Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

نماز عید سے سوئیوں اور چوڑیوں تک۔۔۔
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی

اگلے وقتوں سے روایت یہ چلی آرہی تھی۔ عید کی نماز بستی سے باہر نکل کر کھلے میدان میں آسمان تلے پڑھی جائے۔ اس کا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ تو اس برصغیر میں جہاں جہاں مسلمان آباد چلے آتے تھے اور چلے آتے ہیں بستی سے باہر عیدگاہ تعمیر کی جاتی تھی۔ یہ کوئی لمبی چوڑی عمارت نہیں ہوتی تھی۔ بس ایک لمبی دیوار جس میں پیش امام کے لیے محراب بنی ہوتی تھی۔ دیوار کے دونوں کناروں پر دو بلند مینار، بیچ میں ایک گنبد۔

مگر عید کی صبح یہی سادہ سی دو میناروں والی دیوار نمازیوں کا مرجع بن جاتی تھی۔ عہد مغلیہ میں دلی تک کا نقشہ یہ تھا کہ جمعتہ الوداع کی نماز بہت دھوم سے شاہ جہانی مسجد میں ہوتی تھی۔ آس پاس کی بستیوں سے بھی نمازی کھنچ کر وہاں پہنچتے تھے۔ مگر عید کی صبح اور تو اور بادشاہ سلامت بھی اپنے جد کی تعمیر کی ہوئی بڑی مسجد سے کنی کاٹ کر عید گاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ پھر توپ بھی وہیں دغتی تھی۔

ہاں عیدگاہ کے نمازیوں میں سب سے پرجوش نمازی کم سن صاحب زادگان ہوتے تھے، جو نئے بھڑکیلے کپڑے پہن کر ’سلمہ ستارے‘ کے کام سے لیس مخملی ٹوپی سر پر سجا کر اور بڑوں کی انگلی پکڑ کر عیدگاہ جاتے۔ نماز بڑے خضوع و خشوع سے پڑھتے۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر باہر سجے ہوئے عید بازار یا عید میلہ میں گھس جاتے اور رنگ رنگ کے کھلونے خرید کر خوش خوش گھر واپس آتے۔ پھر گلی گلی ان کے لائے ہوئے غبارے اڑتے نظر آتے اور بانس کی تیلیوں سے بنی ہوئی پھٹ پھٹ گاڑیوں کے شور سے گلیاں گونجتی نظر آتیں۔

ارے ہاں گھروں کے اندر جو کچھ ہوتا وہ بھی تو سن لیجیے۔ لو منہارن کو تو ہم بھولے ہی جا رہے تھے۔ ہم کیا اسے تو زمانے نے فراموش کردیا۔ ورنہ 29 رمضان کے دن سے لے کر چاند رات تک اسی کا دور دورہ ہوتا تھا۔ رنگ رنگ کی چوڑیوں کی گٹھری کمر پر لادے گھر گھر کا پھیرا لگاتی۔ لڑکیاں بالیاں کنتی خوش ہو کر اس کا استقبال کرتیں اور اپنی گوری گوری کلائیاں اس کے سامنے پھیلا دیتیں۔ کتنی چوڑیاں کلائیوں پر چڑھتے چڑھتے چکنا چور ہو جاتیں۔ بہرحال کلائیوں پر چڑھی چوڑیاں جلد ہی کھن کھن کرنے لگتیں۔

اور ہاں ہتھیلیوں، پوروں اور انگلیوں پر گھلی منہدی کا لیپ، عید کی صبح کو یہ منہدی اپنی بہار دکھائے گی۔ یہ سارا کاروبار گزرے زمانے میں گھروں کے اندر ہوتا تھا۔ اب بازاروں میں ہوتا ہے۔ اور ہاں سوئیوں کا کاروبار بھی تو بھلے دنوں میں گھروں کے اندر ہی ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو لکڑی کی بنی گھوڑیاں ہوتی تھیں۔ ان کے پیندے میں ایک چھلنی پیوست ہوتی تھی۔ بچے بڑے اس پر سوار ہوتے تھے تب وہ پچکتی تھی اور پیندی والی چھلنی سے سویاں نکلنی شروع ہوتی تھیں۔ ان لمبی لمبی سوئیوں کو دھوپ میں رکھے جھاڑ جھنکاڑ پر پھیلا دیا جاتا تھا۔ سوکھا کر انہیں بارود میں پھونا جاتا تھا۔ پھر ابلتے دودھ میں انھیں بار بار ابالا دے کر شیر تیار کیا جاتا تھا۔ گھوڑی گئی تو ہتھے والی مشین آگئی۔ مگر اب ہم بازار سے سویاں خریدتے ہیں۔

