کسی بھی قوم کی پہچان، اس کی شناخت اس قوم کی ثقافت کے بغیر ادھوری ہے۔ ثقافت ہماری زندگیوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دنیا کی کسی بھی قوم کو اْس کی زبان اور دیگر ثقافتی اقدار سے پہچانا جاتا ہے۔ زبان صرف ایک ذریعہ ابلاغ ہی نہیں بلکہ یہ ثقافت کے اہم بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بغیر ثقافتیں ادھوری ہیں۔ زبان ہماری زندگیوں کا وہ اہم حِصہ ہے جس سے ایک طرف تو ہم اپنے خیالات دوسروں تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف اسی کی بنیاد پر ہم مختلف قوموں، گروہوں اور قبیلوں کی انفرادی شناخت کو پرکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہماری ثقافت، زبان پر اثرانداز ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف زبان بھی ثقافت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ غرض یہ دونوں آپس میں منسلک ہیں۔
اس وقت دنیا میں کم و بیش 6500 کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں کچھ زبانیں تو صفحۂ ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکی ہیں جب کہ کئی زبانوں کے بولنے والے ہزاروں بلکہ سیکڑوں میں ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی قسم قسم کی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں مختلف قومیں اور زبانیں ایک ملک میں رنگ برنگے گل دستے کی طرح اکٹھی رپتی ہیں۔ پاکستان کی خوب صورتی کے رنگ ان ہی ثقافتی پہلوؤں میں چھپے ہوئے ہیں۔
وطنِ عزیز میں تقریباً 65 سے 70 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان اردو جب کہ سرکاری زبانیں اردو اور انگریزی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی علاقائی زبانوں میں پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور براہوی شامل ہیں۔ جب کہ شیناء، کشمیری، ہندکو اور بلتی زبانوں کا شمار چھوٹی علاقائی زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ ان زبانوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بہت سی زبانوں کے متکلمین کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند-فارس اور ہند-یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
پاکستان کے علاقے چترال کے بارے میں نارویجین زبان داں پروفیسر جارج مورگیسٹرن کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پوری دنیا میں لِسانی تنوع کے لحاظ سے سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ اِس چھوٹے سے خِطے میں کھووار کے علاوہ دس مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کالاشہ، یدغا، پالولہ، نورستانی، دامیلی، گواربتی(ساتر)، بروشسکی، واخئی، کیرغیز اور پشتو شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زبانوں کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ صرف چترال ہی نہیں، پاکستان کے بیشتر علاقے زبانوں کے لحاظ سے خاصے مالامال ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چار مختلف لِسانی خاندانوں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہند یورپی (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو وغیرہ)، دراوڑی (براہوی)، چینی تبتی (بلتی و زنسکاری) اور بروشسکی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہنزہ کی بروشسکی ایسی زبان ہے جو دنیا کی کسی اور زبان سے نہیں ملتی، اس لیے لامحالہ اسے بھی ایک الگ خاندان قرار دینا پڑے گا۔ دوسری جانب یہاں عربی، فارسی اور یغور سمجھنے اور بولنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔
پاکستان میں بولی جانے والی 74 میں سے درجنوں زبانوں کے سر پر معدومی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کم از کم ایک زبان ‘بدیشی’ ایسی ہے جس کے بولنے والے صرف 3 افراد زندہ بچے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے اور وہ آس پاس کی دوسری زبانوں کے غلبے تلے دب کر ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ تعداد محض اندازے ہیں جو اکثر و بیشتر مغربی ماہرینِ لسانیات نے برسوں دور دراز پہاڑی علاقوں میں کام کر کے اخذ کیے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے پاس سرکاری سطح پر اس ضمن میں کوئی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
