بھارت کے شہر بھوپال سے بی جے پی کی لوک سبھا کے لیے امیدوارپراگیہ سنگھ ٹھاکر کمال کی شخصیت ہے۔
بی جے پی کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اِس کے رہنماؤں اورارکان اسمبلی کے لیے دہشت گردی کے معاملات میں ملوث ہونا ایک عام سی بات ہے، سو پراگیہ سنگھ بھی 2008ء میں ایک بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں 9برس جیل میں گزار کر ضمانت پررہا ہوئی ہے۔ اس بم دھماکے میں 6مسلمان شہید ہوئے تھے۔
پراگیہ سنگھ بظاہر تو یہ کہتی پائی جاتی ہے کہ اُس کا بم دھماکے کے اس واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ جو پولیس افسر میرے خلاف تحقیقات پر مامور تھا اُسے میں نے شاپ دیا (بددُعا دی) جس کے اثر سے وہ قتل ہوگیا۔ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایان علی یا اِس کے سرپرست یہ دعوی کردیں کہ ایان علی کے خلاف تحقیقات کرنے والا افسر اُن کی بددعا لگنے سے قتل ہوگیا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران اِس عورت کی تقریروں کا مرکزی نکتہ مسلمانوں کے ہاتھوں 400برسوں پر محیط ذلت کا انتقام ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں بابری مسجد پرہندوؤں کے حملے کے واقعہ کو بڑے اہتمام سے سناتی ہے۔ وہ کہتی ہے 27 برسقبل ایشور نے مجھے یہ عظیم موقع فراہم کیا کہ میں خود بابری مسجد کی چھت پر چڑھی اور اسے اپنے ہاتھوں سے توڑا جس پر مجھے فخر ہے۔ الیکشن کمیشن نے مذہبی منافرت پھیلانے پر حالیہ انتخابات میں اس کی انتخابی مہم پر 72گھنٹے کی پابندی بھی عائد کی۔
الیکشن کمیشن اس بات پر بھی نالاں تھا کہ پراگیہ بھارتی قوم کے باپو کرم چند گاندھی جی کے قاتل کو اپنے جلسوں میں محب وطن ہیرو قرار دیتی ہے۔ ان تمام حقائق سے واقفیت رکھنے کے باوجود ہندوؤں نے پراگیہ کو ریاست مدھیہ پردیش کے دو مرتبہ وزیراعلیٰ رہنے والے دگوی جیا سنگھ کے مقابلے میں3لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری سے کامیاب کرایا ہے۔
یہ آج کے ’’سیکولر‘‘ بھارت کا اصل چہرہ جس پر کانگریس نے کئی دہائیوں تک سیکولرازم کا نقاب چڑھا کر پوری دنیا کو بیوقوف بنائے رکھا۔ بھارت کے حالیہ انتخابات اِس حوالے سے غیرمعمولی اہمیت کے حامل تھے کہ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں بی جے پی کو لوک سبھا اورراجیہ سبھا میں اتنی اکثریت حاصل نہیں تھی جس کی بنیاد پر بھارت کے ہندوؤں سے کئے گئے وہ وعدے پورے کیے جاسکتے جو آر ایس ایس بھارت کی آزادی سے بہت پہلے سے کرتی چلی آرہی ہے۔ بعدازاں جب آر ایس ایس کے فلسفے پر یقین رکھنے والے رہنماؤں نے باقاعدہ سیاست میں حصول اقتدار کی جدوجہد شروع کی تو آر ایس ایس کے مقاصد کی تکمیل کی ذمہ داری بھی سیاسی لیڈر شپ پر عائد ہوگئی۔ انتہائی صبرآزما اور طویل جدوجہد کے بعد آج بھارتیہ جنتا پارٹی اُس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اُسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔
ہمارے ہاں بھارتی انتخابات کے بارے میں عموماً دو قسم کی آرا ملتی ہیں۔ ہمارے کچھ لبرل سیکولر دانشور تو بھارت کے سیکولر ازم پر (جس کا وجود اُس کے آئین میں تو ہے لیکن بھارتی حکومت اور قومی اداروں کے رویے میں کبھی نظر نہیں آیا) اسی طرح یقین رکھتے ہیں جیسے کوئی اپنے عقیدے میں رکھتا ہو۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ کوئی کتنی بھی اکثریت حاصل کرلے بھارتی سیکولر ازم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اگر بھارتی آئین کی سیکولر حیثیت کو بدلنے کی کوشش کی گئی تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی قوتیںبزور اسے ناکام بنا دیں گی۔
بہت کم مبصرین ایسے ہیں جو ایک طویل عرصہ سے اس ممکنا صورتحال کے بارے میں خبردار کررہے ہیں جو آج ہمارے سامنے ہے۔ ا س بات کا تصور بھی محال ہے کہ بی جے پی نے جس جدوجہد کا آغاز1920ء میں کیا تھا اب ہندواکثریت نے اسے شاندار کامیابی دلائی ہے اسے محض بھارتی سیکولر ازم کے دکھاوے کے لیے دریا برد کردے۔
