(گزشتہ سے پیوستہ)
بات ختم ہی نہیں ہوکے دے رہی۔ قصے پر قصہ نکلے چلا آتا ہے۔ اچھا بس زیادہ نہیں، ایک اور سن لیجیے کہ اب ڈاکٹر ڈی سوزا یاد آگئے ہیں۔ وہ بھی اس بھولے بسرے معاشرے کا ایک جیتا جاگتا کردار ہی تو تھے۔ ہماری عمر مشکل سے گیارہ بارہ برس رہی ہوگی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ سارا گھر رات کو چھت پر سویا ہوا تھا۔ خدا جانے وہ کون سا پہر تھا کہ اچانک آنکھ کھلی۔ کچھ افراتفری سی محسوس ہوئی۔ سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا ہے، لیکن بے کار۔ نیند کا غلبہ تھا، پھر سوگئے۔ صبح اٹھ کر اسکول۔ دوپہر کو واپس آتے ہوئے ملازم نے خبر دی کہ سیّد سجاد حسین صاحب جنھیں ہم چچا کہتے تھے۔
ان کے یہاں پوتے کی ولادت ہوئی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ ان کی بہو مرتے مرتے بچی ہے، بچہ بہت کم زور ہے، گھر والے پریشان ہیں۔ گھر آکر امی سے تشویش کا اظہار کیا اور خیر خبر چاہی تو انھوں نے کچھ گول مول سا جواب دیا اور ماں اور بچے کے لیے صحت و سلامتی کی دعا کی ہدایت کی۔ اس وقت تو کچھ خاص معلوم نہیں ہوا تھا اور جو معلوم ہوا تھا، اس سے زیادہ کوئی بات سمجھ بھی نہیں آئی تھی۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ اس زمانے میں بارہ برس کی عمر ایسی باتیں سمجھنے کے لیے قطعی ناکافی ہوا کرتی تھی۔ آج کے بچے زیادہ سمجھ دار ہیں۔ خیر، یہ واقعہ ایسا تھا کہ اس کی گونج خاصے دن رہی۔ بعد میں کسی وقت گھر کے ملازموں کو آپس میں بات کرتے پایا تو کچھ تفصیل کان میں پڑی جو دیر تک ذہن میں رہی اور بعد ازاں کچھ سمجھ بھی آئی۔
اچھا یہ جو سیّد سجاد حسین صاحب تھے، یہ ہمارے ابا کے دوست تھے۔ بھلے آدمی تھے، مگر کم گو۔ دوسرے چوتھے ابا سے ملنے آتے اور بس دو چار منٹ کو کھڑے کھڑے حال احوال پوچھا اور چل دیے۔ کبھی کبھار ہی چائے پینے کو بیٹھتے ورنہ ابا کہتے رہ جاتے اور چچا سجاد حسین یہ جا وہ جا۔ وہ پہلے تو کہیں کام کرتے تھے، لیکن پھر اُن کا ذہن چل گیا اور اپنے آپ کے نہ رہے۔ اصل میں ایک رات اُن کی بیوی پانچ بچوں اور اُن کو سوتا چھوڑ کر خدا جانے کس کے ساتھ گھر سے نکل گئیں اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔ چچا سجاد حسین کو اس واقعے سے ایسا صدمہ پہنچا کہ از خود رفتہ ہوگئے۔ گم متھان۔ کھانے پینے کا ہوش اور نہ ہی اوڑھنے پہننے کا خیال۔ کڑکتے جاڑے میں بنیان گلے میں ڈالے گھر سے باہر نکل آتے۔ سارا سارا دن کچھ نہ کھاتے پیتے۔ روتے نہ ہنستے، کچھ کہتے نہ سنتے۔ کبھی کبھی سر ہلاتے اور بدبداتے نظر آتے، لیکن کچھ سمجھ نہ آتا، کیا کہتے ہیں اور کس سے مخاطب ہیں۔ وہ ڈیڑھ دو برس ڈاکٹر ڈی سوزا کے زیرِ علاج رہے۔ ملازمت جاتی رہی۔
گھر میں چار لڑکے اور ایک لڑکی اور ان کے ساتھ اسّی برس کی نحیف و نزار ماں۔ اس واقعے کے بعد ان کا سسرال تو ویسے ہی کٹ گیا تھا اور عزیز رشتے دار شاید ایسے کوئی تھے ہی نہیں۔ محلے والوں نے اس زمانے میں اُن کے ساتھ اپنوں سے بڑھ کر نبھائی۔ ناشتے کا ذمے دار ایک گھر تھا تو دوپہر کے کھانے کا دوسرا اور رات کا کھانا تو پابندی سے ڈاکٹر ڈی سوزا کی بیگم خود لاتیں اور اپنے سامنے بچوں اور اُن کی دادی کو کھلا کر گھر واپس جاتی تھیں۔ محلے کے سب لوگ انھیں ڈاکٹرنی صاحبہ کہا کرتے تھے، حالاںکہ وہ طب کے شعبے سے تعلق نہ رکھتی تھیں، بلکہ ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ چچا سجاد حسین علاج معالجے سے کچھ بہتر ہوئے تو بس اتنے کہ گھر بار کی ذمے داریوں کو جاننے اور بچوں کو پہچاننے لگے۔ کچھ اور وقت گزرا تو پھر شاید کام کاج کے لیے بھی کہیں جانے لگے تھے۔ خیر، جب کچھ حواس بحال ہوئے تو اب انھوں نے گھر چلانے سنبھالنے کے لیے عورت کی ضرورت محسوس کی۔ بس جھٹ پٹ بڑے بیٹے کی شادی کردی جس کی عمر تئیس برس بھی نہیں ہوئی تھی۔ انیس بیس برس کی بھانجی کو بہو بناکر گھر لے آئے۔
اب یہ اُس رات کا قصہ ہے کہ انھوں نے آکر ہمارے دروازے پر دستک دی۔ بہو پورے دنوں سے تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ میٹرنٹی ہوم کے نام سے واقف نہ تھے۔ اس معاشرے میں ایک کردار دائی ہوا کرتا تھا۔ یہ خاتون اس موقع پر گھر پہنچتی اور پھر اسی کے ہاتھوں بچے کی ولادت ہوتی۔ خیر، تو اُس رات چچا سجاد حسین پہلے دائی کے گھر گئے۔ معلوم ہوا کہ وہ پاس پڑوس کے کسی گاؤں میں عزیزوں کے یہاں گئی ہوئی ہے۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں آکر ابا کو جگایا اور مشورہ چاہا۔ ابا نے پہلے تو فوراً ہماری والدہ کو اس بچی کی نگہداشت کے لیے چچا کے گھر چھوڑا اور پھر چچا کو لے کر ڈاکٹر ڈی سوزا کے گھر پہنچے۔ لگ بھگ ستر برس کی عمر کے ڈاکٹر ڈی سوزا آدھی رات کو یوں جگائے جانے پر آنکھیں ملتے باہر آئے تو انھیں جلدی جلدی سارا مسئلہ بتایا گیا۔ وہ لپک جھپک گھر کے اندر گئے اور ذرا سی دیر میں بیگم اور اپنے ڈاکٹر والے بیگ کے ساتھ واپس باہر آگئے۔
فوکسی میں بیٹھ کر دونوں میاں بیوی ابا کے اسکوٹر کے پیچھے پیچھے چچا سجاد حسین کے گھر پہنچے۔ کچھ ہدایات دے کر ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹرنی صاحبہ کو اندر بھیجا اور کہا کہ جاکر زچہ کو دیکھیں اور فوراً آکر حال بتائیں۔ ڈاکٹرنی صاحبہ نے جو حال بتایا تو ڈاکٹر ڈی سوزا نے کہا، گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب اندر جاکر انھوں نے اس کم سن لڑکی کو خود دیکھا جو ماں بننے جارہی تھی۔ اسے پینے کی کوئی دوا دی گئی۔ اب یہ خواتین کمرے میں اس کے پاس اور مرد صحن میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں صورتِ حال بدل گئی۔ لڑکی درد سے بلبلانے لگی، لیکن ادھر بچے کی ولادت کے کوئی آثار ہی نہیں تھے۔ وقت کے ساتھ تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا تو پہلے خواتین کے ہاتھ پاؤں پھولے اور پھر مردوں کے بھی۔ فیصلہ ہوا کہ لڑکی کو اسپتال لے جانا ضروری ہے۔ لے جانے کی واحد صورت ڈاکٹر ڈی سوزا کی فوکسی۔ جیسے تیسے ڈاکٹرنی صاحبہ اس کم عمر اور درد سے بلکتی سہاگن کو لے کر گاڑی میں بیٹھیں، لیکن اب یہ کہ گاڑی اسٹارٹ ہوکر نہ دے۔ خیر، دھکے سے اسٹارٹ ہوئی اور ڈاکٹر ڈی سوزا اسپتال روانہ اور اُن کے پیچھے اسکوٹر پر ابا اور چچا سجاد حسین۔ فجر کی اذان کے ساتھ چچا سجاد حسین کے پوتے صاحب اس دنیا میں وارد ہوئے۔ اس اثنا میں لڑکی کی ماں اور میکے کے دوسرے لوگ بھی اسپتال پہنچ گئے۔ تب ڈاکٹر ڈی سوزا، ڈاکٹرنی صاحبہ اور ابا اپنے اپنے گھروں کو لوٹے۔
