اِس گفتگو سے پہلے ہم اُن کی شخصیت کے صرف ’کتابی‘ پہلو سے واقف تھے۔۔۔ یعنی بطور ناشر اُن کا کام اور بچوں کے ادب سے اُن کے خصوصی لگائو نے ہماری توجہ اُن کی جانب مبذول کرائی۔۔۔ لیکن جب اُن سے گفتگو ہوئی، تو ان کی شخصیت کی بہت سی دیگر جہتیں بھی کھلتی گئیں۔ یوں اہم حوالوں اور معلومات سے آراستہ اُن کے منفرد تجربات اور خیالات ایک دل چسپ ملاقات کی صورت اختیار کر گئے۔
وہ خود کو ایک ’کاروباری‘ کہتے ہیں، لیکن ’اٹلانٹس پبلی کیشنز‘ کے ذریعے انہوں نے اپنی صلاحیتیں اشاعت کتب میں لگا کر یقیناً ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ یہ بے باک اور منفرد شخصیت فاروق احمد کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب سے الف مد زبر آ پڑھنا شروع کیا، تب سے ہمیں تحفے میں صرف کتاب ملی، یہ اُس زمانے کا اعجاز تھا کہ گھروں میں بچوں کے اپنے کتب خانے ہوتے تھے۔ تیسری جماعت کے نتائج پر امی نے جب مکمل داستان امیر حمزہ تحفے میں دی، تو گویا کتابوں کا نشہ سا سوار ہوگیا۔
روزانہ تین روپے جیب خرچ ملتا تھا، جسے بچا کر روزانہ شام کو ناظم آباد چار نمبر میں گھر کے قریب ’اسٹوڈنٹ کارنر‘ اور ’بانو بک ڈپو‘ جا کر کتابیں خریدتے۔ ’بانو بک‘ کے مالک رشدی صاحب پینسل، شاپنر لینے آنے والے بچوں کو کتابوں خریدنے کا کہتے اور روپے، روپے والی کہانیاں تحفتاً دے دیتے، ایسے لوگ اب نہیں ملتے۔
اس زمانے میں زیادہ تر تین روپے والی کہانیاں آتی تھیں۔ میری عمر کوئی آٹھ سال رہی ہوگی، ’اسٹوڈنٹ کارنر‘ میں ایک کتاب ’دولت پور میں‘ ساڑھے چار روپے کی تھی، میں روزانہ شام کو جاتا اور کتاب نکال کر قیمت پوچھتا، اور رکھ دیتا۔ ایک دن انہوں نے پوچھا بیٹا تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں، میں نے کہا تین روپے، تو انہوں نے تین روپے میں ہی وہ کتاب مجھے دے دی۔
1970ء کی دہائی تک فیروز سنز کی تمام مطبوعات جمع کر لی تھیں۔ 1975ء میں اشتیاق احمد کا نام سامنے آیا۔ ناول ’الہ دین کا چراغ اور ہم‘ میں انہوں نے اپنا پتا لکھ دیا، تو انہیں خط لکھا کہ ہم آپ کی کتابیں بہت شوق سے پڑھتے ہیں۔ تب ہم 11 سال کے تھے، تین دن بعد جب اُن کا جواب آگیا، تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کہ اتنے بڑے مصنف نے ہمیں جواب دیا۔ جنوری 1980ء میں لاہور گئے، تو اشتیاق احمد سے بھی ملے۔ انہی دنوں وہ پی ٹی وی کے پروگرام ’فروزاں‘ میں مدعو ہوئے، تو ہمیں بہ ذریعہ پوسٹ کارڈ اس کی خبر کی کہ ضرور دیکھیے گا۔
اس انٹرویو میں غزالہ قریشی نے ان سے پوچھا کہ کبھی ایسا لگا کہ ’انسپکٹر جمشید سیریز‘ کا کوئی کردار آپ کے سامنے آگیا ہو، تو انہوں نے کہا ہاں کراچی سے ایک لڑکا فاروق میرے پاس آیا تھا، وہ بالکل میرے کردار فاروق جیسا تھا، یہ ہمارے لیے بات بڑی بات تھی۔ ہمارے ادب سے لگائو میں والدہ کے کردار کے بعد اس طرح کے حوصلہ افزائی نے اہم کردار ادا کیا۔ اُس زمانے کے لوگ بچوں کو پورے خلوص سے جواب دیتے تھے، اشتیاق احمد اگر میرے خط کا جواب نہ دیتے، تو میرا کتابوں کا شوق بھی شاید اس نہج پر نہ پہنچتا۔
وہی اشتیاق احمد پھر فاروق احمد کے لیے ایک اہم حوالہ بنے، اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’جولائی 2001ء میں اشتیاق احمد 713 ناول لکھ چکے تھے، پھر انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا کہ اب 500 ناول بھی فروخت نہیں ہوتے، کہاں پہلے 12،12 ہزار نسخے بِک جاتے تھے۔
’کیا واقعی ایسا ہو؟‘ اس لمحے ہم بھی حیران ہوئے، فاروق صاحب بولے کہ ’آپ اُن کے اس وقت کے ناولوں کے دیباچے پڑھیے، اس میں بے انتہا مایوسی ہے۔ ہمارا ان سے تعلق تھا کہ وہ یہاں آتے تو ہمارے ہاں قیام ہوتا، اور ہم وہاں جاتے تو ان کے ہاں ٹھیرتے۔ جب پتا چلا کہ لکھنا چھوڑ دیا تو ان سے کہا کہ ان کرداروں کو نہ ماریے۔ یہ محمود، فاروق اور فرزانہ بچپن سے ہمارے ساتھ ہیں، ہمارے گھر کے فرد کی طرح ہیں۔ وہ بولے کہ اب پیسے نہیں ملتے، کون چھاپے گا، مجھ میں اب ہمت نہیں۔ میں نے کہا اچھا میں شایع کرتا ہوں، وہ بولے کہ تم نے تو کبھی چھاپی نہیں، میں نے کہا، لیکن مجھے پتا ہے کہ کوئی کاروبار کس طرح کیا جاتا ہے۔ ہم نے بھرپور تشہیر کی اور جون 2003ء میں ہم نے ان کا پہلا ناول ’فائل کا دھماکا‘ شایع کر دیا۔
