ہمارے یہاں ابھی اعزازات کا موسم گزرا ہے۔
سرکاری سطح پر، علمی ادبی اداروں اور بینکوں کی طرف سے یکے بعد دیگرے ادیبوں، شاعروں اور دوسرے فن کاروں کے لیے انعامات کا اعلان ہوا۔ یوں تو یہ سالانہ معمول کی کارروائی ہے۔ تاہم اس بار ہوا یہ کہ کہیں دیر سویر کی وجہ سے انعام و اکرام کے یہ سارے اعلانات تھوڑے سے وقفے کے ساتھ آگے پیچھے ہی سنائی دیے۔ سو، یوں لگا جیسے اعزازات کا موسم آیا ہوا ہے۔ سچ پوچھیے تو اچھا معلوم ہوا۔ ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ کسی بھی معاشرے اور تہذیب کے زندہ ہونے کی بلاشبہ ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اْس میں اہلِ ادب، اہلِ فن اور اہلِ ہنر کی تکریم و تعظیم کے مواقع سامنے آتے رہتے ہیں۔ تہذیبوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جو معاشرہ اپنے فن کاروں سے غافل ہوجاتا ہے، وہ دراصل اپنے ضمیر کی آواز سے بے بہرہ اور اپنی روح کے احوال سے روگرداں ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے کسی عہد اور سماج میں ایسے لوگوں کی پذیرائی یقیناً خوش آئند سمجھی جانی چاہیے۔ ہمارے یہاں جس سطح پر بھی یہ سرگرمی جاری ہے، اسے ہمارے لیے خوشی کا باعث ہونا چاہیے اور ہمیں اس معاملے کو نگاہِ استحسان سے دیکھنا چاہیے۔
یہ تو ایک اصولی اور عمومی بات ہوگئی۔ اب ذرا سچائی سے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں اعزازات کی جو سرگرمی دکھائی دیتی ہے، کیا واقعی وہ ہمارے لیے خوشی کا سامان رکھتی ہے؟ ندامت اور افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن اعتراف کرنا چاہیے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مگر کیوں؟ مختصر سا یہ سوال اپنے جواب کے لیے خاصی تفصیل چاہتا ہے۔ دیکھیے، مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ انعامات صحیح معنوں میں اپنے حق داروں تک نہیں پہنچتے یا پھر یہ کہ انعامات ادیب، شاعر، فن کار کے شایانِ شان نہیں ہیں، اور نہ ہی سوال یہ ہے کہ ان کے لیے جو نظام بنایا گیا اور جو طریقِ کار اختیار کیا جاتا ہے، وہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ اگر اعتراض براے اعتراض مقصود ہو تو اور بات ہے، ورنہ ہمارے یہاں انعام و اکرام کا جو سلسلہ ہے، اس پر ایسے کسی سوال کی ضرورت نہیں ہے۔
اب ذرا آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ کسی چھوٹی موٹی تنظیم یا ادارے کے انعام سے لے کر نوبیل ایوارڈ تک کوئی بھی اعزاز ایسا نہیں ہے جس کے اعلان پر سب لوگ آپ کو خوش نظر آئیں۔ ایسے ہر اعلان پر کسی نہ کسی انداز سے اختلاف کی کوئی نہ کوئی صورت سامنے آتی ہے اور ایسا کرنے والوں کے پاس کچھ نہ کچھ جواز اور دلائل بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ انعام یافتہ کو بجا طور پر مستحق جانتے ہیں اور بعض لوگ کسی اور کو اس سے زیادہ حق دار گردانتے ہیں اور ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ایسے اختلافِ رائے سے انعام اور انعام یافتہ دونوں کو فرق بھی کوئی نہیں پڑتا۔ اب رہی یہ بات کہ ہمارے یہاں جو اعزازات دیے جاتے ہیں، وہ شایانِ شان ہیں کہ نہیں۔ اس ضمن میں بھی ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں، لیکن یہ بھی ایسی کوئی قابلِ توجہ بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی اعزاز کی اہمیت اس کی مادّی وقعت سے متعین نہیں ہوتی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ انعام تو دراصل تکریم و اعزاز کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے فن کار یا تخلیق کار کی کارگزاری کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے جو کچھ بھی اسے انعام کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے، اسے کسی طور بھی کم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ہمارے جیسے معاشرے اور اس دور میں تو یہی بہت ہے کہ ادیب، شاعر اور فن کاروں کی پذیرائی کا ایسا کوئی سلسلہ چل رہا ہے۔ اب جہاں تک بات ہے ہمارے یہاں انعامات کے طریقِ کار کی تو اس سے بھی کچھ لوگ اتفاق کریں گے اور کچھ نہیں، لیکن یہ بھی کوئی بہت اہم مسئلہ نہیں ہے کہ جس پر ہم کسی الجھن کا شکار ہوں۔ اب اگر ایسا ہے تو پھر سوچنا چاہیے کہ آخر کیا سبب ہے کہ اعزازات کا یہ معاملہ ہمارے لیے خوشی کا باعث نہیں بن پاتا؟
بات تو بری ہے، لیکن کہے بنا چارہ نہیں۔ اصل میں ہماری اس ناخوشی کا سبب اور کوئی نہیں، بلکہ ہمارے ادیب شاعر ہیں۔ جی ہاں، ہم ادیب شاعر لوگ خود۔ بھلا کیسے؟ ایسے کہ وہ اس قسم کی چیزوں کے حصول کے لیے جس طرح چوہا دوڑ کا ماحول بناتے اور اس کام کو جس درجہ سنجیدگی، محنت، توجہ اور لگن سے کرنے کی کوشش اور اس کے لیے جس طرح کی بھاگ دوڑ، گٹھ جوڑ اور آپادھاپی میں مصروف نظر آتے ہیں، اس کو دیکھ کر یہ گمان تک نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے یہاں ادیب شاعر کا اصل کام تخلیقِ ادب یا اپنی خداداد فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ اصل کام تو بس یہی انعام یا اعزاز کا حصول ہے، باقی سب کچھ ثانوی۔ اس ساری دوڑ دھوپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان کے لیے انعام حاصل کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے انعام حاصل نہ کیا جاسکا تو ان کے کام کا اعتراف تو رہا ایک طرف، خود زندگی گویا داؤ پر لگ جائے گی۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ انعام کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے والا جو ادیب شاعر اپنا ہدف حاصل نہیں کرپاتا اور اسے مطلوبہ انعام نہیں ملتا تو وہ انعام پانے اور دینے والوں دونوں ہی کے لیے جس افسوس ناک، ندامت خیز اور توہین آمیز رویے کا اظہار کرتا ہے، وہ بجائے خود سوا حیرت اور ملال کا باعث ہوتا ہے۔ حیرت اور ملال میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج جن لوگوں سے وہ سر بہ سر شاکی اور انعام نہ ملنے پر نالاں ہے، انھی کے بارے میں کل تک وہ کس طرح ستائش اور اپنائیت کا اظہار کرتا رہا ہے۔
ممکن ہے کہ اس معاملے پر کچھ لوگ یہ کہیں کہ بھئی یہ کون سی نئی بات ہے۔ ہر عہد اور ہر سماج میں اس طرح کے مسائل پیش آتے ہیں، اور اگلے وقتوں میں بھی ضرور پیش آتے رہے ہوں گے۔ چلیے مانے لیتے ہیں، ایسا ہی ہے، سب جگہ ہے اور ہمیشہ سے ہے، لیکن اس حقیقت سے تو ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اب ہمارے یہاں اس رویے کا اظہار جس درجے میں اور جس تواتر سے ہونے لگا ہے، وہ ہمیں اس صورتِ حال کے بے حد سنگین ہوجانے کا احساس دلاتا ہے۔
