سچلؒ، قلندرؒ اور لطیفؒ نے محبت کا درس دیا ہے، یگانگت کی تلقین کی ہے یہ بزرگ ہوں یا دیگر عقائد کے پیشوا قدر مشترک ایک دوسرے کا احترام ہے۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک راما پیر بھی ہیں جن کے ماننے والوں کی تعداد 12 لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
پست ذات کہلانے والے ہندو انھیں ’’پیر‘‘ کا درجہ دیتے ہیں کہ ذات پات کی تقسیم والے نظام میں راما نے انھیں عزت و احترام سے نوازا تھا۔ حیدرآباد سے میرپورخاص کی سمت چلیں تو ٹنڈوجام اور راشدآباد کے بعد ٹنڈو الٰہ یار کا شہر آتا ہے اول الذکر زرعی یونیورسٹی اور ثانی الذکر اپنے صحت و تعلیم کے منصوبوں کی وجہ سے معروف ہے اور کموڈور (ر) شبیر قائم خانی کی محنتوں کا ثمر ہے جنھوں نے اپنے شہید بیٹے راشد کی یاد میں سرگودھین اسپرٹ ٹرسٹ کے اشتراک سے جنگل میں منگل سجا دیا۔ راشد آباد ریلوے اسٹیشن کے عقب میں سندھ کے بہلول دانا ’’وتایو فقیر‘‘ کی آخری آرام گاہ ہے۔ غالباً سترہ برس قبل راشد آباد کا مطالعاتی دورہ کیا تو اس مزار پر بھی حاضری دی تھی جس پر تحریر ہے:
’’جیسے آج تم ہو میں بھی کبھی ایسا ہی تھا اور جیسا میں آج ہوں کبھی تم بھی ایسے ہی ہوگے۔‘‘
وتایو کے قصے اور داستانیں ضرب المثل ہیں لیکن بات ہے ٹنڈو الٰہ یار کی۔ سندھی کی ضرب المثل ہے کہاں منہ مریم کا کہاں ٹنڈو الٰہ یار۔ اسی ٹنڈو الٰہ یار کے کھتری محلے میں راما پیر کا میلہ ہر سال بھادوں کے مہینے میں لگتا ہے۔ بکرمی سنہ کے چھٹے مہینے میں سندھ کے طول و عرض بلکہ پڑوسی صوبے پنجاب کے سرائیکی علاقوں رحیم یار خان و ملحقہ اضلاع سے بھی پیدل قافلے ٹنڈو الٰہ یار پہنچتے ہیں سندھ میں میلوں ٹھیلوں کی قدیم روایت ہے صوفیائے کرام کے عرس ہوں یا دیگر تقاریب ان پر ملھ کے مقابلے، محافل موسیقی اور ادبی کانفرنسوں کا انعقاد ضروری تصور کیا جاتا ہے عرس کو بالعموم میلے کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں گھڑ دوڑ، بیلوں کی ریس کا اہتمام بھی ہوتا ہے، میلے کے پہلے روز کی تقریب پہلی، دوسرے دن کی تقریب دوسری اور تیسرے یوم کی آخری دھمال کہلاتی ہے۔
یہ میلے مسلم اکثریت کے ہوں یا ہندو اقلیت کے اپنا منفرد اور مخصوص مزاج رکھتے ہیں۔ اپنے دل چسپ رنگ بکھیرتے اور حاضرین کو محظوظ کرتے نظر آتے ہیں۔ سچل، بھٹائی اور قلندر ہی نہیں صوبے بھر میں لاتعداد درگاہوں اور خانقاہوں کے میلوں میں ہندو برادری بھی شریک ہوتی ہے جب کہ خود ہندو اقلیت کے بھی درجنوں میلے اور تقریبات دربار صاحب رہڑ کی، سادھ بیلہ، اڈیرو لعل اور تھر، جیکب آباد، کشمور، ٹنڈو الٰہ یار میں سارا سال ہی منعقد ہوتی رہتی ہیں۔ یوں تو لاتعداد مذہبی و غیر مذہبی میلے سندھ میں لگتے ہیں لیکن جو اہمیت راما پیر کے میلے کو حاصل ہے وہ شاید ہی کسی اور میلے کا مقدر بنے جو پست ہندو اقوام کی جانب سے لگایا جاتا ہے۔
