حیدر آباد: سندھ کے لوگوں میں تعلیمی وسیاسی شعور بیدار کرنے میں سندھی ادیبوں کا اہم کردار ہے۔ ان شخصیات میں ایک ایسا نام بھی شامل ہے جو سندھی قوم کا محسن ہے، جس کی سندھ کے لیے تعلیمی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اس عظیم شخصیت کا نام علامہ امداد علی امام علی قاضی اور ان کا ادبی نام علامہ آئی آئی قاضی ہے۔
علامہ آئی آئی قاضی بہت بڑے فلاسفر اور اسکالر تھے۔ آپ کا شمار سندھ یونیورسٹی جامشورو کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ علامہ آئی آئی قاضی اعلیٰ پائے کے ادیب و محقق اور دانش ور تھے۔ سندھی ادب کی ترقی کے حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
ان کے آباواجداد کا تعلق انصاری خاندان سے تھا، ان کے بڑے محمد بن قاسم کے ساتھ سندھ میں آئے تھے اور یہاں سکونت اختیار کی تھی۔ محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والوں میں قاضی عبداﷲ انصاری عرب سے ہجرت کرکے پاٹ ضلع دادو سندھ اور ان کے بھائی عبدالسمیع روہڑی میں قیام پذیر ہوئے۔
علامہ آئی آئی قاضی کے والد قاضی امام علی تاریخی گاؤں پاٹ دادو ڈسٹرکٹ میں رہائش پذیر تھے۔ گاؤں پاٹ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں پر تقریباً پڑھے لکھے لوگ ہوتے تھے اور انھوں نے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ہندوستان میں اپنی تعلیمی قابلیت کے باعث نام کمایا تھا۔ یہاں کے لوگ پڑھ کر بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ یہ گاؤں 603 ہجری میں قائم ہوا تھا۔ 1870 عیسوی میں قاضی امام علی اور ان کے دو عزیز دوست قاضی عبدالرؤف اور قاضی ہدایت اللہ براہ راست محکمہ ریونیو میں مختیار کار بھرتی ہوگئے۔ اس زمانے میں برطانوی حکومت کی روزگار پالیسی اچھے خاندانی پس منظر پر مبنی تھی۔ فیملی بیک گراؤنڈ دیکھ کر قاضی امام علی کو نوکری دی گئی۔ امام علی انصاری کا خاندان دیانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔
قاضی امام علی کی پہلے ہی سے ایک بیوی اور تین بیٹیاں پاٹ گاؤں میں تھیں۔ انھوں نے دوسری شادی حیدرآباد شہر میں کی۔ اس بیوی سے ان کی مزید آٹھ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ ایک بیٹے کا نام قاضی امداد علی (علامہ آئی آئی قاضی) اور دوسرے کا نام فخرالدین تھا۔ قاضی امام علی کی دوسری بیوی حیدرآباد سندھ کے مشہور خاندان سیٹھ حافظ کی بیٹی تھیں۔ یہ وہی سیٹھ محمد حافظ ہیں جن کے نام پر سیٹھ حافظ پرائمری اور ہائی اسکول پھلیلی میں واقع ہے۔ قاضی امام علی کی دوسری زوجہ اپنے شوہر کی طرح بلند خیال تھیں۔ علامہ آئی آئی قاضی 19 اپریل 1886 کو پاٹ دادو میں پیدا ہوئے۔ فخرالدین امام علی بڑے جب کہ علامہ آئی آئی قاضی ان کے چھوٹے بیٹے تھے۔ قاضی فخرالدین نے ریاست بھوپال میں برطانوی حکومت کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر فرائض انجام دیے۔
ابتدا میں علامہ آئی آئی قاضی کو اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بٹھایا گیا۔ جب وہ اسکول کی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے تو ان کا خاندان حیدرآباد منتقل ہوگیا۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم آخوند عبدالعزیز سے حاصل کی۔ مکتب آخوند عبدالعزیز سے علامہ آئی آئی قاضی نے عربی، اسلامی تعلیمات، فارسی زبان اور شاعری اور صوفی ازم کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ہی بطور موذن اذان دینے لگے۔ 1902 میں 16 سال کی عمر میں ہم علامہ قاضی آئی آئی کو صوفیوں کی صحبت میں دیکھتے ہیں۔ 1902 میں علامہ آئی آئی قاضی صوفی فقیر احمد تھیبو کے حلقے میں شامل ہوئے۔ صوفی ازم کی تعلیمات کا اثر علامہ آئی آئی قاضی کی شخصیت پر بہت گہرا ہوا اور آپ اسلام کے مبلغ بن گئے۔
