قسط نمبر 50
آپ نے چاچا بُوٹا کی رُوداد حج تو پڑھ لی کہ کیسے چاچا بُوٹا، بابا بُوٹا میں ڈھل گئے۔ اُس حج نے ان کا جیون یک سر بدل دیا اور وہ اشتعال سے اطمینان میں داخل ہوئے، وہ جو خلق خدا کا جیون اجیرن کیے ہوئے تھے، کیسے ان کے لیے رحمت خداوندی میں بدل گئے، وہ جن سے خالق کی مخلوق بے زار رہتی تھی، کیسے ان کی مشتاق رہنے لگی، اور وہ جو مخلوق پر عذاب بن کر مسلط ہوگئے تھے، کیسے باران رحمت میں ڈھل گئے، وہ جن کے شر سے لوگ پناہ مانگتے ہوئے، ان کی طول عمری کے لیے دعائیں مانگنے لگے۔ بابا بُوٹا ایک ہی جست میں وہ کچھ پاگئے جسے حاصل کرنے کے لیے یہ جیون بھی کم ہے۔ اسے ہی کہتے ہیں حج مقبول و مبرور۔
تو چلیے جب بات چھڑ ہی گئی ہے تو ہم اسے آگے لے جانے کی سعی کرتے ہیں۔ چند دن بعد آپ وہ منظر دیکھیں گے جو آپ اور ہم ہر سال دیکھتے ہیں۔ وطن عزیز ہی کیا سارے عالم کے قریے قریے سے عُشاق کے قافلے نکلیں گے اور ان کا رخ سُوئے حرم ہوگا۔ ہر بندۂ مومن اور مومنہ کی دل کی آرزو ہے اس گھر کی زیارت، بعض تو سارا جیون اس کے زاد راہ کے لیے ٹکا پیسا پائی جوڑ کر تیاری کرتے ہیں، خود بھوکے رہ جاتے ہیں لیکن موت سے پہلے اپنے خالق کے گھر کا طواف کرنے کو مچلتے رہتے ہیں۔ مالک ان کی مساعی کو اپنے دربار عالیہ میں منظور و مقبول فرمائے۔ اور پھر وہ منظر بھی جب وہ آنکھوں میں اشکوں کی برسات لیے واپس اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔
فقیر دیکھتا ہے… شاہ راہ فیصل سے گزرتے ہوئے کتنے خوب صورت لگتے ہیں وہ … گلاب کے تازہ پھولوں کے ہار ڈالے… کاندھے پر بیگ لٹکائے… سرمنڈائے اور سامان تحائف سے لدے پھندے ۔ بہت اچھے لگتے ہیں وہ… شانت اور آسودہ… واہ کیا بات ہے ان کی! ہاں وہ فقیر کو بہت پیارے لگتے ہیں۔ لاکھ سہولتیں سہی… آسائشیں اور آسانیاں بجا… مگر گھر کے سُکھ، چین اور آرام کو تج کر اپنے رب کے حضور پہنچنے والے خاص بندے… اور پھر وہاں اُسے روتے ہوئے… آنسوؤں کی برسات میں پکارنے والے: ’’لبّیک لبّیک‘‘ میں حاضر ہوں… میں حاضر ہوں میرے مالک، میں حاضر ہوں۔ دیکھ مجھے میں بھی تو ہوں اس قافلۂ عشاق کا اک عاجز بندہ۔ دیکھ میری جانب میں آگیا ہوں تیرے دربار میں کھڑا ہوں اور تیری رضا چاہتا ہوں، لبّیک، لبّیک، لبّیک، حاضر، حاضر، حاضر، بس میری طرف دیکھ لے مالک۔
یہ عرفان ستّار کس وقت یاد آئے، وہ جہاں رہیں، خوش رہیں
کُوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہُوں
اگر آپ خوش نصیبی سے اس منظر کا حصہ رہے ہیں تو سبحان اﷲ، کیا کہنے! اور اگر نہیں رہے تو رب تعالٰی آپ کو اس منظر کا حصہ بنائے، لیکن اب تو برقی ذرائع ابلاغ اتنے عروج پر ہیں کہ وہ یہ منظر لمحہ بہ لمحہ سب کو دکھاتے ہیں۔ سُوئے حرم اور دیار حبیبؐ سے لوٹنے والوں کو مبارک باد دینا چاہیے… ہاں وہ بہت خوش نصیب ہیں… بہت نصیب والے۔ اﷲ سب کو سلامت رکھے اور پھر سے طلب بھی فرمائے۔
