لاکھوں سال سے سمندر کی گہرائیوں میں موجود کئی سو فٹ لمبے، خطرناک، رونگٹے کھڑے کردینے والے دیوہیکل عفریت لیکن بے حد خوب صورت جانور گوڈزیلا کی زندگی کے پہلوؤں کو اجاگر کرتی فلم ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کا انتظار دنیا بھر کے شائقین بے چینی سے کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فلم نے ریلیز ہوتے ہی دنیا بھر میں دھوم مچادی اور اب تک کروڑوں ڈالرز کا بزنس کرچکی ہے۔ لیکن کیا واقعی یہ فلم اس قابل ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاسکیں؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
31 مئی 2019 کو ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ فلم ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کو مائیکل ڈورٹی نے ڈائریکٹ کیا ہے جب کہ فلم کی کہانی ڈورٹی، زیک شیلڈز اور میکس بورینسٹین نے مل کر لکھی ہے۔ یہ فلم 2014 میں ریلیز ہونے والی ہالی ووڈ فلم ’’گوڈزیلا‘‘ کا سیکوئل ہے۔ ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ پر بات کرنے سے قبل اس کی تھوڑی سی تاریخ جان لیتے ہیں۔ یہ فلم گوڈزیلا فرنچائز کی 35 ویں فلم ہے۔ اس فرنچائز کی پہلی فلم 1954 میں ’’گوڈزیلا‘‘ (جاپانی میں اسے گوجیرا کہا جاتا ہے) کے نام سے ریلیز ہوئی تھی جسے جاپان کی پروڈکشن کمپنی توہو نے پروڈیوس کیا تھا۔ فلم کی غیرمعمولی کام یابی کے بعد اس کمپنی نے مزید گوڈزیلا فلمیں پروڈیوس کیں اور اب تک گوڈزیلا فرنچائز کی 35 فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں۔ اس فرنچائز کی 32 فلمیں توہو پروڈکشن نے پروڈیوس کی ہیں جب کہ تین فلمیں ہالی ووڈ میں بنی ہیں۔
ہالی ووڈ میں گوڈزیلا فرنچائز کی پہلی فلم مئی 1998 میں ریلیز ہوئی تھی جسے رونالڈ ایمرچ نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ یہ گوڈزیلا فرنچائز کی 23 ویں فلم تھی جسے مکمل طور پر ہالی ووڈ اسٹوڈیو نے پروڈیوس کیا تھا۔ فلم میں میتھیو بروڈرک، ماریا پیٹیلو اور جین رینو نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلم کہانی، گرافکس اور اینی میشن، ہر لحاظ سے بہترین تھی۔ فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح فرانس کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں سے نکلنے والی تابکاری نے چھوٹی چھپکلیوں کو بڑے بڑے دیوہیکل گوڈزیلا میں تبدیل کردیا تھا، جن سے دنیا اور انسانوں کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ چونکہ یہ فلم امریکا میں بنی تھی لہٰذا فلم میں دکھایا گیا کہ یہ نیوکلیئر ٹیسٹ فرانس نے کیے تھے، لہٰذا فرانسیسی حکومت اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے کیلیے خفیہ ادارے کے چند لوگوں کو امریکا بھیجتی ہے جو فلم کے ہیرو امریکی ڈاکٹر نک ٹاٹو پولس (میتھیو بروڈیرک) کے ساتھ مل کر اس بڑی چھپکلی (گوڈزیلا) کا خاتمہ کرتے ہیں۔
اس فلم میں کئی مناظر ہیں جو دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں، جیسے کہ فلم میں کیمرا مین ’’اینیمل‘‘ جو گوڈزیلا کی تصاویر اتارتے وقت اس دیوہیکل جانور کے پیروں کی انگلیوں کے درمیان آجاتا ہے۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے ایک لمحے کے لیے تو دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے، تاہم جب کیمرامین کی جان بچتی ہے تو جان میں جان آتی ہے۔ اسی طرح بڑی بڑی بلڈنگوں کے درمیان گوڈزیلا اور فائٹر پائلٹس کی لُکا چھپی کا کھیل ہو یا سمندر کے اندر گوڈزیلا اور آبدوز میں موجود انسانوں کے درمیان زندگی اور موت کی لڑائی! فلم کا ہر منظر شائقین کو آنکھیں مسلسل اسکرین پر جمائے رکھنے پر مجبور رکھتا ہے۔