یہ واقعہ جیسے کل ہی تو ہوا تھا۔ گورے رنگ اور کھڑے قد کے ڈاکٹر ڈی سوزا جو اونچا سنتے تھے اور ان کی پکے رنگ والی فربہی کی طرف مائل بیگم کے چہرے اس وقت آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ ڈاکٹر ڈی سوزا لاولد تھے اور مذہباً عیسائی— لیکن ان کا ایمان تو انسانیت پر تھا— پکا اور غیرمشروط۔ ہمارے یہاں سے کبھی کوئی دوا لینے چلا جاتا تو سارے گھر کی خیریت پوچھتے۔ اپنی میز کی دراز میں ٹافیاں رکھتے تھے۔ کوئی بچہ مریض اُن کے پاس آجاتا تو دوا کے ساتھ دو ٹافیاں بھی دیتے اور کہتے، ایک آج کھانا اور ایک کل۔ پھر ساتھ ہی رات کو سونے سے پہلے دانتوں پر برش کرنے کی تاکید کرتے۔ جب بھی یاد آتے ہیں تو دل سے دعا نکلتی ہے۔ اگر وہ زندہ ہیں تو خوش رہیں۔ رخصت ہوگئے تو خدا ان دونوں میاں بیوی کی روحوں کو سکون اور راحت سے نوازے۔ ہم نے تو ایسے لوگ اور ان کا زمانہ دیکھا ہے اور آج یہ دور بھی دیکھ رہے ہیں۔ اُس وقت انسان کے انسان سے تعلق کے بیچ کچھ حائل نہیں ہوتا تھا۔ آج یوں لگتا ہے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا اور خلا میں بسنے کے منصوبے پر کام کررہا ہے، لیکن افسوس اب لوگ ایک دوسرے تک نہیں پہنچ پاتے۔ کبھی تو لگتا ہے، ایک دوسرے تک ہماری آواز ہی نہیں پہنچ پاتی۔ ایسی دُوری، ایسی بے مہری۔ خدا کی پناہ۔
مذہب جو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی کے سلوک کی تعلیم دیتا ہے، ہمارے درمیان فاصلوں کا ذریعہ بن رہا ہے۔ زبان کہ جسے ہم نے ایک دوسرے تک اپنے جذبات و احساسات پہنچانے کے لیے ایجاد کیا تھا، وہی ہمیں ایک دوسرے سے الگ کردیتی ہے۔ علم اور تہذیب کہ جن کے ذریعے ہم اپنے فکر و شعور کو زمانوں اور نسلوں میں پھیلائیں، وہ اب ایک دوسرے سے ہمارے تصادم کے لیے جواز اور دلائل کی فراہمی کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ آپ کبھی ٹھنڈے دل سے غور کیجیے کہ آپ کس دور میں اور کیسے حالات میں جی رہے ہیں تو آپ کو سخت الجھن ہو، ذہن چکرائے اور دل لُٹ کر رہ جائے۔
معاشرہ تو اس سے پہلے ہی کسی مرحلے پر خراب ہونے لگا ہوگا، لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں بالخصوص ہمارے یہاں انسانوں کے بیچ ایسے فاصلے پیدا ہوتے چلے گئے ہیں کہ اب اجتماعیت کا احساس مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے۔ پہلے زمینی فاصلوں کے باوجود لوگ ذہنی اور دلی طور پر قریب رہتے تھے، اور اس قدر کہ جغرافیائی فاصلے ان کے رشتوں کا کچھ نہ بگاڑ پاتے اور اب یہ عالم ہے کہ ایک شہر نہیں، ایک محلے میں رہنے والوں کے مابین جیسے براعظموں کا فاصلہ در آیا ہے۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ خلیج تو دلوں میں پیدا ہوتی ہے، اور اگر ہوجائے تو دیوار بھر کا فاصلہ بھی براعظم سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ اس فاصلے میں عدم تحفظ کے احساس نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔ اب ہم سب غیرمحفوظ ہوگئے ہیں، اس لیے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کی انسانیت پر ہمارا یقین باقی نہیں رہا ہے، کیوں نہیں رہا؟ اس لیے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ خود اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ہم خود چوںکہ ایک دوسرے کو اپنے اندر موجود کسی تعصب کے زاویے سے دیکھتے ہیں، اس لیے آپس میں خوف زدہ رہتے ہیں۔ ہمارے درمیان رواداری اور اعتماد کا تعلق اس تیزی سے ختم ہوا اور مزید ہوتا جارہا ہے کہ ہمیں ہر وقت خوف، الجھن اور وحشت پیدا کرنے والی سوچیں گھیرے رہتی ہیں۔