اچھا تو اب فقیر یہاں سے کسی اور سمت نکل رہا ہے… کہاں؟ یہ تو وہ بھی نہیں جانتا۔ لیکن ایک بات سن لیجیے… فقیر کی بات سے آپ متفق بھی ہوں یہ ضروری نہیں… بالکل بھی نہیں… مانیں نہ مانیں۔ لیکن فقیر ایک بات کررہا ہے، سن تو لیجیے… ہاں آپ کا ظرف بہت بڑا ہے… آپ فقیر کی ہر بات سن لیتے ہیں… اور پھر بات آگے چلتی ہے۔ ضروری تو نہیں کہ فقیر کی ہر بات درست ہو۔ انسان ہوں، غلطیاں کرتا رہا ہوں، کرتا رہوں گا۔ آپ اسے دل پر نہ لے لیجیے گا… بس یہ کہہ رہا ہوں معاف کردیا کیجیے… یہی تو انسان کا سب سے بڑا وصف ہے۔ وسیع القلبی اور اعلٰی ظرفی اسے ہی تو کہتے ہیں۔
تو فقیر کہہ رہا تھا کہ اس کا ایک پاگل سے بہت گہرا ناتا ہے… ایک دن بہت عجیب سی بات کی تھی اُس نے… فقیر کو تو اچھی لگی اور ڈرا بھی بہت۔ یہی موسم تھا… سب جارہے تھے… اپنے رب کے گھر۔ فقیر کو یہ منظر بہت اچھا لگتا ہے۔ فقیر نے کہا: تُو دیکھ رہا ہے ناں! کتنے خُوش نصیب ہیں یہ سُوئے حرم جانے والے، لبّیک، لبّیک پکارنے والے… تو وہ خاموش ہوگیا۔ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں۔ سب دوست جا چکے تھے تب فقیر نے اسے پھر کہا: سُوئے حرم اور دیار حبیبؐ، کیا بات ہے جانے والوں کی، ہے ناں…! لیکن وہ خاموشی کو اوڑھے رہا، بالکل خاموش، تب فقیر کو بولنا پڑا : تُو کچھ بولتا کیوں نہیں… کیا ہوا ہے تجھے!
تب وہ بولا : ’’ہاں ، ہاں بہت نصیب والے ہیں، لیکن…‘‘
’’ہاں بول، رک کیوں گیا، لیکن کیا ؟‘‘ فقیر کو اسے پھر جِھنَجوڑنا پڑا، تب وہ بولا:
’’ دیکھ بات بہت بڑھ جائے گی۔‘‘
تو بڑھنے دے… بول تو۔ فقیر بہ ضد تھا تب وہ کہنے لگا: ’’ مسئلہ کچھ اور ہے، سب طلب نہیں کیے جاتے…‘‘
فقیر نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا مطلب سب طلب نہیں کیے جاتے! تو پھر کیا ہے یہ سب کچھ…‘‘
تب اس نے فقیر پر ایک راز کھولا اور گویا ہوا: ’’ہاں یہ ہے اصل بات۔ دیکھ خالق کائنات تو منتخب بندوں کو طلب کرتا ہے۔ سب کو نہیں… لیکن اکرام سب کا کرتا ہے… رحمت کی بارش سب پر ہوتی ہے… کوئی محروم نہیں رہتا داتا کے گھر میں…‘‘
فقیر تو ویسے بھی پرلے درجے کا احمق ہے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے چلا جارہا ہے، آپ کو بھی الجھن سی ہورہی ہوگی کہ آخر یہ کیا ہے پھر۔
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا: ’’دیکھ ہمارے گھروں میں کتنے مہمان آتے جاتے رہتے ہیں… روزانہ، کبھی ہفتے میں، کبھی مہینے میں… لیکن سب کو تو ہم طلب نہیں کرتے ناں۔‘‘
فقیر نے کہا: ہاں، ہاں ایسا ہی ہے، تُو سچ کہہ رہا ہے۔