فلم میں صرف گوڈزیلا پر ہی فوکس نہیں کیا گیا بلکہ دیگر کرداروں پر بھی اتنی ہی محنت کی گئی ہے کہ جتنی گوڈزیلا کے کردار پر۔ فلم میں ڈاکٹر نک اور نیوز رپورٹر آڈری (ماریا پیٹیلو) میں رومانس کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے، جب کہ ایکشن اور جذباتی مناظر بھی دیکھنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔ مثلاً گوڈزیلا کے بچوں کی موت کے وقت اس دیوہیکل جانور کی اپنے بچوں سے محبت اور ان کی موت کا بدلہ لینے کے لیے فلم کے مرکزی کرداروں کا پیچھا کرنے والے مناظر شائقین کو بھی جذباتی کردیتے ہیں۔ 1998 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم ہر طرح سے ایک بہترین فلم تھی لیکن اس کے باوجود یہ باکس آفس پر مایوس کن ثابت ہوئی جس کے بعد فلم کا سیکوئل بنانے کا ارادہ بھی ترک کردیا گیا۔
تاہم ہالی ووڈ نے 16 سال بعد ایک بار پھر گوڈزیلا بنانے کا بیڑا اٹھایا اور 2014 میں ’’گوڈزیلا‘‘ دوبارہ اسکرین پر اپنا خوف پھیلانے آگیا۔ اگر آپ ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ دیکھنے کا ارادہ کررہے ہیں تو اس سے پہلے آپ کو 2014 میں ریلیز ہونے والی ’’گوڈزیلا‘‘ دیکھنی پڑے گی ورنہ اس کی کہانی آپ کے بالکل بھی پلے نہیں پڑے گی۔ لہذٰا ’’کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کے بارے میں بات کرنے سے قبل 2014 کی ’’گوڈزیلا‘‘ کی کہانی کو تھوڑا سا کھنگالنا پڑے گا۔
2014 میں ریلیز ہوئی ’’گوڈزیلا‘‘ کی کہانی 1998 میں ریلیز ہوئی فلم سے بالکل مختلف تھی۔ اس فلم میں امریکیوں کو جاپان پر کیے گئے ایٹمی حملوں کی وضاحت دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ 40 کی دہائی میں امریکا کی جانب سے جاپان پر گرائے گئے ایٹم بم دراصل گوڈزیلا کو مارنے کی کوشش تھی اور وہ یہ جان لیوا دھماکے کرکے دنیا کو گوڈزیلا سے بچارہے تھے۔ (کیا مذاق ہے! جیسے ساری دنیا کو بچانے کا بیڑا صرف امریکا نے اٹھایا ہوا ہے؛ اور باقی پوری دنیا کے سائنس داں، ذہین و فطین لوگ صرف امریکی فتوحات دیکھنے کے لیے ہی دنیا میں آئے ہیں) اس فلم میں ہمیں مونارک نامی تنظیم سے بھی متعارف کروایا گیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
خیر! فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے اور انکشاف ہوتا ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے نکلنے والی ریڈی ایشن (تاب کاری) کو گوڈزیلا اپنی غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے اور یہ ریڈی ایشن اسے طاقت دیتی ہے، جس کی وجہ سے گوڈزیلا لاکھوں سال تک دنیا میں اپنا وجود برقرار رکھنے میں کام یاب ہوا ہے۔ اس فلم میں صرف گوڈزیلا پر ہی فوکس نہیں رکھا گیا بلکہ لاکھوں سال قبل دنیا پر حکومت کرنے والے مزید دیوہیکل مکڑی نما جانوروں ’’میوٹو‘‘ کو بھی دکھایا گیا ہے۔ فلم میں ان جانوروں اور گوڈزیلا کے درمیان دنیا پر حکم رانی کے لیے ہونے والی لڑائی دیکھنے کے قابل ہے جس کے ہر منظر پر سانسیں رک جاتی ہیں۔
