غزل
درپیش تجھے ہے جو سفر، رختِ سفر ہے؟
دینا جو پڑا راہ میں سَر دیکھ لو، سَر ہے
کشتی مری سیدھی نہیں چلتی کبھی دریا
چلتا ہوں ترے ساتھ اگر تجھ میں بھنور ہے
پہلے کبھی احساس تھا دکھ درد تھے بٹتے
اب دیکھنا پڑتا ہے کہاں دیدۂ تر ہے
بچتے ہیں اگر اس سے تو بچتا نہیں کچھ بھی
یہ کیا ہے انا مجھ سے مری زیر و زبر ہے
حسنین کریمین کی ہے چشمِ عنایت
احباب سمجھتے ہیں سحر اہلِ نظر ہے
(سحر شیرازی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
خونِ دل ہوتا رہا تلخیِ اظہار کے ساتھ
آدمی قتل کہاں ہوتا ہے تلوار کے ساتھ؟
پا بہ زنجیر اندھیرے میں مقید رکھنا
یہ کسی طور مناسب نہیں بیمار کے ساتھ
جان جانے کا کوئی خوف نہیں ہے مجھ کو
حق بہ جانب، میں کھڑا ہوں ترے انکار کے ساتھ
کون پونچھے گا مری آنکھ سے بہتے آنسو؟
کون سینے سے لگائے گا مجھے پیار کے ساتھ
روزِ اول سے غلامی کا شرف بخشا گیا
روزِ اول سے ہے نسبت مری سرکار کے ساتھ
میری فطرت میں وفا رکھی گئی ہے امجد
کس طرح ہاتھ ملاتا کسی غدار کے ساتھ
(حسین امجد۔ اٹک)
۔۔۔
غزل
یہ جو آہٹیں ہیں ادھر ادھر سبھی کُن کا دائمی ساز ہے
وہی جاودانِ جہاں جسے ذرا فہمِ سوز و گداز ہے
ہے جو لاشعور کا آئینہ کبھی کر تو اس کا بھی سامنا
کبھی جان لا کا یہ مرحلہ، ترا عکس عکسِ مجاز ہے
نہ ہو منحرف ارے بے خبر کبھی اپنی ذات پہ غور کر
یہ وجودِ خاک ہے لمحہ بھر، یہاں کس کی عمر دراز ہے
یونہی دربدر کی صعوبتیں تری اپنی سوچ کی ظلمتیں
اسی دَر پہ کھول یہ کلفتیں جو ازل سے بندہ نواز ہے
یہاں ہر بشر ہے تماش بیں، کوئی نکتہ داں کوئی نکتہ چیں
جو خلوصِ دل سے ہو کچھ قریں ترا ہر عمل وہ نماز ہے
یہ سجیل زیست کا مرحلہ ہے تغیرات کے زاویہ
تھا جو خط کبھی ہوا دائرہ، جو نشیب تھا وہ فراز ہے
(سجیل قلزم۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
رگوں میں آتش دبی، تمہاری ہی منتظر ہے
گَلوں پہ بہتی نمی، تمہاری ہی منتظر ہے
عروسہ مہندی لگائے ہے کس خیال میں چپ
سوال کرتی ہنسی، تمہاری ہی منتظر ہے
فلک سے گرتی یہ ساری بوندیں ہیں استعارہ
یہ موسموں کی کمی تمہاری ہی منتظر ہے
یہ پیڑ پودے، یہ سب پرندے ہیں محوِ حیرت
یہ گاؤں والی گلی تمہاری ہی منتظر ہے
ترستی بانہیں تمہاری خوشبو کا لمس ڈھونڈیں
یہ میری بہکی خوشی تمہاری ہی منتظر ہے
سنو، کہ جب تک نظر نہ آؤ، تو عید کیسی
تو عید میری، ابھی تمہاری ہی منتظر ہے
یہ میرے نغمے تمہارے سُر میں بنے ہیں باقی
یہ جو غَزل ہے، یہ بھی تمہاری ہی منتظر ہے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
پیاس بجھا سکتے ہو، بھوک مٹا سکتے ہو
آنسو پی کر اگلا دھوکہ کھا سکتے ہو
دل کو جانے والا رستہ بند پڑا ہے
آنا ہے تو بس آنکھوں تک آ سکتے ہو