پھر وہ بولا: ’’لیکن سُن، جب کوئی مہمان گھر آجائے تو ہم کیا کرتے ہیں… یہی ناں کہ ہم چائے کا وقت ہو تو چائے پلاتے ہیں، بسکٹ، کیک، پیسٹری، سموسے جو اہتمام ہوسکتا ہو، ہم کرتے ہیں۔ ہم انہیں کھانا کھلاتے ہیں، بہت عزت و احترام سے پیش آتے ہیں، ہم اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں کہ وہ خوش ہوکر جائیں، خفا نہ ہوجائیں… ہماری کوشش ہوتی ہے وہ خوش خوش جائیں۔ لیکن ہم انہیں طلب تو نہیں کرتے ناں… وہ خود آجاتے ہیں بن بلائے… اچھا دوسرے مہمان وہ ہوتے ہیں جن سے ہم بہت اصرار کرتے ہیں کہ آپ ضرور آئیے ہمارے گھر… ہمارے ساتھ کھانا کھائیے … کچھ دیر قیام کیجیے… ہمیں بھی خدمت کا موقع دیجیے۔ ہم ان سے درخواست کرتے رہتے ہیں، اور پھر ہماری امید بر آتی ہے اور وہ وعدہ کرلیتے ہیں ٹھیک ہے ہم ضرور آئیں گے… تو ہم بہت بے صبرے ہوکر پوچھتے ہیں، کب آئیں گے آپ؟ تو وہ وقت بتاتے ہیں کہ ہم آئیں گے فلاں دن… ہماری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا کہ واہ واہ وہ ہمارا کہا مان گئے۔ کتنی خوشی و مسرت ہوتی ہے ہمیں… اور پھر جب وہ دن قریب آنے لگتے ہیں ، تب ہماری تیاریاں بھی زور پکڑنے لگتی ہیں، یہ کمرہ انہیں دیں گے، یہ سہولت وہ آسائش… کھانے پینے کی نعمتیں ہم جمع کرنے لگتے ہیں کہ ہماری دعوت پر وہ آرہے ہیں… اور پھر وہ گھڑی جس کا ہم شدت سے انتظار کرتے ہیں… تُو وہ کیا شعر سنا رہا تھا اس دن ؟ ہاں یاد آیا:
اے میرے دل کے چین، مرے دل کی روشنی
آ اور صبح کردے شبِ انتظار کی
بس اس طرح کی بات… اور پھر وہ وقت ، وہ گھڑی، وہ لمحہ آتا ہے جب وہ آجاتے ہیں تو لگتا ہے بہار آگئی… نسیم صبح اترائے پھرتی ہے… ہمیں ہر چیز رقص کرتی نظر آتی ہے… مسرت جھومتی ہے اور مسکراہٹ اترائے پھرتی ہے، دل کی کلی کِھل کر گُل میں ڈھل جاتی ہے…! واہ واہ کیا بات کریں، کیسے اپنی کیفیت کو بیان کریں۔ ہمارا والہانہ پن جسے تم اپنا پن کہتے ہو، سب کچھ سارے منظر خوش نما اور موسم سہانا لگنے لگتا ہے۔ جب تک وہ رہتے ہیں، ہمیں کوئی تھکن نہیں ہوتی، ہم بے زار نہیں ہوتے، تنگ نہیں پڑتے… بل کہ ہنسی خوشی ان کی خدمت کرتے ہیں… بار بار کہتے ہیں تکلّف بالکل مت کیجیے گا، بالکل بھی نہیں، اسے اپنا گھر سمجھیے گا۔ یہ کھالیجیے وہ نوش جاں کرلیجیے، ہم نے بڑی چاہت سے، بہت محبت سے، بہت ہی خلوص سے یہ بنایا ہے… اور جب وہ کہتے ہیں: کتنا اچھا بنایا ہے آپ نے، کتنا لذیذ ہے یہ، کتنا مزے دار ہے… تو آپ ہوا میں اڑنے لگتے ہیں۔ پھر ان کے لیے تحائف خریدتے ہیں، یہ آپ کے لیے ہے، قبول کرلیجیے، ہماری خوشی کو بڑھا دیجیے۔ ہم اپنی آنکھیں ان کی راہ میں بچھا دیتے ہیں۔ دل کے دریچے وا کردیتے ہیں کہ دیکھیے آپ یہاں قیام پذیر ہیں اور ہم کتنے خوش۔‘‘
یہاں پہنچ کر وہ پھر خاموش ہوگیا۔ فقیر بہت عجلت پسند ہے جیسا کہ ہر احمق و نادان و ناسمجھ ہوتا ہے تو وہ لمحات بہت اذیت پہنچاتے ہیں، جب بات ادھوری اور تشنہ رہ جائے… فقیر بے چین ہوگیا لیکن اس کی خاموشی ختم نہیں ہورہی تھی تو فقیر نے کہا: آگے بھی تو بول، چپ کیوں ہوگیا؟
