خیر و شر کی کش مکش روز اول ہی سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔ ازل سے شر خیر کے تعاقب میں ہے اور چاہتا ہے کہ خیر کو اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑ کے اس کے وجود کو بے معنی بنادے۔ بہ ظاہر شر کی قوتیں خیر پر حاوی نظر آتی ہیں لیکن نتیجے کے اعتبار سے فتح انجام کار خیر کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ خیر، حق کا عکس ہے۔
بنی اسرائیل کے آخری رسول عیسی ابن مریم علیہ السلام کے لگ بھگ ساڑھے چھے سو برس بعد جزیرہ نما عرب میں اس سلسلۂ نبوت و رسالت کی آخری کڑی خاتم المرسلین و خاتم انبیاء محمد بن عبد اﷲ ﷺ کے آفتابِ رسالت کی روشنی نے عرب کے ہر گوشے کو منور و تاب ناک کردیا۔ برس ہا برس سے چھائے ہوئے جہل کے اندھیروں کی قبا تار تار ہوگئی۔ من گھڑت خدا زمیں بوس ہوگئے۔ صدیوں کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں، حقوق و فرائض کے بگڑے ہوئے توازن میں اعتدال پیدا ہوگیا۔ ظلم و جبر کی برچھیوں تلے سسکتی انسانیت کو سکھ کا سانس لینے کی ساعتیں نصیب ہوئیں۔ انسان کے مادی تقاضوں کی اصلاح کے ساتھ قلب و ذہن میں بھی ایک عظیم انقلاب برپا ہوگیا۔
ڈاکٹر محمد حمید اﷲ لکھتے ہیں: ’’دنیا میں برائی اور گناہ کو فن لطیف بنا دینے والے بھی اور قوم کی حالت پر کڑھنے اور درد مند دل رکھنے والے بھی ہر جگہ اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں، برائی اور اخلاقی پستی جتنے بڑے طبقے میں پھیلتی اور شدت اختیار کرتی ہے، اتنے ہی بڑے کردار کے مصلح کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ رسولِ عربی ﷺ بھی ایسے ہی اخلاقی پستیوں میں گرے لوگوں کے درمیان مبعوث کیے گئے اور آپ کو اﷲ تعالیٰ نے اخلاق و کردار کے مقامِ رفیع پر فایز کرکے ان شرک و اوہام اور نجاست و آلودگی میں ڈوبے وحشی انسانوں کی اصلاح کی غرض سے بھیجا اور آپؐ کا مقصد بعثت قرآنِ حکیم میں ان الفاظ میں بیان ہوا: ’’ وہی (اﷲ) تو ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گم راہی میں تھے۔‘‘ (الجمعہ)
شر کی قوتوں پر جب حق و صداقت کی کاری ضرب لگتی ہے اور ان کے باطل عقائد و نظریات کی بنیادیں متزلزل ہونے لگتی ہیں تو انہیں اپنی سلامتی و بقا کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ کیوں کہ برسوں سے جمے جمائے ایک نظام سے کسی کے اعلان بغاوت کو ان کے مکر و فریب اور مفاد پرستی کی جڑیں ہلا دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ چناں چہ جب توحید کی دعوت و تبلیغ کا ابتدائی مرحلہ شروع ہوا اور جس نے اس دعوت کو قبول کیا اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ کسی کو دھکتی آگ پر ننگی پیٹھ لٹایا گیا اور کسی کو اتنا مارا پیٹا گیا کہ بس مرنے کی کسر باقی رہ گئی۔ ایک صحابیہ حضرت سُمیّہؓ کو برچھی مار کر شہید کیا گیا، جو اسلامی تاریخ میں پہلی شہید خاتون کہلاتی ہیں۔ دیگر خواتین اسلام پر بھی ظلم و ستم کا ہر حربہ اپنایا اور انہیں آزمایا گیا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ مردوں کی طرح خواتین اسلام کے بھی پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ غرض کہ ایک داستان خوں چکاں ہے جس سے تاریخ کے صفحات رنگین ہیں۔ اتنے ظلم و مصائب ڈھائے گئے کہ بعض صحابۂ کرامؓ پکار اٹھے: ’’ اے اﷲ کے رسولؐؐ! اﷲ کی مدد کب آئے گی۔۔۔ ؟
آخرکار اس تشدد و تعدیب سے نجات کے لیے اﷲ کا حکم آگیا اور ان سعید روحوں کو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ چناں چہ پہلے حبشہ اور بعد میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی گئی، مگر توحید رسالتؐ پر ایمان لانے والوں کی یہ آزادی ٹھنڈے پیٹوں کیسے برداشت کی جاسکتی تھی۔ دشمنان اسلام نے مدینہ میں بھی انہیں سکون سے نہ رہنے دیا اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بنتے رہے۔ جس کے نتیجے میں رسول اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ میں غزوات و سرایا کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا اور جن کا مسلح آغاز ’’ غزوۂ بدر ‘‘ سے ہوتا ہے۔