سن 2019ء کے بھارتی انتخابات کی عمومی صورتحال دیکھی جائے تو حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس اور اپوزیشن اتحاد ’یونائیٹڈ پروگریسوالائنس‘ ، دونوں نے گزشتہ عام انتخابات کی نسبت زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ نقصان چھوٹی پارٹیوں کا ہوا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے2014ء کی نسبت 21 سیٹیں زیادہ جیت کر مجموعی طور پر 303 سیٹیں حاصل کی ہیں جبکہ این ڈی اے نے مجموعی طور پر 352نشستیں جیتی ہیں۔ یاد رہے کہ حکمران اتحاد نے 2014ء میں 336نشستیں حاصل کی تھیں۔اسی طرح بڑے اپوزیشن اتحاد ’یو پی اے‘ میں شامل سب سے بڑی جماعت ’انڈین نیشنل کانگریس‘ کو 52نشستیں ملی ہیں جبکہ پانچ سال قبل اس کی44 سیٹیں تھیں۔ بحیثیت مجموعی یو پی اے نے حالیہ انتخابات میں91 سیٹیں جیتی ہیں، 2014ء میں اسے 60سیٹیں ملی تھیں۔
این ڈی اے کے ووٹ بنک میں 6.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ یو پی اے کا ووٹ بنک تین فیصد بڑھا ہے۔ حکمران اتحاد این ڈی اے کی گیارہ جماعتوں میں سے پانچ جماعتوں کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دو کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا، چارجماعتوں نے گزشتہ عام انتخابات جیسے ہی نتائج حاصل کئے۔اپوزیشن اتحاد یو پی اے میں شامل10جماعتوں میں سے پانچ پارٹیوں کی سیٹوں میں اضافہ ہوا جبکہ تین کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ دوجماعتوں نے گزشتہ عام انتخابات جتنی سیٹیں ہی حاصل کیں۔
2014ء کے انتخابات میں تامل ناڈو کی معروف سیاست دان جیاللیتا زندہ تھیں، ان کی پارٹی نے 34 نشتیں حاصل کی تھیں، اس بار اسے محض ایک سیٹ مل سکی۔ جیسے ہی جیا للیتا کا انتقال ہوا، ان کی پارٹی کو بی جے پی نے ہڑپ کرلیا۔ ممتا بینرجی کی جماعت ’آل انڈیا ترینامول کانگریس‘ کی 2014ء میں 34 نشستیں تھیں ، اب کی بار اسے محض 22 ملیں۔ واضح رہے کہ 14فروری2019ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں ایک خودکش حملے میں 40 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے جبکہ اسی ماہ کے اواخر میں بھارت نے پاکستانی علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کرکے جیش محمد کے 130سے 170 تک جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا ۔ پاکستان کے دلائل اور موقع واردات پر موجود شواہد سے ثابت ہوا کہ بھارتی طیارے سوائے ایک کوے کے کوئی جانی نقصان نہ پہنچا سکے کیونکہ وہاں جیش محمد کے کسی تربیتی کیمپ کا وجود ہی نہیں تھا۔ انتخابات سے بہت پہلے خود بھارت میں جو چند ایک سنجیدہ تجزیہ نگار موجود ہیں انہوں نے الیکشن سے پہلے پاکستان سے جھڑپوں کی سازش کو بے نقاب کیا تھا ۔ رائے عامہ کے جائزوں نے ثابت کیا کہ اس جھوٹے سچے حملے کے بعد مودی سرکار کی عدم مقبولیت ایک بار پھر مقبولیت میں بدل گئی۔
کئی عشروں بعد نریندرمودی پہلے وزیراعظم ہیں،جنھوں نے ایک مدت پوری کرنے کے بعد دوسری مدت کے لئے پہلے سے زیادہ اکثریت حاصل کی۔گجرات کے وزیراعلیٰ سے ملک کے وزیراعظم بننے تک ، انھوں نے ’ہندونیشنل ازم‘ کے تحت لوگوں کے جذبات ابھارکر کامیابی حاصل کی۔اس باربھی ان کی یہ حکمت عملی مفید ثابت ہوئی۔
٭راہول گاندھی کو بدترین شکست کا سامنا
بھارتی ڈرامہ ’ساس بھی کبھی بہو تھی‘کی معروف اداکارہ سمرتی ایرانی نے انڈین نیشنل کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کو امیٹھی کے حلقے سے 55 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ یہ حلقہ گاندھی خاندان کا قدیم حلقہ تھا، راہول گاندھی گزشتہ 15برس سے یہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہو رہے تھے۔ اس شہر سے راہول کی شکست کو امیٹھی سے باہر لوگ ’اپ سیٹ‘ قرار دے رہے ہیں لیکن اہلیان حلقہ کا کہناہے کہ ہرگز ’اپ سیٹ‘ نہیں، ان کی شکست صاف نظرآرہی تھی۔’ٹائمز آف انڈیا‘ نے حلقے کے عوام سے سوالات پوچھے، لوگوں کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے پورا پورا گھرانہ کانگریس کو ووٹ دیتا تھا لیکن اب کی بار انھوں نے کانگریس کو دھتکاردیا۔
