پاکستان میں جب بھی انتخابات کی گھڑی آتی ہے، قوم دل تھام کے بیٹھ جاتی ہے،کہ ماضی میں ہونے والے انتخابات سے خیر کم ہی برآمد ہوئی ہے۔
ہر انتخاب میں ایسا کچھ خاص ضرور ہوا کہ وہ الگ سے اپنی منفرد شناخت رکھتاہے۔اس اعتبار سے پہلے دوعام انتخابات کا معاملہ ہی لیجیے، 1970ء میں جس پارٹی نے اکثریت حاصل کی ، اسے اقتدار منتقل نہ ہوا اورپھرآدھاملک ہاتھ سے چلا گیا۔دوسرے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی اکثریتی پارٹی کے روپ میں سامنے آئی، مگراپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگاکر تحریک بپاکی جو ضیاء الحق کے ورود نامسعود پرمنتج ہوئی۔اس تاریخی پس منظر کے باوجود قوم کا ہمیشہ اس بات پریقین رہا کہ انتخابات کے ذریعے سے وجود میں آنے والی حکومتیں ہی ملک کومسائل کے گرداب سے نکال سکتی ہیں اور ملک کا مستقبل جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔ سال2013ء میں پاکستان میں پہلی بارمنتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات ہونے جارہے تھے،جو اپنی جگہ بڑی اہم بات تھی مگر مکدرسیاسی فضا سے عوام کے ذہنوں میں کہیں یہ شک منڈلا رہا تھا کہ آیا وہ ووٹ کے ذریعے سے اپنے نمائندوں کو منتخب کرپائیں گے یا نہیں۔
طالبان کی دھمکیوں سے انتخابی مہم میں خوف کی چادر تنی رہی، خاص طور سے پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں جودشواری رہی، اسے ان جماعتوں نے پری پول رگنگ سے تعبیرکیا۔اس باب میںپیپلز پارٹی اور اے این پی کا کہنا درست سہی مگران دونوں پارٹیوں نے اگر سلیقے سے حکومت کی ہوتی تو ان کی کارکردگی ہی انتخابی مہم کا کام دے جاتی لیکن مرکز میں پیپلزپارٹی اور خیبرپختونخوا میں اے این پی نے ایسی ’’مثالی‘‘ کارکردگی دکھائی کہ ان کی شکست دیوار پرلکھی نظرآرہی تھی۔عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی نے اپنی بھڑاس یہ کہہ کرنکالی کہ انتخابات کے ریفری فخرالدین ابراہیم نہیں، حکیم اللہ محسود تھا۔دوسری بات جس کے باعث عوام کے ذہنوں میں شبہات نے جنم لیا ، وہ علامہ طاہرالقادری کی برسوں بعد’’سیاست نہیں ریاست بچائو ‘‘کے بے معنی اورمبہم نعرے کے ساتھ اچانک وطن واپسی تھی۔موصوف نے آتے ہی نظام بدلنے کا مطالبہ کردیا ۔ نگران حکومت کے لیے عدلیہ اورفوج سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا حکم صادر کیا۔ لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد روانہ ہوئے۔ادھر پہنچ کردھرنا دیا۔
پارلیمنٹ پردوحرف بھیجے۔ اسمبلیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جو پورا نہ ہونے پروزیراعظم اور وزرا کو خود ہی سابق قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن توڑنے کا بھی مطالبہ کیا ۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین ابراہیم پرجب وہ تنقید کر رہے تھے تو وہ لوگ جن کا حافظہ ٹھیک کام کرتاتھا یا جنھیںتاریخ سے تھوڑی بہت شدبد تھی، وہ اس سوچ میں غلطاں تھے کہ علامہ طاہر القادری کو آج تو انتخابی عمل میں کیڑے نظرآرہے ہیں لیکن جب جنرل پرویزمشرف کے دور میں جسٹس(ر) ارشاد حسن خان نے فراڈ ریفرنڈم اور دھاندلی زدہ انتخابات کرائے تو اس شرمناک کھیل میں وہ پرجوش طریقے سے شریک ہوئے تھے۔مسلم لیگ ق کس طرح وجود میں آئی، سب جانتے ہیں ۔جب قوم کے ساتھ وردی والا صدر مذاق کررہا تھا، تو طاہرالقادری نے چپ سادھے رکھی، اور اب آئین کے تحت پہلی بارایک سویلین حکومت کے مدت پوری کرنے کے بعد منتخب حکومت کو اقتدارمنتقل کرنے کا مرحلہ قریب آیا توانھیں اصلاحات یاد آگئیں۔بہرحال طاہرالقادری نے پیپلزپارٹی کے وفد سے کامیاب مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کردیا۔