میں اک سمت ہوں، اور بھی سمتیں ہیں دنیا میں
تم جس سمت بھی جانا چاہو، جا سکتے ہو
خالی کاندھے لے کر جانے والو، ٹھہرو
تم بھی میرے جتنا بوجھ اٹھا سکتے ہو
جسم پہاڑی رستہ ہے ڈھلوان کی جانب
اس رستے پر کتنا آگے جا سکتے ہو
دولت، شہرت، لالچ، خواہش، شوق، عقیدہ
اپنی مرضی کا پنجرہ بنوا سکتے ہو
(شہزاد نیر۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
دل کے زخموں کو بھر بھی سکتی ہوں
جاں سے اپنی گزر بھی سکتی ہوں
تُو اگر پیار سے کہے مجھ کو
تیری خاطر ٹھہر بھی سکتی ہوں
آخری سانس تک نبھاؤں گی
میں جو کہتی ہوں کر بھی سکتی ہوں
بات دل کی ہے سوچ لیجے گا
دل کو لے کر مکر بھی سکتی ہوں
مجھ سے نظریں چرا کے کیا حاصل؟
میں تو دل میں اتر بھی سکتی ہوں
میں جو چاہوں تو اپنی چھاگل میں
پورا تالاب بھر بھی سکتی ہوں
وہ کنول پیار سے اگر دیکھے
اس کی خاطر سنور بھی سکتی ہوں
(کنول ملک۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
میں نے تمہاری یاد کو رسوا نہیں کیا
جیسا کہا مُشیر نے ویسا نہیں کیا
تم نے تمام عمر مجھے درد ہی دیے
میں نے تمام عمر ہی شکوہ نہیں کیا
روتا رہا ہوں یاد میں تیری میں رات بھر
آنکھوں نے میری نیند سے سودا نہیں کیا
غیروں کے ساتھ اپنے بھی سب چھوڑتے گئے
میں نے تمہارے واسطے کیا کیا نہیں کیا
مجھ سے نہ یار خیر کی امید تُو لگا
میں نے تو اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا
کمرہ بِنا تمہارے نہیں جچ رہا تھا، پس!
کمرے میں، مَیں نے اپنے سویرا نہیں کیا
جانے کے بعد اس کے محبت نہیں ہوئی
سلمان میں نے عشق دوبارہ نہیں کیا
(سلمان منیر خاور۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
ناممکن ہے پر کرنا ہے
پانی کو پتھر کرنا ہے
شہروں کو ویرانی دے کر
صحراؤں میں گھر کرنا ہے
اتنی گہری آنکھیں گویا
ایک سمندر سر کرنا ہے
تصویروں سے مٹی جھاڑو
زخم کو تازہ تر کرنا ہے
منظر پر بے تابی چھڑکو
آنکھ کا چہرہ تر کرنا ہے
درد رمیض سنائی دے گا
شعروں کو منظر کرنا ہے
(رمیض نقوی۔ خوشاب)
۔۔۔
غزل
پل رہی ہیں نفرتیں دل میں لگن کوئی نہیں
بے صدا ہے شہر سارا ہم سخن کوئی نہیں
سر بہ زانو مجلس، ہر طرف گہرا سکوت
ایسا لگتا ہے شریکِ انجمن کوئی نہیں
ظلمتیں پھیلا رہا ہے روشنی کا دعوے دار
یہ عجب خورشید ہے جس کی کرن کوئی نہیں
ایک دل ہے زخمیِِ شمشیرِ ذوقِ رنگ و بو
صفِ یاراں میں قدر دانِ چمن کوئی نہیں
صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں نااہلوں کے نام
اس حقیقت میں ذرا تخمین و ظن کوئی نہیں
چھاننی میں چھان بیٹھا سو دفعہ میں یار سب
سنگ ریزے ہیں خلش لعل و رتن کوئی نہیں
(عباس خلش۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