اور ہاں عید کا چاند۔ ا رے یارو، نئے لوگوں کے تعقل سے مرعوب ہوکر تم ہلال عید کی دید سے کیوں بیزار ہو گئے ہو۔ یہ عید کا فیض ہے کہ چاند ہمارے لیے آج بھی زندہ جیتی جاگتی مخلوق ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب نے تو اسے سائنس کا کفن پہنا کر مردہ بنا دیا ہے۔ ویسے جب سے رویت ہلال کا فریضہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد ہوا ہے۔ تب سے ہم بھی چاند کی دید سے محروم ہو گئے ہیں۔ ورنہ 29 کی شام کو بچے بڑے چھتوں پر چڑھ کر آسمان پر اسے کس شوق سے ڈھونڈتے تھے۔ ہلال کی ایک جھلک کس طرح ہمارے دلوں میں خوشی کی لہر پیدا کرتی تھی، سلام عید سے پہلے چاند رات کا سلام اپنی بہار دکھاتا تھا۔

(انتظار حسین کے کالم ’عید گاہ گم منہارن غائب‘ سے ماخوذ)

۔۔۔

صد لفظی کتھا
المیہ۔۔۔!
 رضوان طاہر مبین

اُس روز ہوا بہت طوفانی تھی۔۔۔

کئی جگہ بجلی کے تار گر گئے۔۔۔

کچے مکانات کی چھتیں اُڑ گئیں۔۔۔

ایک گھنا پیڑ تیز جھکڑوں کی تاب نہ لا سکا اور پاس کھڑی ہوئی گاڑیوں پر جا گرا۔۔۔

ثمر نے اس واقعے کی ’خبر‘ بناتے ہوئے لکھا:

’’شکر ہے گاڑیاں خالی تھیں، اس لیے اس حادثے میں کوئی ’جانی نقصان‘ نہیں ہوا۔۔۔!‘‘

اچانک میں نے دیکھا کہ درخت کی بھاری شاخ تلے چڑیا کا ایک بچہ مر چکا تھا۔۔۔!

میں نے سوچا خبر ’درست‘ کرا دوں، لیکن پھر خیال آیا کہ بے زبانوں کی موت بھلا خبر کہاں ہوتی ہے۔۔۔!

۔۔۔

ہندوستانی ’ادارے‘ اتنے ’’ناکارہ‘‘ کہ۔۔۔
ر۔ ط ۔ م
لیجیے وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، ہندوستانی ’جمہور‘ نے اعلان کر دیا کہ نریندر مودی مزید پانچ سال اقتدار میں رہیں گے، اب اس پر مہر بھی ثبت ہو گئی۔۔۔ اور مہر ثبت ہوگئی کا مطلب آپ سمجھ لیجیے کہ ہمارے اس جڑواں دیس میں ’’ادارے‘‘ اس قدر ’ناکارہ‘ ہیں کہ اپنے وزیراعظم تک کو مدت پوری کرنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔ الّا یہ کہ پارلیمان میں کوئی جوڑ توڑ نہ ہو جائے، لیکن مودی جی کی ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) اب پارلیمان میں اتنی مضبوط ہے کہ چاہے وہ کتنی ہی ’غیر پارلیمانی‘ حرکتیں کر لے، اُسے ایسے کسی ’پارلیمانی‘ خطرے کا سامنا نہیں ہو سکتا۔

وہاں انتخابات میں بھی لے دے کر ایک کانگریس نامی جماعت ہی سے اس کا جیسا تیسا مقابلہ تھا۔ جو ’بی جے پی‘ سے کئی گنا پیچھے تھی، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ کانگریس بی جے پی کے ’مقابل‘ یوں کہی جا رہی تھی کہ وہ ہندوستان کی کم زور ترین سیاسی جماعتوں میں سب سے مضبوط شمار ہو رہی تھی۔۔۔ کہنے کو تاریخی طور پر ’بی جے پی‘ کا اقتدار کانگریس کے مقابلے میں ہم سرحد پار والوں کے لیے بہتر کہا گیا، لیکن جانے کیوں ’بی جے پی‘ کی انتہا پسندی کا اتنا خوف ہے کہ ’کانگریس‘ ہی ہمیں بھلا انتخاب معلوم ہوتی۔۔۔ اب ہندوستانی سماج کے نصیب میں ’تبدیلی‘ بھی تو نہیں کہ کوئی تیسری مضبوط جماعت آکر کھڑی ہو، جو خم ٹھونک کر کہے کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔۔۔!‘‘

