بائیسکل کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
پیڈل سے قینچی، قینچی سے ڈنڈا اور پھر سیٹ ۔ یہ وہ مراحل تھے جنہیں عبور کرکے ہم نے بائیسکل چلانا سیکھی۔ کل کی بات لگتی ہے جب ہم کوئٹہ کی گلی کوچوں میں اپنے والد اور بڑے بھائی کی بائیسکل پر مشقِ سخن کرتے کرتے اِس کے سوار بن گئے۔ بائیسکل چلانے کو شوق یقینا ہر بچے کے خمیر میں رچا بسا ہوتا ہے۔
ہمیں تو اِس سواری سے محظوظ ہونے کا بھر پور موقع ملا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب کوئٹہ کی آبادی کم اور سڑکیں موٹر ٹریفک کے ازدھام کا شکار نہیں ہوئیں تھیں۔ بائیسکل مقبول اور عام سواری تھی۔ ہر گھر میں ایک سے زائد بائیسکل موجود تھیں۔ بچے ، نوجوان اور بڑے بوڑھے سبھی شوق سے اِس کی سواری کرتے۔کام پر جانا ہو یاپھر سکول یا کالج سبھی کاموں کے لئے بائیسکل ہی استعمال کی جاتی ۔ تفریح، سیاحت اور شاپنگ پر جانے کے لئے یہ کوئٹہ کے نوجوانوں کی پسندیدہ سواری تھی۔ والدین نے کوئی کام کہنا تو ہم نے بائیسکل پر جانے کی شرط فوراً سامنے رکھ دینی اور اجازت بھی مل جانی۔ یوں اِس کی سواری خوب کی۔ لیکن جب اپنے بیٹے کے لئے بائیسکل خریدی تو سب سے بڑا سوال یہ اٹھا کہ وہ اِسے چلائے گا کہاں پہ؟ کیونکہ اب گلی محلے کی سڑکیں بھی ٹریفک کے شدید دباؤ کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی تیز دوڑتی موٹر سواریوں کی زد میں ہیں۔
اگر کسی پارک کا رخ کریں تو وہاں یہ تحریر استقبال کرتی ہے کہ ’’ پارک میں کرکٹ، فٹ بال کھیلنا اور سائیکل چلانا منع ہے‘‘ اب رہ گئے گراؤنڈ تو وہ شہروں سے یوں غائب ہو گئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تو پھر بچے بحفاظت بائیسکل کہاں چلائیں؟ اس سوال کا جواب ہر اُن والدین کو در کار ہے جو چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے بائیسکل کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور اُسے چلانا سیکھیں اور چلائیں بھی۔ لیکن جب میں نے اپنے بیٹے کو یہ بتایا کہ اُس کے دادا ابو بائیسکل پر کوئٹہ سے لاہور آئے۔ اور یہ مسافت انھوں نے دو ہفتوں میں طے کی تو اُس کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ وہ بھی ایسا کرے گا۔ یہ معصومانہ پرجوش خواہش یقینا قابل ستائش تو ہے لیکن قابلِ عمل اس حوالے سے نہیں کہ ہماری سڑکیں بائیسکل تو درکنار موٹر ویکلز چلانے کے لئے بھی کوئی خاص محفوظ نہیں ہیں جس کا اندازہ ریسکیو 1122 پنجاب کے ان اعدادوشمار سے بخوبی ہوتا ہے کہ گزشتہ سال صوبہ بھر میں 332516 ٹریفک حادثات ہوئے۔ یعنی روزانہ اوسطً911 حادثات ہماری شہری سڑکوں کے کس حد تک محفو ظ ہونے کی واضح منظر کشی کر رہے ہیں۔
ایسے میں ان سڑکوں پر بائیسکل کی سواری آبیل مجھے مار کے مترادف ہے کیونکہ ہماری ترقیاتی منصوبہ بندی میں بائیسکل نامی سواری کے فروغ کے لئے کچھ کیا ہی نہیں جاتا۔ ہم نے خطیر سرمایہ خرچ کر کے میٹرو سروس بنا لی، اورنج لائن ٹرین سروس کی تکمیل میں ہم شب روز مصروف ہیں۔ ناں بنا سکے تو سڑکوں پر بائیسکل سواری کے لئے علیحدہ لینز نہیں بنا سکے۔ ہم نے کروڑوں خرچ کرکے پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے بسیں خرید لیں۔ ناں کر سکے تو بائیسکل شئیرنگ سسٹم متعارف نہ کرا سکے۔ ہم نے جا بجا یہ پیغامات آویزاں کر دیئے کہ ماحول کی بہتری کے لئے اپنی ذاتی موٹر سواری کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ ناں کر سکے تو لوگوں کو یہ ترغیب دینے کی کوشش نہ کر سکے کہ وہ تندرست رہنے اور ماحول کو صاف رکھنے کے لئے بائیسکل کا استعمال کریں۔
