’’مجھے کون بتائے گا کہ میرے پانچ بچوں کا قاتل کون ہے؟ اس عدالتی فیصلے نے تو مجھے مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ حد یہ ہے کہ مجھے عدالت میں گواہی کے لیے نہیں بلایا گیا۔ افسوس کہ انسانیت سے میرا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔‘‘
بھارت کے مشہور اخبار، انڈین ایکسپریس کے نامہ نگار کو یہ باتیں اکسٹھ سالہ رانا شوکت علی نے فون پہ آنسو بہاتے ہوئے بتائیں۔ اوائل جنوری 2007ء میں فیصل آباد کا رہائشی رانا شوکت بیوی بچوں کے ہمراہ نئی دہلی ایک شادی میں شرکت کرنے گیا تھا۔ وہاں انہوں نے خوب مزے سے وقت کاٹا اور ہلہ گلہ کیا۔ وہ سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے واپس وطن آرہے تھے کہ ان کی بوگیوں میں بم دھماکے ہوگئے۔
دھماکوں میں رانا شوکت کے پانچ معصوم بچے شہید ہوگئے۔ اس دلدوز سانحے نے اس کی ہنستی بستی زندگی اجاڑ ڈالی۔رانا شوکت آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔ وہ روتے ہوئے کہتا ہے ’’ہندو ہوں یا مسلمان، بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ مگر حیوانوں نے انہیں بھی نہیں بخشا۔ مجھے تو یہی لگتا ہے کہ بم دھماکے کرنے والے سنگدل اس دنیا میں سزا سے بچ جائیں گے۔‘‘
دراصل 20مارچ 2019کو بھارت کی خفیہ ایجنسی، این آئی اے (نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی) کی ایک خصوصی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس میں بم نصب کرنے والے انتہا پسندوں کو رہا کردیا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ دہشت گردوں کا لیڈر، سوامی آسیمانند ماضی میں کئی بار اپنے جرم کا اقرار کرچکا ۔ ملزموں کے خلاف کیس بھی مضبوط تھا۔ لیکن مودی سرکار کے دباؤ کی وجہ سے این آئی اے نے کیس اتنا کمزور کردیا کہ خصوصی عدالت نے آخر کار ملزمان کو رہا کر ڈالا۔حقائق سے آشکارا ہے، یہ رہائی حقیقتاً مودی حکومت اور این آئی اے کے افسروں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔یہ مقدمہ دس برس سے زائد عرصے چلتا رہا مگر سانحے کے متاثرین کو انصاف نہ مل سکا ۔اب تو ان کی آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو چکے۔
انصاف کا خون
اس رہائی نے مگررانا شوکت جیسے ان گنت پاکستانیوں کو سخت دکھ و غم میں مبتلا کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے مودی سرکار نے دن دیہاڑے قانون اور انصاف کا قتل کرڈالا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اصول پسند، دیانتدار اور سچا لیڈر ثابت کریں لیکن سمجھوتہ ایکسپریس میں ستر انسانوں کے قاتلوں کی رہائی نے ایک بار پھر دنیا والوں پر ان کا اصل مکروہ چہرہ عیاں کردیا۔ وہ جان گئے کہ نریندر مودی دراصل ایک متعصب اور قوم پرست لیڈر ہے جو اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر قانون و انصاف کو بھی پیروں تلے روند ڈالتا ہے۔اسی دوران یہ بھی افشا ہوا کہ پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرانے کے سلسلے میں مودی حکومت اور بھارتی فضائیہ نے جھوٹ بولا۔یوں عالمی سطح پر مودی سرکار کو خفت وبدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارتی حکمران طبقہ اپنے ملک بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے مگر مودی دور حکومت میں یہ مملکت بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک دیوہیکل قید خانے کی حیثیت اختیار کرچکی۔ افسوس کہ بھارت نواز مغربی میڈیا یہ سچائی بہت کم بیان کرتا ہے۔ وجہ یہی کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی و مشرقی ممالک کے بھارت کے ساتھ معاشی و تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ وہ ان مفادات کی خاطر مودی حکومت پر تنقید کرکے اسے ناراض نہیں کرسکتے۔ یہ عالمی سپرپاورز کی حد درجہ منافقت ہے۔ایک طرف بھارت میں قوم پرست تنظیموں کے دہشت گرد عدالتوں سے رہائی پارہے ہیں مگر عالمی طاقتیں خاموش ہیں۔
دوسری طرف ایف اے ٹی ایف اور سکیورٹی کونسل جیسے اداروں کے ذریعے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ پاکستانی حکومت پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں سرگرم مسلح تنظیموں کی حامی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عالمی سپرپاورز کی نظر بھارت کی ان سیاسی و سماجی تنظیموں پر کیوں نہیں پڑتی جن کے دہشت گرد بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں پر ظلم و ستم ڈھارہے ہیں؟ یہ رویّہ عالمی سپرپاورز کی منافقت اور دوہرا معیار افشا کرتا ہے۔
نفرت کی فصل
تاریخ دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سوامی دیانند سرسوتی پہلا ہندوستانی لیڈر ہے جس نے مذہبی تعصب کی بنا پر تشدد کو اپنا ہتھیار بنایا۔ یہ لیڈر سمجھتا تھا کہ ہندوستان میں آباد بیشتر مسلمان ہندوؤں کی اولاد ہیں۔ لہٰذا اس نے مسلمانوں کو زبردستی سے دوبارہ ہندو بنانے کے لیے 1877ء میں ’’شدھی تحریک‘‘ کا آغاز کیا۔ 1881ء میں گائے کی حفاظت کے لیے ’’گؤ رکھشا تنظیم‘‘ قائم کی گئی۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین لڑائی جھگڑے شروع کرنے میں ان دونوں تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا۔
سوامی دیانند سرسوتی، بنکم چٹرجی، سوامی ویویکانند، بال گنگا دھرتلک وغیرہ کے نفرت و تعصب پر مبنی نظریات سے متاثر ہو کر عام ہندو مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ یہ دشمنی رفتہ رفتہ اتنی بڑھی کہ وہ دہشت گرد بن کر اقلیتی مسلمانوں پر حملے کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے بیسویں صدی ہندو مسلم فسادات کے خوفناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات میں دہشت گردوں نے لاکھوں مسلمان شہید کردیئے۔بیسویں صدی میں مغربی استعماری قوتیں آپس ہی میں لڑنے مرنے کے باعث کئی اسلامی ممالک کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ لیکن فلسطین اور کشمیر سمیت کئی علاقوں میں مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود غیر مسلم طاقتوں کے غلام بنے رہے۔ جب ان علاقوں میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں تو مجاہدین کو ’’دہشت گرد‘‘ بنا دیا گیا۔
تقسیم ہند کے بعد بھارت میں جو بھی حکومت آئی، اس نے بھارتی مسلمانوں سے کی معاشی، سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی ترقی کے لیے بہت کم اقدامات کیے۔ یہی وجہ ہے، بھارتی مسلمان بھارت کی سب سے پسماندہ قوم بن گئے۔ 2014ء میں جب نریندر مودی کی زیر قیادت قوم پرست ہندو برسراقتدار آئے تو بھارتی مسلمانوں کو مذہبی تعصب کا بھی شکار ہونا پڑا جس کی لرزہ خیز تفصیل سے قارئین آگاہ ہوں گے۔2002ء میں بطور وزیراعلیٰ گجرات، نریندر مودی نے گجراتی مسلمانوں کی نسل کشی میں حصہ لیا تھا۔ اس نسل کشی کے ردعمل میں بعض جوشیلے بھارتی مسلم گروہوں نے بھارتی حکومت کی تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔
حکومت اور قوم پرست بھارتی مل کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کررہے تھے اور ان کی تمنا تھی کہ مسلمان چوں بھی نہ کریں… یہ کیسے ہوسکتا تھا؟جب بعض مسلم گروہوں نے مندروں کو بھی نشانہ بنایا، تو بھارتی قوم پرست انتقام کی آگ میں جلنے لگے۔ انہوں نے ’’بم کا بدلہ بم‘‘ کا نعرہ لگانے شروع کردیا۔ چناں چہ ’’سنگھ پریوار‘‘ میں شامل جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈروں سے مطالبہ کرنے لگے کہ انہیں بھی مسلمانوں اور مساجد پر بم دھماکے کرنے کی اجازت دی جائے۔
یاد رہے، بھارت میں جو سیاسی و سماجی جماعتیں اور تنظیمیں ’’نظریہ ہندتوا‘‘ یا بھارت کو ہندو ریاست میں ڈھالنے والے پروگرام پر یقین رکھتی ہیں، ماہرین سیاسیات انہیں ’’سنگھ پریوار‘‘ کی چھتری تلے جمع کرتے ہیں۔ ان جماعتوں میں آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ہندو مہاسبھا، شیوسینا سب سے نمایاں ہیں۔ ان جماعتوں کے لاکھوں کارکن پورے بھارت میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی انتہا پسند یا شدت پسند کے زمرے میں شامل ہیں۔ یہی انتہا پسند اقلیتوں پر حملے کرنے سے دہشت گرد بھی بن جاتے ہیں۔
ایک انتہا پسند کی کہانی
بھارتی مسلمانوں پر بم حملوں کی تمنا کرنے والے قوم پرست لیڈروں میں سوامی آسیمانند بھی شامل تھا۔ یہ آر ایس ایس کا ایک بااثر رہنما تھا۔ اس کی داستان زندگی عیاں کرتی ہے کہ ایک عام بھارتی رفتہ رفتہ انتہا پسند اور پھر دہشت گرد کیسے بن جاتا ہے۔آسیمانند کا اصل نام نابھ کمار سرکار ہے۔ وہ 1952ء میں مغربی بنگال کے شہر، کمرپکار میں پیدا ہوا۔ باپ کانگریس سے منسلک تھا مگر خاندان بہت غریب تھا۔ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی اور تن ڈھاننپے کی خاطر کپڑا بہ مشکل ہی میسر آتا۔ آسیمانند نے ہوش سنبھالا، تو وہ ٹیوشنیں پڑھا کرتعلیم حاصل کرنے لگا۔
لڑکپن میں آسیمانند آر ایس ایس کا رکن بن گیا۔ جب ایم ایس سی کرلیا تو اس نے اپنے آپ کو ہندومت کی تبلیغ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے سوامی ویویکانند کے ایک قول کا ہاتھ تھا۔ قول یہ ہے: ’’جب کوئی ہندو مسلمان یا عیسائی ہوجائے، تو یوں نہ صرف ہم میں سے ایک ہندو کم ہوتا ہے بلکہ ہمارا ایک اوردشمن پیدا ہوجاتا ہے۔‘‘ چناں چہ آسیما نند نے اپنی زندگی کا مشن یہ بنالیا کہ ہندوؤں کے دشمن کم سے کم کیے جائیں۔
سوامی آسیما نند پھر ان علاقوں میں جانے لگا جہاں عیسائی اور مسلمان مبلغ اپنے اپنے مذاہب کی تبلیغ کر رہے تھے۔ آسیما نند کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ انتظامیہ میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ لہٰذا سرکاری افسر آسیما نند کو ہر ممکن سہولت و مدد فراہم کرتے تاکہ وہ قبائلیوں ‘ جنگلیوں ‘ دلتوں اور دیگر پسماندہ اقدام میں ہندو مت کا پرچار کر سکے۔اپنے جوش و جذبے اور مذہبی جنون کے سبب آسیما نند جلد ہی مشہور و معروف پرچارک (مبلغ ) بن گیا۔