چترال کی کھووار اور دوسری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے چترال کے ایک شہری رحمت عزیز صاحب نے ایک شان دار قدم اٹھایا اور 1996 کراچی میں کھووار اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ زبانوں کی یہ تنظیم نہ صرف کھووار بلکہ کئی دوسری چھوٹی بڑی زبانوں میں مختلف کتابوں کے تراجم کر رہی ہے۔ اس اکیڈمی کو چترال اور ملک کی دیگر مادری زبانوں کے لیے ایک ”مضبوط سہارا” کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
پاکستان کی معدوم ہونے والی یا معدومیت کے قریب تر زبانوں کے بارے میں حقائق پیشِ خدمت ہیں۔
آیر
آیر یا آئر ہند-یورپی لسانی خاندان کی ہند-ایرانی شاخ سے نکلی زبان ہے جس کے بولنے والے قیام پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں کافی تعداد میں موجود تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد آیر زبان بولنے والے جو ہندو تھے وہ ہندوستان میں رہ گئے اور مسلمان پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں آیر بولنے والے زیریں سندھ اور خصوصاً حیدرآباد میں رہتے ہیں۔ کھوار اکیڈمی کے مطابق اِس زبان کا اِرتقاء جنوبی ایشیا میں سلطنتِ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے دوران ہند زبانوں پر فارسی، عربی اور ترکی کے اثر سے ہوا۔ اس زبان کے بولنے والوں کی کل تعداد اب 150 کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
آیر (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ) دُنیا کی تمام زبانوں میں آخری نمبر پر ہے۔ یہ پاکستان کے زیریں سندھ اور ہندوستان کی ریاست گجرات میں اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
باگڑی
دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی باگڑی زبان، زبانوں کے ہند یورپی خاندان کی ”راجستھانی-مارواڑی” شاخ سے تعلق رکھتی ہے جس کے زیادہ تر بولنے والے بھارتی صوبے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ زبان بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے پنجابی زبان کا ایک لہجہ مانتے ہیں لیکن بھارت میں یہ اقلیتوں کی تسلیم شدہ زبان ہے۔ اس کے کُل بولنے والوں کی تعداد اندازً 20 لاکھ ہے لیکن پاکستان میں اس کے بولنے والے بیت کم تعداد میں ہیں۔
باگڑی کا نام ”باگڑ” سے نکلا ہے جو شمال مغربی بھارت اور مشرقی پاکستان کے ریتلے علاقوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ بار (جیسے ساندل بار) باگڑ کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
بدیشی
بدییشی زبان صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی چیل اور بشگرام میں بولی جاتی ہے بلکہ یوں کہا جائے ”بولی جاتی تھی” تو زیادہ مناسب ہوگا۔ تقریباً معدوم ہوچکی اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 2018 میں صرف 3 تھی۔
براہوی
شمالی دراوڑی زبانوں سے تعلق رکھنے والی یہ زبان پاکستان میں صرف وسطی بلوچستان کے اضلاع کوئٹہ، قلات، خضدار، مستونگ، بولان، نصیرآباد اور سندھ کے کچھ علاقوں (لاڑکانہ اور نواب شاہ کے اضلاع ) میں بولی جاتی ہے۔ اس کے بولنے والے ایران، افغانستان اور ترکمانستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس زبان کے بولنے والے تقریباً 40 لاکھ کے قریب ہیں۔
براہوئی ایک قدیم ترین زبان ہے، جو ہر نئے سیکھنے والے کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ برطانوی دور میں انگریزوں نے برصغیر کی تقریباً زبانیں سیکھ لیں لیکن جب براہوئی زبان کے بارے میں کسی انگریز سے پوچھا گیا تو اس نے ہاتھ کھڑے کردیے۔ یہ زبان بہت وسیع علاقے میں بولی جاتی ہے۔ کوئٹہ سے لے کر ایران کی سرحدوں تک اور حب چوکی تک یہ زبان بولی جاتی ہے۔ جیسے یہ زبان جتنے بڑے علاقے میں بولی جاتی ہے اسی طرح یہ اتنی ہی غیرمعروف ہے۔ کراچی کی طرف حب چوکی کے بعد کوئی اس زبان کے بارے کچھ نہیں جانتا۔ اس زبان میں تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