احوال دلِ زار سنایا نہیں جاتا
جو راز عیاں ہو وہ بتایا نہیں جاتا
تم ہی یہ بتاؤ میں بھلاؤں تمہیں کیسے
اس دل سے کوئی نقش مٹایا نہیں جاتا
سر پھوڑنا مشکل نہیں ہوتا جنوں میں
دیوار سے عاشق کو لگایا نہیں جاتا
تعبیر ملے یا نہ ملے بات الگ ہے
آنکھوں سے مگر خواب چرایا نہیں جاتا
اس شہر کی توقیر ہیں جاذب ہی سے عاشق
عشاق کو نظروں سے گرایا نہیں جاتا
(سلیمان جاذب۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
ریکھاؤں سے صاف مقدر دکھتا ہے
ہر اک رستہ تجھ پہ آ کر رکتا ہے
پہلے تیری خوش بُو صادر ہوتی ہے
پھر یادوں کا اک گل دستہ بنتا ہے
تیرے خط بھی دو دھاری چنگاری ہیں
قاصد تو قاصد ہے قصبہ جلتا ہے
کون سا بازی اپنے حق میں کر لی ہے
تُو بھی تو بس باتیں کرتا رہتا ہے
نیند میں باتیں کرنا اچھی بات نہیں
میں نے پہلے بھی خمیازہ بھگتا ہے
معشوقہ بھی عصمت ایک سعادت ہے
ورنہ کس سے کون محبت کرتا ہے
(عصمت اللہ سیکھو۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
’’میں نے وہ نظم مٹا دی آخر!‘‘
ذہن میں ایک تصوّر اترا
میں یہی سوچ رہا تھا کہ لکھوں گا اس بار
کیسا ہوتا اگر اس وقت کی بڑھتی رفتار؟
میں نے اک نظم تو لکھ لی لیکن ۔۔۔
لیکن اس نظم میں دنیا میں تباہی ہی ہوئی!
اور گھڑی تیزی سے چلنے کے سبب ٹوٹ گئی
دن سے شب، رات سے دن، دن سے دوبارہ ہوئی رات
ایک لمحے میں گزرنے لگے لاکھوں لمحات
وقت پھر چلنے لگا اور بھی تیز
اب تو گردش بھی زمیں کی مجھے محسوس ہوئی
پودے پھر پیڑ بنے، پھل لگے، مرجھا بھی گئے
مری سوچوں سے تخیّل کے سبھی رنگ اڑے
اس لیے سر پہ مرے بال سفید، آ بھی گئے
اب تو ٹکرانے پہ آئے تھے سبھی سیّارے!
اور تباہ ہونے کو تھی
’’شمس کی وادی‘‘ آخر۔۔۔
میں نے وہ نظم مٹا دی آخر!
(اویس طائر۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
مل کے خود سے نہ ہم رہے تنہا
اب نہ کوئی ہمیں کہے تنہا
چاند کا درد تم نہ سمجھو گے
تم ہمیشہ نہیں رہے تنہا
وقت اچھا کٹے گا دونوں کا
ویسے رہنا ہے تو، رہے تنہا
بند کمروں میں بھی سکون نہیں
اور کتنا کوئی رہے تنہا
بات دل کی نہیں ہے کہتا وہ
ایسے رہنا ہے تو رہے تنہا
آدمی ایسا کوئی ہو سالِم
بات دل کی جسے کہے تنہا
(سالِم احسان۔ گوجرانولہ)
۔۔۔
غزل
ایک انسان دیکھتا ہوں میں
ہے پریشان دیکھتا ہوں میں
لوگ کھاتے ہیں خوف انساں سے
ایسے انسان دیکھتا ہوں میں
شہر آباد ہو گئے ہائے
گاؤں ویران دیکھتا ہوں میں
کچھ بھی مشکل نہیں لگے مجھ کو
سب ہی آسان دیکھتا ہوں میں
جب بھی ملتا ہے یار وہ مجھ سے
اس کی مسکان دیکھتا ہوں میں
میں تو اچھا نہیں مگر طارس
تیرا دیوان دیکھتا ہوں میں
(عبدالجبار طارس، میترانوالی۔ سیالکوٹ)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.