کیا ہم عورت کو، اس عورت کو جو اس معاشرے کی نصف طاقت ہے، آج کے دور میں بھی کسی شاعر کی غزل اور ڈراما نگار کی کہانی کو رنگین بناتا دیکھنا چاہتے ہیں؟ شاید ایسا ہی ہے۔
ہم عورت کو سماج کے کسی شعبے میں ہنر اور قابلیت کی بنیاد پر متحرک دیکھنے سے زیادہ اسے شام کے وقت سجا سنورا کھڑی یا چھت پر لٹکے ہوئے، گلی سے آنچل لہراتے ہوئے گزرتا دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں۔
ہم بات کریں ڈراموں کی تو ان میں چھتوں پر جو رنگین اور سنگین مناظر دکھائے جاتے ہیں، لڑکی جس طرح دبے پاؤں آدھی رات کو اپنے محبوب سے ملنے جاتی ہے اور کھلی ہوئی لمبی زلفیں، چوڑیوں کی کھنک، پازیب کی جلترنگ، بے ترتیب سانسوں کے ساتھ دوریوں نزدیکیوں کے سین دیکھنے کے بعد نوعمر ناظرین کے کم سن جذبوں کا مچل جانا بعید از قیاس تو نہیں۔ منظر ختم ہونے کے بعد بھی ذہنوں کا اسی منظر میں گم رہنا، ناپختہ ذہنوں اور کچے جذبات پر منفی اثرات ہی تو مرتب کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ پھر ایسے ڈراموں کا انجام قتل پر ہوتا ہے، گویا ہم بہت آسانی سے خونی رشتوں کو ویمپائر، گھر کو دوزخ، والدین کی ناموس کو ہیل کی نوک تلے رکھنے اور اجنبی کو فرشتہ اور ان کے ساتھ کو نعمت دکھا کر، سماج کی قدریں ڈھٹائی سے پامال کر رہے ہیں اور ہماری اس ساری کاوش کی بنیاد رکھی جاتی ہے عورت پر۔ ماضی کے کئی ڈرامے اپنے شان دار اسکرپٹ اور جان دار اداکاری کی وجہ نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ بامقصد اور معیاری تفریح فراہم کرنے کے ساتھ سماج کو ان کے ذریعے مثبت اور توانا پیغام دیا گیا۔
ان ڈراموں میں جو سب سے روشن پہلو دکھایا گیا ہے وہ ایک لڑکی کا مضبوط کردار کا مالک ہونا ہے… مگر آج کل کے ڈراموں کے میں ہر لڑکی عشق میں پاگل ہو رہی ہے۔ وہ سوتے جاگتے بس خواب بن رہی ہے…اس کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا کہ کسی طرح اپنی محبت کو پاسکے۔ آخر اس سماج میں لڑکیوں کے خوابوں کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ کیوں ہو رہا ہے۔
کیوں صرف ان کے خوابوں کو ایک ہی سمت دی جارہی ہے؟ لڑکیوں کو صرف عشق کے بھوت ہی میں مبتلا کیوں دکھایا جاتا ہے؟ ان کو بامقصد زندگی گزارتے ہوئے، کسی بڑے کام کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، اپنے اور اپنے خاندان کے روشن مستقبل کے لیے بھاگ دوڑ کرتے کیوں نہیں دکھایا جاتا؟ کیوں نہیں دکھاتے ایک لڑکی کا ڈاکٹر بننے کا سپنا کتنے رتجگوں کے بعد ممکن ہوا کیوں نہیں دکھاتے کہ گول روٹی پکانے کے لیے ہتھیلی کتنی بار جلی؟ اور کیوں نہیں دکھاتے کہ جب ایک بیٹی کینسر کے تیسرے اسٹیج پر پہنچی ہوئی ماں کی میڈیکل رپورٹس لے کر اسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوتی ہے تو وہ اس وقت کیسے زندگی کی تلاش میں ہوتی ہے۔
یہ بھی تو بتائیں کہ جب ایک لڑکی ماں کی بیماری سے لڑنے کا عزم لے کر اٹھتی ہے تو کائنات اس کا طواف کرتی ہے۔ بیٹی کے واحد سہارے پر ماں کی آنکھوں میں جو نئی طاقت ابھرتی ہے یہ عشق کی طاقت ہوتی ہے اور ایسے عشق کی روداد کیوں نہیں اسکرین پر دکھائی جاتی؟ کوئی مزدور، تھکا ہارا باپ جب گھر لوٹتا ہے تو دوڑ کر اس کے سینے سے لپٹنے والی گڑیا اس کی ساری تھکن کیسے ختم کر دیتی ہے، اس بے مثال اور لازوال محبت کو کیوں عکس بند نہیں کیا جاتا؟
ہمارے سماج میں کئی خواتین رول ماڈل کے طور پر ابھری ہیں۔ ہزاروں رکاوٹوں، نامساعد حالات کے باوجود افواج، سیاست، طب، سفارت کاری غرض ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔
شاہدہ آرمی میڈیکل کور میں پہلی خاتون جنرل بنیں، یہ اعزاز پہلی بار فوج میں ایک خاتون کو ملا۔ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ کیا انھیں یہ منصب گھر بیٹھے مل گیا تھا یا اسے پلیٹ میں سجا کر پیش کیا گیا تھا؟ اسی طرح کئی نام ہیں جو ہمارے سماج کا روشن چہرہ ہیں اور ہر لڑکی جو کچھ کرنا چاہتی ہے اس کا آئیڈیل بن سکتے ہیں۔
اپنے کیریئر پر فوکس رکھنے والی لڑکیوں کو ڈرامے کی ہیروئن اور ان کی جدوجہد کو کہانی کا محور بنانے میں کیا قباحت ہے؟ ہم ایسے روشن کرداروں کے ذریعے اپنی قوم کی بیٹیوں کو اچھی اور صحت مند ترغیب دے سکتے ہیں مگر نہیں کرتے۔