’’گوڈزیلا‘‘ کی ریلیز کے 5 سال بعد یعنی 31 مئی 2019 کو اس کا سیکوئل ’’گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز‘‘ کے نام سے ریلیز کیا گیا ہے۔ فلم کی کہانی امریکی سائنس داں ایما سے شروع ہوتی ہے جس کا تعلق مونارک نامی تنظیم سے ہے جسے گوڈزیلا سمیت دیگر دیوہیکل جانوروں کو مارنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن یہ تنظیم اپنے اصل کام کو چھوڑ کر گوڈزیلا کو بچانے میں لگ جاتی ہے۔ مونارک سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایما ’’اورکا‘‘ نامی مشین بناتی ہے جس سے نہ صرف گوڈزیلا جیسے مونسٹرز کی باتیں سمجھی جاسکتی ہیں، بلکہ ان سے اپنی باتیں منوائی بھی جاسکتی ہیں۔ اس بار فلم میں دیوہیکل مونسٹرز کی تعداد میں اضافہ کرکے فلم کو مزید خوف ناک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم میں گوڈزیلا کے علاوہ 17 دیوہیکل جانور دکھائے گئے ہیں جنہیں ’’ٹائٹنز‘‘ کہا گیا ہے۔ تاہم فلم میں پورے 17 ٹائٹنز نہیں دکھائے گئے بلکہ صرف چار ٹائٹنز (گوڈزیلا، کنگ گیڈورا، روڈین اور موترا) کو فلم میں ایک دوسرے سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔
اس فلم میں گوڈزیلا کو پچھلی فلموں کی نسبت زیادہ بڑا، خطرناک اور بے حد شان دار دکھایا گیا ہے جو کنگ گیڈورا (تین منہ والے ڈریگن) کو مار کر ثابت کرتا ہے کہ وہی دنیا کا اصل بادشاہ ہے۔ فلم میں کنگ گیڈورا اور گوڈزیلا کے درمیان کئی ایکشن سینز ہیں جو بلاشبہ دیکھنے والوں کو دنگ کردیتے ہیں۔ پچھلی فلم (2014 میں ریلیز ہوئی فلم) کی نسبت اس بار ’’گوڈزیلا‘‘ میں اینی میشن اور گرافکس کا استعمال بھی بخوبی کیا گیا ہے جب کہ اسکرین پر گوڈزیلا کی موجودگی کا ٹائم پچھلی فلم سے زیادہ ہے۔ فلم میں جب گوڈزیلا اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کے جسم سے خارج ہونے والی نیلی روشنی نہایت خوب صورت لگتی ہے۔ اسی طرح فلم میں روڈن دیوہیکل پروں والے شان دار پرندے کی انٹری بھی کمال کی ہے۔ روڈن جہاں جہاں سے گزرتا ہے، اس کے دیوہیکل پروں کی زد میں آکر بلڈنگوں کے تباہ ہونے کے مناظر کو اتنی خوبی سے فلمایا گیا ہے کہ شائقین اس منظر کے سحر میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اینی میشن اور گرافکس کے لاجواب استعمال سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ فلم میں بے تحاشہ پیسہ لگایا گیا ہے۔
تاہم جہاں فلم سازوں نے گوڈزیلا کو رواں سال کی سب سے شان دار فلم بنانے کے لیے بے تحاشہ پیسے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے، وہیں فلم کی کہانی اتنی ہی کم زور ہے۔ فلم میں شامل انسانی کردار شائقین کو کہیں پر بھی فلم سے جوڑ نہیں پاتے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ انسان اور گوڈزیلا دشمن نہیں بلکہ ایک ہیں۔ اس کے باوجود گوڈزیلا اور انسانوں کے درمیان جذباتی مناظر کا بے حد فقدان نظر آتا ہے جس کے باعث کہانی بہت کم زور محسوس ہوتی ہے۔ فلم کے آخر میں گوڈزیلا کو دنیا کا اصل حکم راں دکھایا گیا ہے جس کے آگے باقی تمام جانور جھک کر اس کی بادشاہت قبول کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم فلم یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سلسلے کی اگلی فلم 2020 میں پیش کی جائے گی جس میں گوڈزیلا اور اسکل آئی لینڈ پر حکومت کرنے والے دیوہیکل گوریلا کنگ کانگ کو آمنے سامنے دکھایا جائے گا۔ اپنی اپنی دنیاؤں کے ان دونوں بادشاہوں کے درمیان دنیا پر حکمرانی کی جنگ یقیناً دیکھنے کے قابل ہوگی۔
