آج کل لگ بھگ پور اہی یورپ شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہے اور گرمی کی ان لہروں نے اس خطے میں واقع چھوٹے اور بڑے ملکوں کو گویا بھٹی بنادیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے پورا خطہ ہی اس بھٹی میں تپ رہا ہے۔ خاص طور سے پیرس کی گرمی نے ساری حالت ہی بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ سائنسی ماہرین اس صورت حال پر کافی تشویش میں مبتلا ہیں اور وہ سبھی مل جل کر اس بات کا تعین کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کہیں گرمی کی اس موجودہ اور شدید ترین لہر کا تعلق ہمارے کرۂ ارض پر ہونے والی آب و ہوا کی تبدیلیوں سے تو نہیں ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سبھی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ بہ ذات خود حضرت انسان ہے جس کی اپنی آئے دن کی غلطیوں اور سائنسی و تکنیکی حکمت عملیوں کی وجہ سے ہمارے کرۂ ارض پر آب و ہوا میں مسلسل اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور ہم کبھی سخت گرمی کا شکار ہوجاتے ہیں تو کبھی سخت سردی ہمارے اوسان خطا کردیتی ہے۔
یورپ کا سب سے اہم اور بنیادی خطہ تو اتنی شدید گرمی کی لپیٹ میں آچکا ہے کہ حال میں کافی دنوں تک یہ پورا کا پورا علاقہ ہی ریکارڈ شکن ٹمپریچرز کی زد میں ہے اور اس ساری صورت حال نے ہمارے تمام سائنسی ماہرین کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اس بات کی ریسرچ کرکے کوئی نتیجہ نکالیں کہ کتنی زیادہ گرمی یا خوف ناک گرمی کا تعلق آب و ہوا کی تبدیلی سے جوڑا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں World Weather Attribution Network نے سائنس دانوں کے ایک انٹرنیشنل کنسورشیم کا انعقاد کروایا تھا جس پر ایک مفصل رپورٹ جلد ہی ریلیز کردی جائے گی۔
یورپ کے مختلف حصوں میں گرمی کے سابقہ ریکارڈز 2003 کے موسم گرما میں قائم کیے گئے تھے جب جنوبی فرانس کے ٹاؤن Conqueyrac میں درجۂ حرارت 44.1 درجے سینٹی گریڈ (111.4° Fahrenheit) تک جا پہنچا تھا۔ اس پورے براؑعظم میں شدید ترین گرمی نے 70,000 سے زیادہ افراد کو ہلاک کردیا تھا، یہ ایک ایسا ڈیتھ ٹول تھا جس کے بارے میں ماہرین نے اس بات کا تعین کیا تھا کہ اس کا سبب آب و ہوا کی تبدیلی ہی تھی۔
یورپ میں شدید گرمی کی ایک اور خطرناک لہر 2018 میں آئی اور وہ لگ بھگ تین ماہ تک برقرار رہی۔ اس ضمن میں کنسورشیم نے نہایت سرعت کے ساتھ اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ تیار کی اور یہ طے کیا کہ ایسا بشری تکوین یعنی anthropogenic کے بغیر نہ ہوا ہوتا یعنی یہ انسان کی اپنی غلطیوں کے باعث نہیں ہوسکتا تھا جو اس کے اپنے کاموں کی وجہ سے آب و ہوا کی تبدیلی کا سبب بن سکتے تھے۔
اس ریسرچ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ ایسے واقعات سال میں ہی اس وقت وقوع پذیر ہوسکتے تھے اگر کسی جگہ کا درجۂ حرارت 2100 تک پری انڈسٹریل لیول میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر چلا جاتا۔ اگر گلوبل وارمنگ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کردی جاتی تو ایسے واقعات کے بارے میں یہ پیش گوئی کی جاسکتی تھی کہ یہ ہر تین میں سے دو سال بعد وقوع پذیر ہوسکتے تھے۔
اس سال کا ایونٹ جو جون کے وسط میں شروع ہوا، اس کے بارے میں توقع کی جارہی ہے کہ یہ چھوٹا ہوگا۔ لیکن یہ نہایت شدید ہے۔
28 جون کو جنوبی فرانس کے ایک شہر Gallargues-le-Montueux میں درجۂ حرارت بڑھ کر 45.9°سینٹی گریڈ(114.6° F) تک جا پہنچا تھا جس نے اس ملک کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیے تھے، لیکن اس وقت دنیا بھر میں صرف یورپ ہی وہ خطہ نہیں ہے جہاں گرمی شدید ترین اور خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔
اس خطے کے علاوہ انڈیا اور پاکستان بھی مئی کے وسط سے شدید ترین گرمی میں مبتلا ہیں اور غالباً ان دونوں ملکوں کی تاریخ میں یہ شدید ترین گرمی کا ایک طویل ترین ریکارڈ ہوگا۔ حالیہ جون میں نئی دہلی میں درجہ ٔ حرارت 48°درجے سینٹی گریڈ یعنی 118.4°فارن ہائیٹ تک جا پہنچا تھا۔ یہ غالباً اس مہینے میں انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ کیا گیا تیز گرمی کا سب سے بلندترین ریکارڈ تھا۔ جون 21 تک شدید ترین گرمی اور اس سے متعلقہ اسباب کی بنا پر 180 افراد موت کا شکار ہوچکے تھے۔
اس ضمن میں یونی ورسٹی آف انگلینڈ میں جب آب و ہوا کے معروف سائنس داں Karsten Haustein سے بات کی گئی جن کا تعلق مذکورہ کنسورشیم سے بھی ہے اور ان سے پوچھا گیا کہ ان خوف ناک ترین اور مہلک ایونٹس کے پس پردہ کون سے محرکات کارفرما ہیں۔ ان سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ سائنسی ماہر اس بات کا تعین کیسے کرتے ہیں کہ ایک خاص گرمی کی لہر آب و ہوا کی تبدیلی کا سبب کیسے بنتی ہے تو انہوں نے بتایا:
ہم نے نہایت شدید گرمی کے واقعات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اور انہیں آب و ہوا کی تبدیلی سے جوڑنے کے لیے یہ سب کیا تھا۔ مثال کے طور پر ایسا سو سال میں سے صرف ایک سال میں ہوتا ہے اور اس دوران یہ میڈیا کی توجہ بھی حاصل کرتا ہے، اس طرح ہم دوسرے محققین کو بھی یہ سکھاتے ہیں کہ کینیا، جنوبی افریقا اور آسٹریلیا کے ماہرین کی تربیت کیسے کی جائے اور انہیں وہ سب طریقے کیسے سکھائے جائیں۔
٭یورپ میں موجودہ گرمی کی لہر کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:
گرمی کی موجودہ اور شدید ترین لہر دس روز پہلے شروع ہوئی، اس شدید ترین لہر کا ماحول پہلے سے بن رہا تھا، اس لیے ہم اس کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے۔ اگست 2003 سے فرانس میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 44.1 سینٹی گریڈ تھا جو واقعی تشویش ناک تھا۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ مزید بڑھ کر 45° سینٹی گریڈ تک جاپہنچے گا جو اس خطے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ ہوگا۔ جون میں جرمنی میں ٹمپریچر اگلے کئی روز میں شدید ترین ہوں گے اور پھر آسٹریا میں بھی کافی بڑھ جائیں گے ۔
٭اس شدید ترین گرمی کے فضائی اثرات کیا ہیں؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گرمی کی لہر کے جاری رہنے کے لیے ہمیں بالائی سطح میں گرم ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو جنوب سے یعنی افریقا سے آتی ہے۔ ہمیں ٹمپریچرز کے لیے زمین کی سطح سے 1.5 کلومیٹر اوپر ایک ریکارڈ قائم کرنا ہوتا ہے جو 25.5 سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ بالائی سطح پر ہوا کی یہ سطح کس طرح ناپی اور اس کی پیمائش کی جاتی ہے، یہ بالکل ایک الگ اور مختلف کہانی ہے جسے ہمیں بھی گہرائی میں جاکر سمجھنا ہوگا۔
سادہ سی بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ جیٹ اسٹریم جہاں شمال کی سمت سے آنے والی یہ یورپ کی زیادہ ٹھنڈی ہواؤں کو جنوب کی گرم ہواؤں میں تقسیم کرتی ہے، مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شمالی نصف کرے کی اس تیز ہوا کا یہ بہاؤ ایک سمت سے دوسری سمت کی طرف کچھ زیادہ ہی لڑکھڑانے لگتا اور حرکت کرنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں شمالی افریقا کی طرف ہواؤں کے درمیان بہت سے بڑے اور چھوٹے شگاف یا درزیں (جھریاں) بن جاتی ہیں، اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے درحقیقت افریقا سے یورپ کی طرف گرم ہوا چل پڑتی ہے۔ اگر ان گرم ہواؤں کا یہ سلسلہ یورپ کے اوپر زیادہ دن تک برقرار رہے تو پھر یہ اس کی سطح کو گرم بلکہ کافی حد تک گرم کردیتی ہے۔