ہم نے کبھی پیلی تو کبھی سبز ٹیکسیوں کی صورت میں سبسڈی پر بے شمار گاڑیاں دیں۔ ناں دے سکے تو بائیسکل پر سبسڈی نہ دے سکے۔ ہم نے موٹر وہیکلز کی صنعت کو فعال رکھنے کے لئے کئی بار ٹیکسز میں چھوٹ دی۔ محروم رہی تو بائیسکل مینو فیکچرنگ کی صنعت اس سے محروم رہی۔ ہم اکثر مختلف کاموں کے حوالے سے قومی مہمیں چلاتے ہیں۔ نہیں چلاتے تو بائیسکل کی سواری کے فروغ کی مہم نہیں چلاتے۔ ہم ہر بار پیٹرول مہنگا کرکے مختلف تاویلیں گھڑتے ہیں۔ نہیں کرتے تو بائیسکل کو عام نہیں کرتے۔ ہم پیڑولیم مصنوعات کی درآمد پر وسیع زرمبادلہ خرچ ہونے کی دہائی تو دیتے ہیں۔
لیکن ایسی سواریوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے جو ان درآمد ات میں کمی کا موجب بنیں ۔ ہم لوگوں کو ہیلتھ کارڈ تو بنا کر دیتے ہیں لیکن نہیں کرتے تو وہ اقدامات نہیں کر تے جن سے لوگ بیماریوں کا کم شکار ہوں اور صحت مند رہیں۔ ہم آلودگی اور کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے قدرتی وسائل کی کمی اور قدرتی آفات کے نتیجے میں اربوں روپے نقصان کا شور تو مچاتے ہیں۔ لیکن ان اقدامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے جو ہمیں ان سے بچا سکیں۔ ہم نے شہروں کو پھیلاتے ہوئے فاصلوں کو طویل کر لیا ہے۔ نہیں بناتے تو نئے شہر نہیں بناتے۔ ہم مغرب کی ہر وہ چیز اپنا رہے ہیں جو ہماری ثقافت اور روایات سے ہم آہنگ نہیں ۔ لیکن نہیں اپناتے تو اُن کی وہ چیزیں نہیں اپناتے جو انفرادی اور اجتماعی بہتری کے لئے ضروری ہیں۔
ہم روڈ پر موجود ہوتے وقت صرف اپنے ہی حق کو مقدم سمجھتے ہیں باقی روڈ صارفین کے حقوق کا خیال ہی نہیں رکھتے۔ ہم نے بائیسکل کو غریبوں کی سواری قرار دے کر اُسے سماجی رتبہ کا ایک نشان بنا دیا ہے۔اب ہر کسی کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ کوئی موٹرائزڈ سواری حاصل کر لے۔ ہم آج اپنے بچوں کو یہ تو کہتے ہیں کہ تم نے باتھ روم بھی جانا ہو تو تمہیں موٹر سائیکل چاہئے لیکن اپنے بچوں کو جسمانی طور پر متحرک رہنے کی عادت نہیں ڈالتے اور وہ وسائل فراہم نہیں کرتے جو اُنھیں جسمانی طور پر حرکت پذیر رکھیں۔ ہم سوشل میڈیا پر کبھی پھل ،کبھی گوشت ،کبھی کیا تو کبھی کیا کے بائیکاٹ کی اپیلیں کرنے میں تو بڑے متحرک رہتے ہیں۔
نہیں کرتے تو بائیسکل کی سواری کے زیادہ سے زیادہ استعمال اور اس کے لئے محفوظ انفراسٹرکچر کی فراہمی کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ غرض ایسے بے شمار روئیے ہیں جن کا ہم شکار ہیں۔ لیکن شاید ہم اکیلے ہی ان کی گرفت میں نہیں بلکہ ہم جیسے بہت سے ممالک اس طرح کے اور ان سے ملتے جلتے رویوںکے اسیر ہیں ۔ تبھی تو اقوامِ متحدہ نے 2018 سے ہر سال03 جون کو دنیا بھر میں ’’ ورلڈ بائیسکل ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا ہے تاکہ دنیا بھر میںحکومتی، اجتماعی اور انفرادی سطحوں پر ان رویوں کو بدلا جا سکے جس سے بائیسکل کے استعمال کو فروغ ملے۔
گزشتہ تین عشروں میں پوری دنیا جس تیزی سے موٹرائزیشن کا شکار ہوئی ہے اُس کے اثرات ہمارے ہاں بھی واضح طوردیکھے جا سکتے ہیں ۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی روز بروز بڑھتی تعداد نے بائیسکل کو ہمارے ہاںکہیں ماضی کی گرد میں چھپا دیا ہے۔اب شہر کی سڑکوں پر خال خال ہی بائیسکلیں چلتی نظر آتی ہیں۔ موٹر وہیکلز کا ایک طوفان ہے جو کہ سڑکوں پر امڈا ہوا ہے ۔ اگر ہم گزشتہ دو مردم شماریوں کے مابین عرصہ ہی کو لے لیں ۔ تو پتا چلتا ہے کہ1998 سے2017 کے دوران ملک میں رجسٹرڈ موٹر وہیکلز کی تعداد میں400 فیصد اضافہ ہوا ۔ جبکہ اس کے برعکس ہماری ملکی آبادی میں اس دوران مجموعی طور پر 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موٹر سائیکل وہ سواری ہے جس نے ملک سے بائیسکل کو متروک کردیا ہے۔