تب وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: ’’مجھے معلوم تھا، بے وقوف آدمی اب بھی نہیں سمجھا… دیکھ، پھر یہ ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے دن قریب آنے لگتے ہیں، اور ہماری بے کلی بڑھنے لگتی ہے، بے چینی ہونے لگتی ہے، ہمیں تھوڑا تھوڑا سا غصہ آنے لگتا ہے۔ ان پر نہیں خود پر، کہ ہم کیسے رہیں گے ان کے بغیر کیا ہوگا… اور ہمارا اہتمام بڑھنے لگتا ہے، ہمیں سمجھ نہیں آتا کیا کچھ کر گزریں ان کے لیے… اور پھر وہ لمحہ آ پہنچتا ہے کہ وہ رخصت ہونے لگتے ہیں… ہم پھر بھی ان آخری لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی سعی کرتے ہیں، ہاں اسٹیشن چلیں گے… ایئرپورٹ چلیں گے… یا ہم انہیں لاری اڈے پر رخصت کرنے جاتے ہیں… اور پھر ہماری آنکھیں بے اختیار اشک بار ہوجاتی ہیں… ہم کوشش بھی کرتے ہیں لیکن کچھ کام نہیں آتا… اور آخری گھڑی ہم التجا کرتے ہیں، آپ ضرور آئیے گا دوبارہ، آپ جس عزت و اکرام کے مستحق تھے وہ ہم سے نہ ہوسکا… اور وہ کہتے ہیں: نہیں نہیں آپ نے تو ہمارا دل جیت لیا، ہم تو جارہے ہیں، پر دل تو یہیں چھوڑے جارہے ہیں… بس اس طرح کی باتیں اور پھر وہ چلے جاتے ہیں اور ہم بجھے بجھے سے اپنے گھر لوٹتے ہیں۔ کچھ اچھا نہیں لگتا ہمیں۔ ابھی کچھ دن پہلے بل کہ کچھ گھڑیاں پہلے تو سب کچھ سہانا تھا، ہمیں ہر چیز اچھی لگ رہی تھی، ہر موسم سہانا لگ رہا تھا… وہ سب کچھ چند لمحے بعد بے رنگ ہوجاتا ہے اور ہم پھر سے اداس ہوجاتے ہیں، بے کل ہوجاتے ہیں… بس ایسا ہوجاتا ہے… اور پھر ہم انہیں پیغام بھیجتے ہیں:’’I Miss you‘‘ ہم آپ کو بے انتہا چاہتے ہیں… آپ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ حالاں کہ سب کچھ وہی ہوتا ہے، اندر سے بدل جاتا ہے آدمی۔ وہ تُو بتا رہا تھا ناں کہ تیرا ایک دوست یہ بہت گاتا ہے اور پھر روتا بھی ہے۔ وہ کیا تھا ؟ ہاں وہ تھا:
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
تو بس ایسا ہوجاتا ہے۔ ’’وہ ہوتے ہیں ہمارے منتخب مہمان۔‘‘
فقیر کو پھر کچھ کچھ سمجھ میں آگیا تھا۔ فقیر محسوس کررہا تھا… لگتا ہے کہ آپ کو بھی کچھ کچھ سمجھ میں آرہا ہوگا۔ بس آپ اسے محسوس کیجیے۔ فقیر نے دانا سے جسے یار لوگ پاگل سمجھتے تھے سے دریافت کیا: تو پھر ایسا کیا کریں کہ ہم بھی منتخب مہمان بن جائیں؟ تب دانا نے بتایا: ’’ آسان ہے، بہت آسان، دیکھ یہ جو بابے اقبال نے بتایا ہے ناں کہ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے! اب نادان خودی کو انا سمجھتے ہیں، نہیں ، نہیں خودی انا نہیں ہوتی وقار کو کہتے ہیں خودی، خود شناسی کو کہتے ہیں خودی، توکل کو کہتے ہیں خودی، بس مالک کا بن جانا خودی ہوتا ہے، بس مالک پر یقین کامل کو کہتے ہیں خودی، مالک کی رضا پر تسلیم کو کہتے ہیں خودی، اور جب بندہ یہ منزل سر کرلے تب مالک اسے اعزاز بخشتا ہے اور پھر خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔‘‘
فقیر نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر سے دریافت کیا: بہت مشکل راستہ ہے یہ تو، کوئی اس سے آسان راستہ نہیں ہے؟