ہماری ادبی تاریخ میں غالباً پہلی بار دو ’ایف ایم‘ چینلوں پر ناول کے اشتہار چلے، ’بل بورڈ‘ لگے، اخبارات میں اشتہار آئے اور ’کیبل‘ پر اشتہاری پٹی چلوائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین دن میں ایک ہزار نسخے فروخت ہو گئے، مزید دو ہزار چھاپیں، وہ 15 دن میں ختم ہوگئیں، وہ حیران ہوئے کہ ایسا کیا کر دیا؟ ہم نے کہا اب تشہیر کا ڈھنگ بدل گیا ہے۔ ہمارے ادیب اور ادارے کتاب نہ بِکنے کا رونا روتے ہیں، لیکن آپ لوگوں کو بتائیں گے تو وہ کتاب لیں گے، ورنہ جنگل میں مور ناچا، کس نے دیکھا۔ آج بھی ہماری کتابوں کا ہر ماہ اشتہار شایع ہوتا ہے، پھر وہ کتاب فروخت ہوتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے اشتہار کے لیے مثال دیتے ہیں کہ نماز کے لیے بھی پانچ مرتبہ بتایا جاتا ہے، تو لوگ آتے ہیں۔
اشتیاق احمد کی شخصیت پر بات کرتے ہوئے فاروق صاحب کہتے ہیں کہ وہ بہت حساس تھے، ذرا سی بات پر ناراض اور ذرا سی بات پر خوش ہو جاتے تھے، ہم نے کبھی کہہ دیا کہ جو لکھ رہے ہیں یہ سرکاری پالیسی پر نہیں آتا، تو خفا ہو گئے کہ لکھوں گا ہی نہیں۔ ہم انہیں تبدیلیوں پر آمادہ کرتے۔ وہ انتہائی نیک سیرت، سیدھے اور مخلص آدمی تھے، مان جاتے۔‘
’سرکاری پالیسی سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘ ہمیں اچنبھا ہوا۔ وہ بولے کہ پرویز مشرف کا دور تھا اور وہ طالبان کی حمایت میں لکھتے، پکڑ دھکڑ ہو رہی تھی، اُن سے کہا کہ ہم بھی زد میں نہ آجائیں۔ انہوں نے تو چار حصوں میں شایع ہونے والے دو ہزار صفحات کے ناول ’’غار کا سمندر‘‘ کا انتساب ہی طالبان کے نام کیا، جو ہم نے تب تو ہٹوایا، لیکن اب اسے یک جا کرکے شایع کیا ہے، تو ان کا وہ انتساب بحال کر دیا ہے!
اشتیاق احمد پر فرقہ وارانہ رنگ کا ذکر ہوا تو فاروق احمد بولے کہ آپ نے بہت اہم سوال اٹھایا، میں اس معاملے میں اُن کا دفاع کرتا ہوں۔ میں فرقہ وارانہ حوالے سے لکھے گئے اُن کے ایک لفظ سے بھی متفق نہیں، لیکن یہ اکیلے صرف انہوں نے نہیں کیا، ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا۔ وہ مقبول زیادہ تھے، اس لیے ان پر اس حوالے سے زیادہ تنقید ہوتی ہے، ورنہ اے حمید نے بھی حرف بہ حرف یہ کیا۔ بائیں بازو کے ستار طاہر تک نے اپنے ناولوں میں ایسے ذکر شامل کیے۔
اشتیاق صاحب پر تو دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزام لگے۔ انہوں نے ایک ناول میں ہندوؤں کو سازشی لکھا، تو میں نے خط لکھ کر اعتراض کیا۔ ناول ’وادی مرجان‘ پر بھی اعتراض کیا۔ میں نے کہا کہ آپ کو پڑھنے والے مختلف عقائد کے لوگ ہیں، لیکن وہ اس وقت تک بہت آگے چلے گئے تھے۔ وہ لاہور سے جھنگ آگئے، تو اُن کی سوچ پر ماحول کی اس تبدیلی کا بہت اثر ہوا۔ لکھاری کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سراہے جانے کا خواہاں ہوتا ہے، اب وہاں کے ماحول میں بائیں بازو کی کسی بات پر تو تعریف نہیں ہوتی۔ کوئی مانے نہ مانے، لکھنے والا وہی لکھنے پر مجبور ہوتا ہے، جو پڑھا جائے، کیوں کہ روزی روٹی کا معاملہ ہے۔ اس لیے ’ردعمل‘ دینے والا بہت اہم ہوتا ہے۔‘
’قلم کار کی اپنی بھی تو کچھ ذمہ داری ہوتی ہے؟‘ ہم نے اپنے ذہن کی چبھن عیاں کی، تو وہ بولے کہ ’ہر آدمی اپنے کام کے لیے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر لیتا ہے، دہشت گرد کے پاس بھی کوئی جواز ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ مالی منفعت کا ہوتا ہے۔‘
’کیا قلم والوں کو اس سے تھوڑا ماورا نہیں ہونا چاہیے؟‘ ہم نے قلمی ذمہ داری کے تناظر میں کریدا۔ وہ بولے کہ ’ابن صفی بھی اس سے ماورا نہیں تھے۔ ان کے زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ کمیونزم دین سے دور کر رہا ہے۔ اُن کے ہاں ایسے حوالے ملتے ہیں، ان کا کردار ’عمران‘ کہہ رہا ہے کہ میں اس قوم میں دَہریت پھیلنے نہیں دوں گا۔ یہ سوچ جنرل ضیا کی نظریاتی سرحدوں کی حفاطت والی سوچ سے ملتی ہے، اُن کا کردار تو 1960ء اور 1970ء میں یہ کر رہا ہے۔ ابن صفی انتہاپسندی کی طرف جا رہے تھے، اُن کے پرستار اُسے تصوف کہتے ہیں۔ دراصل وہ اُس وقت کے معاشرے کی پیروی کر رہے تھے۔ اشتیاق احمد کا معاشرہ اس سے آگے جا چکا تھا، تو انہوں نے پھر اس کی پیروی کی۔