سندھ میں رہنے والے براہوئی خود کو”بروہی” کہتے ہیں جب کہ بلوچستان، افغانستان اور ایران میں براہوئی بولنے والے بلوچ کہلاتے ہیں۔
براہوئی زبان میں اس وقت کئی رسالے و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن تلار کے نام سے ایک ہفت روزہ 2004 سے مکمل تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ موجودہ دور میں تلار براہوی زبان کا واحد معیاری جریدہ ہے۔
بلتی
چینی-تبتی قبیلے کی لداخی بلتی شاخ سے تعلق رکھنے والی بلتی زبان پاکستان کے شمالی علاقے بلتستان اور کشمیر کے علاقوں کارگل اور لہہ میں بولی جاتی ہے۔ ہراموش سے کارگل اور قراقرم سے دیوسائی تک کا سارا علاقہ بلتی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کچھ دیہات کی زبان شینا ہے، لیکن اس میں بھی بلتی زبان کے کافی الفاظ شامل ہیں۔ یوسف حسین آبادی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے 1990 میں ”بلتی زبان” نامی کتاب لکھ کر اس زبان کی ترویج کے لیے کام شروع کیا۔ بھر 1995 میں انہوں نے قرآن پاک کا بلتی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔
آج بلتستان میں اس زبان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وفاقی حکومت سمیت گلگت بلتستان حکومت نے اس زبان پر کوئی خاص تحقیقی کام نہیں کیا ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی معدوم ہونے والی جن زبانوں کو بچانے کے لیے یونیسکو سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں بلتی بھی شامل ہے۔ بلتی زبان بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ ہے۔
بروشسکی
بروشسکی وہ زبان ہے جو نگر، ہنزہ ، اشکومن اور یاسین کی بروشو قوم بولتی ہے۔ یہ زبان بولنے والوں کی ایک قلیل تعداد سرینگر میں رہائش پذیر ہے۔ یہ واحد زبان ہے کہ جس کا کوئی خاندان یا قبیلہ نہیں ہے اس لیے اسے ”آزاد زبان” یا جداگانہ زبان کہا جاتا ہے۔ اس زبان کو بروچسکی، بروشکی، کھاجونہ اور بروشاس کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ زبان بہت قدیم زبان ہیجس کی ابتدا کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ بروشسکی لکھنے سے زیادہ بولی جاتی ہے اور ابھی تک اس زبان میں کوئی قابلِ ذکر کام منظرِعام پر نہیں آیا۔
کہا جاتا ہے کہ بروشسکی زبان کا آبائی وطن گلگت بلتستان کا شمالی علاقہ ہے جو پامیر کوریڈور سے منسلک ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 90000 کے قریب ہے۔ کھوار اکیڈمی نے اس زبان کے حروف تہحی، بلتی قاعدہ اور اس زبان کے لیے یونی کوڈز بھی بنائے ہیں۔
بھایا
صوبہ سندھ میں حیدرآباد، میرپورخاص اور کھپرو میں اور اُس کے آس پاس بولی جانے والی بھایا زبان اب صرف چند سو افراد کی زبانوں پر ہے۔ ہند یورپی گروہ کی یہ زبان سخت خطرے میں ہے جس کو بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ دونوں کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پارکری
پارکری زبان جسے ”پارکری کولی” بھی کہا جاتا ہے سندھ کے جنوب مشرقی سرحدی علاقوں تھرپارکر اور نگرپارکر میں بولی جاتی ہے۔ ہند یورپی خاندان کی یہ زبان مارواڑی اور گجراتی سے ملتی جلتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ڈھائی لاکھ ہے۔ جنوبی صحرائے تھر کی یہ زبان بھارتی سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے متکلمین کی تعداد لگ بھگ دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک ہے۔
پالولہ
پالولہ زبان، جسے پھالولہ، ڈنگریکوار اور عشیریتی بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے ضلع چترال کی وادی عشیریت، بیوڑی، شیشی اور کلکاٹک میں بولی جاتی ہے اور چترال کی باقی زبانوں کی طرح ہند یورپی قبیلے کی داردی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان دیر میں بولی جانے والی کلکوٹی اور افغانستان میں بولی جانے والی ساوی زبان سے ملتی ہے اور اس کے مُتکلمین کی تعداد 10ہزار تک ہے۔ اس زبان کے حروف تہجی وضع کیے جاچکے ہیں اور اس کے ادب کو محفوظ کرنے کا بیڑا بھی کھوار اکیڈمی نے اٹھایا ہوا ہے۔ ”فرنٹیر لینگویج انیشیٹیو” کے نام سے ایک ادارہ پھالولہ بولنے والوں کو تربیت دے رہا ہے۔ پالولہ بولنے والوں نے 2004 میں ”انجمنِ ترقیٔ پالولہ” کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جو پالولہ زبان میں تحقیق کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عشریت کے اسکولوں میں بھی یہ زبان پڑھائی جا رہی ہے۔