جس کی تعداد میں مذکورہ عرصہ کے دوران657 فیصد اضافہ ہوا ۔ او ر اس وقت ملک میں اوسطً ہر 13 ویںفرد کی ملکیت میں ایک رجسٹرڈ موٹر سائیکل موجود ہے۔ جبکہ1998 میں ہر63 ویں فرد کے پاس اوسطً ایک رجسٹرڈ موٹر سائیکل تھی۔ ملک میں اس وقت رجسٹرڈ موٹروہیکلز کا73 فیصد موٹر سائیکلز پر مشتمل ہے۔ جبکہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق اِس وقت ملک کے 54.1 فیصد یعنی آدھے گھرانوں کے پاس موٹر سائیکل ہے۔ ہمارے دیہی علاقے بھی اس موٹرائزیشن کے اثر سے مبرا نہیں ۔ جہاں کے 49.4 فیصد گھروں میں موٹر سائیکل موجود ہے۔
جبکہ شہروں کے61.6 فیصد گھروں میں یہ سواری دستیاب ہے۔اس جدیدیت نے بائیسکل کو ہمارے ہاںکتنا متاثر کیا اِس کا اندازہ اِن اعدادوشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 2006-07 میں ہونے والے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق اُس وقت ملک کے40.7 فیصد گھروں میں بائیسکل موجود تھی۔ یہ تناسب 2012-13 میں کم ہوکر 27.8 فیصد پر آگیا اور اب تازہ ترینPDHS کے مطابق 2017-18 میں ملک کے صرف 20.3 فیصد گھرانوں کے پاس بائیسکل موجود ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ملک کے شہری علاقوں میں بائیسکل کی ملکیت رکھنے والے گھرانوں کا تناسب 37.5 فیصد سے کم ہوکر 17.7 فیصد اور دیہات میں 42.4 فیصد سے کم ہوکر21.9 فیصد ہو چکا ہے۔ ملک میں بائیسکل کی ملکیت میں کمی اور موٹر سائیکل کے تصرف میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری قراردی جاتی ہے تو وہ ممالک جہاں اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ بائیسکل چلائی جاتی ہے کیا وہ ہم سے کم معاشی آسودہ ہیں؟ مثلاً ہالینڈ کو ہی لے لیں جہاں 99 فیصد آبادی بائیسکل چلاتی ہے۔ 80 فیصد بائیسکل سوار آبادی کے ساتھ ڈنمارک دنیابھر میںسائیکلنگ سے محبت کرنے والا دوسرا نمایاں ملک ہے۔ جرمنی تیسرے نمبر پر ہے جہاں 76 فیصد لوگ بائیسکل چلاتے ہیں۔
سویڈن کی 64 فیصد، فن لینڈ کی 60 فیصد، جاپان کی 57 فیصد، سوئٹزرلینڈ کی49 فیصد، بیلجیئم کی48 فیصد اور دسویں نمبر پر موجود چین کی 37 فیصد آبادی بائیسکل چلاتی ہے۔ بائیسکل کی ملکیت اور اس کی سوار ی کے رجحان میں کمی کا آسودہ حال ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ اُس منفی سوچ کا عکاس ہے جس میں بائیسکل کو ہمارے ہاں سماجی رتبہ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ پیدل چلنے کے بعد سائیکلنگ سب سے سہل اور نقل وحرکت کا قدرتی ذریعہ ہے۔ جس کے کثیر الجہت فوائد ہیں جو صحت، ماحولیات، معیشت اور سماج سب کوحاصل ہوتے ہیں ۔ آج بھی دنیا کے باشعور ممالک میں اس کا وسیع استعمال ہمارے لئے یقیناًحیرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی ۔ ورلڈ بینک کے ایک بلاگ کے مطابق ’’اس وقت کرہ ارض پر 2 ارب سے زائد بائیسکلوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ اور دنیا کے50 فیصد لوگ بائیسکل چلانا جانتے ہیں‘‘۔ کیونکہ ایک بار آپ نے بائیسکل چلانا سیکھ لی تو پھر یہ آپ کو عمر بھر نہیں بھولتی۔ اسی طرح جرنل آف ٹرانسپورٹ اینڈ ہیلتھ میں چھپنے والے ’’ ٹریکنگ گلوبل بائیسکل اونر شپ پیٹرنز‘‘ نامی ریسرچ پیپرکے مطابق ’’دنیا کے 42 فیصد گھروں میں بائیسکل موجود ہے‘‘۔