پاکستان عوامی تحریک کے سیاسی غبارے سے ہوادراصل اپوزیشن جماعتوں کے رائیونڈ میں ہونے والے اجلاس سے نکلی، جس میں سب نے یک زبان ہوکر طاہرالقادری کے ایجنڈے کو ملک کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ عمران خان نے اس مرحلے پربڑی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور کارکنوں کے دبائو کے باوجود دھرنے میں شرکت سے گریزاں رہے، اس طرح کی سوجھ بوجھ کی توقع ان سے آیندہ بھی رکھی جاسکتی ہے کہ عمران خان کو اگر سیاسی طور پرکچھ مل سکتا ہے تو انتخاب کے ذریعے سے اوراس کے برعکس ان کے اردگرد نظرآنے والی کچھ ہستیوں کو توکسی ایڈونچر کے نتیجے میں ہی منزل مراد مل سکتی ہے، اس لیے ان کی خواہش یہی ہوگی کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے عمران خان کا کندھا استعمال کریں۔ چیف الیکشن کمشنر کے طور پر نیک نام فخرالدین ابراہیم کے تقرر کو تقریباً سبھی سیاسی جماعتوںنے خوش دلی سے قبول کیا لیکن رفتہ رفتہ ان کے بارے میں کمزورمنتظم کا تاثر زور پکڑتا گیا۔تمام ترشکایات اور اعتراضات کے باوجود سیاسی جماعتیں بروقت انتخابات کے انعقاد کے لیے یکسو تھیں۔عمران خان جن کے تحفظات سب سے بڑھ کرتھے،ان کا بھی کہنا یہی رہا کہ انتخابات کا التوا تباہی کا باعث بنے گا۔
2013ء کے انتخابات سے قبل امیدبندھی کہ شاید تارکین وطن کو ووٹ ڈالنے کا حق مل جائے مگرسپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود الیکشن کمیشن اس کا انتظام کرنے سے قاصر رہا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر ریجنز پرمشتمل قبائلی علاقوں میں سیاسی بنیاد پرانتخابات ہوئے، اور یہ سب صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کو فاٹا تک توسیع دینے کی بنا پرممکن ہوسکا ۔الیکشن سے قبل تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ مرکز میں کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی مگر نتائج آئے تو ایسے سب تجزیے غلط نکلے۔مسلم لیگ ن کو مرکز میںواضح اکثریت حاصل ہوئی اور وہ پیپلزپارٹی کی طرح اتحادیوں کے نازنخرے اٹھانے اور بلیک میلنگ سے بچ گئی۔پنجاب میں مسلم لیگ ن کو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت ملی اور شہباز شریف تیسری بار وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس بار سیاسی منظرنامے میں جو نمایاں تبدیلی آئی، وہ تحریک انصاف کا مضبوط سیاسی جماعت کے روپ میں ابھرنا تھا۔ 30اکتوبر2011ء کے مینارپاکستان میں ہونے والا جلسہ وہ حد فاصل ہے، جس کی مدد سے تحریک انصاف کو دو واضح ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
لاہور جلسے سے پہلے والی تحریک انصاف اور بعد والی تحریک انصاف۔ عمران خان نے سب سے زیادہ توجہ پنجاب پرمرکوز کی،کہ وہ جانتے تھے کہ جو پارٹی یہاں اکثریت حاصل کرے گی وہی مرکز میں حکومت بناسکے گی۔ انتخابی مہم میں وہ شریف برادران پرسب سے زیادہ گرجے برسے۔ادھر مسلم لیگ ن کو بھی تحریک انصاف سے خطرہ محسوس ہوا تواس نے بھی اپنے سیاسی بچائو کے لیے پنجاب میں حکومتی اور سیاسی سطح پر تیزی سے کچھ اقدامات کئے تاکہ تحریک انصاف کے سیل رواں کو روکا جا سکے۔عمران خان کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی کلین سویپ کرے گی مگر انتخابات کے نتائج نے ان کی امیدوں پرپانی پھیردیا۔پنجاب میں جہاں تحریک انصاف نے سب سے بڑھ کر زور لگایا وہ قومی وصوبائی اسمبلی کی بہت کم نشستیںحاصل کرپائی۔ تحریک انصاف کا سونامی اگرصحیح معنوں میں کہیں آیا تو وہ خیبرپختونخوا ہے، جہاں اس نے سیاسی اعتبارسے اے این پی کو ملیامیٹ کر دیا، جمعیت علمائے اسلام (ف)کو بھی سیاسی طور پرنقصان سے دوچار کیا۔تحریک انصاف خیر پختونخوا میں اکثریتی پارٹی کے طور پرسامنے آئی اور اسے صوبائی حکومت بنانے کاموقع مل گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کوشش توبہتیری کی کہ مسلم لیگ ن کو ساتھ ملاکرتحریک انصاف کو حکومت بنانے سے روکا جائے مگرمسلم لیگ نے خود کوان سے متفق نہ پایا اور اکثریتی پارٹی کی حکومت بننے دی۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس عمل میں اصول پسندی سے بڑھ کرمسلم لیگ ن کی یہ سوچ کارفرما تھی کہ گورنس کے اعتبار سے انتہائی پیچیدہ صورتحال کے حامل صوبے میں تحریک انصاف ٹھیک طریقے سے حکومت نہیں چلاسکے گی ، اوراس ناکامی کوپنجاب میں بھی تحریک انصاف کے خلاف دلیل کے طور پراستعمال کیا جاسکے گا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں سب سے بہترسیاسی پیش رفت بلوچستان میںہوئی جہاںکسی سردار کے بجائے اس بار مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بنے۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی اس بات کا کریڈٹ جاتاہے کہ وہ اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجودقوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنانے پررضامند ہوئی اور گورنر کا عہدہ بھی قوم پرست جماعت سے تعلق رکھنے والے فرد کو دیا۔سندھ کی سیاسی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ پیپلزپارٹی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ قائم علی شاہ پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔فرق پڑا تو صرف اتنا کہ اس بارسندھ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایم کیوایم شریک اقتدارنہیں۔