توروالی
کوہستان اور سوات کے اضلاع میں بولی جانے والی اس زبان کا تعلق بھی داردی زبانوں سے ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ 85 ہزار ہے۔ یہ زبان توروالی لوگوں کی زبان ہے جو مدین سے آگے وادیٔ اپرسوات کے پہاڑوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے دو لہجے ہیں۔ بحرین اور چالی/چھالی۔
جدگالی
ہند ایرانی زبانوں سے تعلق رکھنے والی یہ زبان جدگال قبیلے کی زبان ہے جو پاکستان اور ایران میں پایا جاتا ہے۔ جدگالی زبان سندھی زبان کا اسلوب ہے جو لاسی سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے بولنے والوں کی تعداد ابھی تک نامعلوم ہے۔ 2004 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں جدگالیوں کی تعداد 15600 تک تھی۔
اس زبان میں کوئی تحریر کوئی کتاب ابھی تک منظرِعام پر نہیں آئی۔
دامیلی
دامیلی ایک داردی زبان ہے جو ضلع چترال کی وادیٔ دومیل میں بولی جاتی ہے۔ اس کے لگ بھگ 5ہزار متکلمین ہیں۔
وادی دومیل یا دامیل دریائے چترال کی مشرقی سمت میں دروش سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ دامیلی اب بھی کچھ دیہات میں بولی جاتی ہے اور روزمرہ کی زندگی میں بچے بھی سیکھتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ پشتو کو دوسری زبان کی حیثیت سے بولتے ہیں اور کچھ کھوار اور اردو بھی بولتے ہیں۔ آپ اس کے بولنے والوں کی تعداد سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ زبان کس حد تک معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
دھاتکی
دھاتکی جسے تھری بھی کہا جاتا ہے سِندھ کے صحرا تھرپارکر کی زبان ہے جو زبانوں کی راجستھانی و مارواڑی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بھارت کے علاقوں جیسلمیر اور بارمر سمیت سندھ کے ضلع تھرپارکر اور اُس سے مُتصل قریبی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ 1947 میں بہت سے تھری بولنے والے بھارت جا بسے تھے اور آج اندازً اس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اِس زبان کو صرف تھر واسیوں اور وہاں کے لوک فن کاروں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔
سانسی
پاکستان میں صرف 30 ہزار لوگ سانسی کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جو زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ اس لیے سانسی زبان کسی مخصوص خطے کی زبان نہیں ہے۔ اس کے بولنے والوں کی زیادہ تعداد ہندوستان میں رہائش پذیر ہے۔ یہ زبان پنجابی، ہندی اور مارواڑی زبان کے قریب خیال کی جاتی ہے۔ عنقریب یہ زبان بھی وطنِ عزیز سے ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
شینا
شینا زبان ایک قدیم زبان ہے جس کا تعلق ہند یورپی خاندان کے ”داردی” قبیلے سے ہے۔ شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ اِس زبان کے بولنے والے دریائے سندھ کے بالائی حصوں، اس کے معاون دریاؤں کے کناروں، کشن گنگا، دراس، استور، گلگت، ہنزہ، نگر میں آباد ہوئے۔ شینا بولنے والوں کا تمام علاقہ بشمول گلگت، ہنزہ، نگر، چلاس، ہراموش، دریل، استور، غزر وغیرہ پاکستان کے زیرانتظام ہے جب کہ کِشن گنگا، دراس، تلیل، گریز اور لداخ کے بروکشت قبیلے کا علاقہ ہندوستان کے زیرانتظام ہیں۔
موجودہ دور میں شینا زبان بھی اپنی آخری سانس لے رہی ہے۔ ابھی تک اس زبان کا کوئی ایک رسم الخط باقاعدہ طور پر موجود نہیں ہے۔ اگر اہلِ زباں اب بھی نہ جاگے تو آنے والی نسلیں انہیں شاید کبھی معاف نہیں کریں گی۔ 2017 میں گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے شینا زبان کو تدریس میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ پھر حکومت اور انتظامیہ کی سر پرستی میں دو روزہ قومی ادبی میلہ بھی منعقد ہوا جو واقعی قابلِ داد ہے۔