18 سال کی عمر میں 1904 میں مقامی سندھی فائنل امتحان بطور پرائیویٹ طالب علم پاس کیا، فارسی لازمی مضمون میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1905 میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1906 میں 20 سال کی عمر میں کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ کالج بھی گئے مگر ایک سال وہاں قیام کرنے کے بعد واپس آگئے۔ 1907 میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئے۔ لندن میں قاضی صاحب نے پہلے ایک سال پرائیویٹ اکنامکس کی تعلیم حاصل کی۔ اگلے سال 1909 میں لندن اسکول آف اکنامکس میں داخل ہوگئے۔
ڈاکٹر کینن Dr. Canon ان کے استاد تھے۔ انھوں نے سائیکلوجی ڈاکٹر آرنلڈ Dr. Arnold سے اور سوشیالوجی پروفیسر ہوب ہاؤس Prof. Hob-House سے پڑھی۔ اس کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1910 میں جرمنی تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً ایک سال گزارا۔ 1910 سے 1911 کے دوران علامہ آئی آئی قاضی کی ملاقات ایلسا سے ہوئی جن کے عشق میں وہ گرفتار ہوگئے۔ اس محبت کا آغاز یوں ہوا کہ ایک دن وہ ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی میں بیٹھنے کے لیے پہنچے تو ریل گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی، جلدی میں وہ ریل کے آخری ڈبے میں چڑھنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انھوں نے ایک کونے میں خوبصورت لڑکی کو بیٹھے دیکھا۔ قاضی صاحب بڑے اسلامی طرز کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے ایک لڑکی کے سامنے جاکر بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا اور ڈبے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے۔
جب اس لڑکی نے دیکھا لڑکا اس کے پاس بیٹھنے سے شرما رہا ہے تو اُس نے اُسے بیٹھنے کی پیشکش کی مگر وہ وہاں نہیں بیٹھے۔ علامہ آئی آئی قاضی کی اس ادا اور اخلاق نے ایلسا کو بہت متاثر کیا اور منزل پر اترنے سے پہلے ایلسا نے ان کا پتا پوچھا۔ اب ایلسا اس نوجوان سے ملنے کے لیے بے چین تھی جس نے ایک اکیلی لڑکی دیکھ کر بھی اس کا احترام کیا۔ ایک دن دیے ہوئے پتے پر ایلسا پہنچ گئیں اور ایک دوسرے سے واقفیت کرنے پر معلوم ہوا کہ لڑکی جرمن ہے۔ علامہ کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق پر ایلسا فدا ہوگئیں اور علامہ کو بھی ایلسا کا حسن اور انداز بہت اچھا لگا۔ اب دونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور ان میں ذہنی ہم آہنگی نے دوستی کو محبت اور محبت کو ازدواجی زندگی میں تبدیل کردیا۔ اس طرح سے دونوں کی شادی جرمنی میں 1910 میں ہوگئی۔ مشہور ہے کہ جرمنی کی عورتیں وفادار ہوتی ہیں، جس کی تصدیق مدر ایلسا قاضی کی صورت میں ہوتی ہے۔
ایلسا قاضی کا پورا نام “Elsa Gentrude Loesch Alias Madam Elsa Kazi” جو بعد میں ایلسا قاضی جنھیں سندھ کے لوگ احترام سے ’’امڑ ایلسا‘‘ (ماں ایلسا) کہتے ہیں۔ ایلسا قاضی 3 اکتوبر 1884 کو جرمنی کے ایک چھوٹے سے علاقے ریڈل اسٹیڈٹ (Rudal Stadt) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اس وقت کے ایک مشہور موسیقار اور ایک ثروت مند جرمن باشندے تھے۔ ان کی لندن میں بہت سی جائیداد تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں ان کی یہ جائیداد تباہ ہوگئی تھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انھیں اس نقصان زرِتلافی کے طور پر کافی رقوم دی گئیں۔