17رمضان المبارک بہ روز جمعۃ المبارک بدر کے مقام پر کفر اور اسلام صف آرا ہوئے۔ کفار قریش اور سرفروشانِ توحید و رسالتؐ کے لشکر اور جنگی ساز و سامان دیدنی تھا۔ دشمنِ اسلام ایک ہزار نفری اور اس وقت کے جدید کیل کانٹے سے لیس سامنے موجود تھا۔ جب کہ دوسری جانب 313 افراد اور ساز و سامان میں صرف دو گھوڑے اور ساٹھ اونٹ تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مادیت اور اس کی پرستش نے نسلوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ مادہ پرستی اپنے خمیر میں ایک احساسِ تفاخر رکھتی ہے، اس لیے اسے اس کے اندر چھپے ان عوامل کا شعور نہیں ہوتا جو بالآخر قوموں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر تا ہے۔ غزوۂ بدر میں بھی معاملہ ایمان اور مادیت کے تصادم کا تھا۔ لیکن جنگیں محض ہتھیاروں سے نہیں، بل کہ جذبے اور مضبوط قوت ِ ارادی سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں اور جذبہ جب ایمان کا اور قوت ارادی توحید و رسالتؐ کے خمیر سے اٹھی ہو تو شکست باطل قوتوں کا مقدر بن جاتی ہے۔
غزوہ کی ابتدا سے پہلے گھاس پھونس کی ایک جھونپڑی میں اﷲ کے رسول ﷺ نے ایک طویل سجدہ فرمایا اور اس میں انتہائی آہ و زاری سے یہ دعا فرمائی: ’’ اے اﷲ! یہ میری پندرہ برس کی کمائی ہے جو میں نے تیرے سامنے لاکر ڈال دی ہے، اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیرا کوئی نام لینے والا نہیں رہے گا، بارِِ الٰہا! تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تو مجھے کام یاب کرے گا، اب اس کو پورا کر نے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ پھر جنگ شروع ہوئی اور ساتھ ہی رحمت الٰہی جوش میں آئی اور نصرت ِ خداوندی سے کفار قریش کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے 70 بااثر لوگ قتل ہوئے اور 70ہی مشہور آدمی قیدی بنالیے گئے، جب کہ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم میں سے 13افراد نے جام ِ شہادت نوش کیا۔ رسولِ خدا ﷺ کا ازلی دشمن ابوجہل بھی اسی جنگ میں مارا گیا۔ جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا تھا: ’’ یہ شخص اس امت کا فرعون ہے۔‘‘
غزوۂ بدر میں کفار کی شکست فاش کے نتیجے میں پورے عالم عرب اور خاص طور پر بدر کے اردگرد کے علاقے میں اہل ایمان کی دھاک بیٹھ گئی کہ قریش کی ایک ہزار کی جمعیت 313 بے سر و سامان مسلمانوں سے شکست کھا گئی۔ اس خبر سے سارے عالم عرب میں تہلکہ مچ گیا اور زبردست کام یابی کے نتیجے میں اسلام کی دعوت کو پھیلنے میں بڑی تقویت ملی۔
اس فتح کے موقع پر سرفروشانِ اسلام کی تعداد انتہائی قلیل تھی اور ہتھیار بھی نہ ہونے کے برابر تھے، مگر اﷲ کی تائید و نصرت نے انہیں کام یابی سے ہم کنار کیا۔ لیکن آج ہماری تعداد اربوں میں ہے اور ہم ایٹمی ہتھیاروں کے مالک بھی ہیں پھر بھی دنیا میں ہماری نہ کوئی عزت و وقعت ہے اور نہ کوئی ہماری واضح اور قابل قدر شناخت ہے۔ اگر آج بھی امت مسلمہ غزوۂ بدر کے واقعہ پر غور کرے تو یہ حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ جذبہ اگر صادق ہو، دل میں دین کا سچا درد ہو اور ایمان و یقین اپنے پورے تقاضوں کے ساتھ قلب و ذہن میں راسخ ہو تو مادی وسائل کی کمی بھی کام یابی میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ عزت و توقیر اور فتح و کام رانی آج بھی ہر محاذ پر ہمارے قدم چومے گی۔ اﷲ تعالیٰ کی غیبی مدد بدر میں بھی آئی تھی اور جب ہم متحد ہو جائیں گے اور رسول ِ برحق ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دین کو غالب کر نے کی جدوجہد کر یں گے تو آج بھی اﷲ اپنی بے حساب نعمتوں، رحمتوں اور فتح یابیوں کے دروازے کھولتا چلا جائے گا۔
ارشاد با ری تعالیٰ ہے: ’’ اے ایمان والو! اگر تم اﷲ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔‘‘
The post غزوۂ بدر: حق و باطل کی شناخت appeared first on ایکسپریس اردو.