برسوں قبل کی بات ہے جب پہلی بار راما پیر کے نام سے تعارف ہوا۔ ضلع سانگھڑ کے قصبے شاہ پور چاکر میں جسے ہمارے بزرگوں نے قیام پاکستان ہجرت کے بعد اپنا وطن بنایا تھا۔ روہتک گوڑ گانوں اضلاع سے نقل مکانی کرکے آنے والے ارض مہران کے کلچر، روایات اور رسومات سے ناواقف تھے ہمارے ایک عزیز دکاندار کے پاس خریداری کے لیے آنے والی خاتون کا اصرار تھا کہ اس نے خریدی گئی شے کی رقم ادا کردی ہے جب کہ دکاندار کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوا۔ بات بڑھی تو شور شرابہ سن کر وہاں سے گزرنے والے ایک مقامی باشندے نے اس ہندو خاتون سے کہا ’’کھاؤ قسم راما پیر کی کہ تم نے رقم دے دی ہے۔‘‘ اس جملے پر لڑتی جھگڑتی خاتون نے خاموشی سے پلو کھولا پیسے نکالے اور کہا ’’معمولی ریز گاری کے لیے راما کو بیچ میں مت لاؤ‘‘ بعد میں ہمارے ایک اور عزیز دادا اکرم نے بتایا کہ راما پیر کو یہ قبیلہ پوجتا ہے۔
ساون، بھادوں برسات کے مہینے ہیں۔ اس لیے ان مہینوں کو سانونی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ راما کون تھے کہاں سے آئے تفصیلی تذکرہ تو نہیں ملتا لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ وہ برہمن، شودر سماج میں نچلی ذات کے ہندوؤں کو احترام دیتے تھے برتری کی دعوے دار اقوام کو انھوں نے چیلنج کیا یہی وجہ ہے کہ بھیل، کولہی، باگڑی، اوڈ، میگھواڑ، سنیاسی ودیگر انھیں دیوتا کا رتبہ دیتے اور اوتار تصور کرتے ہیں شرکا قافلوں کی صورت پیدل راما کے استھان پر پہنچتے ہیں کئی برس قبل ایک سلسلے میں ٹنڈو الٰہ یار جانا ہوا تھا کراچی سے کوچ چلی تو برابر کی نشست پر ہری رام نامی شخص شریک سفر تھے سندھ اور بلوچستان کے باشندے ہم سفر ہوں یا راہ گزر پر ملیں ’’حال احوال‘‘ ضرور لیتے دیتے ہیں۔
ایسا ہی ہری رام نے کیا، سلام، دعا سے بات چیت شروع ہوئی اور یہ پتا چلا کہ میرپورخاص جانے والی بس میں ضرور سوار ہوں لیکن منزل ٹنڈوالٰہ یار ہے تو انھوں نے کہا ٹنڈو الٰہ یار میں وتایو فقیر کے مزار پر ضرور جانا اور قریب میں راشد آباد کے مرکز علم و عرفان کو بھی دیکھنا۔ یہ جاننے پر کہ دونوں مقامات میں دیکھ چکا ہوں اس نے راما پیر کا تذکرہ کیا، میری دل چسپی دیکھی تو بہت سی باتیں اس نے بتائیں۔ بعد کے برسوں میں جب بھی راما پیر کے میلے کی تقریبات کی خبر سنی تو ہری رام، ٹنڈو الٰہ یار کا سفر اور شاہ پور چاکر کا واقعہ ذہن کی اسکرین پر جگمگایا۔ یہ میلہ اور اس سے منسوب واقعات اور داستانیں کئی اعتبار سے ممیز اور منفرد ہیں۔
ہری رام کی یادداشتوں، کئی ہندو دوستوں سے ملاقاتوں اور ٹنڈو الٰہ یار کے صحافی دوستوں راجہ جاوید، اختر خانزادہ اور میر حسن اویسی کی فراہم کردہ معلومات سے پتا چلا کہ راما پیر کا اصل مندر بھارتی راجستھان میں ہے جہاں کم و بیش ڈیڑھ سو برس قبل ٹنڈو الٰہ یار کا ایک یاتری منت مانگنے گیا تو اسے اذن ملا کہ جاؤ اپنے شہر ہی میں ہمارا استھان قائم کرو، یہ ایسے ہی ہے جیسے بھارتی گجرات میں حضرت جمّیل شاہ داتار کا مزار واقع ہے لیکن ضلع ٹھٹھہ سندھ میں بھی ان کی خانقاہ موجود ہے جہاں مقامی باشندے ہی نہیں جوناگڑھ، بانٹوا، ماناودر، سردار گڑھ، کتیانہ اور جیت پور سے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آنے والی میمن کمیونٹی کے افراد بڑی تعداد میں حاضری دیتے ہیں اور نوچندی جمعرات کو تو بلامبالغہ ہزاروں کا اجتماع ہوتا ہے۔ انھیں شاہ ڈاتار بھی کہا جاتا ہے کہ ضلع نواب شاہ سندھ میں بھی جام ڈاتار کا مزار موجود ہے، جنھیں جام صاحب کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور انھی کے نام سے ریلوے اسٹیشن بھی موسوم ہے کہتے ہیں۔ وہ ہندو راجستھان سے ایک روشن چراغ لے کر چلا اور ٹنڈو الٰہ یار پہنچ کر ایک مندر کی بنیاد رکھ دی۔ ہری رام کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی وہ دیا مندر میں کرنیں بکھیر رہا ہے۔
اساطیری کردار اور داستانیں برصغیر ہی نہیں پوری دنیا میں انسانوں کا خصوصی موضوع رہے ہیں مافوق الفطرت شخصیات، واقعات پر یقین کرنے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ یونانی دیومالا میں بھی بہت سی کہانیاں اور کردار ایسے ہیں جو اپنے کارناموں سے چونکا دیتے ہیں۔ ٹنڈو الٰہ یار میں مختصر قیام کے باعث کھتری محلے کے اس قدیمی مندر میں جانا تو نہ ہوسکا لیکن بعد کے برسوں میں جب بھی کبھی بھادوں کے مہینے میں حیدرآباد، مٹھی، سکرنڈ، سانگھڑ، نواب شاہ جانا ہوا تو سڑکوں پر ایسے متعدد قافلے ضرور دیکھے جو تکونے سفید پرچم اٹھائے اور لمبے بانس کندھوں پر لیے ’’جے راما پیر کی‘‘ کے نعرے لگاتے، اشلوک پڑھتے، بھجن گاتے ٹنڈو الٰہ یار کی سمت رواں تھے۔ ان قافلوں میں کمسن بچے، جوان عورتیں، ضعیف العمر مرد سب شامل ہوتے ہیں۔
ایسے ہی ایک قافلے کے شرکا سے تعارف ہوا تو پتا چلا کہ یہ لوگ بھارتی راجستھان کے ملحقہ کارونجھر کے کوہستانی شہر ننگرپارکر سے آرہے ہیں جو سیکڑوں کلومیٹر دور ہے۔ اس کے چہرے پر تھکن کی بجائے حوصلہ نمایاں تھا میلے کے موقع پر ایک طرف شیوامنڈلی کے سیکڑوں رضاکار ڈیوٹی دیتے ہیں تو دوسری سمت اتنے ہی پولیس اہلکار، بم ڈسپوزل اسکواڈ، رینجرز کے جوان تعینات ہوتے ہیں شہر اور نواح میں لگے استقبالیہ کیمپ اور شری راما مندر کے احاطے میں موجود انتظامی کمیٹی کا دفتر بھی یاتریوں کی راہ نمائی میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ہری رام کی روایت کے مطابق اندرونی احاطے میں راما پیر کی مورتی ایک سنگی گھوڑے پر دھری ہے جب کہ اندر دیگر دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں اور بت بھی موجود ہیں جب کہ مندر کی بالائی منزل پر درجنوں سفید تکونے جھنڈے لہراتے دکھائی دیتے ہیں۔ راما پیر کے عقیدت مند ان پرچموں کو ’’دھجا‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ یہ دھجا منت پوری ہونے پر بڑے اہتمام سے تیار کراکے یہاں لایا اور لہرایا جاتا ہے۔