بے شک ہمارے ساتھ ہمارے دشمنوں نے بھی ضرور کوئی نہ کوئی چال چلی ہوگی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے خود بھی ایک دوسرے پر بڑا ظلم کیا ہے، بہت نقصان پہنچایا ہے آپس میں۔ خوف، وحشت اور عدم برداشت کے اس منظرنامے کا ہم جائزہ لیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں جو زخم لگے ہیں، ان میں زیادہ تر تو ہمیں خود ایک دوسرے کے ہاتھوں لگے ہیں، دشمنوں کے نہیں۔ ہم نے ہی خود کو بے یارومددگار کیا ہے۔ ہم خود ہی ایک دوسرے سے بیگانے ہوئے ہیں۔ اس طرح کہ ہم سب خود مرکز اور خودپسند ہوکر اپنی ذات کے زنداں میں قید ہوتے چلے گئے۔
اس قیدِتنہائی نے باقی سب کو ہمارے لیے لاتعلق اور ناقابلِ برداشت بنا دیا۔ سارتر نے کہا تھا، دوسرا ہمارے لیے جہنم ہے۔ ہم نے اس حقیقت کا بدترین مفہوم اپنی زندگی میں رائج کرکے دکھایا ہے۔ ہماری انا بڑی ہوتی ہوتی ایک عفریت بن گئی ہے اور ہمیں دوسروں سے ہر وقت ڈراتی رہتی ہے۔ اس نے دوسروں کو ہمارے لیے ناقابلِ قبول، ناقابلِ اعتبار اور ناقابلِ برداشت بنادیا ہے— اور یوں ہم خود اپنی ہی وحشت، خوف، لاتعلقی اور تنہائی کے ہول ناک بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اس بری طرح کہ سانس لینا بھی محال ہوگیا ہے۔ وہ چیزیں جو ہمارے روزمرہ منظر کا حصہ تھیں، ہم اُن سے غافل ہوگئے، جو لوگ ہماری زندگی کے تناظر کو توسیع دیتے تھے، ہم نے ان کی طرف نگاہ کرنا چھوڑ دیا اور وہ کام جن کے کرنے سے ہمیں جینے کا احساس ہوتا تھا، ہم نے ان سے منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد کیا یہی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جو ہمارے ساتھ ہوا؟
ہمارے سماج کو بربادی کے اس راستے پر دھکیلنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے ہمارے سیاست دانوں نے۔ جی ہاں، سیاست داں— مگر کون؟ صرف وہ نہیں جو سیاسی جماعتیں بناتے، جذباتی نعرے ایجاد کرتے اور عوام کو نشے کی طرح جھوٹی امنگوں میں مبتلا رکھنے والے خواب دکھاتے ہیں۔ وہ تو خیر ہیں ہی، لیکن ان کے ساتھ ساتھ وہ سب لوگ بھی دراصل سیاست داں ہیں جو مذہب و مسالک کے نام پر، صوبائیت اور علاقائیت کے نام پر، زبان اور کلچر کے نام پر عوام کو تقسیم کرتے ہیں، ان کا استحصال کرتے ہیں، ان کے معصوم دل کی زرخیز زمین میں نفرت اور تعصب کے بیج بوتے اور مغائرت اور اشتعال کی فصلیں اگاتے ہیں۔ انھیں کسی مسلک، صوبے، علاقے، زبان اور کلچر سے رتی برابر محبت نہیں ہوتی۔ ان کی نظر تو صرف اور صرف اپنے ہدف پر ہوتی ہے۔ وہ تو صرف اپنے مفاد کی فکر کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ عوام کی جان، مال، عزت اور ملک کے وقار، استحکام اور سلامتی سے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ان میں سے ہر چیز کو وہ لوگ اپنے معمولی سے فائدے کے لیے بے دریغ داؤ پر لگانے اور قربان کرنے سے نہیں چوکتے۔ ہمارے ملک کی گزشتہ ستر برس کی تاریخ تو اس حقیقت کو بارہا ثابت کرتی رہی ہے۔