بائیسکل کے حوالے سے ہم ایک اور پہلو سے بھی روبہ زوال ہیں اور وہ ہے اُس کی پیداوار ۔ کیونکہ اعدادوشمار یہ بتا رہے ہیں کہ ملک میں بائیسکل کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان اسٹیٹسٹیکل ائیر بک 2015 اور2017 کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق 2006-07 میں ملک میں 4 لاکھ86 ہزار3 سو بائیسکل بنائیں گئیں۔ یہ تعداد 2016-17 میں کم ہوکر 2 لاکھ2 ہزار تک آچکی ہے۔ یعنی ان 10 برسوں میں ملک میں بائیسکل کی پیداوار میں آدھی کمی (54 فیصد ) واقع ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس 2012-13 میں بھارت میں 15.5 ملین بائیسکلیں بنائی گئیں جو عالمی پیداوار کا10 فیصد تھیں ۔ چین دنیا کی67 فیصد بائیسکلیں بناتا ہے۔ بھارت 10 فیصد کے ساتھ دوسر ے اور 4 فیصد کے ساتھ تائیوان تیسرے نمبر پر ہے۔
اسی طرح دنیا کی 30 فیصد بائیسکل کی ڈیمانڈ چین کی ہے۔ 20 فیصد یورپ،17 فیصد امریکا اور 10 فیصد انڈیا کی طلب ہے۔ یورپین بائیسکل مارکیٹ 2017 ایڈیشن نامی کنفیڈریشن آف یورپین بائیسکل انڈسٹری کی رپورٹ کے مطابق 2016 ء میں یورپی یونین کے28 ممالک میں ایک کروڑ 66 لاکھ 66 ہزار بائیسکلیں بنائیں گئیں ۔ جبکہ مذکورہ سال ایک کروڑ 96 لاکھ 6 ہزار بائیسکل فروخت ہوئیں ۔ یورپی یونین کے28 ممالک میں 2016 کے دوران سب سے زیادہ بائیسکل جرمنی میں فروخت ہوئیں ۔ جن کی تعداد40 لاکھ 50 ہزار تھی ۔ جو یورپی یونین کے ان ممالک میں بائیسکل کی فروخت کا 21 فیصد تھا ۔ برطانیہ دوسرے نمبر پر تھا جہاں 16 فیصد بائیسکل بکیں ۔ جبکہ15 فیصد کے ساتھ فرانس تیسرے نمبر پر تھا ۔
بائیسکل کی پیداوار اور فروخت اپنی جگہ اہم ہے تاہم اس کا استعمال زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں اس کے استعمال کے اعدادوشمار اکٹھا کرنے کی کوئی روایت ہی نہیں ڈالی گئی ۔ جب آپ کے پاس اعداد وشمار ہی نہیں ہوں گے تو آپ کیا منصوبہ بندی کریں گے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سائیکلنگ کے فروغ کے حوالے سے کوئی قابلِ ذکر پلاننگ نہیں ہو پاتی ۔ لیکن دنیا کی کئی ایک ممالک میں ایسا نہیں ۔ وہاں بائیسکلنگ کے شعبہ میں بھرپور تحقیق کی جاتی ہے۔ اُس کے اثرات کو جانچا جاتا ہے ۔
اور پھر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کوپن ہیگن انڈکس آف بائیسکل فرینڈلی سٹیز ہر دو سال بعد مرتب کیا جاتا ہے جس میں دنیا کے ایسے20 شہروں کی نشاندہی اور درجہ بندی کی جاتی ہے جہاں سائیکلنگ کے حوالے سے حکومتی، نجی اور انفرادی طور پر بھرپور اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ 2017 کے انڈکس کے مطابق ان شہروں میں ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن ہیگن پہلے، Utrecht دوسرے ، ایمسٹرڈیم تیسرے ، اسٹراسبرگ (Strasubourg) چوتھے اور مالمو( Malmo) پانچویں نمبر پر ہے۔
کوپن ہیگن جسے ’’ بائیسکل سواروں کا شہر‘‘ (City of Cyclists) بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بائیسکل دوست شہر تصور کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہاں ہرایک گاڑی کے مقابلے میں پانچ بائیسکل موجود ہیں ۔ کوپن ہیگن سٹی آف سائیکلسٹ فیکٹس اینڈ فیگرز2017 نامی رپورٹ کے مطابق شہر میں ہر روز چلنے والی بائیسکلوں کی مجموعی مسافت1.4 ملین کلومیٹر بنتی ہے۔ یعنی اگر ہم اسے زمین کے گرد چکر لگانے کے پیمانے سے مانپیں تو یہ دنیا کے روزانہ 35 چکر سے زائد کا فاصلہ بنتا ہے۔ شہر میں تمام طرح کے trips کا 29 فیصد بائیسکل پر کیا جاتا ہے ۔ جبکہ کام اور پڑھائی کے مقصد کے لئے ہونے والے trips کا41 فیصد بائیسکل کے ذریعے ہوتا ہے۔
