شام کی خانہ جنگی کا2011 کے ماہ اپریل سے جاری ہے۔ باغیوں اور حکم ران پارٹی بعث کے درمیان جاری اس لڑائی کو بہارِ عرب کا مآل قرار دیا جاتا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اندرونِ خانہ جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچے اور عورتیں بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ بشارالاسد ملک کے صدر ہیں جو اپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد برسرِ اقتدار آئے ہیں۔ یہ خاندان گزشتہ کئی دہائیوں (1971) سے ملک پر حکم ران ہے اور اب شامی اس خاندان کے افراد کی صورتیں دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے ہیں، اکثریت کا مطالبہ ہے کہ بشارالاسد کو اب ’’تخت‘‘ سے دست بردار ہو کر کسی اور کو موقع دینا چاہیے تاہم ماضی کا شہزادہ اور آج کا ’’بادشاہ‘‘ اس پر آمادہ نہیں۔ واضح رہے کہ حافظ الاسد 1971 میں برسرِ اقتدار آئے تھے تاہم ان کی بعث پارٹی 1963 سے ملک پر حکم ران ہے۔ مارچ 2011 میں جب شام میں حکومت کے خلاف بے چینی کا آغاز ہوا تو حکومت نے ہزارہا شہریوں اور طلبا کو گرفتار کیا لیکن جب دیکھا گیا کہ حالات قابو میں نہیں آ رہے تو فوج کی بیرکوں کے پھاٹک کھول دیے اور یوں فوج شہروں شہروں پھیل گئی، اُدھر سے احتجاجیوں نے بھی اسلحہ (جو انہیں مسلسل کہیں سے مل رہا ہے) اٹھالیا اور فوج کے مقابل اتر آئے۔ فوج کے مقابل آنے والوں کو باغی قرار دیا جا رہا ہے، بتایا جاتا ہے کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو فوج سے بھگوڑے یا سبک دوش ہیں، شہری رضا کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد اس جنگ میں شامل ہے جب کہ 2013 میں لبنان میں اساس رکھنے والی حزب اللہ بھی شامی فوج کی حمایت میں در آئی ہے۔ اس کے علاوہ باہر کی دنیا سے بہ قول مغربی اور عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق شام کو روس اور ایران سے اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف باغیوں کو سعودی عرب اور قطر سے کمک فراہم کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق جولائی 2013 تک شام کا 60 سے 70 فی صد رقبہ باغیوں نے ہتھیا لیا تھا جب کہ آبادی کے 60 سے 70 فی صد پر تاحال شامی حکومت کی فرماں روائی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی 2012 کے اواخر کی ایک رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ باغیوں کے گروپ سنی العقیدہ ہیں جو شیعہ حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں جب کہ حکومت اور حزب اختلاف (باغی)، دونوں نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ اقوام متحدہ ہی کے مطابق اس خانہ جنگی میں ستمبر 2013 تک سوا لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں اس کے علاوہ دسیوں ہزار افراد سرکاری جیلوں میں قید ہیں، جن پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ مغربی طاقتیں صورت حال کے بگاڑ اور حقوقِ انسانی کی پامالی کی ذمہ دار بعث پارٹی کی حکومت کو قرار دے رہی ہیں جب کہ غیر جانب دار عالمی تنظیمیں دونوں فریقوں کو برابر کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ شامی شہری بڑی تعداد میں ملک چھوڑ چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں جب کہ ملک میں خوراک، دوائوں اور پانی کی شدید قلت ہو گئی ہے، ایک اطلاع کے مطابق معدمہ الشام میں بارہ سو سے زیادہ شہری بھوک اور پیاس کے باعث جاں بحق ہونے کا اندیشہ ہے کیوں کہ یہ علاقہ شامی فوج کے محاصرے میں ہے اور اندرونِ شہر کھانے پینے کی اشیا کی رسد ممکن نہیں۔ اس خانہ جنگی میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام بھی حکومتِ شام پر عاید کیا جا رہا ہے جس کی حکومت سختی سے تردید کر رہی ہے اور اس کا جوابی الزام باغیوں پر ہے۔ سال کے آخری ماہ یعنی دسمبر میں باغیوں نے جو ’’آزاد شامی فوج‘‘ کہلاتی ہے، نصرانی اکثریت کے ایک اہم شہر معلولہ پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے، یہ شہر اس سے پہلے بھی باغیوں کے قبضے میں تھا تاہم شامی فوج نے حزب اللہ کی معاونت ہے باغیوں کو مار بھگایا تھا۔ اس شہر میں ایک درجن سے زیادہ ننیں اغوا کی گئی ہیں، مقامی شہری اس کا الزام باغیوں پر عاید کرتے ہیں تاہم باغی اس کی تردید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ سرکاری فوج سے ان ننوں کو بچانے کے لیے قریبی شہر یابرود منتقل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یابرود بھی باغیوں کے زیر قبضہ ہے۔
