آج ہم بُھولے بیٹھے ہیں کہ خوشی بانٹنے سے ہی انسان خوش رہ سکتا ہے اور علم کے دیے روشن کرنے سے ہی علم کی معراج پائی جا سکتی ہے مگر کیا کیا جائے، طالبان کا کہنا ہے کہ صنف نازک علم حاصل نہیں کر سکتی حالاں کہ دین پکار پکار کے یہ کہتا ہے ’’علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔
حدیث نبویؐ ہے’’ علم حاصل کرو خواہ تمھیں چین ہی جانا پڑے‘‘۔ دین میں اس خود ساختہ اور نئے تضاد کے پس منظر کی وضاحت کے لیے آج ایک پختون زادی ملالہ یوسف زئی کا نام عصر حاضر کی معصوم مثال بن چکا ہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختون خوا کا ضلع سوات کبھی ایک ریاست تھی، جسے 1970میں ضلع کی حیثیّت دی گئی۔ ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام سیدو شریف اسی ضلع میں واقع ہے۔ سوات کو خیبر پختون خوا کے شمالی خطے میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ضلع سنٹرل ایشیا کی تاریخ میں علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے لیے مشہور ہے۔ بدھ تہذیب و تمدن کے زمانے میں سوات کو بہت شْہرت حا صل ہوئی تھی، اسے غنی باغ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ضلع کا کْل رقبہ 5337 مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں فی مربع کلو میٹر 295 افراد آباد ہیں۔ دیہی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ کْل قابِل کاشت رقبہ98720 ہیکٹیرز پر مشتمل ہے۔
یہ1997 کے اوائل کی بات ہے، جب اسی ضلع کے شہر مینگورہ کے ایک باسی ضیاء الدین یوسف زئی کے آنگن میں رحمت خداوندی کی ایک کلی کِھلی۔ ضیاء الدین یوسف زئی بھی چاہتا تھا کہ اس بار اس کے گھر بیٹی پیدا ہو۔ جب اس کے گھر میں بیٹی نے جنم لیا تو اس نے اپنی اس بیٹی کا نام بہت پیار سے ملالے کے نام پر ملالہ رکھا۔ ملالہ یوسف زئی نے زمانۂ طالب علمی میں جب بی بی سی کی ویب سائٹ پرتعلیم کے مسائل پر اپنی ڈائری لکھنا شروع کی تو اس کی تحریروں کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ایک توانا آواز کہا گیا۔ یوں ملالہ یوسف زئی ایک معروف لکھاری تو بن گئی تھی مگر اسے متنازع بھی بنا دیا گیا کیوں کہ اسی عرصہ میں(2009) تحریک طالبان پاکستان بچیوں کے اسکول بموں سے اڑا رہے تھے اور ملالہ کو دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ اسی اثنا میں جب پاک فوج نے سوات میں کارروائی کی تو علاقے سے طالبان کی اجارہ داری ختم ہو گئی، طالبان کا سپہ سالار فضل اللہ افغانستان فرار ہو گیا، لڑکیوں کے اسکول دوبارہ کُھل گئے مگر اکتوبر 2012 میں اسکول جاتے ہوئے طالبان نے تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے والی کم عمر ملالہ یوسف زئی کے سر میںدو گولیاں داغ دیں مگر قدرت نے اسے بچا لیا۔ ملالہ یوسف زئی کو انتہائی تشویش ناک حالت میں پشاور اسپتال لایا گیا، کچھ دنوں بعد اسے مزید بہتر علاج کے لیے راول پنڈی لایا گیا۔ حالت ذرا سنبھلی تو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ملالہ کو ہوائی ایمبولینس کے ذریعے برمنگھم (برطانیہ) بھیج دیا، جہاں ملالہ کو ملکہ الزبتھ اسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ سر میں گولی لگنے سے لے کر برطانیہ جانے تک ملالہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکی تھی اور نئی نسل کی کم عمر ترین رول ماڈل بھی۔
بلا شبہ ملالہ یوسف زئی اس واقعہ سے پہلے بھی ایک ہونہار لڑکی تھی اور اب بھی ہے، جس نے دنیا بھر میں پاکستان کو ایک نئی شناخت دی ہے مگر سوشل میڈیا پر اِس کی ذات کو غلط رنگ بھی دیا گیا کہ وہ غیرملکی طاقتوں کے لیے کام کر رہی ہے اور علم دشمنوں نے اِس کی آواز کو دبانے کی ایسی ہی کئی ناکام کوششیں کیں مگر وہ تھی کہ آگے ہی بڑھتی چلی گئی۔ پھر ایک دن تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ’’ ملالہ بچ گئی ہے، اُسے ہم دوبارہ مارنے کی کوشش کریں گے‘‘۔اب یہ پوری قوم کو سوچنا ہو گا کہ اگر ہم پاکستان کو واقعی امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ملالہ کا ساتھ دینا چاہیے یا اس کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے؟