آسیمانند خصوصاً جزائر نکوبار وانڈیمان ‘ کیرالہ‘ چھتیس گڑھ اور گجرات میں ہزار ہا قبائلیوں کو ہندو بنانے میں کامیاب رہا۔ اس کامیابی کے سبب اسے سنگھ پریوار میں بہت عزت و احترام سے دیکھا جانے لگا۔ 2006ء میں آسیمانند نے گجرات کے ضلع ڈینگ میں ایک بہت بڑے آشرم کی بنیاد رکھی۔ اس کے افتتاح میں وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی بھی شریک تھے۔قبائلیوں اور جنگلیوں میں اپنے مذہب کا پرچار کرتے ہوئے آسیما نند کبھی ترغبیب و تحریض سے مدد لیتا۔ انہیں ضروریات زندگی مثلاً آٹا‘ سبزی‘ دوا مفت دی جاتی تاکہ انہیں اپنے جال میں پھانسا جا سکے۔ کبھی وہ ڈرانے دھمکانے حتیٰ کہ تشدد کرنے سے بھی کام لیتا۔
تشدد کا ہتھیار
1997ء میں آسیما نند ضلع ڈینگ،گجرات پہنچا۔ تب ضلع میں عیسائی مشنری بہت متحرک تھے۔ ان کی تبلیغ سے ہر مہینے ہزار ہا قبائلی عیسائی ہو رہے تھے۔ ضلع میں کئی چرچ بن گئے تھے۔ جب آسیمانند نے وہاں ہندومت کے پرچار کا آغاز کیا تو اسے آغاز میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ ناکامی نے اسے غصّے سے بھر دیا۔آسیما نند پھر گجرات حکومت کے متعصب سرکاری افسروں کی مدد سے قبائلیوں کو خوفزدہ کرنے لگا۔ انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر وہ ہندو نہ ہوئے تو ان کو حاصل سرکاری مراعات ختم کر دی جائیں گی۔ نیز سرکاری ٹیکس دوگنا لیاجائے گا۔ یوں قبائلیوں کے مابین خوف و دہشت پھیلا کر آسیما نند بہت سے مقامی لوگوں کو ہندو بنانے میں کامیاب رہا۔ کئی دیہات میں اس نے چرچ بھی ڈھا دیئے اور وہاں عارضی مندر بنا ڈالے۔
تاہم سوامی آسیما نند کی کارروائیاں پوشیدہ نہیں رہ سکیں اور عالمی میڈیا یہ خبریں چھاپنے لگا کہ بھارتی ریاست گجرات میں ہندو پرچارک خوف و تشدد پھیلا کر عیسائی قبائلیوں کو زبردستی ہندو بنا رہے ہیں۔ ان خبروں کے بعد امریکا‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ گجرات میں اپنے انتہا پسندوں کی سرگرمیاں روکنے کا بندوبست کرے۔
اسی زمانے میں بی جے پی کے رہنما‘ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔ وہ گجرات آئے اور مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ چرچوں کی حفاظت کی جائے۔ تاہم وہ بھی آسیما نند کی کھلے عام ڈانٹ ڈپٹ نہیں کر سکے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے کئی سینئر رہنما درپردہ آسیما نند کی حمایت کر رہے تھے۔ وہ اس کی سرگرمیوں کو سراہتے تھے۔غرض ہزار ہا بھارتیوں کو ہندو بنا لینے کے باعث سوامی آسیما سنگھ پریوار میں نامی گرامی شخصیت بن گیا۔ خاص طور پر وہ نریندر مودی کی طرح ایسا عملی آدمی سمجھا جانے لگا جو کام مکمل کر نے کے لیے دنگا فساد سے بھی پرہیز نہیں کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے‘ سنگھ پریوار میں شامل انتہا پسند بھارتی اسے اپنا ہیرو سمجھنے لگے۔ رفتہ رفتہ آسیما نند کے گرد ایسا حلقہ بن گیا جس میں شامل بیشتر نوجوان انتہا پسند تھے۔ وہ ہر قیمت پر اندرون و بیرون ملک اپنے مذہب کا بول بالا کرنا چاہتے تھے چاہے اس کے لیے تشدد ہی کا سہارا لینا پڑے۔
بم کا بدلہ بم