دسمبر کے اوائل میں اسلامی محاذ نامی گروپ نے باب الہوا نامی علاقے پر قبضہ کر لیا جو کہ ترکی کی سرحد سے ملحق ہے۔ اس سے قبل اس پر آزاد شامی فوج (FSA) کا قبضہ تھا، گروپ نے اس علاقے میں موجود امریکی ساز و سامان کے گوداموں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے ردعمل میں کہا ہے کہ انہوں نے ایف ایس اے کو امداد کی فراہمی روک دی ہے کیوں کہ خدشہ ہے کہ یہ امداد القائدہ کے ہاتھ لگ سکتی ہے جو اس خانہ جنگی میں کردارادا کرنے کے لیے ملک میں داخل ہو چکی ہے۔ سرکاری فوج نے ایک اور اہم شہر النبق باغیوں کے قبضے سے 10 دسمبر کو ’’آزاد‘‘ کرا لیا جب کہ اس کے نواحات میں باغیوں اور فوج برسرپیکار ہیں۔
اگست 2013 میں شام کی اس خانہ جنگی کے دوران سولہ مواقع پر مہلک گیس کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی شکایات عالمی ادارہ کو موصول ہوئیں جن کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ نے ماہرین پر مشتمل تفتیش کاروں کی ٹیم روانہ کی۔ اس ٹیم نے نو مقامات کو شواہد مفقود ہونے کی بنا پر نظرانداز کر دیا جب کہ چار مقامات پر ’’سارِن‘‘ نامی ہلاکت خیز گیس استعمال کرنے کے شواہد ملے ہیں۔ گیس کے استعمال کی دونوں فریق تردید کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ نے بھی کسی فریق کو مجرم قرار دینے سے گریز کیا ہے تاہم باغی گروہ سرکار پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے غوطہ شہر پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں اور سرکار نے باغیوں پر خان الاصل پر اس مہلک گیس کے استعمال کا الزام عاید کیا ہے۔ خان الاصل کی اصل صورتِ حال جاننے کے لیے روسی ٹیم نے بھی علاقے کا دورہ کیا اور انکشاف کیا کہ اس حملے میں SARIN گیس استعمال کی گئی ہے جو حکومت کے بہ جائے باغیوں کے پاس ہے۔ 9 ستمبر کو ماسکو نے شام پر زورڈالا کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیار بین الاقوامی نگرانی میں دے دے کیوں کہ امریکا نے 21 اگست کو جوبار، زمالکہ، عین ترمہ اور ہزہ کے علاقوں پر کیمیائی حملوں کے ردعمل میں دمشق پر حملے کی دھمکی داغ دی تھی۔ اسی خدشے کی ذیل میں 16 ستمبرکو ماسکو اور واشنگٹن نے جنیوا میں اس امر پر اتفاق کیا کہ شامی حکومت سے کیمیائی ہتھیار واپس لے لیے جائیں گے۔
دریں اثناء معلوم ہوا ہے کہ اس خانہ جنگی میں تاجک باشندے بھی سرکار کے خلاف اپنا حصہ ڈالنے پہنچ رہے ہیں۔ ماہ مئی میں تاجکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے تسلیم کیا ہے کہ کم و بیش دو سو تاجک شام میں لڑ رہے ہیں۔ ان تاجک جنگ بازوں کی اکثریت طلبا پر مشتمل ہے جو عرب ممالک میں دینی تعلیم حاصل کرنے تاجکستان سے گئے ہیں، اس کے علاوہ ان ممالک میں مزدوری کرنے گئے تاجک بھی شامل ہیں۔ شام کے مفتیٔ اعظم نے اکتوبر میں انکشاف کیا ہے کہ تاجکوں کے علاوہ 360 ترکمان اور اڑھائی سو قازق اور کچھ ازبک بھی حکومت کے خلاف باغیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
بہ ہرحال دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور شام کے شہری دھڑا دھڑ موت کی دہلیز پار کر رہے ہیں، ان میں نہ کسی کو بچوں کی پروا ہے، نہ عورتوں کی حرمت کا احساس اور نہ بوڑھوں کی عمر کا لحاظ کیا جا رہا ہے۔ آس پاس کی حکومتیں لڑائی کی آگ کو دل کھول کر ہوا دے رہی ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد سوا لاکھ تک دو ماہ پہلے پہنچ گئی تھی اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