اندرا کے قتل کے بعد ہمدردی کا ووٹ راجیو کو ملا، سات برس بعد وہ بھی خودکش حملے کا شکار ہوگئے، لیکن ان کے بعد انڈین نیشنل کانگریس ایسے برے حالات کا شکار ہوئی کہ اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔ راجیوگاندھی کے بیٹے راہول کرشماتی شخصیت ثابت نہ ہو سکے، وہ امیٹھی سے بھی نکال باہر کئے گئے حالانکہ یہ شہر گزشتہ 39برس سے گاندھی خاندان کے پاس تھا۔ سمرتی ایرانی نے 2014ء میں بھی یہاں سے انتخاب لڑا تھا لیکن وہ ہار گئی تھیں۔ بعدازاں وہ مسلسل امیٹھی میں نظرآتی رہیں،انھوں نے لوگوں سے رابطہ برقرار رکھا لیکن راہول کاخیال تھا کہ یہ آبائی حلقہ ہے، لوگ ان کے باپ کی وجہ سے انھیں اس بار بھی کامیاب کریں گے۔
٭ مسلمانوں کی نمائندگی
حالیہ بھارتی انتخابات میں27 مسلمان کامیابی حاصل کرسکے جن میں سے دو خواتین بھی ہیں۔ 2014ء میں کامیاب مسلمان امیدواروں کی تعداد23تھی۔ بی جے پی کے تمام کامیاب امیدواروں میں صرف ایک مسلمان شامل ہے جس نے مغربی بنگال کے بشنوپور حلقے سے کامیابی حاصل کی ہے۔ واضح رہے کہ 1980ء میں 49 مسلمان امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی جن میں سے30 کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے تھا۔ تب پارٹی کی سربراہ اندرا گاندھی تھیں۔
بی جے پی بھارت کی وہ سیاسی جماعت ہے جس نے مذہبی بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کے فلسفے پر یقین رکھنے والی تنظیم کے بطن سے جنم لیا ہے۔ یہ وہی تنظیم تھی جس کے قائدین اپنے تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل اور عوام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے آڈولف ہٹلر اور میسولینی کی فاشسٹ جماعتوں سے رہنمائی لیتے تھے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ یکجان رہی ہیں۔ انہوں نے کبھی اپنے مقاصد سے انحراف نہیں کیا۔ 30جنوری1948ء کو پاکستان کو اس کے طے شدہ اثاثے دینے کے لیے احتجاج پر گاندھی جی اسی جماعت کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
اس جماعت کی مستقل مزاجی1992ء میں بابری مسجد کی شہادت تک پہنچی۔ جب یہ برسراقتدار آگئے تو ’’سیکولر‘‘ بھارت کی ’’سیکولر‘‘عدالتیں تک ان کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ایسے ہندو انتہا پسند جو مسلمانوں کے قتل عام کا اقرار کرچکے عدالتیں انہیں بری کردیتی ہیں۔بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج سے یہ بات واضح ہوکر سامنے آرہی ہے کہ نا صرف بھارتی اسٹیبلشمنٹ بلکہ متحدہ بھارت کے تصور پر یقین رکھنے والی سیاسی قوتیں بھی بی جے پی کی کامیابی میں رخنہ ڈالنے کے حق میں نہیں تھیں۔ بی جے پی نے بھارتی عوام سے جو وعدے کررکھے ہیں۔
ان تمام سے اتفاق نہ بھی ہو تو بعض وعدے ایسے بھی ہیں کہ کانگریس سمیت بڑی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ ان پر عملدرآمد ہوجائے جن میں سب سے اہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرکے وہاں فلسطین کی طرز پر ہندوؤں کو آباد کرنے کے مقاصد شامل ہیں۔ بھارتی سیاسی جماعتیں کوئی بدنامی مول لیے بغیر یہ گندے کام بی جے پی سے کروانا چاہتی ہیں جبکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا تو یہ درینہ خواب ہے کہ کشمیر ہر طرح سے بھارت کا حصہ قرار دے دیا جائے۔ بی جے پی کو پارلیمنٹ میں اب جو قوت حاصل ہوگئی ہے، اُس کا راستہ روکنا ممکن نہیں۔ مستقبل میں جو صورتحال پیدا ہوگی اُس میں بھارتی اپوزیشن یہی کہتی پائی جائے گی ’’ہم کیا کرسکتے ہیں، ہمارے پاس تو ان کا راستہ روکنے کے لیے عددی اکثریت ہی نہیں ہے۔‘‘
ان حالات میں پاکستان پر دباؤ میں غیرمعمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو پاکستان کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ ہمیں بھارتی حزب اختلاف یا اُس عالمی برادری سے، جس میں امریکہ بھارت کا حلیف ہے، امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے اپنے آپ پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
The post بھارتی انتخابات 2019ء؛ کیا بی جے پی اپنے وعدوں سے انحراف کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.