یہ خاندان لندن سے جرمنی جاکر آباد ہوگیا۔ ایلسا لندن میں ہی زیرتعلیم رہیں اور وہیں سے انھوں نے اپنی مادری زبان یعنی جرمن میں شارٹ اسٹوریز، ون ایکٹ پلے، افسانے، ناولز لکھنے اور شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ مصوری کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انہوں نے آرٹ کے ہر شعبے میں اپنا ہنر آزمایا۔ وہ سندھی زبان سے مانوس نہیں تھیں مگر پھر بھی اپنے لیے انھوں نے مترجم کا انتظام کرکے شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا ترجمہ انگریزی میں کیا تھا۔ ان کی نظم نیم ٹری Neem Tree نویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں شامل ہے۔ 1911 میں آئی آئی قاضی لنکڈان یونیورسٹی لندن کو چھوڑ کر واپس اپنی جرمن بیوی ایلسا قاضی کے ہندوستان واپس آگئے مگر جلد ہی واپس لندن روانہ ہوگئے۔
1911 میں قاضی صاحب نے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی۔1911 سے 1919 تک علامہ آئی آئی قاضی اپنی اہلیہ کے ساتھ وطن آتے جاتے رہے۔ انھوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کی سیاحت کی اور زندگی کے ہر شعبے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ 1919 کے بعد وہ سندھ چلے آئے۔ لندن میں تقریباً 30 سال کا عرصہ رہے۔ اس دوران وہ ریسرچ کے کام میں لگ گئے اور خاص طور پر مذہبی انقلابات پر کام کرتے رہے کہ مختلف مذہب کیسے کیسے اور کہاں کہاں سے آخر اسلام کی شروعات تک پہنچے۔ اس سلسلے میں دونوں نے اور خاص طور پر علامہ نے مل کر اس پر کئی مضامین لکھ ڈالے۔ 1919 میں جب واپس پاکستان آئے تو انھوں نے حکومت میں ملازمت کرنے کا ارادہ کیا۔ سب سے پہلے ٹنڈو محمد خان میں مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔
اس کے بعد سب جج حیدرآباد بنے، جب 1921 میں خیرپورمیرس میں سیشن جج کی جاب شروع ہوئی تو آپ کو عارضی ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا۔ ریاست کے حکمران میر علی نواز خیرپور جلاوطنی میں تھے جب علامہ آئی آئی قاضی نے جوڈیشل ایجوکیشن ممبر آف ایڈوائزری کونسل برطانیہ حکومت 1930-1921 کے بننے کے کچھ عرصے بعد میر علی نواز ناز، حکمران خیرپور ریاست (1921-36AD) کی غیرموجودگی میں آپ کو جوڈیشل کونسل کا ممبر بنایا گیا۔ مگر دو سال بعد علامہ نے وہاں سے خیرپور ریاست کے حکمران میر علی نواز سے اختلافات اور انگریزوں کی اسٹیٹ کے بارے میں پالیسیوں سے عدم اتفاق کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ لندن چلے گئے۔
خیرپور میں رہائش کے دوران ایلسا قاضی نے ایک تصویر میر علی نواز کی زوجہ اقبال بالی کی بھی بنائی تھی۔ واپس لندن جاکر انھیں لندن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں سندھی زبان کا ٹیچر بن کر پڑھانے کا بھی موقع ملا تھا جس سے انھیں اپنے شاگردوں کو بڑے احسن طریقے سے پڑھاکر مقبولیت اور اہمیت حاصل کی۔ وہ بہت مصروف رہتے تھے اور ہر وقت کسی نہ کسی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھ کر خدمت کرنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے انھیں یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ پوئٹری سوسائٹی لندن کے وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوگئے اور اس عہدے پر وہ 1946 تک فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ لندن فلاسیفکل سوسائٹی کے ممبر بھی رہے جس کی وجہ سے انھیں فلاسفی کو فروغ دینے کا موقع ملا۔ جیساکہ انھیں مسلمانوں اور اپنے دین اسلام سے لگاؤ تھا جس کے لیے وہاں پر جماعت المسلمین قائم کی۔