قرآنِ مجید کا شینا زبان میں سب سے پہلا ترجمہ جناب شاہ مرزا صاحب نے کیا ہے جن کا تعلق گلگت کے علاقہ جلال آباد سے ہے۔ امید ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت اس زبان کی ترقی کے لیے بر وقت اقدامات کرے گی۔
ہزارگی
فارسی زبان سے مطابقت رکھنے والی یہ زبان پاکستان اور افغانستان کی ہزارہ کمیونٹی کی زبان ہے جس کا تعلق ہند یورپی زبانوں سے ہے۔ فارسی اور ہزارگی زبان میں بنیادی فرق صرف لہجے کا ہے۔ یہ تقریباً بائیس لاکھ لوگوں کی زبان ہے جس میں ترکی اور منگول زبانوں کے کچھ الفاظ بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ اور ہزارہ ڈویژن میں بولی جانے والی اس زبان کی ترقی کے لیے ابھی تک کوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔ لیکن ملک دشمن عناصر کی طرف سے ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں کے بعد ہزارگی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہزارگی ایک مضبوط زبان کے طور پر اُبھر رہی ہے۔
کالامی
کالامی زبان، جسے گاوری اور کالام کوہستانی بھی کہا جاتا ہے ہند یورپی زبانوں کے کوہستانی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جو داردی کی شاخ ہے۔ یہ پاکستان کے ضلع سوات کے شمالی علاقے سوات کوہستان اور دیر بالا کی وادی اپر پنجکوڑہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس زبان کو مادری زبان کے طور پر بولنے والے تقریباً ساٹھ سے ستر ہزار کے درمیان ہیں جو ایک قلیل تعداد ہے۔
سوات کے علاقے کالام میں یہ زبان اکثریتی آبادی کی زبان ہے جس مناسبت سے اِسے کالامی زبان کہا جاتا ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال، سوات اور شمالی علاقہ جات کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ان زبانوں میں کالامی بھی شامل ہے۔ حکومتی سطح پر اس زبان کی ترقی کے لیے کوئی خاص قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا ہے۔
کالاشی
کالاش یا کالاشہ ایک داردی زبان ہے جو پاکستان کے بالکل شمال میں ضلع چترال کی وادی کالاش کے علاقوں بریر، بمبوریت اور رومبر میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کو بولنے والوں کی تعداد لگ بگ 5 ہزار ہے جو کالاش قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے پاک افغان سرحد کے قریب آباد نورستانیوں کی ہم آہنگ قریبی زبان سمجھتے ہیں۔
کالاشہ کالاش کی زبان ہے جو کوہِ ہندوکش میں آباد ایک قبیلہ ہے۔ چترال میں جن چھوٹی زبانوں کو خطرات لاحق ہیں ان میں کالاشہ زبان سرِفہرست ہے۔ کالاشہ بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیح دینے لگے ہیں، اگر یہی صورت حال جاری رہی تو کالاشہ زبان ختم ہوجائے گی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ کالاش میں حروف تہجی ایجاد کیے جاچکے ہیں اور کالاشہ ادب کو بھی محفوظ کیا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کیلاش اور اس کی ثقافت کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا ہے۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار اس زبان کو بچانے کی عملی کوششوں کا آغاز کیا جائے گا۔
کلکوٹی
یہ داردی زبانوں میں شینا سے تعلق رکھتی ہے، جو خیبر پختونخواہ کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ تقریباً 6000 لوگ کلکوٹی زبان بولتے ہیں جو زیادہ تر دیر بالا کی تحصیل کلکوٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ یہاں سے باہر اس زبان کو کوئی نہیں جانتا۔
کھووار
کھوار زبان جسے چترال کی نسبت سے چترالی بھی کہا جاتا ہے ایک ہند یورپی (داردی) زبان ہے جو پاکستان، ہندوستان، سنکیانگ (چین) اور افغانستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ کھووار کے لفظی معنی ہیں ”چترالیوں کی زبان” جو نہ صرف چترال بلکہ گلگت بلتستان کی وادیٔ یاسین، پھنڈر، اشکومن، گوپس، سوات کے علاقے متلتان اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی بولی جاتی ہے۔ تاہم ہر علاقے کا لہجہ مختلف ہے۔ کھوار زبان کو آرنیہ، چھتراری، قشقاری، پتو اور چترالی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کھووار بولنے والوں کی تعداد تقریباً دو لاکھ نوے ہزار ہے لیکن چترالی زبانوں کے فروغ کے لیے قائم ادبی تنظیم ”کھووار اکیڈمی” نے رحمت عزیز چترالی کی حالیہ تحقیق کے حوالے سے پاکستان میں کھوار بولنے والوں کی کل تعداد 10 لاکھ لکھی ہے۔
