شیدی نے خورشید قائم خانی کا حوالہ دے کر اپنے دوست کھیموں جوگی کی تدفین کی داستان بتائی تھی جس میں وہ خود بھی شریک تھے ان کے مطابق میت کو باقاعدہ غسل دے کر گیروے رنگ کا کفن پہنایا جاتا ہے۔
منہ میں پانی کا چلو دے کر تانبے کا ٹکڑا دانتوں کے بیچ رکھا گیا اور تمام منکے، انگشتریاں اور دیگر جوگیانہ علامتیں جسم سے علیحدہ کرکے رام رام گورکھ ناتھ کی آوازوں کے ساتھ قبر میں اتار کر کچھ مٹی ڈالنے کے بعد اس پر کانٹے والی جھاڑیاں رکھی گئیں کہ کوئی جانور قبر کھود کر لاش نہ نکال لے اور پھر زمین برابر کرکے مٹی کا لیپا دیا گیا اور خشک مٹی بکھیری تاکہ اہل علاقہ کو پتا نہ چلے کہ یہاں کسی کو دفن کیا گیا ہے۔ میت کے ساتھ قبر میں ایک تھیلی بھی رکھی گئی جس میں کھانا اور بیڑیوں کا پیکٹ تھا سندھ میں جوگی ہی نہیں عام آدمی بھی تمباکو کے پتے والی بیڑیاں شوق کے ساتھ پیتے ہیں کہتے ہیں اگر میت عمر کوٹ لے جانے میں مالی دشواری ہو تو اس مقام پر جوگی دفن کرتے ہیں جہاں مرنے والے نے آخری سانسیں لی ہوں۔
خورشید قائم خانی مرحوم نے بڑی بھرپور زندگی گزاری وسیع حلقۂ احباب اور اس پر مان کرنے والے وفات کے چھے برس بعد بھی اسے یاد رکھے ہوئے ہیں۔ فیض محمد شیدی مرحوم جب بھی شکاریوں، راوڑیوں، بھیلوں، کولہیوں اور جوگیوں کا ذکر کرتے خورشید کا حوالہ ضرور دیتے۔ اشفاق لغاری، اسحق منگریو، علی نواز گھانگرو اور اسحٰق سومرو سے بھی دوستوں نے خورشید کی یادیں اور باتیں سنی ہیں۔ خورشید قائم خانی نے بھٹکتی نسلیں، سیپیاں اور پتھر، سپنوں کا دیس، رنی کوٹ کا قلعہ، ڈھون مارو، ماروی کی دنیا سمیت 22 کے لگ بھگ کتب تحریر کیں، امرتا پریتم کی 17 کہانیوں کا ترجمہ کیا جو ’’سترہ کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ہی شایع ہوا۔ کامریڈ خدیجہ گوہر کے انگریزی ناول کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا جو ’’امیدوں کی فصل‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں دست یاب ہے۔
انگریزی اخبار اسٹار اور سندھ اخبارات کاوش و ہلچل میں کالم لکھے، موضوع خانہ بدوش ہی تھے۔ ان کے مسائل، مشکلات، ریت رواج، رسوم اور خصوصیات کو دنیا کے سامنے لائے اور مخفی گوشے اجاگر کیے۔ ویسے تو فیض محمد شیدی، نواز کنبھر، خالدکنبھر، اسحق منگریو اور اشفاق لغاری بھی ان موضوعات پر لکھتے ہیں لیکن مماثلت یہ ہے کہ ساری سنگت ایک ہے دکھ، درد، خوشیاں سانجھی ہیں۔ معروف لکھاری انجم نیاز نے ایک بار خورشید قائم خانی سے معلوم کیا تھا تم دلتوں پر لکھنا کب چھوڑو گے؟ تو میجر کا جواب تھا جب تم اشرافیہ کو موضوعِ تحریر بنانا ترک کردو گی۔
ہم نے ان پر کیا حرف حق سنگ زن
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی
جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا
اپنی آنکھ ان کے غم میں برستی رہی
خانہ بدوشوں، باگڑیوں اور شکاریوں کی جھگیوں، جھونپڑیوں میں طمانیت محسوس کرنے والے خورشید قائم خانی نے جنرل ضیا الحق دور میں وزیردفاع میر علی احمد تالپور کو ملاقات کے لیے آنے سے روک دیا تھا۔ میر صاحبان سے رفاقت کا رشتہ تھا بزم آرائیاں معمول تھیں لیکن وزارت سنبھالی تو علی احمد تالپور نے سندیسہ بھیجا۔ پیغام لانے والے کو خورشید قائم خانی نے جواب دیا ’’میر صاحب سے کہنا میرے گھر کا دروازہ اور راستہ کشادہ نہیں رہا، آنے کا تکلف نہ کریں۔‘‘ وہ ضیا کابینہ میں شمولیت پر میر علی احمد تالپور سے ناخوش تھے۔ اس دور میں جمہوری آزادیاں سلب تھیں حتیٰ کہ صحافی تک سیاسی کارکنوں کی طرح کوڑے کھانے والوں میں شامل تھے۔ بقول منہاج برنا مرحوم:
اب تیرگی کو حکم ہے‘ تابندگی لکھو
سہ کالمی وقوعے کو‘ یک کالمی لکھو
معاشرے کے پس ماندہ اور اچھوت طبقات سے ناانصافیوں پر خورشید قائم خانی کڑھتے اور افسوس کرتے ان کے رفقا بیان کرتے ہیں کہ وہ تبدیلی کی بات کرتے انقلاب کے خواب دیکھتے اور انھیں شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ذہن سازی پر زور دیتے وہ درباری نہیں تھے کہ چاپلوسی کرتے اور آمروں سے منصب یا خلعت پاتے۔ کتنے ہی آدرشی اور انقلابی بالآخر ان جماعتوں اور شخصیات کو پیارے ہوئے جن کے خلاف صف آرا رہے تھے، جیساکہ ایک خوشامدی نے کہا تھا ’’مجھے تو اس سے کوئی فر ق نہیں پڑتا کہ بیربل بنوں یا ملا دوپیازہ۔ دربار میں موجودگی ضروری ہے۔‘‘ خورشید نے سندھ کو خانہ بدوشوں کے ساتھ دیکھا اور گھوما تھا۔ مراعات یافتہ طبقے کی ہر آسائش اور اچھوتوں کی تلخ زندگی کو قریب سے دیکھا تھا۔ سچل سرمست کے الفاظ میں:
کتوں کے گلے میں سونے کے گلوبند
وتایو فقیر کی آخری آرام گاہ کے نواحی شہر ٹنڈو الٰہ یار سے تعلق کے ناطے میجر خورشید قائم خانی نے سچائی کا راستہ اختیار کیا اور اسے عملی زندگی کا حصہ بنایا۔ رفاقت اور قرابت کے رشتے بھی معاشرے کے کچلے اور پسے ہوئے طبقات سے استوار کیے۔ اشفاق لغاری بتانے لگے کہ میجر خورشید انسان دوستی کے قائل تھے سادگی اور قناعت کا نمونہ بناوٹ اور تصنع سے کوسوں دور، نسلی تفاخر اور لسانی امتیاز سے پرے ان کی اپنی برادری اور اہل خانہ بھی انھیں نہ سمجھ پائے۔ اسی سبب اعتراض اٹھاتے تھے لیکن وہ وسیع المشرب اور کھلے ذہن کے انسان تھے اگر فوج سے مستعفی نہ ہوتے تو ترقی پاتے اور مراعات بھی ملتیں لیکن وہ دنیاوی مناصب، مراتب کے قائل نہ تھے خانہ بدوشوں اور اچھوتوں سے دوستی اور تعلقات اس نوعیت کے تھے کہ جوگیوں، شکاریوں، بھیلوں اور سامیوں کی بستیوں میں وہ دیوتا تصور ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے یورپ سے سندھ تک خانہ بدوشوں میں بہت سی باتیں، اقدار مشترک ہیں۔
طرززندگی، رسم و رواج، اپنے علوم پر دسترس اور سینہ در سینہ منتقل ہونے والی روایات۔ جنھیں ہم معمولی بات سمجھ کر نظرانداز کرتے ہیں وہ ان کے اوصاف ہیں۔ خانہ بدوشوں سے تعلق کے ناتے بعض سوال اٹھاتے کہ مرنے کے بعد دفن کیے جاؤ گے یا جلایا جائے گا؟ استفسار کرنے والوں کی کم علمی کہ سندھ میں بہت سے ہندو قبائل اپنے مُردوں کو دفن کرتی ہیں۔ بھارتی آئین کے خالق ڈاکٹر امبیدکر کو پسند کرتے۔ وجہ اس کی بھی دلت ہونا تھی، ٹنڈو الٰہ یار میں واقع پست ہندو اقوام کے روحانی پیشوا راماپیر پر تفصیلی تحقیقی مضمون انگریزی اخبار اسٹار میں شایع کرایا۔ البتہ قوم پرستوں سے میجر خورشید کی کبھی نہیں بنی، کچھ عرصہ رسول بخش پلیجو کی پارٹی میں بھی رہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ محدود قوم پرستی کے فلسفے نے مظلوموں کو تقسیم در تقسیم کیا ہے۔
21ویں صدی کے رواں عشرے میں 9 جنوری 2013 کو وفات پائی تو ٹنڈو الٰہ یار میں سپردخاک ہوئے۔ پس ماندگان میں اہلیہ، بیٹی، دو بیٹوں جاوید کوثر قائم خانی اور عامر قائم خانی سمیت ایک وسیع حلقہ احباب چھوڑا۔ آج بھی ان کا تذکرہ ہو تو یادوں اور باتوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ وہ ان لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں جن سے انھوں نے سچی محبت کی تھی، کسی لالچ اور دنیاوی منفعت کو سامنے رکھے بغیر:
جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ
The post میجر خورشید قائم خانی؛ خانہ بدوشوں کی محبوب شخصیت appeared first on ایکسپریس اردو.