ہم نے پوچھا کہ ’قلم کار اپنے سماج کی پیروی کرتا ہے کیا؟‘ انہوں نے کہا ’بالکل کرتا ہے، اور یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔ تب ہی تو مزاحمتی ادب ’ادب عالیہ‘ کہلاتا ہے، جس کی توصیف بعد میں ہوتی ہے۔ اگر ابن صفی اپنے کردار کے ذریعے یہ کہہ دیتے کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ اس معاشرے کے لوگوں کا کام ہے کہ وہ کیا سوچتے ہیں، میری اور لوگوں کی فکر الگ الگ ہے!‘ تو اُن کی کھپت آدھی رہ جاتی! اشتیاق صاحب کے پاس منفی ردعمل آتا تو وہ دو دن سو نہیں پاتے تھے، مجھے فون کرتے کہ میں نے ایسا کیا لکھ دیا، مجھے لعن طعن کی جا رہی ہے۔ بات تو غلط نہیں، لیکن لوگ غلط کہہ رہے ہیں۔ میں کہتا اسے چھوڑیے لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔‘ ہم نے ان کے مخصوص مذہبی رنگ پر ناپسندیدگی کا پوچھا، تو وہ بولے کہ ’ہزاروں خطوط آتے تھے، فقط ایک فی صد میں مخالفت ہوتی تھی۔ اپنے وقت کے تابع ہونے والے مصنفوں کو وہ مرتبہ نہیں ملتا، جو کرشن چندر، عصمت چغتائی اور منٹو وغیرہ جیسے لوگوں کو ملتا ہے، جنہوں نے گالیاں اور مقدمے سہے، لیکن اس سے غرض نہ رکھی کہ لوگ کیا کہتے ہیں۔
سعید لق کی خدمات کو سراہتے ہوئے فاروق احمد کہتے ہیں کہ ’فیروز سنز کا بچوں کا ادب اُن کے دم سے تھا۔ میں بھی بچوں کی کتابوں کی طرف مرکوز ہوں۔ اشتیاق صاحب کو لے کر چلنا میرے دل کا سودا تھا، لوگ اُن کی واپسی سے بہت خوش ہوئے۔ ہم انہیں باقاعدہ کراچی لے کر آتے، ریڈیو اور ٹی وی پر بلایا جاتا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اشتیاق احمد کو دوسرا ادبی جنم دیا۔ اب لوگ انہیں جانتے ہیں۔ جب اُن کا انتقال ہوا، تو یہ چینلوں پر ’بریکنگ نیوز‘ اور اخبارات میں صفحہ اول کی خبر تھی۔ اگر وہ 2001ء میں لکھنا چھوڑ دیتے اور جھنگ میں گُم نام ہوجاتے، تو پھر انہیں آج کوئی نہیں جانتا ہوتا۔‘
فاروق احمد نے انکشاف کیا کہ انتقال سے کچھ عرصہ قبل لاہور میں تین، چار لوگوں کی موجودگی میں ذکر نکلا کہ آپ کے بعد کون لکھے گا؟ تو انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ لکھے گا! میں نے ہنس کے ٹال دیا، وہ کہنے لگے ’مجھے پتا ہے تم لکھ سکتے ہو۔ میرے بعد میرے کرداروں کو تم لکھو گے۔‘ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے، کوشش کریں گے۔ انہوں نے اپنے انتقال سے دو ماہ پہلے لکھے جانے والے ایک ناول ’’سیاہ کہانی‘‘ کے دیباچے میں بھی اس کا اظہار کر دیا۔ میں نے اس دیباچے کا تحریری عکس بھی ساتھ شایع کیا ہے، جس میں کہا ہے کہ ’میرے بعد فاروق لکھے گا اور آپ کو دوسرا اشتیاق احمد مل جائے گا۔‘
’کیا ’دوسرا اشتیاق احمد‘ جھنگ والے اشتیاق احمد کی طرح لکھے گا؟‘ ہم نے بے ساختہ استفسار کیا، وہ بولے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ لکھ سکوں گا یا نہیں۔ میری دلی خواہش ہے کہ جب بھی وقت ملے، کوشش ضرور کروں۔ مجھے ان کے شروع کے 32 ناولوں جیسا انداز پسند ہے، اسی ڈھب پر لکھوں گا۔ ایک ناول ’عمران کی واپسی‘ ان کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھا بھی ہے۔ میں جب ان کے پرانے ناول دیکھتا ہوں تو ان کی پرانی تحریر کی خوب صورتی ’دور جھنگ‘ میں نظر نہیں آتی۔ اُن کے شروع کے 100 ناولوں تک ان کا ’عہد لاہور‘ ہے۔ لاہور میں ان کے حلقے میں انور جلال، ستار طاہر، اسرار زیدی، مقبول جہانگیر، سید قاسم محمود، الطاف حسن قریشی وغیرہ جیسے نام وَر لوگ تھے، انہیں ردعمل دینے والے یہی تھے۔
ان کے اس زمانے میں لکھے گئے افسانے بھی بہترین ہیں۔ تب وہ یہ لکھتے تھے کہ انسان چاند پر پہنچ گیا اور ہم کن جھگڑوں میں پڑے ہیں، جھنگ آکر ناول ’باطل قیامت ‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان چاند پر گیا ہی نہیں، یہ تو سب یہودیوں کی سازش ہے! ہم نے ان سے کہہ کر وہ جملہ ہٹوایا۔ اُن کے اطراف کے لوگوں نے انہیں تباہ کیا، وہ اُس ماحول کے یرغمال بن گئے۔ ان کے اندر بہت ترقی پسند اور روشن خیال آدمی چھپا ہوا تھا جس کا ذاتی طور پر گواہ ہوں، میری ان سے بہت بے تکلفی تھے۔ وہ جب کراچی آتے، تو ہمارے ساتھ ہندوستانی فلمیں دیکھتے، ہیما مالنی کی ہنسی پر وہ قربان تھے۔