چترال کے اہل قلم نے اس زبان کو بچانے کی طرف اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ چترال کے تقریباً اسی فی صد افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی معدومیت کے خطرے سے دوچار جن زبانوں کو بچانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے ”یونیسکو” سے درخواست کی ہے ان زبانوں میں کھوار (چترالی زبان) سرفہرست ہے۔
اس وقت کھووار زبان میں دو بڑے اخبار شائع ہو رہے ہیں جن میں سے پہلا کراچی اور چترال سے شائع ہونے والا ”چترال ویژن” اور دوسرا ”چترال ٹو ڈے” ہے جو چترال سے نکلتا ہے۔ کھووار ادب میں بھی نجی طور پر کافی کام ہوا ہے۔ کھووار ادب میں پہلا نام محمد شکور اتالیق صاحب کا ہے جن کا زیادہ تر کام عشقیہ مضامین پر ہے۔
”مرزا محمد سیر” جو چترال میں مہسیار کے نام سے مشہور ہیں، کو چترال کاعظیم ترین شاعر خیال کیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے۔ البتہ ان کا کھوار رومان ’’یار من ہمیں‘‘ ایک عظیم کھوار دستاویز ہے۔
جدید کھووار ادب کے حوالے سے ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی، گل نواز خاکی، سلطان علی، امتیاز احمد امتیاز، صمصام علی رضا، پروفیسر اسرارالدین، جاوید حیات کا کا خیل، رحمت عزیزچترالی، امین اللہ امین، محمد شریف شکیب، رب نواز اور سلیم الٰہی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
کھیترانی
پاکستان کے عین وسط میں کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے جہاں کئی قبائل آباد ہیں۔ ان میں سے ایک کھیتران کا قبیلہ ہے جو شمال مشرقی بلوچستان کے اضلاع بارکھان، موسیٰ خیل اور کچھ حد تک کوہلو میں آباد ہے جن کی مادری زبان کھیترانی کہلاتی ہے۔ یوں تو ان کی کچھ تعداد پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں بھی آباد ہے لیکن وہ زیادہ تر سرائیکی بولتے ہیں۔ کھیترانی زبان کا تعلق بھی ہند یورپی زبانوں سے ہے۔ کھیترانی زبان میں گرامر کے کچھ قوانین سرائیکی اور سندھی سے ملتے جُلتے ہیں لیکن یہ ان سے مختلف زبان ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ زبان ایک وسیع علاقے میں بولی جاتی تھی لیکن پشتو اور بلوچی زبانوں کی ترویج سے یہ سکڑتی گئی۔ آج اس کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔
کوہستانی
خیبر پختونخواہ کے علاقے ضلع کوہستان میں بولی جانے والی یہ زبان انڈس کوہستانی، زبانوں کے داردی گروہ میں شامل ہے۔ اس کو اباسین کوہستانی زبان بھی کہا جاتا ہے جسے لگ بھگ دو لاکھ لوگ بولتے ہیں۔
اس زبان کو ایک علاقائی زبان دینے کا مطالبہ 2015ء سے زور پکڑ رہا ہے۔ شنید ہے کہ عنقریب یہ مطالبہ حقیقت کا روپ اختیار کر لے گا۔ باقی زبانوں کی طرح یہ زبان بھی سرکاری سطح پر سرپرستی سے محروم ہے۔ نجی طور پر بھی اس کو محفوظ رکھنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے۔
گوارباتی
گوارباتی جسے نرساتی، نریساتی، گواری، آرندو وار اور ساتر بھی کہا جاتا ہے، ایک دادری زبان ہے جِسے پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کی سرحد کے قریب بولا جاتا ہے۔ گوارباتی کا لفظی مطلب ”گوار لوگوں کی زبان” ہے۔ یہ زبان چترال میں وادی آرندو (جو افغانستان کی جانب چترال کا آخری گاؤں ہے) اور افغانستان میں برکوٹ میں بولی جاتی ہے۔ اس کے تقریباً 9 ہزار متکلمین ہیں جن میں سے پندرہ سو پاکستان میں اور سات ہزار پانچ سو افغانستان میں ہیں۔
مارواڑی
مارواڑی بھارتی ریاست راجستھان میں بولی جانے والی ایک راجستھانی زبان ہے۔ مارواڑی گجرات، ہریانہ، پاکستان اور نیپال میں بھی بولی جاتا ہے۔ مارواڑی کو لگ بھگ 2 کروڑ آبادی بولتی ہے اور یہ راجستھان کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ اس کے زیادہ تر بولنے والے راجستھان میں رہتے ہیں، جب کہ سندھ میں قریب ڈھائی لاکھ مارواڑی رہائش پزیر ہیں۔ صحرائے چولستان میں بھی مارواڑی بولنے والوں کی ولیل تعداد آباد ہے جو زیادہ تر خانہ بدوش ہیں۔ مارواڑی کے دو درجن لہجے ہیں۔