ہمارے دیہی علاقوں میں چوہدریوں، وڈیروں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی کسی نہتی لڑکی کی کوششوں کی تشہیر کیوں نہیں کی جاتی؟ آخر لڑکی ذات کو کم زور ہی کیوں دکھایا جاتا ہے، جو گھر سے باہر خوف کے حصار کو توڑ کر نکلتی ہے اسے کیوں ہمارے ڈراموں میں اجاگر نہیں کیا جاتا؟ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی زندگی اور ان کی جدوجہد کی عکس بندی کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں بتاتے کہ بیٹی اتنی باہمت بھی ہو سکتی ہے جو دیارِ غیر میں بڑی بڑی قوتوں کے سامنے اپنے قوم کے ایشوز پر آواز اٹھانے سے نہیں ہچکچاتی۔ چھریوں کے وار سہنے کے بعد اپنے لیے خود آواز بننے والی اور انتہائی بااثر ملزم کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنے والی اس کم زور، مگر ہار نہ ماننے والی لڑکی کی جدوجہد کسی کہانی کا اہم موضوع کیوں نہیں بن سکتی۔
خاوند کے مرنے کے بعد بچوں کی کفالت کی بھاری ذمہ داری اٹھانے والی ایک باہمت ٹیکسی ڈرائیور کسی ڈرامے یا فلم کی ہیروئن کب بنے گی؟ کیمسٹری کی گولڈ میڈلسٹ لڑکی جو پیدائشی طور پر ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہے اور اس کی وہیل چیئر یونیورسٹی کی تعلیم میں حائل نہیں ہوئی، کبھی ایسی نڈر لڑکی کے جذبات، احساسات سے ہمارے خام ذہنوں کو روشناس کروایا جائے گا؟ عشق کرنا اور ساجن کی مالا جپنا ہی کیا لڑکی کی زندگی کا واحد مقصد رہ گیا ہے؟ یقیناً آپ غلط ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔
آپ کے ہاں عشق شروع ہوا اور ملن پر اس کی کہانی خوش گوار انجام کو پہنچی، مگر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ بھی دکھانا ہو گا۔ اس سماج میں کتنے ہی کردار ہیں، کتنے ہی توانا روپ ہیں ایک عورت کے، مگر شاید لوگ اسے دیکھنا اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔
آج کی لڑکی بہت مضبوط کردار کی مالک ہے۔ جیسا آپ سوچتے ہیں یا ظاہر کرتے ہیں اس سے بالکل مختلف۔ وہ اپنے سے منسلک رشتوں اور زندگی سے مخلص بھی ہے۔ وہ رشتے توڑ کر نہیں، انھی بندھنوں کے ساتھ اپنے ہی گھر میں سانس لیتے ہوئے اس کی خاطر اپنی ساری توانائیاں صرف کرتی ہے، وہ جدوجہد کرتی ہے، لڑتی ہے، ٹوٹتی بھی ہے مگر رشتوں کو جھکنے نہیں دیتی، انھیں مرنے نہیں دیتی۔
آج کی لڑکی ہیر کی طرح رانجھا ڈھونڈنے نہیں نکلتی، نہ ہی اسے ہیر بننے میں دل چسپی ہے۔ آج کی لڑکی مضبوط اعصاب اور کردار کی مالک ہے۔ وہ زندگی کی مشکلات کو سمجھنے والی اور مقابلہ کرنے والی جاں باز ہے، یہ آپ کے ڈراموں، ڈائجسٹ کے سحر سے نکل چکی ہے۔ اسے سمجھیں اور بہتر ہوگا اس کا وہ کردار دکھائیں جس کی سماج اور دنیا کو ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ڈرامے، ڈائجسٹ اور فلم کا ہماری زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور پر نوعمر اور کچے ذہن اس کا بہت زیادہ اثر لیتے ہیں اور وہ ایک تصوراتی دنیا بسا لیتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ان کے ذریعے مثبت رجحانات کو اجاگر کیا جائے اور اس سے کردار سازی اور تربیت کے ساتھ بامقصد اور معیاری تفریح فراہم کی جائے۔
کوشش کیجیے کہ لڑکیوں کے اندر شعور اجاگر کریں۔ ایسی کہانیاں اور کردار سامنے لائے جائیں جو سماج میں مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں۔ گھر سے بغاوت اور رشتوں سے نفرت کو فروغ نہ دیں بلکہ اس بات کو سمجھیں کہ جب ہمارا خاندانی ڈھانچا اور سماجی سسٹم مغرب جیسا نہیں تو پھر وہاں کی روایات اور اقدار کو یہاں فروغ دینے کا کیا مقصد ہے؟
ڈراموں کے ذریعے اصلاح معاشرہ کا کام احسن طریقے سے لیا جا سکتا ہے۔ وقت بدل چکا ہے۔ اب کرداروں کے درمیان مکالموں کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی طرف آئیں۔ معاشرے کے ہر طبقے کو عورت کی عزت اور قدر کرنا سکھائیں۔ اسے مضبوط اور توانا بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اسے ترقی اور خوش حالی کے عمل میں شریک کریں اور آگے بڑھتے چلے جائیں۔
The post کیا آج کی لڑکی پر صرف عشق کا بھوت سوار ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.