عالم یہ ہے کہ اب ان لوگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کا ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے جو اس سے پہلے ایک نہیں، کئی ایک اعزازات اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھے ہوں۔ ہمارے لیے اس معاملے میں سب سے بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ انعام نہ پاکر ردِعمل کا اظہار کرنے والے لوگ یہ تک دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں کہ اُن کے مقابل جس شخص کو اعزاز پیش کیا گیا ہے، وہ عمر اور کام دونوں اعتبارات سے ان سے بہرحال آگے اور اس اعزاز کا بلاشبہ کہیں زیادہ مستحق ہے۔ وہ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ کوئی اعزاز جب کسی مستحق شخص کو پیش کیا جاتا ہے تو اس اعزاز میں اُس کے ساتھ سب لائق، اہل اور جینوئن لوگ شریک ہوتے ہیں۔ وہ سب کے لیے اعزاز اور طمانیت کا باعث ہوتا ہے— اور یہ بھی کہ کسی جینوئن فن کار کو ایوارڈ ملنا دراصل خود اس اعزاز کے لیے بھی توقیر و اعتبار کا باعث ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اعزاز کا اعلان کسی بھی ادیب شاعر کے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے اور اسے احساس دلاتا ہے کہ اس کی کارگزاری کا اعتراف کیا گیا ہے۔ بالکل ٹھیک ہے، مانتے لیتے ہیں۔ اس کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بڑے سے بڑا اعزاز کسی ادیب، شاعر یا فن کار کی حقیقی قدر و منزلت میں بھی واقعتاً کوئی اضافہ کرسکتا ہے؟ کیا اسے اپنے فن کی تاریخ میں حیاتِ جاوید عطا کرسکتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ ایک لمحے کو رکیے اور ماضی کے دریچوں میں جتنی دور تک جھانک سکتے ہیں، جھانک کر دیکھیے اور یاد کیجیے کہ میر، غالب، مصحفی، آتش اور اقبال وغیرہم کون کون سے اعزاز کے حوالوں کے ساتھ ہماری ادبی تاریخ میں زندہ ہیں۔ اچھا چلیے، ماضیِ بعید کو رہنے دیجیے۔ ماضیِ قریب، بلکہ حال میں آجائیے اور بتائیے راشد، میراجی، مدنی، مجید امجد، منٹو، غلام عباس، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، محمد سلیم الرحمٰن، احمد شمیم وغیرہم میں سے کس کو بھلا کون سا انعام دیا گیا تھا جو کہ ان کا نام آتے ہی ہمارے حافظے میں تازہ ہوجاتا ہے۔
چھوڑیے، یہ بھی نہیں۔ آئیے یوں یاد کیجیے کہ اپنے عہد کے حاضر و موجود لوگوں میں اسد محمد خاں، اکرام اللہ، آفتاب اقبال شمیم، فتح محمد ملک، ظفراقبال، توصیف تبسم، مسعود اشعر، سحرانصاری، خورشید رضوی، احفاظ الرحمٰن اور زاہدہ حنا میں سے کسی تخلیق کار کا نام جب آپ کے ذہن کی اسکرین پر چمکتا ہے تو کسی انعام یا اعزاز کی بنیاد پر ایسا ہوتا ہے یا کہ کسی افسانے، شعر، مضمون، ناولٹ، ناول یا پھر کسی کتاب کی نسبت سے؟ اچھا، یہ بھی رہنے دیجیے۔
اب یوں کیجیے کہ آپ ان میں جس ادیب، شاعر یا فن کار کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں یا جس کے قریب ہیں، اُس کو سامنے رکھ کر خود سے ذرا ایک بار یہ پوچھیے کہ اُسے کون کون سا انعام مل چکا ہے؟ خدا لگتی کہیے، کیا جواب ملا اس سوال کا؟ وہ سب لوگ جو آپ کے دوست ہیں، آپ کو عزیز ہیں، آپ ان تک کے بارے میں وثوق سے یہ کہہ نہیں پائیں گے کہ انھیں فلاں فلاں انعام ملا ہے، اور ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کے بارے میں تو آپ یہ بھی یاد نہیں کرپائیں گے کہ انھیں کوئی انعام ملا بھی ہے کہ نہیں۔ ایسا صرف آپ کے ساتھ نہیں ہے، ادب و فن سے سچا تعلق رکھنے والے عوام و خواص میں سے بیشتر لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہوگا۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ چاہے تاریخ ہو یا اجتماعی و انفرادی حافظہ— ادیب، شاعر، فن کار کی یاد آوری اور بقا کا انحصار صرف اور صرف اس کے کام پر ہے، باقی دوسری کسی شے پر نہیں۔