مارواڑی کو عام طور پر ہندی، مراٹھی، نیپالی اور سنسکرت کی طرح دیوناگری میں لکھا جاتا ہے، حالاںکہ یہ تاریخی طور پر مہاجنی میں لکھی گئی تھی، مگر پاکستان کے مارواڑی بولنے والے علاقوں میں نستعلیق رسم الخط استعمال ہوتا ہے۔
میمنی
سندھ کی میمن کمیونٹی کی اس زبان کا آبائی وطن بھارتی ریاست گجرات کا علاقہ کاٹھیاوار ہے اور یہ زبانوں میں سندھی کی شاخ ہے۔ 1947 میں تقسیم کے بعد بڑی تعداد میں میمن کمیونٹی نے پاکستان کا رُخ کیا اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ آج یہ زبان کاٹھیاواڑ کے علاوہ کراچی میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس زبان پر سندھی اور گجراتی زبانوں کی گہری چھاپ ہے۔ میمنی زبان میں اردو کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں۔
واخئی
واخئی یا واخی پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کے علاقوں وادیٔ گوجال، وادیٔ اشکومن اور وادیٔ یاسین کے سرحدی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کی وادیٔ بروغل میں بولی جانے والی زبان ہے۔
پاکستان کے علاوہ واخئی زبان افغانستان کے صوبہ بدخشاں، واخان، تاجکستان کے علاقے گورنو بدخشان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے جب کہ ایک چھوٹا حِصہ روس اور ترکی میں بھی موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق واخئی بولنے والوں کی آبادی تقریباً ستر سے اسی ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو 6 ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ زبان 4000 سال قدیم ہے جس کا آبائی وطن واخان کا علاقہ ہے، اسی وجہ سے سے اس کا نام واخی پڑا۔
واخی کا شمار ہند یورپی قبیلے کی ایرانی و پامیری زبانوں کے گروہ میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے واخی زبان کو مستقبل میں ناپید ہونے والی زبانوں کی فہرست میں شامل کیا ہے جو واخی بولنے والوں اور حکومت دونوں کے لیے ایک خطرے کی بات ہے۔
واخی زبان کو رومن اور روسی رسم الخط میں لکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن اب تک کوئی معیاری رسم الخط رائج کرنے میں کام یابی نہیں ہوئی ہے۔ پاکستان میں واخئی زبان کے سب سے مشہور شاعر نذیر احمد بلبل ہیں۔ ان کی شاعری رومانوی اور سماجی موضوعات پر مبنی ہے۔ ریڈیو پاکستان گلگت سے واخی زبان میں روزانہ ایک بلیٹن نشر کیا جاتا ہے۔
ونیتسی
ونیتسی جسے ترینو زبان بھی کہا جاتا ہے، پاکستان و افغانستان کے ترین قبیلے کی زبان ہے جو کوئٹہ کے قریب ہرنائی اور سنجاوی میں رہائش پذیر ہے۔ یہ زبان پامیری شاخ کی زبان مُنجی سے مماثلت رکھتی ہے۔ ونیتسی بولنے والوں کی تعداد تقریباً پچانوے ہزار ہے۔
کچھ افراد کے نزدیک یہ بھی پشتو زبان کا ایک لہجہ ہے لیکن موجودہ دور کے لسانی ماہرین اسے پشتو سے قریب تر لیکن الگ زبان تصور کرتے ہیں۔
یدغہ
یدغہ پاکستان کے ضلع چترال میں بولی جانے والی ایک ہند-یورپی زبان ہے جو پامیری زبانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زیادہ تر جو چترال کے علاقوں گرم چشمہ اور وادیٔ لوٹ کوہ میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان مُنجی سے ملتی جلتی ہے جو اس علاقے کے پار افغانستان میں بولی جاتی ہے۔
چترال میں اس زبان کو خطرات لاحق ہیں اور لوٹ کوہ کے لوگوں نے اس زبان کو بچانے کی طرف ابھی تک توجہ نہیں دی ہے۔ لوٹ کوہ کے تقریباً 6000 افراد کی یہ مادری زبان ہے۔ نارویجین زبان داں، پروفیسر جارج مورگینسٹرن (جنہوں نے 1923 سے 1971 تک افغانستان، پاکستان، انڈیا اور ایران میں زبانوں پر تحقیقی کام کیا تھا) نے ایک جگہ لکھا ہے کہ لسانی تنوع (زبانوں کی اقسام) کے حوالے سے چترال دنیا کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ کھوار اکیڈمی نے بھی ”یدغہ” کو بچانے کے لیے یونیسکو سے اپیل کی ہے۔