علامہ آئی آئی قاضی کو اچھے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا اور اکثر وہ فل سوٹ میں نظر آتے تھے، ان کا لباس تو مغربی تھا مگر دل مشرقی تھا اور انھیں اپنی دھرتی سندھ سے بے حد محبت تھی۔ انگریزی زبان اور ادب انھوں نے بہت پڑھا تھا اور خاص طور پر انھیں دو کتابیں بہت پسند تھیں جن میں سے ایک تھی Adventure of a Black Girl اور دوسری تھی In Search of God ۔ ان کتابوں سے بہت زیادہ متاثر تھے، اسی طرح کی انھوں نے کتاب لکھی جس کا نام تھا The adventures of a brown girl in search of godاسی طرح ان کی کتاب ہے Casual Peeps at Sophia۔ علامہ صاحب نے اکثر کتابیں اور مضامین انگریزی زبان میں لکھے۔ شاہ صاحب کے رسالے پر تحقیقی مقالہ سندھی زبان میں لکھا۔
1934 میں جب وہ قاہرہ میں تھے تو انھوں نے جامعہ الازہر قاہرہ مصر میں اور انگلینڈ میں قیام کے دوران لندن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں عربی کی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ الزہرہ قاہرہ سے ماسٹر کیا۔ 1932-33 میں جب علامہ لندن میں آپ پڑھ رہے تھے تو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال بھی وہیں مقیم تھے۔ علامہ قاضی کی شہرت صرف سندھ تک محدود نہیں تھی۔ سندھ کے علاوہ برصغیر کے اہل علم اور جانی پہچانی عظیم شخصیات علامہ صاحب کی علمیت اور فکر سے آگاہ تھیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے صدر بھی رہے ان کے ساتھ علامہ آئی آئی قاضی خط و کتابت کرتے رہے۔ علامہ صاحب کی وفات کی خبر نشر ہونے کے بعد صدر پاکستان سے قبل ہندوستان کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعزیتی پیغام آل انڈیا ریڈیو سے تقسیم نشر کیا گیا۔
تقسیم ہند سے قبل علامہ آئی آئی قاضی کراچی میں جناح کورٹس کی مسجد میں جمعہ کے دن خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم ہند سے قبل ان سے ملنے کراچی آئے تھے۔ انھوں نے علامہ صاحب کا جمعہ کا خطبہ بھی سنا اور جمعہ کی نماز بھی ان کی امامت میں پڑھی۔ مولانا آزاد علامہ صاحب سے بے حد متاثر تھے۔ علامہ صاحب کی شخصیت بہت متاثر کن تھی۔ آپ سے جو بھی ملتا آپ کی شخصیت کے سحر میں کھو جاتا۔ ان سے متاثر ہونے والوں میں علامہ اقبال، جی ایم سید، جارج برنارڈشا، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان جیسی شخصیات شامل ہیں۔ علامہ آئی آئی قاضی نے اپنی زندگی کے دوران جنگ و جدل اور خونی انقلاب کا دور بھی دیکھا۔
1936 میں جب سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کردیا گیا صرف پنجاب یونیورسٹی اس خطے میں موجود تھی۔ سندھ کے تمام اسکولز اور کالجز بمبئی یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ سندھ کا بمبئی پریذیڈنسی سے علیحدہ صوبہ بننے کے بعد سندھ کے مسلمان سیاستدانوں نے سندھ میں علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کردی تاکہ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جاسکے۔ مسلسل دس سال کی جدوجہد کے بعد 3 اپریل 1947 کو کراچی میں سندھ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ شروع میں صرف میٹرک، انٹر اور بی اے کا امتحان لیا جاتا تھا اور ڈگری بمبئی یونیورسٹی سے ملتی تھی۔ 1951 تک سندھ گورنمنٹ نے سندھ یونیورسٹی کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا اور نہ کوئی تعلیمی اور سائنسی شعبہ قائم کیا گیا تھا۔ 1951 میں سندھ یونیورسٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ایک کراچی یونیورسٹی، اور دوسری سندھ یونیورسٹی، بعد میں سندھ یونیورسٹی کو حیدرآباد منتقل کردیا گیا اور علامہ آئی آئی قاضی کو 9 اپریل 1951 کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
علامہ آئی آئی قاضی نے سندھ کے مسلمان طلبا کی تعلیمی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے اسکولوں اور کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر جدید اسلامی تعلیم کو روشناس کرایا۔ آپ سندھ یونیورسٹی کے بانیان میں شمار ہوتے ہیں۔ جب علامہ صاحب نے وائس چانسلر کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی کا چارج لیا تو سندھ یونیورسٹی کی الحاق اور امتحانی شعبوں کی تعداد پانچ کالجوں اور چونتیس ہائی اسکول تک رہ گئی تھی۔ اس وقت یونیورسٹی کی ذمے داری صرف میٹرک، انٹر اور گریجویشن ڈگریوں کا امتحان لینا تھا۔ علامہ قاضی نے سندھ یونیورسٹی کیمپس کی جامع منصوبہ بندی کی اور اخراجات کا تخمینہ 3 کروڑ روپے لگایا۔ اس وقت سندھ میں گورنر راج تھا۔ علامہ صاحب نے گورنر کو گرانٹ بڑھانے کے لیے خط لکھا اور یونیورسٹی کی مالی مشکلات بیان کیں، ایک دم گرانٹ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ روپے کردی گئی۔
علامہ صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سندھ یونیورسٹی کو پاکستان کی پہلی ریزیڈینشل یونیورسٹی بنایا۔ انہوں نے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جن کو دمشق میں ڈپلومیٹ مقرر کیا گیا تھا، اس بات پر راضی کیا کہ وہ چوںکہ پی ایچ ڈی ایجوکیشن میں ہیں، اس لیے بحیثیت پروفیسر اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دیں تاکہ اساتذہ کی تربیت کے لیے بی ایڈ اور ایم ایڈ کا پروگرام شروع کیا جائے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے علامہ قاضی کا حکم مانتے ہوئے اپنی زندگی سندھی نوجوانوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے وقف کردی۔
25 مئی 1959 کو پاکستان میں پہلا مارشل لا لگا تو علامہ آئی آئی قاضی نے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور سندھ ادبی بورڈ کے لیے کتابیں لکھنے لگے۔ اگرچہ علامہ صاحب اپنی ادبی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے ملک کی سیاست میں بھی عملی طور پر دلچسپی لیتے تھے۔ دسمبر 1943 میں جب کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس منعقد ہوا تو وہ اس کی مجلس استقبالیہ کے چیئرمین مقرر ہوئے تھے۔ وہ نماز روزے کے پابند تھے۔ انھوں نے لندن میں بھی اسلام کا نام روشن کر رکھا تھا۔ علامہ آئی آئی قاضی جید عالم تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ دینی اور سائنسی علوم میں کوئی تضاد نہیں۔ اسلام کو وہ مکمل ضابطہ حیات سمجھتے تھے۔ اسلام کی تشریح علامہ صاحب سائنٹیفک طریقے سے کرتے تھے۔