آج ہم ایک بیمار معاشرہ ہیں۔ ایک مضمحل اور مضطرب سماج۔ اندیشوں، وسوسوں اور خوف میں گھرا ہوا ایک بے سمت اور بے قوت گروہ۔ ہمیں تحمل اور دیانت داری سے اپنا جائزہ لینا اور خود سے پوچھنا چاہیے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں، کیا یہ وہی راستہ ہے جس پر ہم چلنا چاہتے تھے تاکہ زندگی، بقا، عزت، خوشی، آسودگی اور استحکام کی منزل تک پہنچ سکیں؟ اگر واقعی ہم ایک بار ہمت کرکے یہ سوال خود سے پوچھ ہی ڈالیں تو یقین کیجیے، ہمیں اس کا جواب بھی مل جائے گا— اور وہ جواب ہوگا، نہیں— ہرگز نہیں۔
یہ جواب پاکر ہم ٹھٹک جائیں گے، چلتے چلتے رک جائیں گے۔ اس لیے کہ ان ساری ابتلاؤں، آزمائشوں، تکلیفوں اور ہزیمتوں کے باوجود ہم اب تک مکمل طور پر بے حس نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارا ضمیر اب تک بھی مردہ نہیں ہے۔ ہماری عقل اور ہمارے حواس بھی کسی حد تک کام کررہے ہیں۔ زندگی کی حرارت ابھی ہمارے لہو میں باقی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ہمارا مرض لاعلاج نہیں ہوا ہے۔ ہم ایک تنگ، تاریک اور دم گھونٹ دینے والی سرنگ میں تو ضرور ہیں، اور یہ سرنگ طویل بھی ہے، لیکن آگے بند نہیں ہے۔
اس کی دوسری طرف راستہ کھلا ہے، وہاں روشنی دکھائی دے رہی ہے۔ کم کم ہی سہی ادھر سے آکسیجن لیے ہوئے کچھ نہ کچھ ہوا بھی آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہے، ہمارے لیے ابھی تک تو زندگی کے امکانات ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہم اگر چاہیں تو اب بھی روشنی کی طرف بڑھ سکتے ہیں، خون میں موجود اس حرارت کو اپنی بقا کا سامان بناسکتے ہیں— اور یہ کوئی بہت اَن ہونی بھی نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ہمیں پہاڑ کھود کر جوے شیر ہرگز نہیں نکالنی۔ بس اتنا کرنا ہے کہ ہم اس اذیت ناک اور جان لیوا احساس کو رد کردیں جو ہم پر، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ایک مہیب عفریت کی طرح غلبہ پانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ احساس کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، بس ایک وہم— یہ کہ ہم تنہا ہیں، کسی کو ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے، کسی کو ہماری پروا نہیں ہے، کسی کو ہماری ضرورت نہیں ہے، ہم کسی کے لیے نہیں ہیں— اور کوئی ہمارے لیے نہیں ہے۔
بس اس منفی سوچ کو ذہن سے نکال دیجیے۔ اپنے احساس کو اس جھوٹے خیال سے چھڑا لیجیے اور اپنی روح کو اس دھوکے کے شکنجے سے آزاد کرالیجیے۔ پھر آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کے دائیں بائیں تعلق کی گرمی، محبت کی خوش بو اور وارفتگی کی حیات بخش ہوا موجود ہے اور آپ تک بخوبی پہنچ رہی ہے۔ آپ کے آس پاس اخلاص، مروّت اور شیفتگی کے کتنے ہی رشتے جگمگا رہے ہیں۔ آنکھ اٹھا کر ان کی طرف تو دیکھیے، آپ کے اندر روشنی بھر جائے گی۔ آئیے ان رشتوں کی طرف، محبتوں کی طرف واپس آئیے— یقین کی طرف، خوشیوں اور اعتبار کی طرف۔
The post ہمارا معاشرہ اور اجنبی فرد appeared first on ایکسپریس اردو.