کھوار زبان نے چترال میں بولی جانے والی جن بارہ زبانوں پر اپنا اثر چھوڑا ہے ان میں یدغہ بھی شامل ہے۔ اسٹاک ہوم یونیورسٹی کے پروفیسر ہینرک کے مطابق یدغہ ختم ہونے کے شدید خطرات کا شکار ہے اور یدغہ بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیع دینے لگے ہیں اور یہی اس زبان کے آہستہ آہستہ ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
زنسکاری
جنوبی ایشیا کی سب سے زیادہ معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں میں سے ایک زنسکاری، تبتی زبانوں کی لداخی-بلتی شاخ سے نکلی ہے جو جموں و کشمیرخصوصاً کارگل اور لداخ میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی زیادہ تعداد دریائے زنسکار اور دریائے ڈوڈہ کے کناروں پر آباد ہے۔ زنسکاری بولنے والوں کی تعداد صرف 12,000 ہے۔
اِن زبانوں کے علاوہ پورگی، بروسکت، گوورو، جنداورہ، کاٹی، لوارکی، جوگی اور زبانیں بھی معدومیت کی دہلیز پر ہیں۔ ہندکو اگرچہ ایک بڑی زبان ہے لیکن ایک تحقیق کے مطابق اسے بولنے والوں کی تعداد بھی روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔
ان زبانوں کی شناخت، ترویج اور تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کیا کوششیں ہو رہی ہیں، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حالیہ مردم شماری میں پاکستان میں بولی جانے والی 74 زبانوں میں سے صرف 9 کی گنتی ہوئی ہے، جب کہ بقیہ 65 زبانوں کو ‘دیگر’ کے خانے کا راستہ دکھا دیا گیا ہے۔
ان زبانوں کے بولنے والوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں ان زبانوں کی عدم شمولیت دراصل ان ‘چھوٹی’ زبانیں بولنے والوں کی محرومیوں کا تسلسل ہے۔
اسلام آباد میں واقع ایک غیر سرکاری ادارہ ”فورم فار لینگویج انیشی ایٹیو” (ایف ایل آئی) ان کم بولے جانے والی زبانوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 19 برس بعد ہونے والی حالیہ مردم شماری کے فارم میں صرف نو زبانوں کو لانے اور باقی کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے اس ملک میں یہ زبانیں وجود ہی نہیں رکھتیں۔ اگر آپ صرف نو زبانوں کو فوقیت دے رہے ہیں اور باقی کو پیچھے رکھتے ہیں تو آپ ان کو مانتے ہی نہیں ہیں۔
ان زبانوں سے بے پروائی کا سب سے بڑا نقصان گلگت بلتستان کو ہوا ہے کہ اس 73 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کی ایک زبان بھی مردم شماری کے فارم کی زینت بننے سے قاصر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ضلع چترال اور ضلع کوہستان کی بھی کوئی زبان شامل نہیں ہے۔ اسی طرح سندھ کے ضلع تھرپارکر میں ڈھٹکی، مارواڑی اور دوسری زبانیں بولی جاتی ہیں جن کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
جنوبی وزیرستان میں ایک قدیم زبان ”اورمڑی” بولی جاتی ہے، جنوبی وزیرستان سے لوگوں کی نقل مکانی کے بعد اس زبان کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی والدہ، مرحومہ شوکت خانم اورمڑی زبان بولنے والے برکی قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی خان صاحب نے ابھی تک اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
پاکستان میں ”ریڈیو پاکستان” اور ”پاکستان ٹیلی ویژن” جیسے ادارے چھوٹی زبانوں میں مختصر وقت کے لیے بلیٹن نشر کرتے ہیں، لیکن یہ وقت ان زبانوں کے لیے ناکافی ہے اور یہاں تمام زبانوں کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پنجاب میں ایک اِدارہ ”پلاک” کے نام سے کام کر رہا ہے لیکن یہ صرف پنجابی زبان کی ترویج کا پلیٹ فارم ہے۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے اب تک چھوٹی علاقائی زبانوں کے تحفظ کے لیے کوئی قابلِ تحسین قدم نہیں اٹھایا۔ خیبرپختونخوا میں اے این پی کی حکومت نے ”مقتدرہ برائے علاقائی زبانیں ایکٹ 2011” کے تحت صوبے میں بولی جانی والی زبانوں کے تحفظ و ترقی کے لیے ”خیبرپختونخوا مقتدرہ علاقائی زبانیں” کے قیام کو قانونی شکل دی تھی، جو زبانوں کے تحفظ کے لیے ایک احسن اقدام ہے، لیکن ابھی بھی پاکستان میں زبانوں کی ترقی اور بقاء کے لیے بہت زیادہ تحقیق اور اس کی ترویج کی ضرورت ہے جو حکومتی سرپرستی کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔
The post معدوم ہوتی پاکستانی زبانیں appeared first on ایکسپریس اردو.