سنگھ پریوار کے انتہا پسند مسلمانوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ انہیں متعصب ہندو مورخین کے اس پروپیگنڈے پر یقین ہے کہ مسلمان حکمران ماضی میں غیر مسلم رعایا پر ظلم وستم ڈھاتے رہے۔ لہٰذا اب وہ حکمران بن کر مسلمانوں سے بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ انتہا پسند اسی ذہنیت اور طرز فکر کے باعث مسلمانان بھارت سے نفرت کرتے‘ انہیں ہر ممکن طریقے سے ستاتے اور قتل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ ان کی خواہش بن چکی کہ بھارتی مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لیا جا ئے اور وہ کھل کر اسلامی اقدار‘ روایات اور رسومات پر عمل نہ کرسکیں۔
یہی وجہ ہے ‘ جب فروری 2002ء میں گودھرا ریلوے اسٹیشن ‘ گجرات پر سنگھ پریوار کے کارکنوں اور مقامی مسلمانوں کے مابین لڑائی ہوئی تو اسے بہانہ بنا کر وزیراعلیٰ نریندر مودی نے مسلمانوں کی نسل کشی کا حکم دے دیا۔ اگلے تین ماہ تک سنگھ پریوار کے دہشت گردوں اور غنڈوں نے ریاست میں ہزار ہا مسلمان شہید کر دیئے۔ خوف و دہشت کی ایسی فضا تخلیق کی گئی کہ مسلمانان گجرات الگ تھلگ بستیوں میں جانوروں کی طرح رہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس قتل عام میں آسیما نند نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔ اس نے2011ء میں بھارتی رسالے‘ کاروان سے منسلک صحافی لینا گپتا کو فخر سے بتایا تھا’’میںنے اس وقت ضلع ڈینگ میں سبھی مسلمانوں کا صفایا کر ڈالا۔ ضلع میں ایک مسلمان بھی نہ رہا‘ سبھی دوسرے اضلاع میں فرار ہو گئے۔ اب کوئی مسلمان ضلع ڈینگ آنے کی ہمت نہیں کر سکتا‘‘۔
گجرات فسادات کے بعد بعض مندروں اور دیگر بھارتی مقامات پر بم دھماکے ہوئے۔ بھارتی حکومت نے الزام لگایا کہ شدت پسند مسلمانوں کی تنظیمیں یہ بم دھماکے کر رہی ہیں۔ اسی پروپیگنڈے نے سوامی آسیما نند اور اس کے حلقے میں شامل انتہا پسندوںکو اشتعال دلا دیا۔ انتہا پسندوں میں اس سوچ نے جنم لیا کہ بھارتی حکومت تو اپنے مفادات کے باعث جوابی وار نہیں کر سکتی لیکن ان کے ہاتھ پاؤں تو نہیں بندھے۔ لہٰذا انہیں بھی مسلمانوں پر حملے کر کے جواب دینا چاہیے۔
لیڈروں اور جرنیلوں کا ساتھ
یہ اکتوبر 2005ء کی بات ہے کہ آر ایس ایس کے اہم لیڈر موہن بھگوت اور اندریش کمار سوامی آسیما نند سے ملنے گجرات آئے۔ سوامی نے ان کے سامنے اپنا یہ منصوبہ رکھا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت مساجد اور مسلمانوں کی دیگر جگہوں پر بم دھماکے کرنا چاہتے ہیں۔ آسیما نند نے لینا گپتا کو بتایا:’’موہن بھگوت اور اندریش کمار دونوں کو ہمارا منصوبہ پسند آیا۔ وہ بھی ہمارے اسی خیال سے متفق تھے کہ مسلمانوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے تاکہ انہیں سبق سکھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم منصوبے کے سلسلے میں ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارا نام نہیں آنا چاہیے۔ ہم نے ہامی بھر لی‘‘۔
موہن بھگوت اور اندریش کمار سنگھ پریوار کے نامی گرامی رہنما تھے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایئے کہ موہن بھگوت بعد میں آر ایس ایس کا پرمکھ (سربراہ ) بن گیا۔ چنانچہ دونوں اہم رہنماؤں کی حمایت پا کر آسیما نند اور اس کے انتہا پسند ساتھیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔
اصل مسئلہ یہ تھا کہ بم بنانے کے لیے مسالا کہاں سے آئے؟ آر ایس ایس 1932ء سے ناسک‘ مہاراشٹر میں ’’بھونسلا ملٹری اسکول‘‘ چلا رہی ہے۔ ہر سال اس سکول سے جنگی تربیت پائے ہوئے طالبعلم بھارتی فوج کا حصہ بنتے ہیں۔ عام طور پر یہ فوجی بھی نظریہ ہندتوا پر یقین رکھتے ہیں۔ بم بنانے کے لیے آر ایس ایس نے انہی قوم پرستوں فوجی ا فسروں سے رابطہ کر لیا۔ ان افسروں کے حلقے میں جنرل‘ بریگیڈیئر‘ کرنل اور دیگر اعلیٰ رینک کے فوجی شامل ہیں۔ان فوجی افسروں نے اپنے حلقے میں شامل اور ملٹری انٹیلی جنس کے ایک افسر‘ لیفٹیننٹ کرنل پروہت کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ سوامی آسیما نند اور اس کے ساتھیوں کو آر ڈی ایکس مادہ فراہم کر دے۔ یہ ایک دھماکہ خیز مادہ ہے جو ٹی این ٹی کے ساتھ مل کر بم بنانے میں کام آتا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل پروہت نے اپنے تعلقات کی بنیاد پر جموں و کشمیر فوجی ڈپو سے 60 کلو آر ڈی ایکس حاصل کر لیا۔
اب بھونسلا ملٹری سکول میں بھارتی فوج کے حاضر و سابق فوجی افسر آر ایس ایس کے دہشت گردوں کو بم بنانے اور چلانے کی تربیت دینے لگے۔ ان دہشت گردوں کی تعداد پچاس سے سو کے مابین بتائی جاتی ہے۔ تربیت پا کرانہوں نے 2006ء سے 2008ء تک بھارت کے مختلف مقامات پر بم دھماکے کیے۔ ان کی دہشت گردی کا نشانہ معصوم اور نہتے بھارتی مسلمان تھے۔ شروع میں دہشت گردوں کی ناتجربے کاری کے باعث بم دھماکے جانی نقصان نہیں کر سکے لیکن بعدازاں وہ خوفناک ثابت ہوئے۔ ان دہشت گردوں نے جوواقعات انجام دیئے‘ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
٭… 8 ستمبر 2006ء … مالیگاؤں، مہاراشٹر کی مسجد میں بم دھماکے۔ 40 مسلمان شہید، سوا سو زخمی۔
٭… 18 فروری 2007ء سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے۔ 70 شہید، سینکڑوں زخمی۔
٭… 18 مئی 2007ء ۔۔۔۔ مکہ مسجد، حیدر آباد دکن میں بم دھماکہ۔ 16 شہید، 100 زخمی۔
٭… 11 اکتوبر 2007ء … اجمیر شریف درگاہ میں بم دھماکہ۔ 20 شہید، 17 زخمی۔
٭… 29 ستمبر 2008ء۔۔۔۔ مالیگاؤں، مہاراشٹر کی مسجد میں بم دھماکہ، 9 شہید، 8 زخمی۔
٭… 29 ستمبر 2008ء۔۔۔۔ موڈاسا، گجرات میں بم دھماکہ، 1 شہید، کئی زخمی۔
ایک فرض شناس پولیس افسر
مسلمانوں پر بم حملوں کا یہ سلسلہ شاید مزید جاری رہتا مگر بمبئی پولیس کا ایک فرض شناس پولیس افسر، ہیمنت کرکرے دہشت گردوں کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ وہ یہ جاننے میں کامیاب رہا کہ آر ایس ایس اور دیگر قوم پرست تنظیموں کے قائدین کی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی جاری ہے۔ ہیمنت کرکرے مہاراشٹر میں انسداد دہشت گردی کے ادارے کا سربراہ تھا۔اس نے بم دہماکوں میں ملوث دہشت گرد گرفتار کر لیے جن میں ایک خاتون، سدھوی پرگیا سنگھ بھی شامل تھی۔
14 نومبر 2008ء کو ادارے کے افسر سوامی دیانند پانڈے کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کے قبضے سے ایک لیپ ٹاپ برآمد ہوا جس میں آر ایس ایس کے لیڈروں کی گفتگو ٹیپ محفوظ تھی۔ انہی ٹیپوں سے انکشاف ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے منصوبے بنانے میں ہندو قوم پرست تنظیموں کے نامی گرامی لیڈر، اعلیٰ فوجی افسر، پولیس افسر اور سرکاری افسر شریک ہیں۔ ڈی آئی جی ہیمنت کرکرے نے ان سب لوگوں کے نام طشت ازبام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ہیمنت کرکرے کی تفتیش اور پھر نام سامنے لانے کے فیصلے نے بھارتی فوج، پولیس، بیورو کریسی اور قوم پرست جماعتوں کے اندر ہلچل مچادی۔ انہیں محسوس ہونے لگا کہ ہیمنت کرکرے کے انکشافات سے پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہوگی اور بھارتی قوم پرست دہشت گرد قرار پائیں گے۔ اسی لیے کرکرے کو قتل کرنے کی سازش بنائی جانے لگی۔ اسی سازش کے ذریعے 26 نومبر 2008ء کو ممبئی میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔
یہ سازش بھارتی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی (انٹیلی جنس بیورو) کا مشترکہ ’’کارنامہ‘‘ تھی۔ دہشت گردی کے اس واقعے سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ دو بڑے مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اول ہیمنت کرکرے کا خاتمہ۔ دوم کرکرے کی تفتیش سے بھارتی قوم پرستوں کے خلاف جو ماحول بن گیا تھا، اسے ختم کردینا۔ اضافی فائدے یہ ملے کہ پاکستانی تنظیمیں لشکر طیبہ اور جیش محمد دہشت گرد تنظیمیں قرار پائیں اور پاکستان بھی دنیا بھر میں بدنام ہوگیا۔
مودی حکومت کا ’’کارنامہ‘‘
واقعہ 26/11 کے بعد بھارتی قوم پرست تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف جاری تفتیش تقریباً ختم ہوگئی۔ 2010ء میں اسے این آئی اے کے سپرد کردیا گیا۔ کانگریسی لیڈروں کی کرپشن کے باعث 2014ء میں شدت پسند نریندر مودی کی زیر قیادت قوم پرست پھر برسراقتدار آگئے۔ حکومت سنبھالتے ہی نریندر مودی نے بیوروکریسی کو حکم دے دیا کہ جن ہندو قوم پرستوں پر مقدمے چل رہے ہیں، انہیں رہا کرانے کی ہر ممکن ترکیب اختیار کی جائے۔یوں مودی سرکار قانون و انصاف کو دھڑلے سے یوں پیروں تلے روندنے لگی جس کی نظیر انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔
روہنی سیلین (Rohini Salian) ممبئی کی مشہور وکیل ہے۔ وہ عدالت میں مالیگاؤں بم دھماکوں کا مقدمہ لڑرہی تھی۔ مقتول ہیمنت کرکرے صرف دوماہ کی قلیل مدت میں بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ انہی کی مدد سے 2010ء میں آسیمانند کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔مودی حکومت آئی، تو روہنی سیلین پر دباؤ ڈالا جانے لگا کہ وہ قوم پرستوں کے خلاف کیس کمزور کردے۔ وہ مضبوط کردار کی عورت تھی۔ لہٰذا روہنی میڈیا کے سامنے یہ انکشاف لے آئی کہ مودی حکومت کس قسم کا گھٹیا دباؤ ڈال رہی ہے۔
بھارتی عدلیہ اور بیوروکریسی میں مگر بیشتر بھارتی جج، وکلا اور سرکاری افسر مودی حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنے لگے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی دل سے بھارت کو ہندو مملکت میں بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے چار برس کے دوران بھارتی عدالتوں نے بیسیوں قوم پرست دہشت گردوں کو ’’بے گناہ‘‘ قرار دے کر رہا کردیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کیس میں آسیمانند اور دیگر دہشت گردوں کی رہائی اسی منصوبے کی حالیہ کڑی ہے۔ان بھارتی دہشت گردوں نے جو بم دھماکے کیے تھے، پولیس نے انہیں انجام دینے کا الزام مسلم نوجوانوں پر تھوپ دیا تھا۔ ان نوجوانوں کو پھر جیلوں میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں بعض مسلمان آج بھی بھارتی جیلوں میں قید ہیں، جبکہ قوم پرست دہشت گرد رہائی پاکر دندناتے پھرتے ہیں۔ جو دہشت گرد گرفتار ہیں، انہیں بھی قید میں ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں اور وہ آرام و آسائش میں زندگی گزار رہے ہیں۔
