ہم جیسا ’’مِٹی پاؤ‘‘ فلسفے پر یقین رکھنے اور عمل کرنے والا شخص جب سائنس دانوں کو مختلف سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی جستجو میں ہلکان ہوتے دیکھتا ہے تو حیرت کرتا ہے کہ بھئی تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ ایسا نہیں کہ ہم تحقیق کے قائل نہیں، ہم تو خود محقق ہیں۔
ہمارا تحقیقی موضوع تھا ’’غالب کی کالم نگاری کی خصوصیات، اوصاف اور تمام پہلوؤں کا باریک بینی اور گہرائی سے لیا جانے والا ایک دقیق وعمیق تحقیقی جائزہ۔‘‘ اس موضوع پر ہم نے تحقیق کے بعد اسی عنوان سے جو مقالہ لکھا وہ پورے کا پورا یہ تھا،’’ہم نے بڑی کھوج لگائی، مگر غالب کے کالم نگار ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، پس تو ثابت ہوا کہ وہ کالم نگار نہیں تھے، پھر کاہے کی خصوصیات۔‘‘ لیجیے مسئلہ پانی کردیا، اسے کہتے ہیں تحقیق۔ لیکن سائنس داں حضرات بلاوجہ کے سوالوں میں اُلجھ کر الجھنیں بڑھاتے ہیں۔
آپ ہی بتائیے، بھلا یہ کھوج لگانے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ کون سے جین ہیں جو انسان کو ذہین بناتے ہیں۔ بھئی سُراغ لگانا ہے تو اس کا لگاؤ کہ سیاست دانوں اور حکم رانوں کی جینیات میں ایسا کیا شامل ہے کہ وہ ذہین انسانوں کو بھی بے وقوف بنالیتے ہیں۔ خیر ہمیں کیا، بہ الفاظ دیگر مٹی پاؤ، بتانا یہ تھا کہ چینی سائنس دانوں نے بندروں کے دماغ میں انسانی جینز امپلانٹ کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کون سے جینز ہیں جو انسانوں کو ذہین بناتے ہیں۔
ہمیں ڈر ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں اگر بندروں میں ذہانت جاگ اُٹھی تو کیا ہوگا؟ ڈارون صاحب کی مشہورزمانہ تھیوری کے باعث ہم پہلے ہی پریشان رہتے تھے کہ اس نظریے کے مطابق جس طرح ہم انسان بندروں کی ترقی یافتہ شکل ہیں اسی طرح جانے کب بندر ترقی کرکے انسان بن جائیں، ہم انھیں لاکھ سمجھائیں کہ بھیا ہم نے ’’کیا پایا انساں ہوکے‘‘ لیکن وہ باز نہ آئیں۔ اب تو ہمیں اپنا یہ خدشہ حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
ہم اس فکر میں غلطاں ہیں کہ بندروں کو انسانی ذہانت مل گئی تو ہم بندوں کا کیا ہوگا۔ ادھر عقل آئی اور اُدھر چھوٹتے ہی وہ مطالبہ کردیں گے کہ بندروں کو انسانی حقوق دیے جائیں، رہنے کو گھر دیے جائیں، روزگار فراہم کیا جائے۔ چلیے نوکریوں کی تو خیر ہے وہ تو ایک کروڑ سے زیادہ آنے والی ہیں ان میں سے لاکھ دو لاکھ بندروں کو بھی مل جائیں گی، اسی طرح پچاس لاکھ گھروں میں سے چند ہزار ان کی ملکیت میں چلے جائیں گے، رہے انسانی حقوق تو بندروں کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا جائے گا کہ وہ تو انسانوں کو بھی میسر نہیں، اس دلیل میں اتنا دَم ہوگا کہ بندر دُم ہلاکر تائید کریں گے اور اپنا یہ مطالبہ منوانے کے لیے ناک میں دَم کرنے سے گریز کریں گے۔ مسئلہ تب پیدا ہوگا جب بندر ووٹ کا حق مانگیں گے۔
انھیں لاکھ سمجھایا جائے گا کہ ’’اے پیارے بندرو! ووٹ دینے کے لیے ضروری ہے کہ رائے دہندہ بچہ جمورا ہو، اور اپنی اپنی قیادت اور جماعت کی ڈگڈگی پر ناچتا ہوا جائے اور ووٹ ڈال آئے۔ اگر ایسا کرسکتے ہو تو ووٹ کا حق لے لو۔ ورنہ ووٹ بندر کے ہاتھ میں ناریل بن جائے گا۔‘‘ یہ سُن کر بندر جو جامے سے باہر تو ہوتے ہی ہیں آپے سے بھی باہر ہوجائیں گے، انھیں ’’آپے‘‘ میں واپس لانے کے لیے پوری اپنائیت سے آپ جناب کرتے ہوئے کہا جائے گا ’’آپس کی بات ہے، اگر بندر بانٹ کا وعدہ کرلو تو ہم تمھیں ووٹ کا حق دے دیں گے‘‘، بندر جس طرح ادرک کا مزا نہیں جانتے اسی طرح جوڑتوڑ کے مزے سے بھی ناواقف ہوں گے، ٹکا سا جواب دیں گے’’ہم بندربانٹ صرف بندروں کے درمیان کرتے ہیں‘‘ جس پر کہا جائے گا،’’چلو تمھیں ووٹ کا حق دیتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ پھر تمھیں سیاسی جماعت بھی بنانا ہوگی‘‘ بندر حیران ہوکر پوچھیں گے ’’یہ شرط کیوں‘‘، جواب ملے گا،’’یار تم لوگ چھینا جھپٹی، چھلانگ مارنے اور قلابازی لگانے میں ماہر ہو، بس ہمیں یہی چاہیے۔‘‘
اور پھر دونوں فریقوں میں مفاہمت ہوجائے گی۔
The post اگر بندروں میں ذہانت جاگ اُٹھی! appeared first on ایکسپریس اردو.