ہمارے گھر، دفتر اور شہر میں جیسے کوڑے دان ہوتے ہیں، بالکل ایسے ہی ہمارے حافظے میں بھی ہوتے ہیں، اور جس طرح ہم ان میں فضول، بے کار اور بے مصرف چیزیں ڈال کر انھیں قطعی طور پر فراموش کردیتے ہیں، اسی طرح ہمارا ذہن بھی کچھ چیزوں کو پہلی فرصت میں اور بلاتکلف اپنے کوڑے دان میں ڈال کر ان سے یوں غافل ہوجاتا ہے کہ پھر پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ کم و بیش یہ ایوارڈ، انعام جیسی چیزیں بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے، العقل فی القلب۔ بس سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جو حافظہ ہوتا ہے، یہ ہمارے دل سے جڑا ہوتا ہے۔ جو چیز دل کو بھاتی ہے، وہ حافظے میں خود بہ خود اپنی جگہ بنالیتی ہے، اس کے سوا سب کچھ کوڑے دان میں چلا جاتا ہے۔
اہلِ بصیرت کہتے ہیں کہ مُحکمات پر اپنے یقین کا اعادہ کرتے رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ بسا اوقات ایسا مفید ہی نہیں ہوتا، بلکہ ضروری بھی ہوجاتا ہے، کیوںکہ وقت، حالات اور بعض منفی رویوں کی وجہ سے اڑنے والی گرد کو یہ عمل صاف کرکے ہمارے یقین و اعتبار کے آئینے کو اجال دیتا ہے۔ بار بار کی کہی ہوئی بات ہے، لیکن چلیے ایک بار پھر اسی خیال سے دہرائے لیتے ہیں، یہ کہ ادیب شاعر کا اصل اعزاز تو اْس کا کام ہے۔ اس کی توقیر و تعظیم کا دارومدار صرف اور صرف اُس کے کام پر ہوتا ہے۔
یہ اس کا کام ہی ہوتا ہے جو اسے اپنی تہذیب و تاریخ کے روشن منظر میں جگہ بناکر دیتا ہے اور عوامی حافظے میں زندہ رکھتا ہے۔ اس کے سوا اور کوئی بھی شے وقتی بہلاوے کی صورت تو بے شک پیدا کرسکتی ہے، لیکن بقا کا سامان نہیں۔ ایامِ گزشتہ پر ایک نظر ڈال لیجیے اور دیکھیے کہ کتنے ہی ایسے لوگ تھے کہ جنھوں نے تعلقات کی مہارت سے اکرام و اعزاز کی ہر منزل اپنی زندگی میں سر کی اور اپنے دور کے مرکزی دھارے میں بڑی شان و تمکنت سے نظر آتے تھے، لیکن وہ تہذیب اور عوام دونوں کے حافظے میں اتنی جگہ بھی نہ پاسکے کہ آج کوئی انھیں ادب کی تاریخ کے حاشیے میں رکھ کر ہی یاد کرسکے۔ اسی طرح دوسری طرف آپ دیکھیں گے کہ ایسے بھی نام ہیں کہ ساری زندگی گوشہ نشینی میں بسر کی۔ انھیں تعلقاتِ عامہ سے کوئی سروکار اور نہ ہی مرکزی دھارے میں ادب کے نام پر ہونے والی سماجی سرگرمیوں میں دھما چوکڑی کا کوئی شوق۔ وہ تو بس سب سے بے نیاز ہوکر اپنے کام میں مگن رہے اور آج دیکھنے والے دیکھتے ہیں کہ زمانہ در زمانہ خوش دلی سے اور بہ تکریم یاد کیے جاتے ہیں۔ وہ خود گوشہ نشیں رہے اور آج ان کا کام محفل آراء ہے۔
بات یہ ہے کہ سارا معاملہ خود فن کار پر منحصر ہے، چاہے تو وہ زمانے کی چکاچوند کی طرف لپکے یا پھر اپنے کام کی طرف۔ حیاتِ مستعار و مختصر یا حقیقی اور دیرپا زندگی—!
The post ادب اور اعزازات appeared first on ایکسپریس اردو.