دہشت گردوں کے حوصلے بلند
مودی حکومت کی مسلم دشمنی، بے غیرتی اور ڈھٹائی کا اندازہ اس سچائی سے لگائیے کہ جب خصوصی عدالت نے سمجھوتہ ایکسپریس کے دہشت گردوں کو رہا کیا، تو فخریہ یہ اعلان کیا گیا، مودی حکومت اعلیٰ عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گی۔ غرض مودی حکومت علی الاعلان دہشت گردوں کی سرپرستی کررہی ہے اور کوئی اسے روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ اس طرح ہندو قوم پرستوں کو پیغام دے دیا گیا کہ وہ اقلیتی اقوام پر جتنا مرضی ظلم و ستم کریں، قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔2007ء میں جب سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ رونما ہوا، تو وکاش نارائن راؤ ہریانہ پولیس کے سربراہ تھے۔ انہوں نے کیس حل کرنے میں ذاتی دلچسپی لی اور پتا چلا لیا کہ ریل میں بم دھماکے کسی بھارتی قوم پرست گروہ نے کیے ہیں۔
بعدازاں اس گروہ کو ہیمنت کرکرے نے طشت ازبام کیا۔آسیمانند اور دیگر دہشت گردوں کی حالیہ رہائی کے بعد وکاش نارائن نے بھارتی اخبار، انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’این آئی اے کے وکلا نے ملزمان کے خلاف دانستہ کیس کمزور کردیا۔ اس لیے خصوصی عدالت کے جج کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس کے علاوہ مالیگاؤں، مکہ مسجد اور اجمیر شریف میں ایک ہی گروپ نے بم دھماکے کرائے۔ لیکن سرکاری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کوتاہی کے باعث گروپ کے کارندے عدالتوں سے رہائی کے پروانے پارہے ہیں۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی میڈیا نے سمجھوتہ ایکسپریس میں دہشت گردی کرنے والے شدت پسندوں کی رہائی پر کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی بھارتی حکومت و عدلیہ کو مطعون کیا جا سکا۔ کوئی پاکستانی عدالت ان ملزموں کو رہا کردیتی تو مغربی میڈیا یہ خبر خوب اچھالتا اور پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست ملک قرار دیتا۔ اس سچائی سے عیاں ہے کہ مغربی میڈیا انتہائی یک رخا اور منافق ہے۔بھارت میں الیکشن ہو رہے ہیں۔اگر مودی سرکار پھر برسراقتدار آگئی تو یہ یقینی ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مزید کارروائیاں کرے گی۔ بھارت اور جنوبی ایشیا میں نفرت وتعصب پھیلائے گی تاکہ اپنے مقاصد اور مفادات حاصل کر سکے۔اس نفرت انگیز ماحول میں خصوصاً بھارتی انتہا پسندوں کے حوصلے بلند ہو جائیں گے ۔وہ تب
بھارتی مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں تیز کر دیں گے۔ممکن ہے کہ خاص طور پہ جن علاقوں میں مسلمان بہت کم ہیں،وہ اپنا مذہب پوشیدہ رکھنے یا بدلنے پر مجبور ہو جائیں۔گویا مودی حکومت کا دوبارہ آ جانا لاکھوں بھارتی مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی مشکلات کا سندیسہ ثابت ہو گا۔
The post سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکوں کے مجرم کیسے رہا ہوئے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.