وہ مسکرایا اور ان کے دھن سے پھول جھڑے: ’’ ہاں ہے ناں اور بہت آسان، ساری مشکلات کا حل اور رب کا مقرب و منتخب بننے کا آسان راستہ، کہ جو اسے اختیار کرے گا یقیناً رب کا منتخب ہی نہیں، مقرب و چہیتا بھی بن جاتا ہے۔‘‘
فقیر کی بے چینی انتہا کو چُھونے لگی، ایسا لگتا تھا جیسے دل کی دھک دھک ٹھہر جائے گی لیکن وہ خاموش تھے تب فقیر کی چیخ بلند ہوئی کہ وقت نہیں رہا جلد بتائیے کہ وہ کون سا آسان راستہ ہے۔
دانا مسکرائے اور اس راز کو افشاء کردیا:
کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
پھر فقیر کے سامنے ایک روشنی سی ہوئی اور وہ جان پایا اوہو! تو یہ جوہر ہے… پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا… جس کے پاس بھی زاد راہ ہے، وہ چل پڑتا ہے… بعض تو ہر سال جارہے ہیں… کتنی سہولتیں ہیں، آسائشیں ہیں اور اشتہارات بھی… حج پیکیج، عمرہ پیکیج… اور اس میں نوید ہے ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی آپ کو… بالکل اپنے گھر جیسا سمجھیے۔ تو بس لوگ جارہے ہیں، آرہے ہیں… جانا بھی چاہیے اگر زادہ راہ ہے تو۔
لیکن اب یہ تو فقیر کو نہیں معلوم، کتنے منتخب ہوتے ہیں، طلب کیے جاتے ہیں، بہت محبت سے مدعو کیے جاتے ہیں ۔ ایسے میں فقیر کو اقبال بابے یاد آتے ہیں، نہ جانے کس ترنگ میں، کتنی محبت سے کہہ دیا انہوں نے… یہ ہر ایک تو نہیں کہہ سکتا، یہ تو تعلق کی بات ہے۔
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِجہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر
اور کتنے ایسے ہیں جو بن بلائے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ تو آپ کو اپنے اندر سے معلوم ہوسکتا ہے، کسے طلب کیا تھا کون بن بلائے پہنچ گیا۔
بس اتنی سی بات تھی۔ دل آزاری نہیں کررہا تھا، بالکل بھی نہیں، ایسا تو فقیر سوچ بھی نہیں سکتا، بس اپنے اندر جھانکنے کا کہہ رہا تھا… آپ کو بُرا لگا ہو تو معاف کردیجیے گا، بھول جائیے گا، یہی تو اعلیٰ ظرفی ہے۔
فقیر اجازت چاہے گا… رب نے چاہا تو ملیں گے ہم۔ ٹھیک ہے باتیں ہوں گی، جھگڑیں گے بھی اور گلے شکوے بھی ہوں گے، لیکن رہیں گے ہم ساتھ… کہ تعلق اسی کا نام ہے۔ فقیر کی حاضری کو قبول کیجیے، سدا خوش رہیے۔
دیکھیے! آپ نے سنا ہوگا ، بارہا سنا ہوگا، فقیر کی ہمت و استطاعت نہیں، لیکن بہ صد احترام یہ بتانے کی جسارت کر رہا ہے کہ آپ نے سنا ہوگا:
پیغام صبا لائی ہے دربارِ نبیؐ سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبیؐ سے
اگر ایسا ہی ہے تو آپ انتہائی خوش نصیب ہیں، رب تعالی ہمیں ایسا بنا دے ، فقیر تو یہ کہنے کی جسارت ہرگز نہیں کرسکتا جب کہ آرزو تو بس یہی ہے۔ فقیر آگے نہیں بڑھ پائے گا، رخصت ہوتا ہے۔
عشق والوں کو عشق نے ڈھونڈا
عقل والوں کو عقل نے چھانا
ہوش آتا ہے جب تو یاد تری
تھپتھپاتی ہے درد کا شانہ
The post جہاں گشت: دیکھ! خالق کائنات تو منتخب بندوں کو طلب کرتا ہے۔ سب کو نہیں… ! appeared first on ایکسپریس اردو.