مطبوعات کے حوالے سے فاروق احمد نے بتایا کہ وہ اشتیاق احمد کے 117 نئے ناول چھاپ چکے ہیں، جب کہ 500 سے زائد ناولوں کی طبع ثانی کی۔ وفات سے پہلے اُن کا 800 واں ناول شایع ہوا اور انتقال کے وقت 24 ناول غیر مطبوعہ تھے، جس میں سے اب تک 12 ناول شایع ہوچکے، دو ناول نامکمل رہ گئے، جنہیں مکمل کرنا ہے۔
فاروق احمد 2015ء میں ’رومن‘ (انگریزی رسم الخط کی اردو) میں بھی اشتیاق احمد کے دو ناول شایع کر چکے، اسے وہ ’اُردش ناول‘ کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بہت متنازع اور کام یاب قدم تھا، جب اشتیاق احمد کو معاہدے کے مطابق ان ناولوں کے نسخے بھیجے، تب تو بہت تعریف کی، پھر جب منفی ردعمل آیا، تو برہم ہوگئے کہ تم نے بے عزتی کرادی اور وہ رومن نسخے بھی لوٹا دیے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ بھی ’رومن اردو‘ پر سخت ناراض ہوئے اور اسے اردو اور ملک سے غداری قرار دیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اردو سے تمام تر محبت کے باوجود 50 سال بعد ہمارے اور آپ کے بچے ’رومن‘ اردو ہی پڑھ رہے ہوں گے۔ شکیل عادل زادہ سے تحریری اردو پر خدشات سن کر ’رومن‘ کتب چھاپنے کا خیال آیا۔
ہم نے کہا رسم الخط بدلنے سے تو پوری زبان بدل جاتی ہے؟ لیکن وہ ادبی سرمائے کو اگلی نسل تک پہنچانے کے لیے اسے ضروری قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دراصل ترجمہ ہے، ہم فارسی نہیں پڑھ سکتے تھے، اس لیے ’طلسم ہوش رُبا‘ ’اردو‘ میں پڑھی۔ آج جس طرح ’رومن‘ آرہی ہے، اردو بھی اسی طرح پروان چڑھی۔ حاکم فارسی اور عوام اردو بولتے، تو زبان تو عوامی رہ گئی، مگر رسم الخط فارسی ہو گیا۔ اب زبان اردو اور رسم الخط انگریزی ہو رہا ہے۔ زبان اگر طبقہ اشرافیہ، دفتری اور دربار کی ہو تو تو ترقی کرتی ہے۔ ہم نے کہا پہلے یہاں دربار کی زبان تو فارسی تھی، اس نے ترقی کیوں نہ کی؟ تو وہ بولے کہ فارسی کا رسم الخط تو آگیا۔
اب سرکار میں انگریزی زبان ہے، تو وہی رسم الخط آرہا ہے۔ رومن میں اردو کے تلفظ کے مسئلے پر کہتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے، جیسے اردو رسم الخط کے پرانے نسخوں کا املا بہت مختلف ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ہاتھ سے ہر لفظ الگ طرح لکھا جاتا ہے، لیکن کمپیوٹر پر ہر لفظ کے لیے ایک ہی طرح بٹن دباتے ہیں، جس سے کتابت کی اغلاط بڑھی ہیں۔ رومن اردو کی کتب کی کھپت کے حوالے سے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ چار سال میں ’رومن اردو‘ کے 16 ہزار نسخے فروخت ہوئے، جس کی 20 فی صد کھپت اندرون ملک بھی ہوئی۔
باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والے فاروق احمد ابن صفی کو کسی مقدس کتاب کی طرح سرہانے رکھتے ہیں، کہتے ہیں گذشتہ تین سال سے روزانہ اپنے بچوں کو کہانی سناتا ہوں۔ پہلے میں کہتا تھا کہانی سنو، اب وہ اصرار کرتے ہیں کہ کہانی سنے بغیر نیند نہیں آئے گی۔ میں انہیں داستان امیر حمزہ، طلسم ہوش رُبا اور عمروعیار وغیرہ کی کہانیوں کے علاوہ فیروز سنز کے دسیوں ناول سنا چکا ہوں۔ ہم اردو کا بیج ڈال رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اردو کی طرف آئیں گے۔ انہیں کہانیاں سنانے سے یہ پتا چلا کہ آج کے بچے کیا پسند کرتے ہیں۔ ’فیروز سنز‘ کے 1950-60ء کی دہائی کا ادب باقاعدہ اجازت لے کر ’شاہ کار کتابیں‘ کے عنوان سے شایع کر رہا ہوں۔ اس کے لیے میں نے بچوں کو اپنا ’مدیر‘ بنا دیا ہے، جو کتابیں وہ پوری توجہ سے سنتے ہیں، وہ اشاعت کے لیے چُن لیتا ہوں۔ فیروز سنز کی 500 میں سے 20 کتب ہی آج کے بچوں کے رجحان کے مطابق ہیں، البتہ سعید لق کی ساری کتب ہمارے بچوں کو بہت پسند ہیں۔ اشتیاق احمد کی کتابیں تھوڑے بڑے بچوں کے لیے ہیں۔ ان کے ہاں مکالمہ زیادہ ہے، جب کہ چھوٹے بچوں کے لیے بیان زیادہ ہونا چاہیے، اگر مکالمہ ہو تو بہت دل چسپ ہو۔