ان کے عقیدے کے مطابق جیسے جیسے دھجا لہرائے گا ان کی مشکل آسان اور پریشانی رفع ہوگی۔ نیز مراد کی تکمیل کے امکان قریب آتے جائیں گے۔ شری راما دیو المعروف راما پیر کے ایک اندازے کے مطابق 12 لاکھ ماننے والے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹنڈو الٰہ یار سے ملحق ضلع مٹیاری میں سروری جماعت کی درگاہ کے جدامجد مخدوم سرور نوح کی گدی کو نولکھی کہا جاتا ہے کہ ان کے 9 لاکھ مرید تھے یہ تعداد تو برسوں قبل تھی۔ متعدد پشتوں کے بعد تو یہ تعداد کئی گنا ہوچکی ہوگی لیکن مخدوم غلام حیدر، مخدوم طالب المولیٰ، مخدوم امین فہیم اور اب مخدوم جمیل الزماں سب ہی 9 لکھی گدی کے سجادگان کے طور پر شناخت کیے جاتے ہیں۔
سندھ میں کھیت مزدوری کرنے والے بھیل، کولہی، میگھواڑ و دیگر ارادت مند اپنی اجرت یعنی اجناس کا کچھ حصہ یہاں بطور نذر بھی پیش کرتے ہیں تاکہ اگلی فصل میں خوشیاں ان کے گھر آنگن میں بہار بن کر آسکیں۔ ایک یاتری کا دعویٰ تھا کہ سندھ میں سب سے بڑا میلہ تو قلندر کا ہوتا ہے جسے وہ جھولے لعل کہہ رہا تھا اور دوسرا شاہ سائیں کا جو بھٹ کے بادشاہ یعنی شاہ لطیف ہیں، البتہ اس کے خیال میں تیسرا بڑا میلہ راما پیر کا ہوتا ہے۔
میرے بتانے پر کہ درازہ میں سچل سرمست کا عرس اور پیر گوٹھ میں رجبی شریف پر پیران پگارہ کا زیارتی اجتماع بھی تو لاکھوں کی حاضری لیے ہوتا ہے جس میں ایک بار شرکت کی سعادت ملی تو دیکھا کہ بڑے بڑے رؤسا، ذی حیثیت ہاتھوں میں جوتے اٹھائے ننگے پیر درگاہ کا راستہ پکڑتے ہیں تو اس یاتری نے تسلیم کیا کہ واقعی وہاں بھی بڑی حاضری ہوتی ہے لیکن ہندو دلت باشندوں کا سب سے بڑا میلہ یہی ہے۔ حالاںکہ سکھر کے جزیرہ سادھ بیلہ پر بن کھنڈی بابا، رہڑکی میں دربار صاحب، رک میں کنور بھگت رام، اسلام کوٹ میں سنت نیتو رام، اڈیرو لعل میں شری اڈیرو لعل، لسبیلہ میں ہنگلاج ماتا اور کراچی کے کلفٹن و کیماڑی پر بھی بڑے بڑے میلے اور اجتماعات ہوتے ہیں۔
سندھ تو ویسے بھی میلوں، ملاکھڑوں کی دھرتی ہے جہاں لاتعداد درگاہیں، خانقاہیں، مندر، استھان اور تیرتھ واقع ہیں جہاں میلے سجتے اور تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن اس کے سوا بھی سیکڑوں تیج تہوار اور ایام ایسے ہیں جب خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ شام اودھ اور صبح بنارس یا شب مالوہ کی داستانیں سننے یا پڑھنے والوں نے رنگین پیراہن میں سجی سنوری گیت گاتی گھروں اور مندروں کے ماحول کو خوش گوار بناتی ان دوشیزاؤں کو ضرور دیکھا ہوگا جو اپنے میلوں اور تقاریب میں عقیدت کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔ یہ اجتماعات دھرتی کا حسن ہیں جب رنگ بکھرتے ہیں تو کائنات مسکراتی ہے کہ یہی ازلی اور ابدی سچائی ہے جیو اور جینے دو کا فلسفہ سندھ کی دھرتی پر طاقت ور نظر آتا ہے۔
The post ٹنڈو الٰہ یار میں لگنے والا ؛ راما پیر کا میلہ appeared first on ایکسپریس اردو.