پھر ایک کتاب بھی ملالہ کے نام سے انگریزی زبان میں شائع ہوئی، جس کا نام’’ میں ملالہ ہوں‘‘ ۔ یہ کتاب بھی متنازع ٹھہری، اب تک اس پر بحث ہو رہی ہے۔ امریکا کے صدر اوباما سے ملالہ کی ملاقات، اقوام متحدہ میں خطاب، امن کے نوبل انعام کے لیے نام زدگی اور ناکامی کے علاوہ بہت سی دیگر باتیں ملالہ کی ذات کو اب بھی بحث کا مرکز بنائے رکھتی ہیں۔ ملالہ امن کا نوبل انعام تو نہ جیت پائی مگر اب تک وہ دنیا بھر سے تقریباً 25 ایوارڈ لے چکی ہے۔ نوبل کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ملالہ کا مستقبل روشن ہے، اسے دوبارہ نام زد کیا جا سکتا ہے۔
حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے پر ملالہ یوسف زئی کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات کے لیے نام زد ہوئی ۔ ملالہ کو پاکستان کا پہلا اعزاز برائے امن دیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز نے ملالہ یوسف زئی پر دستاویزی فلم بنائی۔ ملالہ نے پاکستان کے فوجی جوانوں سے اپیل کی کہ اگر ہمارے فوجی بھائی ہمیں تحفظ فراہم کریں تو ہم لڑکیاں اپنی درس گاہوں کو جا سکتی ہیں۔ 2009 میں ملالہ یوسف زئی کی ملاقات خصوصی طور پر امریکی سفیر ہال بروک سے بھی ہوئی ۔ اکتوبر 2011 میں ڈیسمنڈ ٹوٹو نے ملالہ یوسف زئی کو بچوں کا امن ایوارڈ دیا ۔ 2 ماہ بعد دسمبر 2011 میں ملالہ یوسف زئی کو ’’یوتھ پیس‘‘ ایوارڈ دیا گیا ۔ جنوری 2012 میں ایک سیکنڈری اسکول کا نام ملالہ کے نام پر رکھا گیا اور اکتوبر 2012 میں ملالہ یوسف زئی کو تمغہ شجاعت دیا گیا۔ فنانشل ٹائمز نے انہیں وومن آف دی 2013قراردیا۔
میاں نواز شریف اور عمران خان کا کہنا ہے کہ ملالہ نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ گذشتہ برس نوبل امن انعام جیتنے والی یمن کی صحافی توکل کرمان کہتی ہیں کہ آئندہ برس ملالہ یہ انعام بھی جیت جائے گی۔ اس کے برعکس اس پر حملے کرنے والے اب بھی خوف زدہ ہیں، شاید اس لیے کہ مضبوط اعصاب والی ملالہ اب بھی یہ کہتی ہے کہ تعلیم کے لیے جان دے دوں گی مگر اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔
ملالہ صرف پاکستان ہی نہیں عالمی سطح پر بھی نئی نسل کی رول ماڈل بن چکی ہے مگر اس کے با وجود لوگ ایسے بھی ہیں جو ملالہ یوسف زئی کے بارے میں منفی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ’’ملالہ اسلام اور پاکستان کی دشمن قوتوں کے آلۂ کار کے طور پر سامنے آئی ہے، ملالہ یوسف زئی کے ڈرامے میں اُس کا باپ مال بنا رہا ہے ۔ شور مچایا گیا کہ جب ملالہ کو حملے کے بعد اس لیے غیرملک بھیجا گیا تھا کہ ملالہ یوسف زئی کے والد نے حکومت کو دھمکی دی تھی۔ ’’اسے اگر لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں نوکری اور پناہ نہ دی گئی تو وہ فیملی سمیت لندن میں سیا سی پناہ مانگے گا‘‘ مگر ضیاء الدین یوسف زئی کے اس متنازع بیان کی ملا لہ نے اپنی کتاب میں تردید کر دی ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے حال ہی میں جب بے نظیر بھٹو کی بیٹی بختاور سے ملاقات کی تو باتوں باتوں میں وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کیا تو اس پر بھی شور مچ گیا حال آں کہ اس خواہش کا ایک پس منظر یہ بھی تھا کہ ملالہ جب شہید بے نظیر بھٹو کی طرح دوپٹہ اوڑھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے کہ رہی تھی کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف قلم اور کتاب کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا، تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے، ایک طالب علم، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب، دنیاکو بدل سکتی ہے۔ پاکستان میں آج اکیسویں صدی میں بھی لڑکیاں تعلیم کا خواب نہیں دیکھ سکتیں کیوںکہ انتہا پسند تعلیم کے ذریعے آنے والی تبدیلی سے ڈرتے ہیں اور مذہب کو اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں، انتہا پسند تعلیم اور کتاب سے خو فزدہ ہیں۔ سوچیے کیا وہی سوچ تو نہیں جو شہید بے نظیر بھٹو کی بھی تھی۔