شہر میں 400 کلومیٹر طویل سائیکل پاتھ ہیں جوکہ کار لینز اور پیدل چلنے والوں سے بالکل علیحدہ ہیں ۔ یہ تو صرف یورپ کے ایک شہر کی صورتحال ہے اگر ہم ہالینڈ کی صورتحال دیکھیں تو پتا چلتا ہے وہاں بائیسکل کی تعداد آبادی سے زیادہ ہے۔ ہالینڈ کی 17 ملین آبادی کے مقابلے میں وہاں بائیسکلز کی تعداد23 ملین ہے۔ نیدر لینڈ انسٹی ٹیوٹ فار ٹرانسپورٹ پالیسی اَ نیلسیز کے مطابق ملک میں روزانہ کی نقل و حرکت کا 25 فیصد بائیسکل پر ہوتا ہے۔ 2016 میں ملک میں بائیسکل trips کی تعداد 4.5 ارب تھی جو 15.5 ارب کلومیٹر کی مجموعی مسافت پر مشتمل تھے ۔
2017 میں دنیا میں بائیسکل مارکیٹ کا حجم 47.51 ارب ڈالر تھا۔اور اس کے استعمال سے بے شمار فوائد حاصل کئے جا رہے ہیں ۔ جبکہ ہم آنکھیں موندے ہوئے ہیں۔ یورپین سائیکلسٹ فیڈریشن کی دسمبر 2018 میں جاری شدہ رپورٹ ’’ دی بینیفیٹ آف سائیکلنگ ، اَن لاکنگ دئیر پوٹینشل فار یورپ‘‘ کے مطابق سائیکلنگ کے استعمال کا موجودہ رجحان دنیا کو 150 ارب یورو کے فوائد فراہم کر رہا ہے۔ جس میں سے 90 ارب یورو سے زائد عوامی صحت، ماحول اور نقل و حرکت کے نظام سے بچتا ہے۔ سائیکلنگ کا صحت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ یعنی آپ اگر سائیکلنگ کرتے ہیں تو صحت مند اور چاق و چوبند ہیں کیونکہ اس سرگرمی کی باقاعدگی دل کی شریانوں کی صحت میں اضافہ کرتی ہے ۔ پٹھوں کی طاقت اور لچک بڑھاتی ہے۔
جوڑوں کی حرکت میں اضافہ کرتی ہے۔ ذہنی دباؤ کی سطح کو کم کرتی ہے۔ جسم کو بہتر انداز میں حرکت دینے اور اس کی پوزیشن کو بہتر بنانے میں معاون ہوتی ہے ۔ ہڈیو ں کو مضبوط کر تی ہے۔ جسم کی چربی کی سطح کو گھٹاتی ہے۔ موٹاپے اور وزن کو کنٹرول کرتی ہے۔ کئی طرح کے کینسر سے تحفظ دیتی ہے۔ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ غرض بیماریوں کی روک تھام میں معاون ہے۔ بائیسکل کی سواری سہل پسند طرز زندگی سے منسلک صحت کے مسائل کے خطرات کو کم کرنے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ ایک برطانوی تحقیق کے مطابق جسمانی سہل پسندی کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں ملک کی نیشنل ہیلتھ سروسز کو سالانہ 1.08 ارب مارک کا براہ راست نقصان پہنچاتی ہیں ۔ یونیورسٹی آف برٹش کو لمبیا کی تحقیق کے مطابق ہر روز اضافی30 منٹ جو ہم موٹر کار میں گزارتے ہیں ۔ موٹاپے میں مبتلا ہونے کے امکانات میں 3 فیصد اضافہ کا باعث بنتے ہیں ۔ اسی حوالے سے ایک امریکی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایسے نو بالغ جو بائیسکل چلاتے ہیں۔
بالغوں کی نسبت ان میں موٹاپے کے امکانات میں 48 فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔اور ایسی خاتون جو ہر روز 30 منٹ تک سائیکل چلاتی ہے۔ اُس میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ قدرے کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ڈنمارک میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جو اپنے کام پر جانے کے لئے بائیسکل استعمال کرتے ہیں ان میں شرح اموات 20 سے28 فیصد کم پائی گی ۔ علاوہ ازیں ایسی کمپنیاںجو اپنے ملازمین کے بائیسکل کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ وہ ملازمین کی بہتر جسمانی اور ذہنی صحت کی وجہ سے زیادہ پیداواری فائدہ حاصل کرتی ہیں ۔ کیونکہ دیگر ملازمین کی نسبت سائیکلنگ اسٹاف زیادہ قابلِ اعتماد ( وقت کا زیادہ پابند اور کم بیمار) ہوتا ہے ۔ اور وہ کام کے دوران زیادہ متوجہ اور قابل ہوتے ہیں ۔