فاروق احمد کے بقول چھٹی، ساتویں کلاس میں اُن کی کہانیاں آٹھ، آٹھ آنے والی پتلی کتابوں میں ’خواجہ پرنٹرز‘ نے چھاپیں، ماہ نامہ ’بچوں کی دنیا‘ میں بھی کچھ کہانیاں شایع ہوئیں۔ میٹرک میں ’سرنگ میں لاش‘ کے عنوان سے ایک ناول لکھا، جو ’غزالی پبلشرز‘ نے شایع کیا۔ فاروق احمد کی مزید دو کتابیں شایع ہوئیں، ایک ’فکشن کی تاریخ‘ اور ایک ’بچوں کے ادب کی تاریخ‘ ہے۔ ’بچوں کے ادب کی تاریخ‘ کے اب دوسرے حصے پر مصروف ہیں۔ اشتیاق احمد پر اُن کی ایک کتاب ’اکادمی ادبیات‘ کی طرف سے شایع ہونے کو ہے، ساتھ ہی ’جاسوسی فکشن کی تاریخ‘ اور سعید لق کی خدمات پر بھی کام کر رہے ہیں۔
ایک دوست 10 روپے میں ’محبت نامہ‘ پہنچاتا تھا
فاروق احمد کی شریک حیات سائرہ فیشن ڈیزائننگ کی شوقین ہیں، بہ ذریعہ ’فیس بک‘ یہ کام کرتی ہیں۔ جب ہمیں پتا چلا کہ اُن کی شادی پسند کی ہے، تو ہم نے تفصیل پوچھی، انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ حیدری میں ہمارے گھر کے سامنے رہتی تھیں، یہ اسکول میں اور ہم فرسٹ ائیر میں تھے، ہم صبح اسکول جاتے ہوئے انہیں خط بھجواتے، جو ایک دوست 10روپے کے عوض لے کر جاتا۔ ہم خود جاتے تو پھنسنے کی صورت میں پٹائی کا اندیشہ تھا۔ والدین کو بتایا تو پابندیاں لگ گئیں، خط وکتابت بھی پہروں میں آگئی، لیکن سلسلہ جاری رہا، چند ایک ملاقاتیں بھی رہیں۔ ایک مرتبہ انہیں آئس کریم کھلانے ’مونٹینا‘ حیدری لے گئے، لیکن جب دیکھا تو جیب خالی۔۔۔! بہت سٹپٹائے، آخر کو 350 روپے کے بدلے دستی گھڑی رکھوائی، لیکن کیشئر نے گھڑی نہیں لی اور کہا کوئی بات نہیں دے دینا، پھر شام کو جا کر پیسے دیے۔
یوں یہ سلسلہ آٹھ سال جاری رہا، پھر ’ایم بی اے‘ کے بعد والدہ سے کہا انہوں نے ابا سے پوچھ کر بات چلائی اور 1991ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے۔ اُن کے چار بچے ہیں بڑی بیٹی رمشا کی شادی ہوچکی، انہوں نے ’ایم بی اے‘ کیا ہے۔ دوسری بیٹی ’میڈیا سائنسز‘ میں ہیں، تیسرے نمبر کے بیٹے ہیں، جو دوسری صاحب زادی سے 14 برس چھوٹے ہیں، وہ ففتھ اور ان سے چھوٹی بیٹی فورتھ میں ہیں۔ بڑی بیٹی انگریزی نظمیں اور چھوٹی بیٹی انگریزی میں بلاگ لکھتی ہیں۔‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا ’انگریزی میں؟‘ تو وہ اسے المیہ قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کہ جب بڑے بچے چھوٹے تھے، تو مصروفیات کے سبب زیادہ وقت نہ دے سکے۔
پاکستان کا تقریباً 90 فی صد بچوں کا ادب موجود ہے!
ملاقات کے دوران فاروق احمد نے ہمیں گھر کی بلائی منزل پر اپنا کتب خانہ بھی دکھایا، کہتے ہیں کہ بچوں کی ساڑھے پانچ ہزار کتب سمیت 17 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، بچوں کے رسائل اس کے علاوہ ہیں، جس میں ’تعلیم وتربیت‘ کا 1953ء سے اب تک کا مکمل شمار محفوظ ہے۔ بہت سی مطبوعات 100 سال پرانی بھی ہیں۔ 1894ء میں لاہور سے شایع ہونے والا ایک جاسوسی ناول بھی ان کے پاس ہے۔ امتیاز علی تاج کے جاسوسی ناول بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’میرے پاس حتی الامکان پاک وہند کا ’بچوں کا ادب‘ موجود ہے، اِسے پاکستان کا 90 فی صد اور پاک وہند کا 60 فی صد مواد کہہ سکتے ہیں۔ امتیاز علی تاج کی والدہ محمدی بیگم نے جب دیکھا امتیاز تاج کے لیے بچوں کی کتابیں نہیں ملتیں، تو وہ لاہور سے بطور خاص دلی اور یوپی گئیں، وہاں جا کر وہاں کے گھرانوں اور حویلیوں میں بچوں کو سنائی جانے والی کہانیاں جمع کیں اور انہیں 1904ء میں کتاب کی شکل میں شایع کیا۔ بچوں کی پرانی کتب میں آج کی نسل کی دل چسپی میں وہ پرانی زبان کو رکاوٹ سمجھتے ہیں، اگر شایع کریں، تو انہیں ازسرنو لکھنا پڑے گا۔
کیا اشاعت کتب گھاٹے کا سودا ہے۔۔۔؟
اپنے کاروبار کے متوازی ’اشاعت کتب‘ کی بابت فاروق احمد کہتے ہیں کہ کاروباری انتظام کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ کو متعلقہ شعبے کی مہارت کے بارے میں معلومات ہوں۔ ایک کمپنی کئی کام کرتی ہے، تو اس کے سربراہ ان تمام کاموں کا ماہر نہیں ہوتا، لیکن وہ درست آدمی سے کام لینا جانتا ہے۔ میں نے بطور ناشر پہلے سات سال چودہ، پندرہ لاکھ روپے ڈبوئے۔ ایک کتاب میں 15 ہزار روپے کمائے، تو اس کے اشتہاروں کی لاگت ہی 50 ہزار روپے تھی، کسی بھی کاروبار میں بنیاد بنانی پڑتی ہے، پھر یہ پھلنا پھولنا شروع ہوتا ہے۔ 2011ء تک صرف اشتیاق احمد کو شایع کیا، اس کے بعد دیگر کتب شایع کرنا شروع کیں۔اشاعت کتب کے منفعت بخش ہونے کے حوالے سے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ہم بچوں کی 700 سے زائد کتب چھاپ چکے ہیں، اس سے کما تو سکتے ہیں، لیکن گھر نہیں چلا سکتے۔ یہ میرا مرکزی کاروبار نہیں، کُل آمدن میں یہ 30 فی صد تک بن جاتا ہے۔