علامہ صاحب کو یونانی اور ہندی فکر و فلسفہ کے ساتھ ساتھ جدید یورپ کے سائنسی اور سماجی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ دراصل وہ علم کا دریا تھے۔ ایسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ جب تک زندہ رہے، علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔
ایلسا اور علامہ کی جوڑی ایک مثالی جوڑی تھی جن کی محبت اور وفا دیکھ کر لوگ رشک کرتے تھے۔ پھر ایک دن قسمت نے یہ جوڑی توڑ دی اور علامہ قاضی کی زندگی دکھوں اور اندھیروں میں ڈوب گئی۔ یہ28 مئی 1967کا دن تھا۔ ایلسا اور علامہ دریائے سندھ کے بائیں جانب غلام محمد برج جامشورو کے قریب ٹہل رہے تھے کہ اچانک ایلسا کا پاؤں پھسل گیا۔ وہ دریائے سندھ میں جا گریں اور جاں بحق ہوگئیں۔ یوں وہ 83 سال کی عمر میں علامہ صاحب کو اکیلا اپنی یادوں میں زندگی بسر کرنے کے لیے چھوڑ کر چلی گئیں۔ علامہ قاضی اپنی محبوبہ ایلسا کے بچھڑنے کے بعد بھی کھانا کھانے جب بیٹھتے تو ایلسا کا حصہ بھی اپنے کھانے کے ساتھ رکھتے تھے۔ علامہ صاحب کا کہنا تھا کہ ایلسا کی روح کھانے کی میز پر میرے ساتھ ہوتی ہے۔
وہ اکثر شام کے وقت دریائے سندھ کے کنارے غلام محمد برج جامشورو کے مقام پر جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ اور وہ سوچتے تھے کہ میں وہاں ٹہلنے کیوں گیا؟ انھوں نے دریا کے کنارے ٹہلنا جاری رکھا وہ کہتے تھے کہ انھیں ایلسا پکار رہی ہے اور انھیں اپنا وعدہ یاد دلوا رہی ہے کہ ہمیشہ وہ اکٹھے رہیں گے۔ وہ اپنے خاص دوستوں اے کے بروہی اور آئی ڈی جونیجو سے کہتے تھے کہ میں دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دوں گا۔ علامہ قاضی کو دریائے سندھ بہت پسند تھا اور وہ اپنے دوستوں سے کہتے تھے کہ میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد دریائے سندھ کے پانی میں چلتا ہوا اپنے خدا سے ملوں گا، اور اسی طرح انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ ایک دن دوپہر کے ڈیڑھ بجے وہ سول لائن حیدرآباد میں واقع اپنے گھر سے رکشے میں سوار ہوکر دریائے سندھ جامشورو کے بائیں جانب پہنچے اور وہاں پہنچ کر رکشے والے کو جانے کا اشارہ کیا۔ دریا کے کنارے پہنچ کر چلنا شروع کیا۔ وہاں کچھ دیر بیٹھے رہے۔ اپنا کیپ اور ٹائی اتار کر ایک جانب رکھ دیے اور اپنے آپ کو پانی کے حوالے کردیا۔
ان کے ساتھی آئی ڈی جونیجو اور ان کے بھائی امید علی جونیجو نے علامہ صاحب کو ڈھونڈنا شروع کیا اور وہ جب دریائے سندھ کے کنارے پہنچے تو وہاں پر موجود علامہ قاضی کی کیپ اور ٹائی ملی۔ دونوں نے قیاس کیا کہ علامہ آئی آئی قاضی نے خودکشی کرلی ہے۔ انہوں نے مچھیروں کے ذریعے علامہ صاحب کی لاش کو تلاش کروایا اور تقریباً چھے گھنٹے کی طویل جدوجہد کے بعد بھی کوئی سراغ نہ مل سکا۔ مزید کوشش کرنے کے بعد یہ اندازہ لگایا گیا کہ آپ کا مردہ جسم پانی کی گہرائی میں جا چکا ہے۔
کافی دیر تلاش کرنے کے بعد مچھیروں کو کامیابی حاصل ہوئی وہ اس طرح کہ آپ کے ہاتھ میں موجود چھتری دکھائی دی جس کے ذریعے آپ تک پہنچنا ممکن ہوا۔ لہٰذا مچھیروں نے دریا سے لاش باہر نکالی۔ لاش نکالنے کے بعد یہ بات حیران کن تھی کہ آپ کے جسم میں ایک قطرہ پانی داخل نہیں ہوا تھا جس سے یہ اندازہ ہوا کہ آپ کی روح پانی میں ڈوبنے سے قبل پرواز کرچکی تھی۔ علامہ آئی آئی قاضی نے 13 اپریل 1968 کو خودکشی کرکے اپنی حیات کا خاتمہ کیا۔ علامہ آئی آئی قاضی کی آخری آرام گاہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں اپنی اہلیہ ایلسا قاضی کے ساتھ واقع ہے۔
The post علامہ آئی آئی قاضی appeared first on ایکسپریس اردو.