ایک اور اسٹڈی کے مطابق ملازمین کی سائیکل کی سواری کی حوصلہ افزائی سے اُن کی غیر حاضری کی شرح میں 14 سے80 فیصد تک کمی کی جا سکتی ہے۔ یورپ میں کی جانے والی ایک اسٹڈی یہ بتاتی ہے کہ ایک ایسا جسمانی سہل پسندی کا شکار فرد جو اپنے کام پر جانے کے لئے کار کی بجائے بائیسکل کا استعمال کرتا ہے وہ کمیونٹی کو 3 سے4 ہزار یورو سالانہ کے معاشی فوائد دیتا ہے۔اسی طرح بائیسکل ٹریفک پر خرچ کئے جانے والے ہر ایک یورو کے بدلے میں تین سے چار یورو کی ہیلتھ کے دیکھ بھال کے شعبہ میں بچت ہوتی ہے۔ یوں یورپ میں سائیکلنگ سالانہ 18110 اموات سے بچاتی ہے جس کی معاشی قدر 52 ارب یورو سالانہ ہے۔
سائیکلنگ وقت کے بہتر استعمال میں بھی معاون ہے اور یہ اُس سہل پسند وقت کو جو موٹر گاڑیوں، ریل گاڑیوں اور ٹرامز میں بیٹھ کر گزارا جاتا ہے اُسے صحت مند ورزش کے ساتھ بدل دیتی ہے۔ یہ آپ کے کام یا شاپنگ پر جانے کے باقاعدہ معمولات کو اتنی ہی باقاعدگی کے ساتھ ایک جسمانی مشق کی صورت دینے کے سب سے موثر طریقوں میں سے ایک ہے۔ کیونکہ 15 منٹ کی بائیسکل سواری، کام پر جانے کے لئے یا خریداری کے لئے یا کسی سے ملنے جانے کی صورت میں ان تمام سفارشات کو پورا کرتی ہے جو کہ کسی بالغ کو ورزش کے لئے اضافی وقت مختص کرنے کے لئے دی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بہت فطری ورزش ہے اور اس پر قائم رہنا جم جانے کی روٹین سے زیادہ آسان ہے ۔ اور یہ یقینی طور پر لوگوں کے ایندھن کے اخراجات اور جم جانے کے اضافی اخراجات سے بچاتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں بائیسکل پائیدار شہری ٹرانسپورٹ کی ایک علامت بن چکی ہے۔ جو نقل و حرکت کے پائیدار ذرائع کو آپس میں جوڑتی بھی ہے۔ ہالینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 44 فیصد ٹرین کے مسافر اپنے گھر سے اسٹیشن تک آنے کے لئے بائیسکل استعمال کرتے ہیں ۔ یوں لوگ ٹرین اور بائیسکل کو یکجا کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ شہروں میں نقل وحرکت کا ایک مثالی ذریعہ بھی ہے۔ کیونکہ پانچ کلومیٹر کے فاصلہ تک کے لئے (اگر ٹریفک جام ہو) یہ نقل وحرکت کا تیزموڈ ہے۔ یورپ میں تما م trips کے30 فیصد کا فاصلہ تین کلومیٹر سے کم ہوتا ہے اور50 فیصد کا پانچ کلومیٹر سے بھی تک ۔ اور ہم بھی اپنی روزمرہ گھریلوضروریات کی اشیاء اور خدمات سے استفادہ کے لئے اتنے ہی فاصلہ پر مبنی کئی ایک trips روزانہ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر موٹر سائیکل اور کارکے سہارے۔ اس کا مطلب ہے کہ بائیسکل کے استعمال کی ہر جگہ بہت گنجائش اور صلاحیت موجود ہے۔ خصوصاً ایسے اوقات میں جب ہر شخص کو کام پر جانا ہے۔
اسکول جانا ہے تو سڑکیں گنجائش سے زیادہ موٹر وہیکلز سے بھر جاتی ہیں ۔ نتیجتاً ٹریفک جام ہو جاتی ہے اور لوگ اپنا قیمتی وقت ٹریفک جام میں گزارتے ہیں ۔کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پاکستان کے کئی ایک دیگر شہروں میں ٹریفک جام معمول کی زندگی کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ یورپ میں یہ ٹریفک جام اکانومی کو240 ارب یورو سالانہ کا نقصان پہنچاتی ہے جو یورپی یونین کے2 فیصد جی ڈی پی کے برابر ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کار کو پارکنگ اور سڑک پر حرکت کے لئے جتنی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُتنی جگہ میں 7 سے9 بائیسکلز کھڑی ہو سکتی ہیں ۔