یہ دل کا کھیل ہے، جتنا وقت لگتا ہے، اتنا آمدن نہیں دیتا۔ میں اس کو دیا گیا نصف وقت اپنے کام پر لگائوں تو 10 گنا زیادہ آمدن ہو، لیکن میں اپنا زیادہ وقت ’اشاعت‘ کو دیتا ہوں۔فاروق احمد بتاتے ہیں کہ کرامت اللہ غوری کی تصنیف ’بار شناسائی‘ پاکستان میں شایع کی اور ہر اشاعت پر انہیں معاوضہ بھیجا تو وہ بہت حیران ہوئے کہ پہلے انہیں کسی پاکستانی ناشر نے ایک دھیلا نہیں دیا۔ تعداد کتب کے استفسار پر وہ بولے کہ ادبی کتاب 15 سو اور ناول تین ہزار فروخت ہوتے ہیں۔ مسودہ پڑھ کر کسی کتاب کی اشاعت کا فیصلہ کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک شناسا کے افسانوں کا مجموعہ چھاپا، تو ایک قاری نے کہا کہ ’آپ نے اپنے نام کو بٹا لگا لیا!‘ اس کے بعد طے کیا کہ اگر ایسی کتاب شایع کروں گا، تو اپنے ادارے کا نام نہیں دوں گا۔
جاسوسی کے آلات سے ’پی ٹی وی‘ پر اداکاری اور لکھنے تک
والد کی بیماری کے سبب فاروق احمد کو کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ وہ 1994ء میں دبئی گئے، جہاں سے کچھ جاسوسی کے آلات، جیسے اسٹن گن، ٹیلی فون ریکارڈنگ ڈیوائسز، کیمرے یا ریکارڈنگ والی گھڑی یا کیلکولیٹر وغیرہ لے آئے، اخبار میں اشتہار دیا، 500 کی لی ہوئی چیز پانچ ہزار میں فروخت ہوئی، یوں اسے کاروبار بنا لیا۔ پھر ’خفیہ اداروں‘ نے بھی اُن سے آلات خریدے۔ ہم نے پوچھا کہ انہوں نے روکا نہیں کہ ایسی چیزیں عام لوگوں کو نہ دیں؟ وہ بولے کہ روکا، پھر میں بے ضرر سی چیزیں تو عام فروخت کرتا، لیکن دوسرے قسم کے آلات صرف انہیں دیتا۔ یہی ’اسپائنگ ڈیوائسز‘ کا اشتہار پڑھ کر ’پی ٹی وی‘ سے آصف انصاری نے اپنے پروگرام کے لیے عاریتاً کچھ آلات لیے۔ ایک دن وہ بولے کہ آپ جیمز بونڈ لگتے ہیں، ہمارے پروگرام میں جاسوس کا کردار ادا کر لیجیے، یوں ٹی وی پر اداکاری بھی کی۔
فاروق احمد نے 2000ء تا 2002ء ’پی ٹی وی‘ کے لیے لکھا۔ اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ آصف انصاری سیریل ’ایڈونچر ٹائمز‘ کے پروڈیوسر تھے، جسے محمود احمد مودی لکھ رہے تھے، انہوں نے مزید لکھنے سے معذرت کرلی، تو میں نے اشتیاق احمد سے ان کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی اجازت لی، یوں ’ایڈونچر ٹائمز‘ کے لیے ان کے ناول ’فون کی چوری‘ کی ڈاکٹر طاہر مسعود سے ڈرامائی تشکیل کرائی، اس کے بعد طاہر مسعود نے مصروفیت کا عذر کر لیا، تو آصف انصاری نے مجھے لکھنے کے لیے کہہ دیا کہ تم کالم لکھتے ہو، یہ بھی کر لو گے، ان کے کہنے پر ناولوں کی ڈرامائی تشکیل شروع کی، اس سیریل میں اداکار شکیل بھی تھے، ایک دن انہوں نے پوچھا کہ یہ کون لکھ رہا ہے، تو میں نے سوچا کہ آج بے عزتی ہو جائے گی، لیکن انہوں نے تعریف کی، جس سے بہت حوصلہ بڑھا، یوں اشتیاق احمد کے آٹھ ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی۔
تایا ڈاکٹر منظور احمد ’نیشنل عوامی پارٹی‘ کراچی کے صدر رہے
فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ان کے والد 1949ء میں حیدرآباد دکن سے کراچی آئے اور محکمہ صحت میں ملازم ہوئے، پھر کیمیکل کی صنعت لگائی، جو تاحال جاری ہے۔ ننھیال کا تعلق یوپی سے ہے، نانا بہاول پور ریاست میں چیف انجینئر تھے۔ فاروق احمد6 مئی 1966ء کو پیدا ہوئے۔ گھر میں ابتدائی تعلیم کے بعد پہلی جماعت سے اسکول میں داخل ہوئے، ’پی اے ایف‘ اسکول سے 1981ء میں میٹرک اور پھر 1986ء میں گورنمنٹ پریئمر کالج ناظم آباد سے بی کام کیا۔ 1994ء میں ’آئی بی اے‘ سے ایم بی اے کیا۔ ایک چھوٹے بھائی وقار احمد ہیں، جو میوزک کمپوزر ہیں۔
اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ہمارا گھر محلے کے بچوں کا ’کلب‘ تھا، آہنی دروازہ بند بھی ہوتا، تو بچے اسے پھاند کر اندر آجاتے۔ 1970ء کے زمانے میں محلے داری بہت تھی، متوسط طبقے میں رکھ رکھائو اور عقائد ونظریات اور سوچ کی یک سانیت تھی۔ خلیجی ممالک سے جو بغیر تعلیم کے بہت آسانی سے روپیا پیسا آیا، اس سے ہمارا سماجی رکھ رکھائو بدلا۔ میرے والد اور تایا حیدرآباد دکن میں ’تیلنگانہ موومنٹ‘ سے منسلک رہے، ہمارے دادا کا زمینوں پر اپنے بھائیوں سے تنازع ہوا، تو اپنے بچوں کو ان جھگڑوں سے بچانے کی خاطر وہ اپنے حصے سے دست بردار ہوئے 1930ء میں ’بیڑ‘ آکر جامعہ عثمانیہ کے اسکولوں میں پڑھانے لگے، پھر وہاں انسٹرکٹر اسکول بن گئے۔ ہمارے تایا ڈاکٹر منظور احمد ’نیشنل عوامی پارٹی‘ کے کراچی کے صدر رہے، 1977ء کا انتخاب بھی لڑے۔ دوسرے تایا جماعت اسلامی میں تھے۔ یوں خاندان میں تنوع تھا اور مدلل بحث ہوتی، جس سے یہ سیکھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ فلاں جماعت کا ہے تو اس سے بات ہی نہ کرو۔
براہ راست فون آیا کہ میرا کالم روک دیا جائے۔۔۔
کالم نگاری کے حوالے سے فاروق احمد بتاتے ہیں کہ ’1996ء میں ’جنگ‘ میں ہفتہ وار یہ سلسلہ شروع ہوا، وہاں کے ادارتی انچارج ارشد امام نے ایک دن کہا کہ ہم جو کہیں، آپ وہ لکھیں، جیسے عمران خان کے سیتا وائٹ والے معاملے پر۔ میں نے معذرت کرلی، تو وہ کہنے لگے کہ پھر آپ ’جنگ‘ میں نہیں لکھ سکیں گے اور فون بند کر دیا، یوں چار، پانچ ماہ بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا۔‘ ہم نے پوچھا کہ کیا ارشد امام سب لکھنے والوں کو ہدایات دیتے تھے، تو انہوں نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے پھر 1997ء میں ’نوائے وقت‘ کے لیے لکھا، جو 2004ء تک جاری رہا۔ وہاں کے نگراں قاری حسن جاوید کہتے کہ تمہارے نظریات سے اختلاف ہے، لیکن تمہارے کالم سے حب الوطنی کی خوش بو آتی ہے۔
بہ یک وقت تین اخبارات میں کالم نگاری کے حوالے سے فاروق احمد گویا ہوتے ہیں کہ نوائے وقت میں ’کار جہاں ساز‘، ’جرأت‘ میں ’انداز بیاں‘ مستقل عنوان تھا، جب کہ روزنامہ ’دن‘ میں روزانہ ’تکلف برطرف‘ کے نام سے کالم آتا تھا، ’جنگ‘ کے سوا ہر جگہ بامعاوضہ لکھا۔ ’نوائے وقت‘ میں فی کالم 500، ’جرأت‘ میں 300روپے ملتے، ’دن‘ میں ایک کالم کا معاوضہ ہزار روپے سے کچھ کم تھا۔ ’ایکسپریس‘ کے علاوہ 1999ء تک ’کائنات‘ میں بھی لکھا، وہاں انور سن رائے میرے تندوتیز کالم کی اشاعت کے لیے لڑ جاتے، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ میرے کالم کے لیے الجھے اور پھر ’کائنات‘ چھوڑ گئے۔اپنے کالموں کو کتابی صورت میں لانے کے حوالے سے فاروق صاحب نے بتایا کہ مواد کمپوز کرا کے رکھا ہوا ہے، لیکن فرصت نہیں ملتی۔
اُن کا خیال ہے کہ ’سول بالادستی کے لیے شاید ہی کسی اور نے اس طرح لکھا ہو، جیسا میں نے لکھا۔ 1998ء میں ’جرأت‘ کے لیے ایک کالم یہ سوچ کے لکھ دیا کہ تدوین کر لی جائے گی۔ وہاں جمال فریدی نے اسے کاٹ پیٹ کر بے ضرر کیا اور اپنی دراز میں رکھ کر چلے گئے، اُدھر میں نے یہ سوچ کے کہ ملا ہوگا یا نہیں، دوبارہ فیکس کردیا، جو کسی نے اٹھا کر ان کی دراز میں رکھ دیا۔ کمپوزر نے حسب ہدایت میرا کالم ان کی دراز سے نکالا، تو اوپر سے غیرتدوین شدہ کالم اٹھا لیا اور وہ اگلے دن چھپ بھی گیا۔ میں نے اخبار دیکھا، تو میرے پسینے چھوٹ گئے کہ اب کیا ہوگا۔’جراَت‘ کے مدیر مختار عاقل نے مجھے بلا کر بتایا کہ ہمیں براہ راست فون کر کے تمہارے کالم روکنے کے لیے کہا ہے، پھر 15 دن تک کچھ نہ لکھا۔ جب ڈاکٹر طاہر مسعود ’نوائے وقت‘ میں تھے، ایک کالم پر انہوں نے کہا کہ اگر کل یہ چھپ گیا، تو پرسوں ’نوائے وقت‘ نہیں نکلے گا، وہ کہتے کہ تم تو گھر بیٹھ کر لکھ دیتے ہو ہمیں رات کو تین بجے گھر جانا ہوتا ہے۔ میں نے ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف بھی لکھا، اور کچھ پولیس کے خلاف بھی لکھا۔‘
ہم نے ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ردعمل کا استفسار کیا، تو فاروق احمد نے بتایا کہ یہ 1998ء کا زمانہ تھا، وہ گھر پر تنبیہی رقعہ ڈال جاتے، کبھی گاڑی پر چپکا جاتے کہ اپنی حد میں رہیں یا جو کر رہے اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ کالموں پر ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کی طرف سے بھی دھمکیاں ملیں کہ ’آپ ایک سوشلسٹ کی حیثیت سے ہماری نظر میں ہیں۔ 2002ء میں والد کے اچانک انتقال کے سبب کاروباری ذمہ داریاں مجھ پر آگئیں، پھر صرف ’نوائے وقت‘ میں ہی کچھ عرصے لکھ سکا۔‘
پہلے ’اے پی ایم ایس او‘ پسند آئی، پھر سوچا ’جمعیت‘ ہی اچھی تھی!