چند برس پہلے دلی میں اروند کیجریوال کی ’عام آدمی پارٹی‘ جھاڑو کے انتخابی نشان کے ساتھ ایک نئی امید سی پیدا کرنے لگی تھی، لیکن موجودہ چنائو سے واضح ہوگیا کہ بات زیادہ آگے تک نہیں چل پائی۔۔۔ اب راجستھان سے لے کر بنگال اور نیچے جنوبی ہند تک گہرا ’نارنجی‘ رنگ دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری بار پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی ’بی جے پی‘ کی جیت پر متوازن فکر کے حامل بھارتی صحافی روش کمار کہتے ہیں کہ ’اب ہندوستان کو سمجھنے کے لیے موہن داس گاندھی یا امبیڈکر نہیں، بلکہ کسی نئے پیمانے کی ضرورت ہے۔۔۔

ہندوستان کی 18 فی صد مسلم اقلیت سے ڈرا کر 80 فی صد ہندو اکثریت کے ووٹ لیے گئے ہیں۔۔۔!‘ بھئی ماجرا ہی کچھ ایسا ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ووٹ تقسیم ہوگیا تو ’بی جے پی‘ آگے آگئی۔۔۔ یہاں تو ’بی جے پی‘ کے نمایاں حریفوں کے ووٹ یک جا ہو کر بھی اتنے نہیں بن رہے کہ مقابل پس پا ہوتا۔۔۔ گویا آج ہندوستان کے ’باپو‘ یعنی بابائے قوم کہے جانے والے موہن داس گاندھی کے قاتل نتھو رام گوڈسے کے پیروکار اتنے مضبوط ہو گئے ہیں کہ مسلسل دوسری بار برسر اقتدار آجاتے ہیں۔ دوسری طرف تقسیم ہند کے طالب علم اب یہ بات کرنے لگے ہیں کہ ہندوستان میں انتہاپسندی کا یہی وہ انت تھا، جس سے بچنے کے لیے 1947ء میں مسلمانوں نے تقسیم کی راہ چُن لی تھی۔۔۔!

۔۔۔

خبر کی بھی ’خبر‘ رکھیے۔۔۔!
محمد علم اللہ (نئی دہلی)
ہمارے عہد میں انسان کی تقدیر کو بنانے اور سنوارنے میں اطلاعات یعنی خبروں کا کردار مرکزی ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ طاقت کا ایک خصوصی اور اہم ذریعہ ہیں، یہاں تک کہ اطلاعات نے، دنیا کی فوجی اور سیاسی طاقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں، امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ یا پھر اسرائیل کے نیتن یاہو ان سب کی کام یابی کے پیچھے بھی اس ٹیکنالوجی کا اہم کردار رہا ہے۔ ہمارے استاد ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اکثر کہا کرتے ہیں، وہ لوگ جو افتخار، طاقت اور ترقی چاہتے ہیں ان کو اس اہم ذریعہ کا نظم و انتظام سیکھ لینا چاہیے اور مسلسل ترقی کرتی ہوئی اطلاعات کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رہنا چاہیے۔
اطلاعات کی جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ماجرا یہ ہے کہ جو بھی اطلاعات کو قابو میں رکھنے میں کام یاب ہوتا ہے، وہ تمام دنیا میں غلبہ پالیتا ہے۔ بہ ظاہر دیکھیں تو ہمیں اطلاعات کا طوفان دکھائی دیتا ہے، جو دراصل بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اہل یورپ بھی سمجھنے اور انتخاب کرنے کی صلاحیت میں پیچھے رہ گئے ہیں، جب کہ اطلاعات کو پیدا کرنے والے ادارے انہی کے ہیں اور ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے اِبلاغی اداروں کا کردار ثانوی ہے۔

مغربی تہذیب کے متوالے اطلاعات کی دنیا میں رو نما ہونے والے انقلاب کو ایک بہت ہی نمایاں کام یابی سمجھتے ہیں۔
آج گروہی مفادات کے لیے اطلاعات نہ صرف گڑھی جاتی ہیں، بلکہ من چاہی اطلاعات کو روکا اور پیش کیا جاتا ہے، تاکہ صنعتی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کی جائے جو کہ محروم و پس ماندہ طبقے کے حقوق پر ڈاکا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آج سارے ہی لوگ ایک خاص تناظر میں نہ سوچ رہے ہوتے۔ اطلاعات کا دائرہ ہمیشہ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔

ہمیں آج کی دنیا کے واقعات کے بارے میں باخبر ہونا لازمی ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ خود کو اطلاعات کے بہائو میں بہنے سے روکیں، ہر اطلاع پر آنکھ بند کر کے یقین نہ کریں، کہی گئی ہر بات کو فوراً مان لینے سے باز رہیں، واقعات کی صحت اور اطلاعات کی صداقت اور ان کے افشا ہونے کا موقع ذہن میں رکھیں اور اس کے بعد ہی اپنی کوئی رائے قائم کریں یا تجزیہ کریں۔ پھر اس کے ظاہر ہونے کا مخصوص وقت بھی دیکھیں، بہت سی پرانی اطلاعات روک کر مخصوص فائدے کے حصول کے لیے بعد میں ظاہر کر دی جاتی ہیں اور عام لوگ اس سے بے پروا ہو کر اس اطلاع کو قبول کرلیتے ہیں، جس سے اطلاع دینے والے کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۔۔۔