اب بات کرتے ہیں فلم میں شامل امریکیوں کے ایجنڈے کی۔ کہنے کو تو ’’گوڈزیلا‘‘ کی کہانی محض فکشن ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن فلم کی کہانی سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکا بڑے بجٹ کی ان فلموں سے اپنے گناہوں کو دھونے کی کوشش کررہا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکا اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد تک گرسکتا ہے۔ 1945 میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کی جانب سے گرائے جانے والے ایٹم بموں کے اثرات آج بھی وہاں موجود ہیں۔ ان ایٹمی حملوں کی وجہ سے امریکا کے لیے دنیا بھر میں شدید نفرت پائی جاتی ہے، لہٰذا امریکا نے ’’گوڈزیلا‘‘ فلم کے ذریعے اپنی پوزیشن کلیئر کرتے ہوئے بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ جاپان پر ایٹم بم گرا کر دراصل دنیا کو گوڈزیلا جیسے جانور سے بچا رہے تھے۔
یقیناً، یہ فکشن کے نام پر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکا وہ واحد ملک ہے جس نے جنگ جیتنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں نہتے اور بے قصور لوگوں پر ایٹم بم کا استعمال کیا اور جاپان کے لاکھوں شہریوں کو نہ صرف موت کے گھاٹ اتارا بلکہ تاب کاری کے اثرات سے ان کی آئندہ نسلیں تک تباہ کردیں۔ 6 اگست 1945 میں جاپان کے شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم ’’لٹل بوائے‘‘ بم گرایا جس کے نتیجے میں 80 ہزار لوگ فوراً لقمہ اجل بن گئے، جب کہ اس بم کے اثرات سے بعد میں مرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
اس کے بعد بھی جاپان نے جنگ میں ہتھیار نہیں ڈالے تو امریکا نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے پہلے حملے کے تین روز بعد ناگاساکی پر ایک اور ایٹمی حملہ کیا اس ایٹم بم کا نام ’’فیٹ مین‘‘ تھا اور اس ایٹمی حملے کے نتیجے میں اندازاً 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا قتل عام کرنے کے بعد اب امریکا اپنے ان حملوں کی وضاحتیں فلموں کے ذریعے دینے کی کوشش کررہا ہے۔
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ہالی وڈ میں بننے والی تقریباً تمام سائنس فکشن اور ایکشن فلموں میں امریکا کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے اور امریکا کو دنیا کا واحد سہارا دکھایا جاتا ہے۔ دنیا پر چاہے ایلین حملہ کریں، خطرناک سونامی آئیں، یا گوڈزیلا جیسے دیوہیکل جانور دنیا کو نقصان پہنچائیں، امریکا کے کاندھے پر پوری دنیا کو بچانے کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ باقی ممالک کا کردار ثانوی بھی نہیں ہوتا، یا اگر ہوتا ہے تو وہ امریکا سے مدد مانگتے نظر آتے ہیں۔ نئی ’’گوڈزیلا‘‘ بھی اسی پرانی ’’ہالی وڈ سنڈروم‘‘ میں مبتلا نظر آتی ہے جس کے ذریعے امریکا نے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش تو ضرور کی ہے لیکن منہ کی کھائی ہے۔
The post گوڈزیلا: کنگ آف دی مونسٹرز appeared first on ایکسپریس اردو.