فاروق احمد تھرڈ ائیر میں ’ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ (ڈی ایس ایف) سے منسلک ہوگئے، اچھے ہینڈ بل لکھ لینے کے سبب جلد ہی ’ڈی ایس ایف‘ کے پریس سیکریٹری ہو گئے، خبریں لکھ کر اخبارات میں دے کر آتے اور طلبہ تنظیموں پر پابندی کے باوجود اِن تنظیموں کی خبریں ’کالعدم‘ کے سابقے کے ساتھ شایع ہوتی تھیں۔ ’ڈی ایس ایف‘ کا رسالہ ’چنگاری‘ ہاتھ سے لکھتے اور پھر چُھپ چُھپا کر سائیکلواسٹائل کراتے، پھر فوٹو اسٹیٹ کرانے لگے۔
فاروق احمد نے بتایا کہ ’ڈی ایس ایف‘ درپردہ ’کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان‘ کا ’اسٹوڈنٹ ونگ‘ تھا۔ ہم چار لڑکوں نے پریمئر کالج میں ’ڈی ایس ایف‘ کا یونٹ بنایا، پھر تنظیمی انتخابات کرائے۔ کالج کے کُل 500 میں سے 400 طلبہ نے اس میں ووٹ دیا، اتنی سختیوں میں ہم بڑے بڑے پوسٹر لگاتے، جرائد نکالتے اور کھلے عام سوشل ازم کی بات کرتے۔ ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ حریف تھی، مگر 1985ء کے آخر تک ماحول اتنا اچھا تھا کہ مخالف نعرے بھی لگاتے اور کینٹین میں چائے پکوڑے بھی ساتھ کھاتے۔ اگست 1986ء سے پہلے ’اے پی ایم ایس او‘ (آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کا وجود صرف اتنا تھا کہ دیواروں پر لکھا ہوتا ’’اے پی ایم ایس او‘ قائد تحریک الطاف حسین‘‘۔
’مہاجر ازم‘ کا تیل یہاں سے وہاں تک بکھرا ہوا تھا، ایک چنگاری کی دیر تھی، وہ الطاف صاحب نے دکھا دی۔ شروع میں ہمیں ’اے پی ایم ایس او‘ بھلی لگی کہ جمعیت کو نکال دیا، لیکن پھر جو تشدد کی صورت حال ہوئی، تو سوچا کہ جمعیت ہی اچھی تھی۔ جمعیت کے اندر ایک فاشسٹ رجحان تھا، ان کا تھنڈر اسکواڈ مار پیٹ کرتا تھا، لیکن وہ جامعہ کراچی اور اردو سائنس کالج تک محدود تھا۔ ایک مرتبہ میرے کالج میں جمعیت کے لڑکوں سے تکرار ہوئی، نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ چار دن بعد کالج آتے ہوئے بس میں میرا کنڈیکٹر سے جھگڑا ہوا، تو انہی جمعیت کے لڑکوں نے کنڈیکٹر کو دھکا دے کر کہا ’بہت ماریں گے۔۔۔!‘ وہ مجھ سے بولے کہ ’دیکھ! ہمارے سارے جھگڑے کالج کی حد تک، باہر ہم یار ہیں۔۔۔!‘
فاروق احمد کے بقول ’ضیاء الحق کا دور آج سے ہزار گنا اچھا تھا، ہم پر نظر رکھی جاتی تھی، لیکن ہمیں گرفتار کرتے، تو ہمیں پتا ہوتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ صحافی بصیر نوید پھوپھی زاد بھائی ہیں، وہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کا معاملہ سامنے لائے، بگرام سے ان کی پہلی تصویر بھی نکلوائی۔ پھر اقبال حیدر اور صالحہ اطہر کے ساتھ فوزیہ صدیقی کو بٹھا کر پریس کانفرنس کرائی، میں بھی ساتھ تھا، فوزیہ صدیقی سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا، پھر جماعت اسلامی نے اس مسئلے پر اپنا اجارہ قائم کرلیا۔
The post اردو ناولوں کی رومن میں اشاعت بہت متنازع اور کام یاب قدم تھا appeared first on ایکسپریس اردو.