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پیرس میں ملا لہ کا نفر نس میں شرکت کی تھی۔ سابق صدر زرداری نے کا نفر نس میں کہا تھا کہ کا نفر نس کے انعقاد پر یو نیسکو کا شکر گزار ہوں۔ انہوں نے فرانس کے وزیر اعظم سمیت تمام شرکا کا نفر نس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہی ملک ترقی کر تے ہیں، جہاں تعلیم پر زور دیا جاتا ہے، عوام کی ترقی اور خو ش حالی ہی کسی ملک کے لئے ضروری ہے، اسلام امن کا مذہب ہے اسلام میں تعلیم کی بہت اہمیت ہے ، ہماری عظیم کتاب قرآن کی ابتداء بھی ا قراء سے ہوتی ہے، یو نیسکو کا نعرہ تعلیم سب کے لیے قابل تعریف ہے، ملا لہ ہماری بہادر بیٹی ہے، ملا لہ یوسف ز ئی نہ صر ف پاکستان کی بیٹی بل کہ پاکستان کو اس کی خدمات پر فخر ہے، ملا لہ پر حملہ تاریکی کی قوتوں نے کیا، ملا لہ نے پاکستانی بچیوں کی تعلیم کے لیے بہت محنت کی، ملا لہ نے سکھا یا کہ شدت پسندی کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ انہوںنے کہا ہے کہ ملا لہ روشن اور ترقی پذیر پاکستان کا مستقبل ہے، پاکستان کی ہر ملا لہ کو اسکول جانے کا حق حاصل ہے، ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی عالمی امداد کی ضرورت ہے۔
نیویارک میں قوا م متحدہ کی جانب سے یو م ِ ملا لہ کے مو قع پر پا کستا ن کی بیٹی کو خراجِ تحسین پیش کر نے کے لیے ’’آ ئی ایم ملا لہ‘‘ کے بولوں پر مشتمل گا نے کی ویڈیو بھی جا ری ہو چکی ہے ۔ گریمی ایوارڈ وننگ ڈا ئریکٹر کی تیار کر دہ اس ویڈیو میں 3 ابھر تی ہو ئی نو جو ان گلوکاراؤں کے علا وہ دنیا بھر سے 30 گلوکا راؤں کی آوازیں شا مل ہیں، جو اس گا نے کے ذریعے ملا لہ کے عز م کو سلا م پیش کرتی ہیں۔ اس گانے کے فروخت سے جمع ہو نے والی آمدنی ملا لہ یوسف زئی کے قائم کیے گئے خو د مختار فلاحی ادارے ملا لہ فنڈ میں دی جا ئے گی جو دنیا بھر میں تعلیم کے فرو غ کے لیے کا م کر رہا ہے۔
ملالئی سے ملالہ تک
ملالہ کا نام ایک بہادر افغان خاتون ملالئی کے نام پر رکھا گیا ۔ ملالئی کون تھی؟ آج سے ٹھیک ایک سو تینتیس سال قبل 27 جولائی 1880 کا واقعہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ صوبے قندھارکے قریب علاقہ میوند کے میدان میں برطانوی فوج کے خلاف پختونوں کا لشکر اس وقت کے کمانڈر ایوب خان کی قیادت میں بر سر پیکار تھا۔ فضا بندوقوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سے گونج رہی تھی، گولے بارود کی بارش ہو رہی تھی۔ دوران جنگ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ پختونوں کے حوصلے پست نظرآنے لگے اور عین ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ چھوڑکر بھاگ جاتے اور اپنی شکست تسلیم کرلیتے کہ ایک خوب صورت پختون دوشیزہ ملالئی اچانک جنگ کے میدان میں نمودار ہوئی، اس نے اپنے دوپٹے کو جھنڈا بنا کر لہرایا اور یہ تاریخی پشتو اشعار گائے
’’ میرے محبوب اگر تم آج میوند کے میدان میں شہید نہ ہوئے تو ساری زندگی لوگ تمہیں بے غیرتی کا طعنہ دیں گے‘‘
ملالئی کی یہ آواز جب پختون مجاہدین کے کانوں تک پہنچی تو ان میں لڑنے کا ایک نیا جنون جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی فوج پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، جس سے برطانوی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئی اور پختون جنگِ میوند میں فاتح ٹھہر ے اور ملالئی کے اشعار، اس کا نام اورکارنامہ پختون تاریخ میں جرأت کا ایک نیا باب اور جنگ کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی آواز بن گیا۔ ملالئی، میوند کے قریب خیگ نامی گائوں میں ایک گڈریے کے ہاں 1861 میں پیدا ہوئی تھی، جنگ میوند کے موقع پر اس کی عمر 19سال تھی، جس جنگ کو جیتنے کا سہرہ ملا لئی کے سر جاتا ہے، اس میں اس کا باپ اور منگیتر بھی شریک تھے اور ان دونوں نے اس معرکے میں جام شہادت نوش کیا۔ برطانوی فوج کے اس وقت کے جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ملالئی کی وجہ سے شکست کھائی اگر وہ میدان جنگ میں اپنا دوپٹہ نہ لہراتی، ٹپہ نہ گاتی تو ہم یہ جنگ جیتنے والے ہی تھے۔ 1880میں ملالئی نے اپنے اشعار کے ذریعے جرأت اور جنگ کے خلاف مزاحمت کا نیا باب رقم کیا تھا، آج سوات کی 16سالہ ملالہ پاکستان کے 18کروڑ انسانوں کو جہالت ، نفرت ، دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کا پیغام دے رہی ہے۔