٭ ان درزوں یا جھریوں والی جیٹ اسٹریم (تیز گرم ہواؤں) نے خوف ناک صورت حال کیوں اور کیسے اختیار کرلی؟
اس کے جواب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی اور اہم وجوہ یہ ہیں کہ Arctic یا بحرمنجمد شمالی میں درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن نہ تو ہم اس پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اس تبدیلی کی حقیقت کو اصل تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ ہم پچھلے دنوں میں اس حوالے ایک عام سی بات کو ہی بار بار دہراتے رہے ہیں کہ ہمارے کرۂ ارض کے موسمیاتی پیٹرن کا یہ ایک نمونہ بن چکا ہے اور جیسے جیسے یہ جیٹ اسٹریم مزید جنوب کی طرف بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے یورپ مزید گرمی میں مبتلا ہوتا چلا جارہا ہے۔
٭انڈیا اور پاکستان میں خوف ناک اور ناقابل برداشت گرمی
اس وقت صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ مئی کے وسط اور جون 2019 تک انڈیا اور پاکستان میں شدید ترین گرمی نے ان علاقوں کو اور ان میں رہنے والوں کو گرمی سے نڈھال کردیا ہے۔ ایک تو گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور اوپر سے یہاں آنے والا بارشوں کا مون سون سسٹم بھی مسلسل تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔ اس گرمی کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہیں جن میں بارشوں کا تاخیر سے آنے والا مون سون سسٹم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں مسلسل بڑھتی ہوئی گرمی کے صحت پر پڑنے والے اثرات ابھی تک غیر واضح ہیں اور دیگر وجوہ کی بنا پر یہ صحت عامہ کو بھی بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔ ان میں ایک بہت بڑا اور اہم سبب اس خطے میں ہوا میں نمی کا بڑھتا ہوا تناسب humidityاور فضائی آلودگی کی بلند سطحیںair pollution levels ہیں۔پھر مزید یہ کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس خطے میں 1970 کے عشرے سے اس بڑھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فضائی ٹمپریچرز کے مجموعی رجحان کا کیا سبب ہے۔
Karsten Haustein کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں تک آب و ہوا میں اس اہم اور غیرمتوقع تبدیلی کا تعلق ہے تو یہ اسی طرح کا کام ہے جیسا ہم نے 2016 میں انڈیا میں گرمی کی شدید ترین لہر پر کیا تھا۔ اس میں انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں وہ ریکارڈ توڑ ٹمپریچر بھی سامنے آیا تھا جو 51° سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا تھا۔انڈیا کے 2019 کے یہ ٹمپریچرز بھی قدرتی اور سال بہ سال بدلتے ہوئے ہیں۔ہم نے اس ضمن میں ایک تفصیلی تجزیہ بھی کیا تھا اور یہ نتیجہ نکالا تھا کہ پورے انڈیا میں گرم مہینوں میں درجۂ حرارت زیادہ واضح طور پر نہیں بڑھ رہے ہیں۔
٭2018 میں یورپ میں گرمی خوف ناک ترین لہر کا تجزیہ کرتے ہوئے کنسورشیم نے کیا نتیجہ نکالا؟
اس سوال کے جواب میں Karsten Haustein نے بتایا کہ عالمی سطح پر گرمی کی شدت اور فریکوئنسی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
Heat waves in Europe کی رپورٹ جیسی کہ 2018 میں پیش ہوئی تھی، مگر یہ کم از کم دگنی ہوچکی تھی اور آب و ہوا کی یہ تبدیلی پورے ہی خطے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ساری صورت حال کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن میں کیسی اور کون سی حکمت عملیاں اختیار کی جاسکتی ہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے البتہ یہ سب قدرت کے کھیل ہیں اور وہی جانتی ہے کہ یہ کب اور کیسے قابو کی جاسکتی ہیں، فی الحال تو دیکھو اور انتظار کرو والی صورت حال ہے۔
The post یورپ میں قیامت خیز گرمی appeared first on ایکسپریس اردو.