ہمیں آج کی کتنی عیدیں یاد ہیں؟
آمنہ احسن، کراچی

تہواروں پر ہمارے ذہن میں بچپن کے دنوں کی ایک فلم سی چلنے لگتی ہے، کچھ یہی حال عید کا ہے، جی چاہتا ہے کہ ہم وہ خوشی پھر سے محسوس کریں جیسی بچپن میں کرتے تھے، اُس معصوم عمر میں ملنے والی عیدی کی بھی کیا بات تھی، لیکن اس کے ساتھ جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہ ’عید کارڈ‘ ہیں۔ ہر ایک کے لیے الگ طرح کے کارڈ خریدنا اور پھر اس کی شخصیت اور پھر ہمارے اس سے تعلق کے حساب سے شعر منتخب کرنا۔۔۔ چاہے وہ سہیلیاں ہم سے روز ملتی ہوں، لیکن عید کارڈ کے وسیلے ہم باقاعدہ لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کر لیتے تھے۔۔۔ اور لکھ کر کیے گئے اظہار کا لطف ہی جدا ہوتا تھا۔۔۔ برسوں بعد آپ اسے کھول کر پڑھ لیجیے، پھر سے انہی بے فکری کے لمحوں میں پہنچ جائیے۔۔۔ وہ اشعار پڑھیے اور ایک ایک مصرع اور ایک ایک لفظ کا لطف لیجیے کہ ذہن میں ایک در سا کھل گیا ہے، سب کچھ یاد آگیا ہے کہ یہ شعر فلاں کے لیے کیوں لکھا تھا۔۔۔ اسے تنگ کرنا مقصود تھا، اس کا کوئی خاص پس منظر ہے اور پھر کس طرح ہم ساتھ مل کر زور زور سے ہنسے تھے۔۔۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں، جب بازار میں جا بہ جا دیدہ زیب اور انواع اقسام کے عید کارڈ سجا لیے جاتے تھے۔ گھر کے کسی بڑے کے ہم راہ بازار کا رخ کیا جاتا۔ بیل بوٹوں، پھولوں والے، گڑیا، ٹیڈی بیئر والے یا کسی مشہور شخصیت کے روپ والے کارڈ دکھائی دے جاتے۔۔۔ کچھ کارڈ تو دیکھتے کے ساتھ ہی ہم اُچک لیتے کہ ارے یہ تو فلاں کے لیے بہترین رہے گا۔۔۔ جب کہ کچھ ’اپنے‘ ایسے بھی ہوتے کہ جن کے ’شایان شان‘ کارڈ ڈھونڈنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑتی تھی۔۔۔ پھر مرحلہ ہوتا ان پر اپنے جذبات کے اظہار کا اور کم سے کم دو سے تین اشعار ضرور لکھے جاتے۔۔۔ اکثر لگے بندھے اشعار ہی ہوتے، کبھی کوئی نیا شعر نظر سے گزرتا، تو وہ ہم اپنے سب سے خاص دوست کے لیے لکھتے۔ ان کارڈز کے ساتھ اپنے قریبی دوستوں کو عیدی کے طور پر چوڑیاں وغیرہ بھی دی جاتی تھیں۔

زمانہ بدلا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ سب کچھ ماضی کی ایک یاد بن گیا۔ اب نہ وہ عید کارڈ رہے، نہ ہی رات رات بھر بیٹھ کر دوستوں کے لیے اشعار لکھنے والے۔۔۔ اب ایک پیغام ایک جنبش پر ہزاروں لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ایسی کتنی عیدیں گزار لیں، سب یک ساں ہیں، جب کہ اگر ہم ماضی میں خود کو ملنے والے کارڈز لے کر بیٹھیں، تو آج بھی ہر عید کا رنگ اور لطف الگ الگ دکھائی دے گا۔۔۔ ہر کارڈ اٹھا کر آپ اس سے جڑی کتنی ہی باتیں کر لیں گے، کہ یہ فلاں کو تب دیا تھا اور یہ اس موقع پر دیا تھا، تب اُس کی شروع شادی ہوئی تھی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان بیتی عیدوں کے کارڈ دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں کا بچھڑنا بھی آپ کو آب دیدہ کر دے گا۔۔۔ لیکن یہ کارڈ اُن کی یاد اُن کا لمس بن کر ہماری عید میں آج بھی شامل محسوس ہوگا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>