اور اگر3.5 میٹر چوڑائی کی حامل ایک سڑک پر ایک گھنٹے میں 2 ہزار کاریں گزر سکتی ہیں تو اُسی سڑک پر اتنے ہی وقت میں14 ہزار بائیسکل گزر سکتی ہیں ۔ یعنی بائیسکل کے استعمال کے لئے کم جگہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے تنگ سڑ کوں اور بعض اوقات بڑی شاہراہوں پر ٹریفک جام سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ بہت سے معاملات میں پبلک ٹرانسپورٹ اس ٹریفک جام کا بہتر متبادل نہیں ہے رش کے اوقات میں یہ بھی لوگوں سے بھر جاتی اور بے سکون ہو جاتی ہیں ۔ تاہم پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنے والے ادارے دن میں صرف ایک یا دو گھنٹے کی اضافی بھیڑ کے لئے مزید ٹرانسپورٹ نہیں خرید سکتے۔ یہ معاشی طور پر ممکن نہیں۔ لہذا ایسے اوقات میں بائیسکل ٹریفک کو متوجہ کرنا مناسب حل ہے۔ جو ٹرانسپورٹ کے تمام صارفین کے لئے مثبت اثرات رکھتا ہے جس میں ایک ماحولیاتی آلودگی میں کمی بھی ہے۔ کیونکہ کار کی بجائے سائیکل پر پانچ کلومیٹر کے ہر trip سے747 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچا جا سکتا ہے ۔ یعنی سال کے 350 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روکا جاسکتا ہے ۔
یورپ میں سائیکلنگ سالانہ 16ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے محفوظ رکھتی ہے جوکہ کوریشیا جیسے ملک کے سال بھر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے برابر ہے۔ اسی طرح یورپ میں سائیکلنگ کا موجودہ رجحان سے سالانہ 03 ارب لیٹر تیل کی بچت ہوتی ہے جو کہ آئرلینڈ جیسے ملک کی روڈ ٹرانسپورٹ کی سال بھر کی ضرورت کے برابر ہے۔ بائیسکل کا ایک اور ماحولیاتی بہتری کا پہلو یہ بھی ہے کہ یورپ میں 2017 میں ایک اوسط گاڑی کا وزن1400 کلوگرام تھا جبکہ ایک بائیسکل کا وزن 20 کلو گرام جوکہ گاڑی کے وزن کا 1.5 فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کو بنانے کے لئے کار کی نسبت کم وسائل کی ضرورت ہے ۔ اس کے برعکس ان تمام چیزوں کی دستیابی جو گاڑی بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کے حصول کا مطلب زیادہ آلودگی اور زیادہ ماحولیاتی نقصان ہے۔ اس کے علاوہ ہر کار اپنی زندگی میں 1.3 ارب مکعب میٹر ہوا کو آلودہ کرتی ہے۔ 40 پاؤنڈ ٹائروں کے ذرات سڑکوں پر چھوڑتی ہے اور سڑک کی سطح کو گرم کرتی ہے۔
ایک بین الاقوامی تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک ہی سڑک پر موجود گاڑی کی اند ر کی ہوا بائیسکل سوار کے کھلی فضا ء میں سانس لینے سے زیادہ آلودہ ہو سکتی ہے۔کیونکہ گاڑی کی اندر کی ہوا میں باہر کی نسبت دگنا کاربن ڈائی آکسائیڈ اور50 فیصد زائد نائٹروجن آکسائیڈ ہوتا ہے۔ یوں اگر کوئی شخص شہری علاقوں میں بائیسکل پر سالانہ اوسطاً 4 کلومیٹر فاصلے کے 160 trips لگاتا ہے تو وہ ماحول کی حفاظت کے تناظر میں79یورو کی بچت کرتا ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ بچت 15یورو ہے۔
سائیکلنگ کا معیشت پر ایک نمایاں اثر سیاحت کی صورت میں بھی پڑتا ہے۔ جس کا اندازہ ان اعداد وشمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ یورپ میں ہر سال بائیسکل پر 2.3 ا رب سیاحتیtrips ہوتے ہیں ۔ جو خطے کو 44 ارب یورو کے معاشی فوائد مہیا کرتے ہیں ۔ اور اس طرح کی سیاحت یورپ میں 5 لاکھ 25 ہزار افراد کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ فرانس میں بائیسکل سیاح دیگر سیلانیوں کی نسبت20 فیصد زیادہ خرچ کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں بائیسکل سوار کار سواروں کی نسبت زیادہ شاپنگ پر جاتے ہیں یہ کہنا ہے آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا جس کے مطابق 80 فیصد آسٹریلوی بائیسکل چلانے والے ہفتے میں کئی بار شاپنگ پر جاتے ہیں ۔ اور یورپ میں بائیسکل پر شاپنگ پر جانے والے افراد سالانہ 111 ارب یورو مالیت کی شاپنگ کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں پائیدار ٹرانسپورٹ بھی شامل ہے۔ لیکن اس وقت دنیا بھر میں زیادہ توجہ پبلک ٹرانسپور ٹ پر ہے جوکہ اکثر صورتوں میں غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بائیسکل کے فروغ کے پروگراموں اور اس سے متعلقہ انفراسٹرکچرکو ترقی دی جائے۔اس حوالے سے دنیا بھر میں بائیسکل شئیرنگ سسٹم، پبلک بائیسکل سسٹم یا بائیک شئیر اسکیم کام کر رہی ہیں ۔ جن کی رواں سال مارکیٹ کی مالیت 1570 ملین ڈالر ہے۔ اور2024 تک اس کے بڑھ کر5440 ملین ڈالر ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی سروس ہے (یہ ہمارے ہاں ماضی میں کرائے پربائیسکل دینے کی جدید صورت ہے) جس میں بائیسکل مشترکہ استعمال کے واسطے انفرادیوں کو مختصر مدت کے لئے قیمتاً یا مفت فراہم کی جاتی ہے۔
بہت سے بائیسکل شیئرکرنے والے سسٹم لوگوں کو کسی ایک مخصوص مقام سے بائیسکل فراہم کرتے ہیں اور اُنھیں اسے کسی دوسرے مخصوص مقام پر واپس کرنا ہوتا ہے۔ ایسے نظام کوDock سسٹم کہتے ہیں ۔ یہ سسٹم دراصل بائیسکل کے ریک پر مشتمل ہیں جو بائیسکل کو لاک کرتے ہیں اور صرف کمپیوٹر کنٹرول سے تالا کھلتا ہے۔ کمپیوٹر میں ادائیگی کی معلومات داخل کی جاتی ہیں اور کمپیوٹر ایک سائیکل کو غیر مقفل کر دیتا ہے۔ صارف اسی طرح کے کسی دوسرے Dock میں بائیسکل کھڑی کر کے اسے واپس کرتا ہے جو اُسے دوبارہ مقفل کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ Dockless سسٹم بھی موجود ہیں جس میں سمارٹ فون میں موجود ایپ کی مدد سے آپ کے قریب ترین موجود بائیسکل کی نشاندہی ہوتی ہے اور وہ ایپ اُس کا لاک کھول دیتا ہے۔ آپ جہاں مرضی بائیسکل چھوڑ کر اُسی ایپ کی مدد سے اُسے دوبارہ لاک کر کے آن لائن پے منٹ کردیں ۔2014 تک دنیا کے855 شہروں میں بائک شئیرنگ سسٹم کام کر رہا تھا ۔ چین میں 753508 بائیسکل بائیک شیئرنگ سسٹم میں شامل ہیں ۔
فرانس دوسرے، اسپین تیسرے، امریکہ چوتھے اور جرمنی پانچویں نمبر پر ہیں۔ پاکستان میں NUST یونیورسٹی کے چند طالب علموں نے CYKIQ کے نام سے dock-less بائیسکل شئیرنگ سسٹم متعارف کروایا ہے جو یونیورسٹی کی حدود کے اند ر ہی کام کرتا ہے جس میں150 سے زائد بائیسکل ہیں ۔ اس سسٹم کے2 ہزار سے زیادہ صارفین ہیں اور یہ سسٹم NUST یونیورسٹی کے اندر8 ہزار کلومیٹرز سے زائد کی رائڈز پوری کر چکا ہے۔ اس جیسے سسٹم کو حکومتی یا نجی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ شہروں کی سطح پر بھی اسے شروع کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ شہری علاقوں کی سڑکوں پر بائیسکل چلانے کے لئے خصوصی لینز جنہیں کسی چیز کی مدد سے موٹر وہیکلز ٹریفک سے باقاعدہ طور پر علیحدہ کیا گیا ہو بننا اشد ضروری ہے تاکہ بائیسکل کی سواری بلاخوف و خطر کی جا سکے۔کیونکہ ایک امریکی تحقیق کے مطابق محفوظ بائیسکل سواری کی لین سے اس کی سواری میں اضافہ، موٹر وہیکلز کی رفتار میں کمی، حادثات کو کم کرنے اور سڑکوں کے محفوظ ہونے کے بارے میں لوگوں کے احساسات کو بہتر کرتی ہے۔امریکی شہر نیویارک میں 30 میل علیحدہ سائیکل لین بنانے سے بائیسکل کی سواری میں55 فیصد اضافہ ہوا ۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے پس منظر میں، تیل کی درآمدات پر خرچ ہونے والے کثیر زرمبادلہ کے پیش منظر اور عوامی صحت کے موجودہ تناظر میں اب وقت آگیا ہے کہ ہم سفر کی اپنی موجودہ عادات اور رویوں کو بدلیں تاکہ لوگوں کی عمومی صحت کے معیار اور ماحول کو بہتر بناتے ہوئے آنے والی نسلوں کو ایک صحت مند اور ماحول دوست پاکستان دیا جا سکے ۔
The post بائیسکل کی شناسائی سے نا آشنائی کی جانب گامزن پاکستان appeared first on ایکسپریس اردو.