انتخابات کے نتائج پرزیادہ ترسیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔طرفہ تماشایہ کہ جیتنے والے بھی سراپااحتجاج اور ہارنے والے بھی۔پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے پنجاب میں گڑبڑ کا الزام لگایا۔آصف علی زرداری اور عمران خان نے پنجاب میں اپنی ہار کی ذمہ داری ریٹرنگ افسروں پرڈال دی۔ دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی کی حریف جماعتوں نے دھاندلی کی بات کی تو کراچی میںتحریک انصاف اورجماعت اسلامی نے ایم کیوایم کو دھاندلی پرمورد الزام ٹھہرایا۔مولانا فضل الرحمٰن نے خیبر پختونخوا کے بعض حلقوں میں نتائج کو مشکوک قراردیا۔بلوچستان میں بھی بعض حلقوں میں بے قاعدگیوں کی خبریں گرم رہیں، یعنی ملک کا کوئی ایسا حصہ نہیں تھا ، جہاں دھاندلی کے الزامات نہ لگائے گئے ہوں۔ایک صوبے کی فاتح پارٹی نے دوسرے صوبے میں اپنی ہارکو دھاندلی کا شاخسانہ قراردیا۔سب جماعتوں کے شکوے شکایتیں اپنی جگہ لیکن پیپلزپارٹی کا ردعمل سب سے زیادہ حیران کن تھا، جس کا الیکشن کمیشن کی تشکیل اور نگران حکومتوں کے قیام میں کردار سب سے بڑھ کرتھا، اس لیے اگرانتخابی عمل منصفانہ نہیں تھا تو اس کی بڑی حد تک تو وہ خود ذمہ دار تھی۔
؎پیپلزپارٹی کی پنجاب میں ہار کوسراسر اس کے حکومتی اعمال کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ سب جماعتوں نے احتجاج کے باوجود نتائج کو مجموعی طور پرقبول کرلیا لیکن بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بہرحال ایسے انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے، جس پر فریقین اعتماد کرسکیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے انتخابات کے نتائج پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے عوام نے شعوری، خیبرپختونخوا کے عوام نے جذباتی،سندھ کے عوام نے روایتی جبکہ بلوچستان کے عوام نے ملا جلا ووٹ دیا۔اس بیان پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے سخت ردعمل کا اظہارکیا ، کہ ان کے خیال میں عوامی مینڈیٹ کو اس طرح کے خانوں میں بانٹنا مستحسن بات نہیں۔ اس بارانتخابی عمل کا ایک روشن پہلوماضی کے مقابلے میں ٹرن آئوٹ میں کئی گنا اضافہ بھی ہے، اس بارٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد رہا، جو پاکستانی تاریخ میں ریکارڈ ہے۔
انتخابی عمل کی اہمیت کو مسلح افواج اور اعلیٰ عدلیہ نے بھی تہہ دل سے تسلیم کیا۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کاالیکشن کے بعد یہ کہنا کہ دہشت گردی کے خطرات کے باوجود قوم نے ووٹ ڈال کرگمراہ کن اقلیت کوشکست دی، مثبت سوچ کی غمازی کرتا ہے، تو دوسری طرف چیف جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری نے بھی ایک کیس کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ تبدیلی ووٹ سے آتی ہے اور جمہوریت کے سواملک میں کسی نظام کی گنجائش نہیں۔ عوام، سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کاجمہوریت کے حق میں اتفاق رائے ملک کے لیے نیک شگون قراردیا جاسکتاہے ۔ جمہوریت ہی سے اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے اور کوئی دوسرا نظام اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔سیاسی نظام میںجو خامیاں ہیں، انھیں دور کرنے کے لیے کوششیں ضرورہونی چاہییں لیکن ایسا اسی صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب نظام چلتا رہے، اگر یہ ڈھے جائے گا توپھرتباہی کے سوا کچھ بھی ہمارا مقدرنہیں۔ان نقالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا، جو حیلے بہانوں سے ملک کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے درپے ہیں۔